Ayats Found (9)
Surah 2 : Ayat 34
وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَـٰٓئِكَةِ ٱسْجُدُواْ لِأَدَمَ فَسَجَدُوٓاْ إِلَّآ إِبْلِيسَ أَبَىٰ وَٱسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ ٱلْكَـٰفِرِينَ
پھر جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدمؑ کے آگے جھک جاؤ1، تو سب جھک گئے، مگر ابلیس نے انکار کیا2 وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑ گیا اور نافرمانوں میں شامل ہو گیا3
3 | اِن الفاظ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غالباً ابلیس سجدے سے انکار کرنے میں اکیلا نہ تھا، بلکہ جِنّوں کی ایک جماعت نافرمانی پر آمادہ ہو گئی تھی اور ابلیس کا نام صرف اِس لیے لیا گیا کہ وہ ان کا سردار اور اس بغاوت میں پیش پیش تھا۔ لیکن اِس آیت کا دُوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ” وہ کافروں میں سے تھا“۔ اِس صُورت میں مطلب یہ ہو گا کہ جِنّوں کی ایک جماعت پہلے سے ایسی موجود تھی جو سرکش و نافرمان تھی ، اور ابلیس کا تعلق اسی جماعت سے تھا۔ قرآن میں بالعموم ”شیاطین“ کا لفظ اِنہی جِنّوں اور ان کی ذرّیّت (نسل) کے لیے استعمال ہوا ہے، اور جہاں شیاطین سے مُراد انسان مراد لینے کے لیے کوئی قرینہ نہ ہو، وہاں یہی شیاطینِ جن مُراد ہوتے ہیں |
2 | اِبْلِیسْ: لفظی ترجمہ” انتہائی مایوس“۔ اِصطلاحاً یہ اُس جِن کا نام ہے جس نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کر کے آدم اور بنی آدم کے لیے مطیع و مُسَخَّر ہونے سے انکار کر دیا اور اللہ سے قیامت تک کے لیے مہلت مانگی کہ اسے نسلِ انسانی کو بہکانے اور گمراہیوں کی طرف ترغیب دینے کا موقع دیا جائے۔ اسی کو ”الشَیْطَان“ بھی کہا جاتا ہے۔ درحقیقت شیطان اور ابلیس بھی محض کسی مجرّد قوت کا نام نہیں ہے، بلکہ وہ بھی انسان کی طرح ایک صاحبِ تشخّص ہستی ہے۔ نیز کسی کو یہ غلط فہمی بھی نہ ہونی چاہیے کہ یہ فرشتوں میں سے تھا۔ آگے چل کر قرآن نے خود تصریح کر دی ہے کہ وہ جِنّوں میں سے تھا، جو فرشتوں سے الگ، مخلوقات کی ایک مستقل صِنف ہیں |
1 | اِس کا مطلب یہ ہے کہ زمین اور اس سے تعلق رکھنے والے طبقہء کائنات میں جس قدر فرشتے مامور ہیں، ان سب کو انسان کے لیے مطیع و مُسَخَّر ہوجانے کا حکم دیا گیا۔ چونکہ اس علاقے میں اللہ کے حکم سے انسان خلیفہ بنایا جارہا تھا، اس لیے فرمان جاری ہوا کہ صحیح یا غلط ، جس کام میں بھی انسان اپنے اُن اختیارات کو ، جو ہم اسے عطا کر رہے ہیں، استعمال کرنا چاہے اور ہم اپنی مشیت کے تحت اسے ایسا کر لینے کا موقع دے دیں، تو تمہارا فرض ہے کہ تم میں سے جس جس کے دائرہٴ عمل سے وہ کام متعلق ہو، وہ اپنے دائرے کی حد تک اس کا ساتھ دے۔ وہ چوری کرنا چاہے یا نماز پڑھنے کا ارادہ کرے، نیکی کرنا چاہے یا بدی کے ارتکاب کے لیے جائے، دونوں صُورتوں میں جب تک ہم اسے اس کی پسند کے مطابق عمل کرنے کا اِذن دے رہے ہیں، تمہیں اس کے لیے سازگاری کرنی ہوگی۔ مثال کے طور پر اِس کو یوں سمجھیے کہ ایک فرماں روا جب کسی شخص کو اپنے ملک کے کسی صُو بے یا ضلع کا حاکم مقرر کرتا ہے ، تو اس علاقے میں حکومت کے جس قدر کارندے ہوتے ہیں، ان سب کا فرض ہوتا ہے کہ اس کی اطاعت کریں، اور جب تک فرمانروا کا منشا یہ ہے کہ اسے اپنے اختیارات کے استعمال کا موقع دے ، اس وقت تک اس کا ساتھ دیتے رہیں، قطع نظر اس سے کہ وہ صحیح کام میں ان اختیارات کو استعمال کر رہا ہے یا غلط کام میں۔ البتہ جب جس کام کے بارے میں بھی فرماں روا کا اشارہ ہوجائے کہ اسے نہ کرنے دیا جائے، تو وہیں ان حاکم صاحب کا اقتدار ختم ہو جاتا ہے اور انہیں ایسا محسُوس ہونے لگتا ہے کہ سارے علاقے کے اہل کاروں نے گویا ہڑتا ل کر دی ہے ۔ حتّٰی کہ جس وقت فرمانروا کی طرف سے ان حاکم صاحب کو معزُولی اور گرفتاری کا حکم ہوتا ہے ، تو وہی ماتحت و خُدّام جو کل تک ان کے اشاروں پر حرکت کر رہے تھے، ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑ یاں ڈال کر انہیں کشاں کشاں دارُالفاسقین کی طرف لے جاتے ہیں۔ فرشتوں کو آدم کے لیے سربسجُود ہوجانے کا جو حکم دیا گیا تھا اُس کی نوعیت کچھ اس قسم کی تھی۔ ممکن ہے کہ صرف مسخّر ہوجانے ہی کو سجدہ سے تعبیر کیا گیا ہو۔ مگر یہ بھی ممکن ہے کہ اس انقیاد کی علامت کے طور پر کسی ظاہری فعل کا بھی حکم دیا گیا ہو، اور یہی زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے |
Surah 7 : Ayat 11
وَلَقَدْ خَلَقْنَـٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَـٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَـٰٓئِكَةِ ٱسْجُدُواْ لِأَدَمَ فَسَجَدُوٓاْ إِلَّآ إِبْلِيسَ لَمْ يَكُن مِّنَ ٱلسَّـٰجِدِينَ
ہم نے تمہاری تخلیق کی ابتدا کی، پھر تمہاری صورت بنائی، پھر فرشتوں سے کہا آدمؑ کو سجدہ کرو1 اس حکم پر سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا
1 | تقابل کےلیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ۔آیات۳۰تا ۳۹۔ سورہ بقرہ میں حکم سجدہ کا ذکر جن الفاظ میں آیا ہے ان سے شبہ ہو سکتا تھا کہ فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم صرف آدم علیہ السلام کی شخصیت کے لیے دیا گیا تھا۔ مگر یہاں وہ شبہ دور ہو جاتا ہے۔ یہاں جو اندازِ بیان اختیار کیا گیا ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آدم علیہ السلام کو جو سجدہ کرایا گیا تھا وہ آدم ہونے کی حیثیت سےنہیں بلکہ نوع انسانی کا نمایندہ فرد ہونے کی حیثیت سے تھا۔ اور یہ جو فرمایا کہ ”ہم نے تمہاری تخلیق کی ابتدا کی، پھر تمہیں صورت بخشی ، پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو،“اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے پہلے تمہاری تخلیق کا منصوبہ بنایا اور تمہار مادہ آفرینش تیار کیا، پھر اس مادے کوانسانی صورت عطا کی ، پھر جب ایک زندہ ہستی کی حیثیت سے انسان وجود میں آگیا تو اسے سجدہ کرنے کے لیے فرشتوں کو حکم دیا۔ اس آیات کی یہ تشریح خود قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر بیان ہوئی ہے۔ مثلاً سورہ صٓ میں ہے اِذْقَالَ رَبُّکَ لِلْمَلَا ئِکَةِ اِنِّیْ خَالِق ٌۢبَشَرًامِّنْ طِیْنٍ° فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رّ ُوْحِیْ فَقَعُوْالَہٗ سٰجِدِیْنَ°(آیات ۷١۔۷۲)”تصور کرو اس وقت کا جب کہ تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں ایک بشر مٹی سے پیدا کرنے والا ہوں، پھر جب میں اُسے پوری طرح تیار کرلوں اور اس کے اندر اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدہ میں گر جانا۔“اس آیت میں وہی تین مراتب ایک دوسرے انداز میں بیان کیے گئے ہیں، یعنی پہلے مٹی سے ایک بشر کی تخلیق ، پھر اس کا تسویہ، یعنی اس کی شکل و صورت بنانا اور اس کے اعضاء اور اس کی قوتوں کا تناسب قائم کرنا ، پھر اس کے اندر اپنی روح سےکچھ پھونک کہ آدم کو وجود میں لے آنا۔ اسی مضمون کو سورہِ حِجْرمیں بایں الفاظ ادا کیا گیا ہے، وَاِذْقَالَ رَبُّکَ لِلْمَلَا ئِکَةِ اِنِّیْ خَالِق ٌۢبَشَرًامِّنْ صَلْصَالٍ مّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ° فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رّ ُوْحِیْ فَقَعُوْالَہٗ سٰجِدِیْنَ°(آیات ۲۸۔۲۹)”اور تصور کرو اس وقت کا جب کہ تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں خمیر اُٹھی ہوئی مٹی کے گارے سے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں، پھر جب میں اُسے پوری طرح تیار کرلوں اور اس کے اندر اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدہ میں گر پڑنا۔“ تخلیقِ انسانی کے اِس آغاز کو اس کی تفصیلی کیفیّت کے ساتھ سمجھنا ہمارے لیے مشکل ہے ۔ ہم اس حقیقت کا پوری طرح اوراک نہیں کر سکتے کہ موادِارضی سے بشر کس طرح بنایا گیا ، پھر اس کی صورت گری اور تعدیل کیسے ہوئی، اور اس کے اندر روح بیان کرتا ہے جو موجودہ زمانہ میں ڈاروِن کے متبعین سائینس کے نام سے پیش کرتے ہیں ۔ ان نظریات کی رو سے انسان غیر انسانی اور نیم انسانی حالت کے مختلف مدارح سے ترقی کرتا ہوا متبئہ انسانیت تک پہنچتا ہے اور اس تدریجی ارتقاء کے طویل خط میں کوئی نقطئہ خاص ایسا نہیں ہو سکتا جہاں سے غیر انسانی حالت کو ختم قرار دے کر ”نوعِ انسانی “کا آغاز تسلیم کیا جائے۔ بخلاف اس لیے قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ انسانیت کا آغاز خالص انسانیت ہی سے ہوا ہے، اُس کی تاریخ کسی غیر انسانی حالت سے قطعاً کوئی رشتہ نہیں رکھتی، وہ اوّل روز سے انسان ہی بنایا گیا تھا اور خدا نے کامل انسانی شعور کے ساتھ پوری روشنی میں اس کی ارضی زندگی کی ابتدا کی تھی۔ انسانیت کی تاریخ کے متعلق یہ دو مختلف نقطئہ نظر ہیں اور ان سے انسانیت کے وہ بالکل مختلف تصوّر پیدا ہوتے ہیں۔ایک تصور کو اختیار کیجیے تو آپ کو انسان اصلِ حیوانی کی ایک فرع نظر آئے گا۔ اس کی زندگی کے جملہ قوانین، حتٰی کہ اخلاقی قوانین کےلیے بھی آپ بنیادی اصول اُن قوانین میں تلاش کریں گے جن کے تحت حیوانی زندگی چل رہی ہے۔ اُس کے لیے حیوانات کاسا طرزِ عمل آپ کو بالکل ایک فطری طرزِ عمل معلوم ہوگا۔ زیادہ سے زیادہ جو فرق انسانی طرز عمل اور حیوانی طرز عمل میں آپ دیکھنا چاہیں گے وہ بس اتنا ہی ہو گا کہ حیوانات جو کچھ آلات اور ضائع اور تمدنی آرائشوں اور تہذیبی نقش و نگار کے بغیر کرتے ہیں انسان وہی سب کچھ ان چیزوں کے ساتھ کر لے۔ اس کے بر عکس دوسرا تصوّر اختیار کرتے ہی آپ انسان کو جانور کے بجائے”انسان“ہونے کی حیثیت سے دیکھیں گے۔ آپ کی نگاہ میں وہ ”حیوانِ ناطق“یا ”متمدن جانور“( )نہیں ہو گا بلکہ زمین پر خدا کا خلیفہ ہوگا۔ آپ کے نزدیک وہ چیز جو اُسے دوسری مخلوقت سے ممتاز کرتی ہے اس کا نطق یا اس کی اجتماعیت نہ ہو گی بلکہ ا س کی اخلاقی ذمہ داری اور اختیارات کی وہ امانت ہو گی جسے خدا نے اس کے سپرد کیا ہے اور جس کی بنا پر وہ خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔ اس طرح انسانیت اور اس کے جملہ متعلقات پر آپ کی نظر پہلے زاویہ نظر سے یک سر مختلف ہو جائے گی۔ آپ انسان کے لیے ایک دوسرا ہی فلسفہ حیات اور ایک دوسرا ہی نظامِ اخلاق و تمدّن و قانون طرب کرنے لگیں گے اور اس فلسفے اور اس نظام کے اصول و مبادی تلاش کرنے کے لیے آپ کی نگاہ خود بخود عالم اسفل کی بجائے عالم بالا کی طرف اُٹھنے لگے گی۔ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ یہ دوسرا تصور انسان چاہے اخلاقی اور نفسیاتی حیثیت سے کتنا ہی بلند ہو مگر محض اس تخیل کی خاطر ایک ایسے نظریہ کو کس طرح رد کردیا جائے جو سا ئنٹیفک دلائل سے ثابت ہے“ لیکن جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں ان سے ہمارا سوال یہ ہے کہ کیافی الواقع ڈاروینی نظریہ ارتقاء سائنٹیفک دلائل سے”ثابت ہو چکا ہے؟ سائنس سے محض سر سری واقفیت رکھنے والے لوگ تو بے شک اس غلط فہمی میں ہیں کہ یہ نظر یہ ایک ثابت شدہ علمی حقیقت بن چکا ہے، لیکن محققین اس بات کو جانتے ہیں کہ الفاظ اور ہڈیوں کے لمبے چوڑے سرو سامان کے باوجود ابھی تک یہ صرف ایک نظریہ ہی ہے اور اس کے جن دلائل کو غلطی سے دلائل ثبوت کہا جا تا ہے وہ دراصل محض دلائل اِمکان ہیں، یعنی ان کی بنا پر زیادہ سے زیادہ بس اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ ڈاروینی ارتقاء کا ویسا ہی امکا ن ہے جیسا براہِ راست عملِ تخلیق سے ایک ایک نوع کے الگ الگ وجود میں آنے کا امکان ہے |
Surah 15 : Ayat 29
فَإِذَا سَوَّيْتُهُۥ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِى فَقَعُواْ لَهُۥ سَـٰجِدِينَ
جب میں اُسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں1 تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا"
1 | اس سے معلو م ہوا کہ انسان کے اندر جو روح پھونکی گئی ہے وہ دراصل صفاتِ الہٰی کا ایک عکس یا پر تَو ہے ۔ حیات، علم، قدرت، ارادہ، اختیار اور دوسری جتنی صفات انسان میں پائی جاتی ہیں ، جن کے مجموعہ کا نام روح ہے، یہ دراصل اللہ تعالیٰ ہی کی صفات کا ایک ہلکا سا پرتَو ہے جو اس کا لبدِ خاکی پر ڈالا گیا ہے ، اور اسی پر تَو کی وجہ سے انسان زمین پر خدا کی خلیفہ اور ملائکہ سمیت تمام موجودات ِ ارضی کا مسجود قرار پایا ہے۔ یوں تو ہر صفت جو مخلوقات میں پائی جاتی ہے، اس کا مصدر و منبع اللہ تعالیٰ ہی کو کوئی نہ کوئی صفت ہے ۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ جَعَلَ اللہ ْ الرَّ حْمَۃَ مِأَ ۃَ جُزْءٍ فَاَمْسَکَ عِنْدَہٗ تِسْعَۃً وَّ تِسْعِیْنَ وَاَنْزَلَ فِی الْاَرْضِ جُزْ ءً ا وَّ احِدًا فَمِنْ ذٰلِکَ الْجُزْ ءِ یَتَرَ ا حَمُ الْخَلَا ئِقُ حَتّٰی تَرْفَعُ الدَّآ بَّۃُ حَا فِرَ ھَا عَنْ وَّلَدِھَا خَشْیَۃِ اَنْ تُصِیْبَہٗ (بخاری و مسلم)۔ ” اللہ تعالیٰ نے رحمت کو سو حصوں میں تقسیم فرمایا ، پھر ان میں سے ۹۹ حصے اپنے پاس رکھے اور صرف ایک حِصّہ زمین میں اُتارا۔ یہ اُسی ایک حصے کی برکت ہے کہ جس کی وجہ سے مخلوقات آپس میں ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں یہاں تک کہ اگر جانور اپنے بچے پر سے اپنا کُھرا اُٹھاتا ہے تاکہ اُسے ضرر نہ پہنچ جائے، تو یہ بھی دراصل اُسی حصہ رحمت کا اثر ہے“۔ مگر جو چیز انسان کی دوسری مخلوقات پر فضیلت دیتی ہے وہ یہ ہے کہ جس جامعیت کے ساتھ اللہ کی صفات کا پر تَو اس پر ڈالا گیا ہے اس سے کوئی دوسری مخلوق سرفراز نہیں کی گئی۔ یہ ایک ایسا باریک مضمون ہے جس کے سمجھنے میں ذرا سی غلطی بھی آدمی کر جائے تو اس غلط فہمی میں مبتلا ہو سکتا ہے کہ صفاتِ الہٰی میں سے ایک حصّہ پانا الوہیت کا کوئی جُز پالینے کا ہم معنی ہے ۔ حالانکہ الوہیت اس دے دراء الوراء ہے کہ کوئی مخلوق اس کا ایک ادنیٰ شائبہ بھی پا سکے |
Surah 15 : Ayat 31
إِلَّآ إِبْلِيسَ أَبَىٰٓ أَن يَكُونَ مَعَ ٱلسَّـٰجِدِينَ
سوائے ابلیس کے کہ اُس نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا1
1 | تقابل کے لیے سورۂ بقرہ رکوع۴، سورہ ٔ نساء، رکوع ۱۸، اور سورۂ اعراف ، رکوع۲ ، پیشِ نظر رہے۔ نیز ہمارے اُن حواشی پر بھی ایک نطاہ ڈال لی جائے جو اِن مقامات پر لکھے گئے ہیں |
Surah 17 : Ayat 61
وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَـٰٓئِكَةِ ٱسْجُدُواْ لِأَدَمَ فَسَجَدُوٓاْ إِلَّآ إِبْلِيسَ قَالَ ءَأَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِينًا
اور یاد کرو جبکہ ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدمؑ کو سجدہ کرو، تو سب نے سجدہ کیا، مگر ابلیس نے نہ کیا1 ا س نے کہا "کیا میں اُس کو سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے بنایا ہے؟"
1 | تقابل کے لیے ملاحظہ ہو البقراہ آیات ۳۰ تا ۳۹، النساء آیات ١١۷۔ ١۲١، الاعراف آیات ١١۔۲۵، الحجر آیات ۲٦۔۴۲، اور ابراہیم آیت ۲۲۔ اس سلسلہ کلام میں یہ قصہ دراصل یہ بات ذہن نشین کرنے کے لیے بیان کیا جا رہا ہے کہ اللہ کے مقابلے میں ان کافروں کا یہ تمرُّد، اور تنبیہات سے ان کی یہ بے اعتنائی، اور کجروی پر ان کا یہ اصرار ٹھیک ٹھیک اُس شیطان کی پیروی ہے جو ازل سے انسان کا دشمن ہے، اور اس روش کو اختیار کر کے درحقیقت یہ لوگ اُس جال میں پھنس رہے ہیں جس میں اولادِ آدم کو پھانس کر تباہ کر دینے کے لیے شیطان نے آغازِ تاریخ انسانی میں چلینج کیا تھا۔ |
Surah 18 : Ayat 50
وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَـٰٓئِكَةِ ٱسْجُدُواْ لِأَدَمَ فَسَجَدُوٓاْ إِلَّآ إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ ٱلْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِۦٓۗ أَفَتَتَّخِذُونَهُۥ وَذُرِّيَّتَهُۥٓ أَوْلِيَآءَ مِن دُونِى وَهُمْ لَكُمْ عَدُوُّۢۚ بِئْسَ لِلظَّـٰلِمِينَ بَدَلاً
یاد کرو، جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدمؑ کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا1 وہ جنوں میں سے تھا اس لیے اپنے رب کے حکم کی اطاعت سے نکل گیا2 اب کیا تم مجھے چھوڑ کر اُس کو اور اس کی ذرّیّت کو اپنا سرپرست بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں؟ بڑا ہی برا بدل ہے جسے ظالم لوگ اختیار کر رہے ہیں
2 | یعنی ابلیس فرشتوں میں سے نہ تھا بلکہ جنوں میں سے تھا، اسی لیے اطاعت سے باہر ہو جانا اس کے لیے ممکن ہوا۔ فرشتوں کے متعلق قرآن تصریح کرتا ہے کہ وہ فرۃً مطیع فرمان ہیں : لَایَعْصُوْنَ اللہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَایُؤْ مَرْوْنَ مَا لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ رَبُّھُمْ مِنْ فَوْقِہمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُوؤْ نَ مَا یُؤْمَرُوْنَ (النحل ۵۰) ’’وہ سرکشی نہیں کرتے، اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے ڈرتے ہیں اور وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے‘‘۔ بخلاف اس کے جن انسانوں کی طرح ایک ذی اختیار مخلوق ہے جسے پیدائشی فرمان بردار نہیں بنایا گیا بلکہ کفر و ایمان اور طاعت و معصیت، دونوں کی قدرت بخشی گئی ہے۔ اس حقیقت کو یہاں کھولا گیا ہے کہ ابلیس جنوں میں سے تھا اس لیے اس نے خود اپنے اختیار سے فسق کی راہ انتخاب کی۔ یہ تصریح ان تمام غلط فہمیوں کو رفع کر دیتی ہے جو عموماً لوگوں میں پائی جاتی ہیں کہ ابلیس فرشتوں میں سے تھا اور فرشتہ بھی کوئی معمولی نہیں بلکہ معلم الملکوت۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الحِجر،آیت ۲۷۔ اور الجِن، آیات ۱۳۔ ۱۵)۔ رہا یہ سوال کی جب ابلیس فرشتوں میں سے نہ تھا تو پھر قرآن کا یہ طرزِ بیان کیونکہ صحیح ہو سکتا ہے کہ ’’ہم نے ملائکہ کو کہا کہ آدم کو سجدہ کرو پس ان سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا‘‘؟ اس کا جواب یہ ہے کہ فرشتوں کو سجدے کا حکم دینے کے معنی یہ تھے کہ وہ تمام مخلوقات ارضی بھی انسان کی مطیع فرمان بن جائی جو کرۂ زمین کی عملداری میں فرشتوں کے زیر انتظام آباد ہیں۔چنانچہ فرشتوں کے ساتھ یہ سب مخلوقات بھی سر بسجود ہوئیں۔ مگر ابلیس نے ان کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ (لفظ ابلیس کے معنی کے لیے ملاحظہ ہو المومنون حاشیہ ۷۳) |
1 | اس سلسلہ کلام میں قصہ آدم و ابلیس کی طرف اشارہ کرنے سے مقصود گمراہ انسانوں کو ان کی اس حماقت پر متنبہ کرنا ہے کہ وہ اپنے رحیم و شفیق پروردگار اور خیر خواہ پیغمبروں کو چھوڑ کر اپنے اس ازلی دشمن کے پھندے میں پھنس رہے ہیں جو اول روزِ آفرینش سے ان کے خلاف حسد رکھتا ہے۔ |
Surah 20 : Ayat 116
وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَـٰٓئِكَةِ ٱسْجُدُواْ لِأَدَمَ فَسَجَدُوٓاْ إِلَّآ إِبْلِيسَ أَبَىٰ
یاد کرو وہ وقت جبکہ ہم نے فرشتوں سے کہا تھا کہ آدمؑ کو سجدہ کرو وہ سب تو سجدہ کر گئے، مگر ایک ابلیس تھا کہ انکار کر بیٹھا
Surah 38 : Ayat 73
فَسَجَدَ ٱلْمَلَـٰٓئِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ
اس حکم کے مطابق فرشتے سب کے سب سجدے میں گر گئے
Surah 38 : Ayat 74
إِلَّآ إِبْلِيسَ ٱسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ ٱلْكَـٰفِرِينَ
مگر ابلیس نے اپنی بڑائی کا گھمنڈ کیا اور وہ کافروں میں سے ہو گیا1
1 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول،البقراہ‘حاشیہ ۴۷،الکہف،حاشیہ ۴۸ |