Ayats Found (25)
Surah 2 : Ayat 284
لِّلَّهِ مَا فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِۗ وَإِن تُبْدُواْ مَا فِىٓ أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُم بِهِ ٱللَّهُۖ فَيَغْفِرُ لِمَن يَشَآءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَآءُۗ وَٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ
آسمانوں1 اور زمین میں جو کچھ ہے، سب اللہ کا ہے 2تم اپنے دل کی باتیں خواہ ظاہر کرو یا چھپاؤ اللہ بہرحال ان کا حساب تم سے لے لے گا3 پھر اسے اختیار ہے، جسے چاہے، معاف کر دے اور جسے چاہے، سزا دے وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے4
4 | یہ اللہ کے اختیارِ مطلق کا بیان ہے۔ اُس کو کسی قانون نے باندھ نہیں رکھا ہے کہ اُس کے مطابق عمل کرنے پر وہ مجبور ہو، بلکہ وہ مالکِ مختار ہے۔ سزا دینے اور معاف کرنے کے کلّی اختیارات اس کو حاصل ہیں |
3 | اس فقرے میں مزید دو باتیں ارشاد ہوئیں۔ ایک یہ کہ ہر انسان فرداً فرداً اللہ کے سامنے ذمّہ دار اور جواب دہ ہے۔ دُوسرے یہ کہ جس پادشاہِ زمین و آسمان کے سامنے انسان جواب دہ ہے، وہ غیب و شہادت کا علم رکھنے والا ہے، حتٰی کہ دلوں کے چھپے ہوئے ارادے اور خیالات تک اس سے پوشیدہ نہیں ہیں |
2 | یہ دین کی اوّلین بنیا د ہے۔ اللہ تعالیٰ کا مالکِ زمین و آسمان ہونا اور اُن تمام چیزوں کا جو آسمان و زمین میں ہیں، اللہ ہی کی مِلک ہونا، در اصل یہی وہ بنیادی حقیقت ہے جس کی بنا پر انسان کے لیے کوئی دوسرا طرزِ عمل اس کے سوا جائز نہیں ہو سکتا کہ وہ اللہ کے آگے سرِ اطاعت جھکا دے |
1 | یہ خاتمہء کلام ہے۔ اس لیے جس طرح سورت کا آغاز دین کی بنیادی تعلیمات سے کیا گیا تھا، اسی طرح سورت کو ختم کرتے ہوئے بھی اُن تمام اُصُولی اُمور کو بیان کر دیا گیا ہے جن پر دینِ اسلام کی اساس قائم ہے۔ تقابل کے لیے اس سورہ کے پہلے رکوع کو سامنے رکھ لیا جائے تو زیادہ مفید ہوگا |
Surah 6 : Ayat 128
وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا يَـٰمَعْشَرَ ٱلْجِنِّ قَدِ ٱسْتَكْثَرْتُم مِّنَ ٱلْإِنسِۖ وَقَالَ أَوْلِيَآؤُهُم مِّنَ ٱلْإِنسِ رَبَّنَا ٱسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَبَلَغْنَآ أَجَلَنَا ٱلَّذِىٓ أَجَّلْتَ لَنَاۚ قَالَ ٱلنَّارُ مَثْوَٮٰكُمْ خَـٰلِدِينَ فِيهَآ إِلَّا مَا شَآءَ ٱللَّهُۗ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ
جس روز اللہ ان سب لوگوں کو گھیر کر جمع کرے گا، اس روز وہ جنوں1 سے خطاب کر کے فرمائے گا کہ 2"ا ے گروہ جن! تم نے نوع انسانی پر خوب ہاتھ صاف کیا" انسانوں میں سے جو اُن کے رفیق تھے وہ عرض کریں گے "پروردگار! ہم میں سے ہر ایک نے دوسرے کو خو ب استعمال کیا ہے، اور اب ہم اُس وقت پر آ پہنچے ہیں جو تو نے ہمارے لیے مقرر کر دیا تھا3" اللہ فرمائے گا "اچھا اب آگ تمہارا ٹھکانا ہے، اس میں تم ہمیشہ رہو گے" ا"س سے بچیں گے صرف وہی جنہیں اللہ بچانا چاہے گا، بے شک تمہارا رب دانا اور علیم ہے
3 | یعنی اگرچہ اللہ کو اختیار ہے کہ جسے چاہے سزا دے اور جسے چاہے معاف کر دے ، مگر یہ سزا اور معافی بلاوجہِ معقول ، مجرّد خواہش کی بنا پر نہیں ہو گی، بلکہ علم اور حکمت پر مبنی ہو گی۔ خدا معاف اسی مجرم کو کرے گا جس کے متعلق وہ جانتا ہے کہ وہ کود اپنے جُرم کا ذمّہ دار نہیں ہے اور جس کے متعلق اس کی حکمت یہ فیصلہ کر ے گی کہ اسے سزا نہ دی جانی چاہیے |
2 | یعنی ہم میں سے ہر ایک نے دُوسرے سے ناجائز فائدے اُٹھائے ہیں، ہر ایک دُوسرے کو فریب میں مبتلا کر کے اپنی خواہشات پوری کرتا رہا ہے |
1 | یہاں جِنوں سے مراد شیاطین جِن ہیں |
Surah 6 : Ayat 129
وَكَذَٲلِكَ نُوَلِّى بَعْضَ ٱلظَّـٰلِمِينَ بَعْضَۢا بِمَا كَانُواْ يَكْسِبُونَ
دیکھو، اس طرح ہم (آخر ت میں) ظالموں کو ایک دوسرے کا ساتھی بنائیں گے اُس کمائی کی وجہ سے جو وہ (دنیا میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر) کرتے تھے1
1 | یعنی جس طرح وہ دنیا میں گناہ سمیٹنے اور بُرائیوں کا اکتساب کرنے میں ایک دُوسرے کے شریک تھے اسی طرح آخرت کی سزا پانے میں بھی وی ایک دُوسرے کے شریک حال ہوں گے |
Surah 6 : Ayat 130
يَـٰمَعْشَرَ ٱلْجِنِّ وَٱلْإِنسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ ءَايَـٰتِى وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَآءَ يَوْمِكُمْ هَـٰذَاۚ قَالُواْ شَهِدْنَا عَلَىٰٓ أَنفُسِنَاۖ وَغَرَّتْهُمُ ٱلْحَيَوٲةُ ٱلدُّنْيَا وَشَهِدُواْ عَلَىٰٓ أَنفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُواْ كَـٰفِرِينَ
(اس موقع پر اللہ ان سے پوچھے گا کہ) 1"اے گروہ جن وانس، کیا تمہارے پاس خود تم ہی میں سے وہ پیغمبر نہیں آئے تھے جو تم کو میری آیات سناتے اور اِس دن کے انجام سے ڈراتے تھے؟" وہ کہیں گے "ہاں، ہم اپنے خلاف خود گواہی دیتے ہیں" آج دنیا کی زندگی نے اِن لوگوں کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے، مگر اُس وقت وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ کافر تھے2
2 | یعنی بے خبر اور ناواقف نہ تھے بلکہ کافر تھے۔ وہ خود تسلیم کریں گے کہ حق ہم تک پہنچا تھا مگر ہم نے خود اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا |
1 | یعنی ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ کی طرف سے رسُول پر رسُول آتے اور ہمیں حقیقت سے خبردار کرتے رہے، مگر یہ ہمارا اپنا قصُور تھا کہ ہم نے ان کی بات نہ مانی |
Surah 7 : Ayat 6
فَلَنَسْــَٔلَنَّ ٱلَّذِينَ أُرْسِلَ إِلَيْهِمْ وَلَنَسْــَٔلَنَّ ٱلْمُرْسَلِينَ
پس یہ ضرور ہو کر رہنا ہے کہ ہم اُن لوگوں سے باز پرس کریں1، جن کی طرف ہم نے پیغمبر بھیجے ہیں اور پیغمبروں سے بھی پوچھیں (کہ اُنہوں نے پیغام رسانی کا فرض کہاں تک انجام دیا اور انہیں اس کا کیا جواب ملا)2
2 | اس سے معلوم ہوا کہ آخرت کو باز پرس سراسر رسالت ہی کی بنیاد پر ہوگی۔ ایک طرف پیغمبروں سے پوچھا جائے گا کہ تم نے نوع انسانی تک خدا کا پیغام پہنچانے کے لیے کیا کچھ کیا ۔ دوسری طرف جن لوگوں تک رسولوں کا پیغام پہنچا ان سے سوال کیا جائے گا کہ اس پیغام کے ساتھ تم نے کیا برتاؤ کیا ۔ جس شخص یا جن انسانی گروہوں تک انبیاء کا پیغام نہ پہنچا ہو،ان کے بارے میں تو قرآن ہمیں کچھ نہیں بتاتا کہ ان کے مقدمہ کا کیا فیصلہ کیا جائے گا۔ اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنا فیصلہ محفوظ رکھا ہے۔ لیکن جن اشخاص و اقوام تک پیغمبروں کی تعلیم پہنچ چکی ہے ان کے متعلق قرآن صاف کہتا ہے کہ وہ اپنے کفر و انکار اور فسق ونافرمانی کے لیے کوئی حجّت نہ پیش کر سکیں گے اور ان کا انجام اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ حسرت وندامت کے ساتھ ہاتھ ملتے ہوئے جہنم کی راہ لیں |
1 | باز پرس سے مراد روز قیامت کی باز پرس ہے۔ بد کار افراد اور قوموں پر دنیا میں جو عذاب آتا ہےوہ دراصل ان کے اعمال کی باز پرس نہیں ہے اور نہ وہ ان کے جرائم کی پوری سزا ہے۔ بلکہ اس کی حیثیت تو بالکل ایسی ہے جیسے کوئی مجرم جو چھوٹا پھر رہا تھا، اچانک گرفتا ر کر لیا جائے اور مزید ظلم وفساد کے مواقع اُس سے چھین لیے جائیں۔ تاریخ انسانی اس قسم کی گرفتاریوں کی بے شمار نظیروں سے بھر پڑی ہے اور یہ نظیریں اس بات کی ایک صریح علامت ہیں کہ انسان کو دنیا میں شتر بےمہار کی طرح چھوڑ نہیں دیا گیا ہےکہ جو چاہے کرتا پھرے، بلکہ اُوپر کوئی طاقت ہے جو ایک حدِ خاص تک اسے ڈھیل دیتی ہے، تنبیہات پر تنبیہات بھیجتی ہے کہ اپنی شرارتوں سے باز آجائے ، اور جب وہ کسی طرح باز نہیں آتا تو اسے اچانک پکڑ لیتی ہے۔پھراگر کوئی اس تاریخی تجربہ پر غور کرے تو بآسانی یہ بتیجہ بھی نکال سکتا ہے کہ جو فرمان روا اس کائنات پر حکومت کررہا ہےاس نے ضرور ایسا ایک وقت مقرر کیا ہوگا جب اِن سارے مجرموں پر عدالت قائم ہو گی او ان سے ان کے اعمال کی باز پرس کی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اُوپر کی آیت کو جس میں دنیوی عذاب کا ذکر کیا گیا ہے، بعد والی آیت کے ساتھ”پس“کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے، گویا اس دنیوی عذاب کا باربار واقع ہونا آخرت کی باز پرس سے یقیناً واقع ہونے پر ایک دلیل ہے |
Surah 7 : Ayat 7
فَلَنَقُصَّنَّ عَلَيْهِم بِعِلْمٍۖ وَمَا كُنَّا غَآئِبِينَ
پھر ہم خود پور ے علم کے ساتھ سرگزشت ان کے آگے پیش کر دیں گے، آخر ہم کہیں غائب تو نہیں تھے
Surah 13 : Ayat 40
وَإِن مَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ ٱلَّذِى نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ ٱلْبَلَـٰغُ وَعَلَيْنَا ٱلْحِسَابُ
اور اے نبیؐ، جس برے انجام کی دھمکی ہم اِن لوگوں کو دے رہے ہیں اُس کوئی حصہ خواہ ہم تمہارے جیتے جی دکھا دیں یا اس کے ظہور میں آنے سے پہلے ہم تمہیں اٹھا لیں، بہر حال تمہارا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے1
1 | مطلب یہ ہے کہ تم اس فکر میں نہ پڑو کہ جن لوگوں نے تمہاری اِس دعوتِ حق کو جھٹلا دیا ہے ان کا انجام کیا ہوتا ہے اور کب وہ ظہور میں آتا ہے۔ تمہارے سپرد جو کام کیا گیا ہے اُسے پوری یکسوئی کے ساتھ کیے چلے جاؤ اور فیصلہ ہم پر چھوڑ دو۔ یہاں بظاہر خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، مگر دراصل بات اُن مخالفین کو سنانی مقصود ہے جو چیلنج کے انداز میں بار بار حضور سے کہتے تھے کہ ہماری جس شامت کی دھمکیاں تم ہمیں دیا کرتے ہو آخر وہ آکیوں نہیں جاتی |
Surah 15 : Ayat 92
فَوَرَبِّكَ لَنَسْــَٔلَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ
تو قسم ہے تیرے رب کی، ہم ضرور ان سب سے پوچھیں گے
Surah 16 : Ayat 93
وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَٲحِدَةً وَلَـٰكِن يُضِلُّ مَن يَشَآءُ وَيَهْدِى مَن يَشَآءُۚ وَلَتُسْــَٔلُنَّ عَمَّا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
اگر اللہ کی مشیت یہ ہوتی (کہ تم میں کوئی اختلاف نہ ہو) تو وہ تم سب کو ایک ہی امت بنا دیتا1، مگر وہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈالتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ راست دکھا دیتا ہے2، اور ضرور تم سے تمہارے اعمال کی باز پرس ہو کر رہے گی
2 | یعنی انسان کو اختیار و انتخاب کی آزادی اللہ نے خود ہی دی ہے، اس لیے انسانوں کی راہیں دنیا میں مختلف ہیں۔ کوئی گمراہی کی طرف جانا چاہتا ہے اور اللہ اس کے لیے گمراہی کے اسباب ہموار کردیتا ہے، اور کوئی راہِ راست کا طالب ہوتا ہے اور اللہ اس کی ہدایت کا انتظام فرما دیتا ہے۔ |
1 | یہ پچھلے مضمون کی مزید توضیح ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی اپنے آپ کو اللہ کا طرفدار سمجھ کر بھلے اور بُرے ہر طریقے سے اپنے مذہب کو (جسے وہ خدائی مذہب سمجھ رہا ہے) فروغ دینے اور دوسرے مذاہب کو مٹا دینے کی کوشش کرتا ہے، تو اس کی یہ حرکت سراسر اللہ تعالٰی کے منشا کے خلاف ہے۔ کیونکہ اگر اللہ کا منشا واقعی یہ ہوتا کہ انسان سے مذہبی اختلاف کا اختیار چھین لیا جائے اور چار و ناچار سارے انسانوں کو ایک ہی مذہب کا پیرو بنا کر چھوڑا جائے تو اس کے لیے اللہ تعالٰی کو اپنے نام نہاد ”طرف داروں“ کی اور ان کے ذلیل ہتھکنڈوں سے مدد لینے کی کوئی حاجت نہ تھی۔ یہ کام تو وہ خود اپنی تخلیقی طاقت سے کر سکتا تھا۔ وہ سب کو مومن و فرماں بردار پیدا کر دیتا اور کفر ومعصیت کی طاقت چھین لیتا۔ پھر کسی کی مجال تھی کہ ایمان و طاعت کی راہ سے بال برابر بھی جنبش کرسکتا؟ |
Surah 16 : Ayat 56
وَيَجْعَلُونَ لِمَا لَا يَعْلَمُونَ نَصِيبًا مِّمَّا رَزَقْنَـٰهُمْۗ تَٱللَّهِ لَتُسْــَٔلُنَّ عَمَّا كُنتُمْ تَفْتَرُونَ
یہ لوگ جن کی حقیقت سے واقف نہیں ہیں 1اُن کے حصے ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے مقرر کرتے ہیں2 خدا کی قسم، ضرور تم سے پوچھا جائے گا کہ یہ جھوٹ تم نے کیسے گھڑ لیے تھے؟
2 | یعنی اُن کی نذر، نیاز اور بھینٹ کے لیے اپنی آمدنیوں اور اپنی اراضی کی پیداوار میں سے ایک مقرر حصہ الگ نکال رکھتے ہیں |
1 | یعنی جن کے متعلق کسی مستند ذریعہ ٔعلم سے اِنہیں یہ تحقیق نہیں ہوا ہے کہ اللہ میاں نے اُن کو واقعی شریک ِخدا نامزد کر رکھا ہے، اور اپنی خدائی کے کاموں میں سے کچھ کام یا اپنی سلطنت کے علاقوں میں سے کچھ علاقے ان کو سونپ رکھے ہیں۔ |