Ayats Found (4)
Surah 2 : Ayat 35
وَقُلْنَا يَـٰٓـــَٔادَمُ ٱسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ ٱلْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَـٰذِهِ ٱلشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ ٱلظَّـٰلِمِينَ
پھر ہم نے آدمؑ سے کہا کہ 1"تم اور تمہاری بیوی، دونوں جنت میں رہو اور یہاں بفراغت جو چاہو کھاؤ، مگر اس درخت کا رُخ نہ کرنا، ورنہ ظالموں میں شمار ہو گے2"
2 | ظالم کا لفظ نہایت معنی خیز ہے۔”ظلم“ دراصل حق تلفی کو کہتے ہیں۔ ظالم وہ ہے جو کسی کا حق تلف کرے۔ جو شخص خدا کی نافرمانی کرتا ہے، وہ درحقیقت تین بڑے بُنیادی حقوق تلف کرتا ہے۔ اوّلاً خدا کا حق، کیونکہ وہ اس کا مستحق ہے کہ اس کی فرماں برداری کی جاءے۔ ثانیاً اُن تمام چیزوں کے حقوق جن کو اس نے اس نافرمانی کے ارتکاب میں استعمال کیا۔ اس کے اعضا ئے جسمانی، اس کے قوائے نفس، اس کے ہم معاشرت انسان، وہ فرشتے جو اس کے ارادے کی تکمیل کا انتظام کرتے ہیں، اور وہ اشیاء جو اس کام میں استعمال ہوتی ہیں، ان سب کا اس پر یہ حق تھا کہ وہ صرف ان کے مالک ہی کی مرضی کے مطابق ان پر اپنے اختیارات استعمال کرے۔ مگر جب اس کی مرضی کے خلاف اس نے ان پر اختیارات استعمال کیے، تو درحقیقت ان پر ظلم کیا۔ ثَا لثًا خود اپنا حق ، کیونکہ اس پر اس کی ذات کا یہ حق ہے کہ وہ اسے تباہی سے بچائے، مگر نافرمانی کر کے جب وہ اپنے آپ کو اللہ کی سزا کا مستحق بناتا ہے ، تو دراصل اپنی ذات پر ظلم کرتا ہے۔ انہی وجُوہ سے قرآن میں جگہ جگہ گناہ کے لیے ظلم اور گناہ گار کے لیے ظالم کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے |
1 | اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین، یعنی اپنی جائے تقرّر پر خلیفہ کی حیثیت سے بھیجے جانے سے پہلے ان دونوں کو امتحان کی غرض سے جنت میں رکھا گیا تھا تاکہ ان کے رُحجانات کی آزمائش ہوجائے۔ اس آزمائش کے لیے ایک درخت کو چُن لیا گیا اور حکم دیا گیا کہ اس کے قریب نہ پھٹکنا، اور اس کا انجام بھی بتا دیا گیا کہ ایسا کرو گے تو ہماری نگاہ میں ظالم قرار پا ؤ گے۔ یہ بحث غیر ضروری ہے کہ وہ درخت کونسا تھا اور اس میں کیا خاص بات تھی کہ اس سے منع کیا گیا۔ منع کرنے کی وجہ یہ نہ تھی کہ اس درخت کی خاصیّت میں کوئی خرابی تھی اور اس سے آدم و حوّا کو نقصان پہنچنے کا خطرہ تھا۔ اصل غرض اس بات کی آزمائش تھی کہ یہ شیطان کی ترغیبات کے مقابلے میں کس حد تک حکم کی پیروی پر قائم رہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے کسی ایک چیز کا منتخب کر لینا کافی تھا۔ اسی لیے اسی لیے اللہ نے درخت کے نام اور اس کی خاصیت کا کوئی ذکر نہیں فرمایا۔ اس امتحان کے لیے جنت ہی کا مقام سب سے زیادہ موزوں تھا۔ دراصل اسے امتحان گاہ بنانے کا مقصُود یہ حقیقت انسان کے ذہن نشین کر نا تھا کہ تمہارے لیے تمہارے مرتبہء انسانیت کے لحاظ سے جنت ہی لائق و مناسب مقام ہے ۔ لیکن شیطانی ترغیبات کے مقابلے میں اگر تم اللہ کی فرمانبرداری کے راستے سے منحرف ہو جا ؤ، تو جس طرح ابتدا میں اس سے محرُوم کیے گئے تھے اسی طرح آخر میں بھی محرُوم ہی رہو گے۔ اپنے اِس مقامِ لائق ، اپنی اِس فردو سِ گم گشتہ کی بازیافت تم صرف اسی طرح کر سکتے ہو کہ اپنے اس دُشمن کا کامیابی سے مقابلہ کرو جو تمہیں فرماں برداری کے راستے سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے |
Surah 7 : Ayat 19
وَيَـٰٓــَٔـادَمُ ٱسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ ٱلْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَـٰذِهِ ٱلشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ ٱلظَّـٰلِمِينَ
اور اے آدمؑ، تو اور تیری بیوی، دونوں اس جنت میں رہو، جہاں جس چیز کو تمہارا جی چاہے کھاؤ، مگر اس درخت کے پاس نہ پھٹکنا ورنہ ظالموں میں سے ہو جاؤ گے"
Surah 20 : Ayat 117
فَقُلْنَا يَـٰٓــَٔـادَمُ إِنَّ هَـٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَلِزَوْجِكَ فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ ٱلْجَنَّةِ فَتَشْقَىٰٓ
اس پر ہم نے آدمؑ 1سے کہا کہ "دیکھو، یہ تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے، ایسا نہ ہو کہ یہ تمہیں جنت سے نکلوا دے3 اور تم مصیبت میں پڑ جاؤ
3 | اس طرح یہ بھی دونوں کو بتا دیا گیا کہ اگر اس کے بہکانے میں آ کر تم نے حکم کی خلاف ورزی کی تو جنت میں نہ رہ سکو گے اور وہ تمام نعمتیں تم سے چھن جائیں گی جو تم کو یہاں حاصل ہیں |
2 | دشمنی کا مظاہرہ اسی وقت ہو چکا تھا۔ آدم اور حوا علیہما السلام خود دیکھ چکے تھے کہ ابلیس نے ان کو سجدہ کرنے سے انکار کیا ہے اور صاف صاف یہ کہہ کر کیا ہے کہ : اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ ؕ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خلقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ، ’’میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے‘‘ (اعراف۔ آیت 12۔ ص۔ آیت 76)۔ اَرَاَیْتَکَ ھٰذَا الَّذِیْ کَرَّ مْتَ عَلَیَّ، ’’ذرا دیکھ تو وہی، یہ ہے وہ ہستی جس کو تو نے مجھ پر فضیلت دی ہے‘‘ :ءَاَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْناً، ’’اب کیا میں اسے سجدہ کروں جس کو تو نے مٹی سے بنایا ہے؟‘‘ (بنی اسرائیل۔ آیات 61۔ 62)۔ پھر اتنے ہی پر اس نے اکتفا نہ کیا کہ کھلم کھلا اپنے حسد کا اظہار کر دیا، بلکہ اللہ تعالٰی سے اس نے مہلت بھی مانگی کہ مجھے اپنی فضیلت اور اس کی نا اہلی ثابت کرنے کا موقع دیجیے، میں اسے بہکا کر آپ کو دکھا دوں گا کہ کیسا ہے یہ آپ کا خلیفہ۔ اعراف، حجِر اور بنی اسرائیل میں اس کا یہ چیلنج گزر چکا ہے اور آگے سورہ ’ص‘ میں بھی آ رہا ہے۔ اس لیے اللہ تعالٰی نے جب یہ فرمایا کہ یہ تمہارا دشمن ہے، تو یہ محض ایک امر غیب کی اطلاع نہ تھی، بلکہ ایک ایسی چیز تھی جسے عین برسر موقع دونوں میاں بیوی اپنی آنکھوں دیکھ چکے اور اپنے کانوں سن چکے تھے۔ |
1 | یہاں وہ اصل حکم بیان نہیں کیا گیا ہے جو آدم علیہ السلام کو دیا گیا تھا، یعنی یہ کہ ’’اس خاص درخت کا پھل نہ کھانا‘‘۔ وہ حکم دوسرے مقامات پر قرآن مجید میں بیان ہو چکا ہے۔ اس مقام پر چونکہ بتانے کی اصل چیز صرف یہ ہے کہ انسان کس طرح اللہ تعالٰی کی پیشگی تنبیہ اور فہمائش کے باوجود اپنے جانے بوجھے دشمن کے اغوا سے متاثر ہو جاتا ہے، اور کس طرح اس کی یہی کمزوری اس سے وہ کام کرا لیتی ہے جو اس کے اپنے مفاد کے خلاف ہوتا ہے، اس لیے اللہ تعالٰی نے اصل حکم کا ذکر کرنے کے بجاۓ یہاں اس فہمائش کاذکر کیا ہے جو اس حکم کے ساتھ حضرت آدم کو کی گئی تھی۔ |
Surah 20 : Ayat 119
وَأَنَّكَ لَا تَظْمَؤُاْ فِيهَا وَلَا
نہ پیاس اور دھوپ تمہیں ستاتی ہے1"
1 | یہ تشریح ہے اس مصیبت کی جس میں جنت سے نکلنے کے بعد انسان کو مبتلا ہو جانا تھا۔ اس موقع پر جنت کی بڑی اور اکمل و افضل نعمتوں کا ذکر کرنے کے بجائے اس کی چار بنیادی نعمتوں کا ذکر کیا گیا، یعنی یہ کہ یہاں تمہارے لیے غذا، پانی، لباس اور مسکن کا انتظام سرکاری طور پر کیا جا رہا ہے، تم کو ان میں سے کوئی چیز بھی حاصل کرنے کے لئے محنت اور کوشش نہیں کرنی پڑتی۔ اس سے خود بخود یہ بات آدم و حوا علیہما السلام پر واضح ہو گئی کہ اگر وہ شیطان کے بہکاۓ میں آ کر حکم سرکار کی خلاف ورزی کریں گے تو جنت سے نکل کرانہیں یہاں کی بڑی نعمتیں تو درکنا، یہ بنیادی آسائشیں تک حاصل نہ رہیں گی۔ وہ اپنی بالکل ابتدائی ضروریات تک کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے اور اپنی جان کھپانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ چوٹی سے ایڑی تک پسینہ جب تک نہ بہائیں گے ایک وقت کی روٹی تک نہ پا سکیں گے۔ معاش کی فکر ہی ان کی توجہ اور ان کے اوقات اور ان کی قوتوں کا اتنا بڑا حصہ کھینچ لے جاۓ گی کہ کسی بلند تر مقصد کے لیے کچھ کرنے کی نہ فرصت رہے گی نہ طاقت۔ |