Ayats Found (9)
Surah 2 : Ayat 90
بِئْسَمَا ٱشْتَرَوْاْ بِهِۦٓ أَنفُسَهُمْ أَن يَكْفُرُواْ بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ بَغْيًا أَن يُنَزِّلَ ٱللَّهُ مِن فَضْلِهِۦ عَلَىٰ مَن يَشَآءُ مِنْ عِبَادِهِۦۖ فَبَآءُو بِغَضَبٍ عَلَىٰ غَضَبٍۚ وَلِلْكَـٰفِرِينَ عَذَابٌ مُّهِينٌ
کیسا برا ذریعہ ہے جس سے یہ اپنے نفس کی تسلی حاصل کرتے ہیں کہ جو ہدایت اللہ نے نازل کی ہے، اس کو قبول کرنے سے صرف اِس ضد کی بنا پر انکار کر رہے ہیں کہ اللہ نے اپنے فضل (وحی و رسالت) سے اپنے جس بندے کو خود چاہا، نواز دیا1! لہٰذا اب یہ غضب بالائے غضب کے مستحق ہوگئے ہیں اور ایسے کافروں کے لیے سخت آمیز سزا مقرر ہے
2 | یہ لوگ چاہتے تھے کہ آنے والانبی ان کی قوم میں پیدا ہو۔ مگر جب وہ ایک دُوسری قوم میں پیدا ہوا ، جسے وہ اپنے مقابلےمیں ہیچ سمجھتے تھے، تو وہ اس کے انکار پر آمادہ ہوگئے۔ گویا ان کا مطلب یہ تھا کہ اللہ ان سے پوچھ کر نبی بھیجتا جب اس نے ان سے نہ پُوچھا اور اپنےفضل سے خود جسے چاہا ، نواز دیا ، تو وہ بگڑ بیٹھے |
1 | یہ لوگ چاہتے تھے کہ آنے والانبی ان کی قوم میں پیدا ہو۔ مگر جب وہ ایک دُوسری قوم میں پیدا ہوا ، جسے وہ اپنے مقابلےمیں ہیچ سمجھتے تھے، تو وہ اس کے انکار پر آمادہ ہوگئے۔ گویا ان کا مطلب یہ تھا کہ اللہ ان سے پوچھ کر نبی بھیجتا جب اس نے ان سے نہ پُوچھا اور اپنےفضل سے خود جسے چاہا ، نواز دیا ، تو وہ بگڑ بیٹھے |
Surah 2 : Ayat 105
مَّا يَوَدُّ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ مِنْ أَهْلِ ٱلْكِتَـٰبِ وَلَا ٱلْمُشْرِكِينَ أَن يُنَزَّلَ عَلَيْكُم مِّنْ خَيْرٍ مِّن رَّبِّكُمْۗ وَٱللَّهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِۦ مَن يَشَآءُۚ وَٱللَّهُ ذُو ٱلْفَضْلِ ٱلْعَظِيمِ
یہ لوگ جنہوں نے دعوت حق کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے، خواہ اہل کتاب میں سے ہوں یا مشرک ہوں، ہرگز یہ پسند نہیں کرتے کہ تمہارے رب کی طرف سے تم پر کوئی بھلائی نازل ہو، مگر اللہ جس کو چاہتا ہے، اپنی رحمت کے لیے چن لیتا ہے اور وہ بڑا فضل فرمانے والا ہے
Surah 2 : Ayat 109
وَدَّ كَثِيرٌ مِّنْ أَهْلِ ٱلْكِتَـٰبِ لَوْ يَرُدُّونَكُم مِّنۢ بَعْدِ إِيمَـٰنِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِندِ أَنفُسِهِم مِّنۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ ٱلْحَقُّۖ فَٱعْفُواْ وَٱصْفَحُواْ حَتَّىٰ يَأْتِىَ ٱللَّهُ بِأَمْرِهِۦٓۗ إِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ
اہل کتاب میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تمہیں ایمان سے پھیر کر پھر کفر کی طرف پلٹا لے جائیں اگرچہ حق ان پر ظاہر ہو چکا ہے، مگر اپنے نفس کے حسد کی بنا پر تمہارے لیے ان کی یہ خواہش ہے اس کے جواب میں تم عفو و در گزر سے کام لو1 یہاں تک کہ اللہ خود ہی اپنا فیصلہ نافذ کر دے مطمئن رہو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے
1 | یعنی ان کے عناد اور حسد کو دیکھ کر مشتعل نہ ہو، اپنا توازن نہ کھو بیٹھو، ان سے بحثیں اور مناظرے کرنے اور جھگڑنے میں اپنے قیمتی وقت اور اپنے وقار کو ضائع نہ کرو، صبر کے ساتھ دیکھتے رہو کہ اللہ کیا کرتا ہے ۔ فضولیات میں اپنی قوتیں صرف کرنے کے بجائے خدا کے ذکر اور بھلائی کے کاموں میں انہیں صرف کرو کہ یہ خدا کے ہاں کام آنے والی چیز ہے نہ کہ وہ |
Surah 4 : Ayat 54
أَمْ يَحْسُدُونَ ٱلنَّاسَ عَلَىٰ مَآ ءَاتَـٰهُمُ ٱللَّهُ مِن فَضْلِهِۦۖ فَقَدْ ءَاتَيْنَآ ءَالَ إِبْرَٲهِيمَ ٱلْكِتَـٰبَ وَٱلْحِكْمَةَ وَءَاتَيْنَـٰهُم مُّلْكًا عَظِيمًا
پھر کیا یہ دوسروں سے اس لیے حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے انہیں اپنے فضل سے نواز دیا1؟ اگر یہ بات ہے تو انہیں معلوم ہو کہ ہم نے تو ابراہیمؑ کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا کی اور ملک عظیم بخش دیا2
2 | ”ملکِ عظیم“ سے مراد دنیا کی امامت و رہنمائی اور اقوامِ عالم پر قائدانہ اقتدار ہے جو کتاب اللہ کا علم پانے اور اس علم و حکمت کے مطابق عمل کرنے سے لازماً حاصل ہوتا ہے |
1 | یعنی یہ اپنی نا اہلی کے باوجود اللہ کے جس فضل اور جس انعام کی آس خود لگائے بیٹھے تھے، اس سے جب دُوسرے لوگ سرفراز کر دیے گئے اور عرب کے اُمیّوں میں ایک عظیم الشان نبی کے ظہُور سے وہ رُوحانی و اخلاقی اور ذہنی و عملی زندگی پیدا ہوگئی جس کا لازمی نتیجہ عروج و سربلندی ہے، تو اب یہ اس پر حسد کر رہے ہیں اور یہ باتیں اسی حسد کی بنا پر ان کے منہ سے نکل رہی ہیں |
Surah 5 : Ayat 27
۞ وَٱتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ٱبْنَىْ ءَادَمَ بِٱلْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ ٱلْأَخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَۖ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ ٱللَّهُ مِنَ ٱلْمُتَّقِينَ
اور ذرا انہیں آدمؑ کے دو بیٹوں کا قصہ بھی بے کم و کاست سنا دو جب اُن دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی اور دوسرے کی نہ کی گئی اُس نے کہا 1"میں تجھے مار ڈالوں گا" اس نے جواب دیا "اللہ تو متقیوں ہی کی نذریں قبول کرتا ہے
1 | یعنی تیری قربانی اگر قبول نہیں ہوئی تو یہ میرے کسی قصُور کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ تجھ میں تقویٰ نہیں ہے، لہٰذا میری جان لینے کے بجائے تجھ کو اپنے اندر تقویٰ پیدا کرنے کی فکر کرنی چاہیے |
Surah 12 : Ayat 8
إِذْ قَالُواْ لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلَىٰٓ أَبِينَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّ أَبَانَا لَفِى ضَلَـٰلٍ مُّبِينٍ
یہ قصہ یوں شروع ہوتا ہے کہ اس کے بھائیوں نے آپس میں کہا 1"یہ یوسفؑ اور اس کا بھائی، دونوں ہمارے والد کو ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں حالانکہ ہم ایک پورا جتھا ہیں سچی بات یہ ہے کہ ہمارے ابا جان با لکل ہی بہک گئے ہیں2
2 | اس فقرے کی رُوح سمجھنے کے لیے بدویانہ قبائلی زندگی کے حالات کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ جہاں کوئی ریاست موجود نہیں ہوتی اور آزاد قبائل ایک دوسرے کے پہلو میں آباد ہوتے ہیں، وہاں ایک شخص کی قوت کا سارا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ اس کے اپنے بیٹے، پوتے، بھائی، بھتیجے بہت سے ہوں جو وقت آنے پر اس کی جان و مال اور آبرو کی حفاظت کے لیے اس کا ساتھ دے سکیں۔ ایسے حالات میں عورتوں اور بچوں کی بہ نسبت فطری طور پر آدمی کو وہ جواب بیٹے زیادہ عزیز ہوتے ہیں جو دشمنوں کے مقابلہ میں کام آسکتے ہوں۔ اسی بنا پر ان بھائیوں نے کہا کہ ہمارے والد بڑھاپے میں سٹیا گئے ہیں۔ ہم جوان بیٹوں کا جتھا، جو بُرے وقت پر اُن کے کام آسکتا ہے، ان کو اتنا عزیز نہیں ہے جتنے یہ چھوٹے چھوٹے بچے جو ان کے کسی کام نہیں آسکتے بلکہ الٹے خود ہی حفاظت کے محتاج ہیں |
1 | اس سے مراد حضرت یوسف ؑ کے حقیقی بھائی بہن یمین ہیں جو ان سے کئی سال چھوٹے تھے۔ ان کی پیدائش کے وقت ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت یعقوب ؑ ان دونوں بے ماں کے بچوں کا زیادہ خیال رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ اس سے محبت کی وجہ یہ بھی تھی کہ اُن کی ساری اولاد میں صرف ایک حضرت یوسف ؑ ہی ایسے تھے جن کے اندر اُن کو آثارِ رُشد و سعادت نظر آتے تھے۔ اوپر حضرت یوسف ؑ کا خواب سن کر انہوں نے جو کچھ فرمایا اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے اس بیٹے کی غیر معمولی صلاحیتوں سے خوب واقف تھے۔ دوسری طرف ان دس بڑے صاحبزادوں کی سیرت کا جو حال تھا اس کا اندازہ بھی آگے کے واقعات سے ہوجاتا ہے۔ پھر کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ ایک نیک انسان ایسی اولاد سے خوش رہ سکے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ بائیبل میں برادرانِ یوسف ؑ کے حدس کی ایک ایسی وجہ بیان کی گئی ہے جس سے اُلٹا الزام حضرت یوسف ؑ پر عائد ہوتا ہے۔ اس کا بیان ہے کہ حضرت یوسف ؑ بھائیوں کی چغلیاں باپ سے کھایا کرتے تھے اس وجہ سے بھائی ان سے ناراض تھے |
Surah 17 : Ayat 62
قَالَ أَرَءَيْتَكَ هَـٰذَا ٱلَّذِى كَرَّمْتَ عَلَىَّ لَئِنْ أَخَّرْتَنِ إِلَىٰ يَوْمِ ٱلْقِيَـٰمَةِ لَأَحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهُۥٓ إِلَّا قَلِيلاً
پھر وہ بولا 1"دیکھ تو سہی، کیا یہ اس قابل تھا کہ تو نے اِسے مجھ پر فضیلت دی؟ اگر تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے تو میں اس کی پوری نسل کی بیخ کنی کر ڈالوں، بس تھوڑے ہی لوگ مجھ سے بچ سکیں گے"
1 | ’’بیخ گنی کر ڈالوں“، یعنی ان کے قدم سلامتی کی راہ سے اکھاڑ پھینکوں۔”احتناک“کے اصل معنی کسی چیز کو جڑ سے اکھاڑ دینے کے ہیں۔ چونکہ انسان کا اصل مقام خلافتِ الہٰی ہے جس کا تقاضا اطاعت میں ثابت قدم رہنا ہے، اس لیے اس مقام سے اُس کا ہٹ جانا بالکل ایسا ہے جیسے کسی درخت کا بیخ دبن سے اُکھاڑ پھینکا جانا۔ |
Surah 48 : Ayat 15
سَيَقُولُ ٱلْمُخَلَّفُونَ إِذَا ٱنطَلَقْتُمْ إِلَىٰ مَغَانِمَ لِتَأْخُذُوهَا ذَرُونَا نَتَّبِعْكُمْۖ يُرِيدُونَ أَن يُبَدِّلُواْ كَلَـٰمَ ٱللَّهِۚ قُل لَّن تَتَّبِعُونَا كَذَٲلِكُمْ قَالَ ٱللَّهُ مِن قَبْلُۖ فَسَيَقُولُونَ بَلْ تَحْسُدُونَنَاۚ بَلْ كَانُواْ لَا يَفْقَهُونَ إِلَّا قَلِيلاً
جب تم مال غنیمت حاصل کرنے کے لیے جانے لگو گے تو یہ پیچھے چھوڑے جانے والے لوگ تم سے ضرور کہیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے دو1 یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے فرمان کو بدل دیں2 اِن سے صاف کہہ دینا کہ 3"تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے، اللہ پہلے ہی یہ فرما چکا ہے" یہ کہیں گے کہ "نہیں، بلکہ تم لوگ ہم سے حسد کر رہے ہو" (حالانکہ بات حسد کی نہیں ہے) بلکہ یہ لوگ صحیح بات کو کم ہی سمجھتے ہیں
3 | اللہ پہلے یہ فرما چکا ہے کے الفاظ سے لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ اس آیت سے پہلے کوئی حکم اس مضمون کا آیا ہوا ہوگا جس کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے، اور چونکہ اس سورہ میں اس مضمون کا کوئی حکم اس آیت سے پہلے نہیں ملتا اس لیے انہوں نے قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر اسے تلاش کرنا شروع کیا، یہاں تک کہ سورہ توبہ کی آیت 84 انہیں مل گئی جس میں یہی مضمون ایک اور موقع پر ارشاد ہوا ہے۔ لیکن در حقیقت وہ آیت اس کی مصداق نہیں ہے، کیونکہ وہ غزوہ تبوک کے سلسلے میں نازل ہوئی تھی جس کا زمانہ نزول سورہ فتح کے زمانہ نزول سے تین سال بعد کا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اس آیت کا اشارہ خود اسی سورہ کی آیات 18 ۔ 19 کی طرف ہے ، اور اللہ کے پہلے فرما چکنے کا مطلب اس آیت سے پہلے فرمانا نہیں ہے بلکہ مخلَّفین کے ساتھ اس گفتگو سے پہلے فرمانا ہے۔ مخلَّفین کے ساتھ یہ گفتگو ، جس کے متعلق یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو پیشگی ہدایات دی جا رہی ہیں، خیبر کی مہم پر جانے کے وقت ہونے والی تھی ، اور یہ پوری سورۃ ، جس میں آیات 18 ۔ 19 بھی شامل ہیں، اس سے تین مہینے پہلے حدیبیہ سے پلٹتے وقت راستے میں نازل ہو چکی تھیں ۔ سلسلہ کلام کو غور سےدیکھیے تو معلوم ہو جاۓ گا کہ یہاں اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو یہ ہدایت دے رہا ہے کہ جب تمہارے مدینہ واپس ہونے کے بعد یہ پیچھے رہ جانے والے لوگ آ کر تم سے یہ عذرات بیان کریں تو ان کو یہ جواب دینا، اور خیبر کی مہم پر جاتے وقت جب وہ تمہارے ساتھ چلنے کی خواہش ظاہر کریں تو ان سے یہ کہنا |
2 | اللہ کے فرمان سے مراد یہ فرمان ہے کہ خیبر کی مہم پر حضور کے ساتھ صرف انہی لوگوں کو جانے کی اجازت دی جاۓ گی جو حدیبیہ کی مہم پر آپ کے ساتھ گۓ تھے اور بیعت رضوان میں شریک ہوۓ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے خیبر کے اموال غنیمت ان ہی کے لیے مخصوص فرما دیے تھے جیسا کہ آگے آیت 18 میں بصراحت ارشاد ہوا ہے |
1 | یعنی عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب یہی لوگ ، جو آج خطرے کی مہم پر تمہارے ساتھ جانے سے جی چُرا گۓ تھے، تمہیں ایک ایسی مہم پر جاتے دیکھیں گے جس میں ان کو آسان فتح اور بہت سے اموال غنیمت کے حصول کا امکان نظر آۓ گا، اور اس وقت یہ خود دوڑے آئیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ لے چلو۔ یہ وقت صلح حدیبیہ کے تین ہی مہینے بعد آگیا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خیبر پر چڑھائی کی اور بڑی آسانی کے ساتھ اسے فتح کر لیا۔ اس وقت ہر شخص کو یہ بات صاف نظر آ رہی تھی کہ قریش سے صلح ہو جانے کے بعد اب خیبر ہی کے نہیں ، بلکہ تَیما ، فَدَک، وادی القریٰ، اور شمالی حجاز کے دوسرے یہودی بھی مسلمانوں کی طاقت کا مقابلہ نہ کر سکیں گے اور یہ ساری بستیاں پکّے پھل کی طرح اسلامی حکومت کی گود میں آ گریں کی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ان آیات میں پیشگی خبر دار کر دیا کہ اطراف مدینہ کے یہ موقع پرست لوگ ان آسان فتوحات کو حاصل ہوتے دیکھ کر ان میں حصہ بٹا لینے کے لیے آ کھڑے ہوں گے، مگر تم انہیں صاف جواب دے دینا کہ ان میں حصہ لینے کا موقع تمہیں ہر گز نہ دیا جاۓ گا، بلکہ یہ ان لوگوں کا حق ہے جو خطرات کے مقابلے میں سرفروشی کے لیے آگے بڑھے تھے |
Surah 113 : Ayat 5
وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ
اور حاسد کے شر سے جب کہ وہ حسد کرے1
1 | حسد کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کو اللہ نے جو نعمت یا فضیلت یا خوبی عطا کی ہو اس پر کوئی دوسرا شخص چلے اور یہ چاہے کہ وہ اُسے سے سلب ہو کر حاسد کو مل جائے یا کم از کم یہ کہ اُس سے ضرور چِھن جائے۔ البتہ حسد کی تعریف میں یہ بات نہیں آتی کہ کوئی شخص یہ چاہے کہ جس فضل دوسرے کو ملا ہے وہ مجھے بھی مل جائے، یہاں حاسد کے شر سے اللہ تعالٰی کی پناہ اُس حالت میں مانگی گئی ہے جب کہ وہ حسد کرے، یعنی اپنے دل کی آگ بجھانے کے لیے قول یا عمل سے کوئی اقدام کرے۔ کیونکہ جب تک وہ کوئی اقدام نہیں کرتا اُس وقت تک اُس کا جلنا بجائے خود چاہے بُراسہی، مگر محسود کے لیے ایسا شر نہیں بنتا کہ اس سے پناہ مانگی جائے۔ پھر جب ایسا شر کسی حاسد سے ظاہر ہو تو اُس سے بچنے کے لیے اولین تدبیر یہ ہے کہ اللہ کی پناہ مانگی جائے۔ اس کے ساتھ حاسد کے شر سے امان پانے کے لیے چند چیزیں اور بھی مددگار ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ انسان اللہ پر بھروسہ کرے اور یقین رکھے کہ جب تک اللہ نہ چاہے کوئی اُس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ دوسرے یہ کہ حاسد کی باتو ں پر صبر کرے، بے صبر ہو کر ایسی باتیں یا کاروائیاں نہ کرنے لگے جن سے وہ خود بھی اخلاقی طور پر حاسد ہی کی سطح پر آجائے۔ تیسرے یہ کہ حاسد خواہ خدا سے بے خوف اور خلق سے بے شرم ہو کر کیسی ہی بیہودہ حرکتیں کرتا رہے، محسود بہر حال تقویٰ پر قائم رہے ۔ چوتھے یہ کہ اپنے دل کو اُس کی فکر سے بالکل فارغ کر لے اور اُس کو اِس طرح نظر انداز کر دے کہ گویا وہ ہے ہی نہیں۔ کیونکہ اُس کی فکر میں پڑنا حاسد سے مغلوب ہونے کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ پانچویں یہ کہ حاسد کے ساتھ بدی سے پیش آنا تو درکنار، جب کبھی ایسا موقع آئے کہ محسود اس کے ساتھ بھلائی اور احسان کا برتاؤ کر سکتا ہو تو ضرور ایسا ہی کرے، قطع نظر اِس سے کہ حاسد کے دل کی جلن محسود کے اِس نیک رویّہ سے مٹتی ہے یا نہیں۔ چھٹے یہ کہ محسود توحید کے عقیدے کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر اس بات پر ثابت قدم رہے، کیونکہ جس دل میں توحید بسی ہو ئی ہو اس میں خدا کے خوف کے ساتھ کسی اور کا خوف جگہ ہی نہیں پاسکتا |