Ayats Found (23)
Surah 4 : Ayat 41
فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أُمَّةِۭ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَىٰ هَـٰٓؤُلَآءِ شَهِيدًا
پھر سوچو کہ اُس وقت یہ کیا کریں گے جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور اِن لوگوں پر تمہیں (یعنی محمد ﷺ کو) گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے1
1 | یعنی ہر دَور کا پیغمبر اپنے دَور کے لوگوں پر اللہ کی عدالت میں گواہی دے گا کہ زندگی کا وہ سیدھا راستہ اور فکر و عمل کا وہ صحیح طریق ، جس کی تعلیم آپ نے مجھے دی تھی، اُسے میں نے اِن لوگوں تک پہنچا دیا تھا۔ پھر یہی شہادت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دَور کے لوگوں پر دیں گے، اور قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؐ کا دَور آپ ؐ کی بعثت کے وقت سے قیامت تک ہے۔( آل عمران، حاشیہ نمبر ٦۹) |
Surah 16 : Ayat 84
وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِن كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا ثُمَّ لَا يُؤْذَنُ لِلَّذِينَ كَفَرُواْ وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ
(اِنہیں کچھ ہوش بھی ہے کہ اُس روز کیا بنے گی) جبکہ ہم ہر امت میں سے ایک گواہ1 کھڑا کریں گے، پھر کافروں کو نہ حجتیں پیش کرنے کا موقع دیا جائیگا2 نہ ان سے توبہ و استغفار ہی کا مطالبہ کیا جائے گا3
3 | یعنی اُس وقت اُن سے یہ نہیں کہا جائے گا کہ اب اپنے رب سے اپنے قصوروں کی معافی مانگ لو۔ کیونکہ وہ فیصلے کا وقت ہو گا، معافی طلب کر نے کا وقت گزر چکا ہوگا۔ قرآن اورحدیث دونوں اس معاملہ میں ناطق ہیں کہ توبہ و استغفار کی جگہ دنیا ہے نہ کہ آخرت۔ اور دنیا میں بھی اس کا موقع صرف اسی وقت تک ہے جب تک آثارِموت طاری نہیں ہو جاتے جس وقت آدمی کو یقین ہو جائے کہ اسکا آخری وقت آن پہنچا ہے اُس وقت کی توبہ ناقابلِ قبول ہے۔ موت کی سرحد میں داخل ہوتے ہی آدمی کی مہلتِ عمل ختم ہو جاتی ہے اور صرف جزا و سزا ہی کا اسحقاق باقی رہ جاتا ہے۔ |
2 | یہ مطلب نہیں ہے کہ انہیں صفائی پیش کرنے کی اجازت نہ دی جائے گی۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان کے جرائم ایسی صریح ناقابلِ انکاراورناقابلِ تاویل شہادتوں سے ثابت کر دیے جائیں گے کہ ان کے لیے صفائی پیش کرنے کی کوئی گنجائش نہ رہے گی۔ |
1 | یعنی اُس امت کا نبی، یا کوئی ایسا شخص جس نے نبی کے گزر جانے کے بعد اس اُمت کو توحید اور خالص خدا پرستی کی دعوت دی ہو،شرک اور مشرکانہ اوہام و رسوم پر متنبہ کیا ہو، اور روزِقیامت کی جواب دہی سے خبردار کیا ہو۔ وہ اس امر کی شہادت دے گا کہ میں نے پیغام حق اِن لوگوں کو پہنچا دیا تھا، اس لیے جو کچھ انہوں نے کیا وہ ناواقفیت کی بنا پر نہیں کیا، بلکہ جانتے بوجھتے کیا۔ |
Surah 16 : Ayat 89
وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِى كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا عَلَيْهِم مِّنْ أَنفُسِهِمْۖ وَجِئْنَا بِكَ شَهِيدًا عَلَىٰ هَـٰٓؤُلَآءِۚ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ ٱلْكِتَـٰبَ تِبْيَـٰنًا لِّكُلِّ شَىْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ
(اے محمدؐ، اِنہیں اُس دن سے خبردار کر دو) جب کہ ہم ہر امت میں خود اُسی کے اندر سے ایک گواہ اٹھا کھڑا کریں گے جو اُس کے مقابلے میں شہادت دے گا، اور اِن لوگوں کے مقابلے میں شہادت دینے کے لیے ہم تمہیں لائیں گے اور (یہ اسی شہادت کی تیاری ہے کہ) ہم نے یہ کتاب تم پر نازل کر دی ہے جو ہر چیز کی صاف صاف وضاحت کرنے والی ہے1 اور ہدایت و رحمت اور بشارت ہے اُن لوگوں کے لیے جنہوں نے سر تسلیم خم کر دیا ہے2
2 | یعنی جولوگ آج اِس کتاب کو مان لیں گے اوراطاعت کی راہ اختیار کر لیں گے ان کو یہ زندگی کے ہر معاملہ میں صحیح رہنمائی دے گی اور اس کی پیروی کی وجہ سے اُن پراللہ کی رحمتیں ہوں گی اور انہیں یہ کتاب خوشخبری دے گی کہ فیصلہ کے دن اللہ کی عدالت سے وہ کامیاب ہو کر نکلیں گے۔ بخلاف اس کے جو لوگ اسے نہ مانیں گے وہ صرف یہی نہیں کہ ہدایت اور رحمت سے محروم رہیں گے، بلکہ قیامت کے روز جب خدا کا پیغمر ان کے مقابلہ میں گواہی دینے کو کھڑا ہو گا تو یہی دستاویز اُن کے خلاف ایک زبردست حجت ہو گی۔ کیونکہ پیغمبرؐ یہ ثابت کر دے گا کہ اس نے وہ چیز انہیں پہنچا دی تھی جس میں حق اور باطل کا فرق کھول کر رکھ دیا گیا تھا۔ |
1 | یعنی ہرایسی چیز کی وضاحت جس پرہدایت وضلالت اور فلاح و خسران کا مدارہے،جس کا جاننا راست روی کے لیے ضروری ہے،جس سے حق اور باطل کا فرق نمایاں ہوتاہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غلطی سے لوگ تُبِیَانًا لِکُلِ شَیءٍ اوراس کی ہم معنی آیات کا مطلب یہ لے لیتے ہیں کہ قرآن میں سب کچھ بیان کردیاگیا ہے۔پھر وہ اسے نباہنے کےلیے قرآن سے سائنس اور فنون کے عجیب عجیب مضامین نکالنے کی کوشش شروع کردیتے ہیں۔ |
Surah 28 : Ayat 75
وَنَزَعْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا فَقُلْنَا هَاتُواْ بُرْهَـٰنَكُمْ فَعَلِمُوٓاْ أَنَّ ٱلْحَقَّ لِلَّهِ وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُواْ يَفْتَرُونَ
اور ہم ہر امّت میں سے ایک گواہ نکال لائیں گے1 پھر کہیں گے کہ "لاؤ اب اپنی دلیل2" اس وقت انہیں معلوم ہو جائے گا کہ حق اللہ کی طرف سے ہے، اور گم ہو جائیں گے ان کے وہ سارے جھوٹ جو انہوں نے گھڑ رکھے تھے
2 | یعنی اپنی صفائی میں کوئی ایسی حضت پیش کرو جس کی بنا پرتمہیں معاف کیاجاسکے۔ یاتویہ ثابت کروکہ تم جس شرک، جس انکار آخرت اورجس انکارنبوت پرقائم تھے وہ برحق تھااورتم نے معقول وجوہ کی بنا پریہ ملک مسلک اختیار کیاتھا۔ یایہ نہیں توپھر کم ازکم یہی ثابت کردو کہ خدا کی طرف سے تم کواس غلطی پرمتنبہ کرنے اورٹھیک بات تم تک پہنچانے کاکوئی انتظام نہیں کیاگیاتھا۔ |
1 | یعنی وہ اپنی نبی جس نے اُمت کوخبر دارکیا تھا، یاانبیاکےپیرووں میں سے کوئی ایسا ہدایت یافتہ انسان جس نے اس اُمت میں تبلیغ حق کافریضہ انجام دیاتھا، یاکوئی ایسا ذریعہ جس سے اُمت تک پیغام حق پہنچ چکاتھا |
Surah 39 : Ayat 69
وَأَشْرَقَتِ ٱلْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا وَوُضِعَ ٱلْكِتَـٰبُ وَجِاْىٓءَ بِٱلنَّبِيِّــۧنَ وَٱلشُّهَدَآءِ وَقُضِىَ بَيْنَهُم بِٱلْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی، کتاب اعمال لا کر رکھ دی جائے گی، انبیاء اور تمام گواہ1 حاضر کر دیے جائیں گے، لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور اُن پر کوئی ظلم نہ ہوگا
1 | گواہوں سے مراد وہ گواہ بھی ہیں جو اس بات کی شہادت دیں گے کہ لوگوں تک اللہ تعالٰی کا پیغام پہنچا دیا گیا تھا، اور وہ گواہ بھی جو لوگوں کے اعمال کی شہادت پیش کریں گے۔ ضروری نہیں ہے کہ یہ گواہ صرف انسان ہی ہوں۔ فرشتے اور جِن اور حیوانات، اور انسانوں کے اپنے اعضاء اور در و دیوار اور شجر و حجر، سب ان گواہوں میں شامل ہوں گے۔ |
Surah 11 : Ayat 18
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ ٱفْتَرَىٰ عَلَى ٱللَّهِ كَذِبًاۚ أُوْلَـٰٓئِكَ يُعْرَضُونَ عَلَىٰ رَبِّهِمْ وَيَقُولُ ٱلْأَشْهَـٰدُ هَـٰٓؤُلَآءِ ٱلَّذِينَ كَذَبُواْ عَلَىٰ رَبِّهِمْۚ أَلَا لَعْنَةُ ٱللَّهِ عَلَى ٱلظَّـٰلِمِينَ
اور اُس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ گھڑے؟1 ایسے لوگ اپنے رب کے حضور پیش ہوں گے اور گواہ شہادت دیں گے کہ یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ گھڑا تھا سنو! خدا کی لعنت ہے ظالموں پر2
2 | یہ عالم آخرت کا بیان ہے کہ وہاں یہ اعلان ہو گا |
1 | یعنی یہ کہے کہ اللہ کے ساتھ خدائی اور استحقاق بندگی میں دوسرے بھی شریک ہیں ۔ یا یہ کہے کہ خدا کو اپنے بندوں کی ہدایت و ضلالت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور اس نے کوئی کتاب اور کوئی نبی ہماری ہدایت کے لیے نہیں بھیجا ہے بلکہ ہمیں آزاد چھوڑ دیا ہے کہ جو ڈھنگ چاہیں اپنی زندگی کے لیے اختیار کرلیں۔ یا یہ کہے کہ خدا نے ہمیں یونہی کھیل کے طور پر پیدا کیا اور یونہی ہم کو ختم کر دے گا، کوئی جواب دہی ہمیں اس کے سامنے نہیں کرنی ہے اور کوئی جزا و سزا نہیں ہونی ہے |
Surah 40 : Ayat 51
إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ فِى ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ ٱلْأَشْهَـٰدُ
یقین جانو کہ ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی مدد اِس دنیا کی زندگی میں بھی لازماً کرتے ہیں1، اور اُس روز بھی کریں گے جب گواہ کھڑے ہوں گے2،
2 | یعنی جب اللہ کی عدالت قائم ہو گی اور اس کے حضور گواہ پیش کیے جائیں گے |
1 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، الصافّات، حاشیہ نمبر 93 |
Surah 85 : Ayat 2
وَٱلْيَوْمِ ٱلْمَوْعُودِ
اور اُس دن کی جس کا وعدہ کیا گیا ہے1
Surah 85 : Ayat 3
وَشَاهِدٍ وَمَشْهُودٍ
اور دیکھنے والے کی اور دیکھی جانے والی چیز کی1
1 | دیکھنے والے اور دیکھی جانے والی چیز کے بارے میں مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں، مگر ہمارے نزدیک سلسلہ کلام سے جو بات مناسبت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ دیکھنے والے سے مراد ہر وہ شخص ہے جو قیامت کے روز حاضر ہو گا اور دیکھی جانے والی چیز سے مراد خود قیامت ہے جس کے ہولناک احوال کو سب دیکھنے والے دیکھیں گے۔ یہ مجاہد، عکرمہ، ضحاک، ابن نجیح اور بعض دوسرے مفسرین کا قول ہے |
Surah 17 : Ayat 13
وَكُلَّ إِنسَـٰنٍ أَلْزَمْنَـٰهُ طَـٰٓئِرَهُۥ فِى عُنُقِهِۦۖ وَنُخْرِجُ لَهُۥ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ كِتَـٰبًا يَلْقَـٰهُ مَنشُورًا
ہر انسان کا شگون ہم نے اُس کے اپنے گلے میں لٹکا رکھا ہے1، اور قیامت کے روز ہم ایک نوشتہ اُس کے لیے نکالیں گے جسے وہ کھلی کتاب کی طرح پائے گا
1 | یعنی ہر انسان کی نیک بختی و بد بختی، اور اس کے انجام کی بھلائی اور برائی کے اسباب ووجوہ خود اس کی اپنی ذات ہی میں موجود ہیں۔ اپنے اوصاف، اپنی سیرت و کردار، اور اپنی قوتِ تمیز اور قوت فیصلہ و انتخاب کے استعمال سے وہ خود ہی اپنے آپ کو سعادت کا مستحق بھی بناتا ہے اور شفاف کا مستحق بھی۔ نادان لوگ اپنی قسمت کے شگون باہر لیتے پھرتے ہیں اور ہمیشہ خارجی اسباب ہی کو اپنی بدبختی کا ذمہ دار ٹھیراتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کا پروانہ خیر و شر اُن کے اپنے گلے کا ہار ہے۔ وہ اپنے گریبان میں منہ ڈالیں تو دیکھ لیں کہ جس چیز نے ان کو بگاڑ اور تباہی کے راستے پر ڈالا اور آخر کار خائب و خاسر بنا کر چھوڑا وہ ان کے اپنے ہی برے اوصاف اور برے فیصلے تھے، نہ یہ کہ باہر سے آکر کوئی چیز زبردستی ان پر مسلط ہوگئی تھی۔ |