Ayats Found (42)
Surah 5 : Ayat 27
۞ وَٱتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ٱبْنَىْ ءَادَمَ بِٱلْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ ٱلْأَخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَۖ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ ٱللَّهُ مِنَ ٱلْمُتَّقِينَ
اور ذرا انہیں آدمؑ کے دو بیٹوں کا قصہ بھی بے کم و کاست سنا دو جب اُن دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی اور دوسرے کی نہ کی گئی اُس نے کہا 1"میں تجھے مار ڈالوں گا" اس نے جواب دیا "اللہ تو متقیوں ہی کی نذریں قبول کرتا ہے
1 | یعنی تیری قربانی اگر قبول نہیں ہوئی تو یہ میرے کسی قصُور کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ تجھ میں تقویٰ نہیں ہے، لہٰذا میری جان لینے کے بجائے تجھ کو اپنے اندر تقویٰ پیدا کرنے کی فکر کرنی چاہیے |
Surah 9 : Ayat 70
أَلَمْ يَأْتِهِمْ نَبَأُ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَقَوْمِ إِبْرَٲهِيمَ وَأَصْحَـٰبِ مَدْيَنَ وَٱلْمُؤْتَفِكَـٰتِۚ أَتَتْهُمْ رُسُلُهُم بِٱلْبَيِّنَـٰتِۖ فَمَا كَانَ ٱللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَـٰكِن كَانُوٓاْ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
کیا اِن لوگوں کو اپنے پیش روؤں کی تاریخ نہیں پہنچی؟ نوحؑ کی قوم، عاد، ثمود، ابراہیمؑ کی قوم، مدین کے لوگ اور وہ بستیاں جنہیں الٹ دیا گیا1 اُن کے رسول ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے، پھر یہ اللہ کا کام نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا مگر وہ آپ ہی اپنے اوپر ظلم کرنے والے تھے2
2 | “یعنی ان کی تباہی و بربادی اس وجہ سے نہیں ہوئی کہ اللہ کو ان کے ساتھ کوئی دشمنی تھی اور وہ چاہتا تھا کہ انہیں تباہ کرے۔ بلکہ دراصل انہوں نے خود ہی اپنے لیے وہ طرزِ زندگی پسند کیا جو انہیں بربادی کی طرف لےجانے والا تھا۔ اللہ نے تو انہیں سوچنے سمجھنے اور سنبھلنے کا پورا موقع دیا، ان کی فہمائش کے لیے رسول بھیجے، رسولوں کے ذریعہ سے ان کو غلط روی کے بُرے نتائج سے آگاہ کیا اور انہیں کھول کھول کر نہایت واضح طریقے سے بتا دیا کہ ان کے لیے فلاح کا راستہ کونسا ہے اور ہلاکت و بربادی کا کونسا۔ مگر جب انہوں نے اصلاح حال کے کسی موقع سے فائدہ نہ اُٹھایا اور ہلاکت کی راہ چلنے ہی پر اصرار کیا تو لامحالہ ان کا وہ انجام ہونا ہی تھا جو بالآخر ہو کر رہا، اور یہ ظلم ان پر اللہ نے نہیں کیا بلکہ انہوں نے خود اپنے اوپر کیا |
1 | اشارہ ہے قومِ لوط کی بستیوں کی طرف |
Surah 10 : Ayat 71
۞ وَٱتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ نُوحٍ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِۦ يَـٰقَوْمِ إِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُم مَّقَامِى وَتَذْكِيرِى بِـَٔـايَـٰتِ ٱللَّهِ فَعَلَى ٱللَّهِ تَوَكَّلْتُ فَأَجْمِعُوٓاْ أَمْرَكُمْ وَشُرَكَآءَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ ٱقْضُوٓاْ إِلَىَّ وَلَا تُنظِرُونِ
اِن کو نوحؑ1 کا قصہ سناؤ، اُس وقت کا قصہ جب اُس نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ “اے برادران قوم، اگر میرا تمہارے درمیان رہنا اور اللہ کی آیات سنا سنا کر تمہیں غفلت سے بیدار کرنا تمہارے لیے ناقابل برداشت ہو گیا ہے تو میرا بھروسہ اللہ پر ہے، تم اپنے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کو ساتھ لے کر ایک متفقہ فیصلہ کر لو اور جو منصوبہ تمہارے پیش نظر ہو اس کو خوب سوچ سمجھ لو تاکہ اس کا کو ئی پہلو تمہاری نگاہ سے پوشیدہ نہ رہے، پھر میرے خلاف اس کو عمل میں لے آؤ اور مجھے ہرگز مہلت نہ دو2
2 | یہ چیلنج تھا کہ میں اپنے کام سے باز نہ آؤں گا، تم میرے خلاف جو کچھ کرنا چاہتے ہو کر گزرو، میرا بھروسہ اللہ پر ہے۔(تقابل کے لیے ملاحظہ ہو، ہود، آیت ۵۵) |
1 | یہاں تک تو ان لوگوں کو معقول دلائل اور دل کو لگنے والے نصائح کے ساتھ سمجھایا گیا تھا کہ ان کے عقائد اور خیالات اور طریقوں میں غلطی کیا ہے اور وہ کیوں غلط ہے، اور اس کے مقابلے میں صحیح راہ کیا ہے اور وہ کیوں صحیح ہے۔ اب ان کے اُس طرزِعمل کی طرف توجہ منعطف ہوتی ہے جو وہ اِس سیدھی سیدھی اور صاف صاف تفہیم و تلقین کے جواب میں اختیار کر رہے تھے۔ دس گیارہ سال سے ان کی روش یہ تھی کہ وہ بجائے اس کے اس معقول تنقید اور صحیح رہنمائی پرغور کر کے اپنی گمراہیوں پر نظر ثانی کرتے، اُلٹے اُس شخص کی جان کے دشمن ہو گئے تھے جو ان باتوں کو اپنی کسی ذانی غرض کے لیے نہیں بلکہ انہی کے بھلے کے لیے پیش کر رہا تھا۔ وہ دلیلوں کا جواب پتھروں سےاور نصیحتوں کا جواب گالیوں سے دے رہے تھے۔ اپنی بستی میں ایسے شخص کا وجود ان کے لیے سخت ناگوار، بلکہ ناقابلِ برداشت ہو گیا تھا جو غلط کو غلط کہنے والا ہو اور صحیح بات بتانے کی کوشش کرتا ہو۔ ان کا مطالبہ یہ تھا کہ ہم اندھوں کے درمیان جو آنکھوں والا پایا جاتا ہے وہ ہماری آنکھیں کھولنے کے بجائے اپنی آنکھیں بھی بند کر لے، ورنہ ہم زبردستی اُس کی آنکھیں پھوڑ دیں گے تاکہ بینائی جیسی چیز ہماری سرزمین میں نہ پائی جائے۔ یہ طرزِعمل جو انہوں نے اختیار کر رکھا تھا، اس پر کچھ اور فرمانے کے بجائے اللہ تعالٰی اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ انہیں نُوحؑ کا قصہ سُنا دو، اسی قصے میں وہ اپنے اور تمہارے معاملے کا جواب بھی پالیں گے۔ |
Surah 14 : Ayat 9
أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَؤُاْ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَۛ وَٱلَّذِينَ مِنۢ بَعْدِهِمْۛ لَا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا ٱللَّهُۚ جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِٱلْبَيِّنَـٰتِ فَرَدُّوٓاْ أَيْدِيَهُمْ فِىٓ أَفْوَٲهِهِمْ وَقَالُوٓاْ إِنَّا كَفَرْنَا بِمَآ أُرْسِلْتُم بِهِۦ وَإِنَّا لَفِى شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَنَآ إِلَيْهِ مُرِيبٍ
کیا تمہیں1 اُن قوموں کے حالات نہیں پہنچے جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں؟ قوم نوحؑ، عاد، ثمود اور اُن کے بعد آنے والی بہت سی قومیں جن کا شمار اللہ ہی کو معلوم ہے؟ اُن کے رسول جب اُن کے پاس صاف صاف باتیں اور کھلی کھلی نشانیاں لیے ہوئے آئے تو اُنہوں نے اپنے منہ میں ہاتھ دبا لیے2 اور کہا کہ 3"جس پیغام کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو ہم اس کو نہیں مانتے اور جس چیز کی تم ہمیں دعوت دیتے ہو اُس کی طرف سے ہم سخت خلجان آمیز شک میں پڑے ہوئے ہیں"
3 | یعنی ایسا شک جس کی وجہ سے اطمینان رخصت ہو گیا ہے۔ یہ دعوتِ حق کا خاصہ ہے کہ جب وہ اٹھتی ہے تو اس کی وجہ سے ایک کھلبلی ضرور مچ جاتی ہے اور انکار و مخالفت کر نے والے بھی اطمینان کے ساتھ نہ اس کا انکار کر سکتے ہیں نہ اُس کی مخالفت۔ وہ چاہے کتنی ہی شدت کے ساتھ اُسے رد کریں اور کتنا ہی زور اُس کی مخالفت میں لگائیں ، دعوت کی سچائی ، اس کی معقول دلیلیں ، اُس کی کھر کھری اور بے لاگ باتیں ، اُس کی دل موہ لینے والی زبان ، اس کے داعی کی بے داغ سیرت، اُس پر ایمان لانے والوں کی زندگیوں کا صریح انقلاب ، اور اپنے صدقِ مقال کے عین مطابق اُن کے پاکیزہ اعمال، یہ ساری چیزیں مِل جُل کر کٹَّے سے کٹّے مخالف کے دل میں بھی ایک اضطراب پیدا کر دیتی ہیں۔ داعیانِ حق کو بے چین کرنے والا خود بھی چین سے محروم ہو جاتا ہے |
2 | ان الفاظ کے مفہوم میں مفسرین کے درمیان بہت کچھ اختلاف پیش آیا ہے اور مختلف لوگوں نے مختلف معنی بیان کیے ہیں۔ ہمارے نزدیک اِن کا قریب ترین مفہوم وہ ہے جسے ادا کرنے کے لیے ہم اردو میں کہتے ہیں کانو ں پر ہاتھ رکھے، یا دانتوں میں انگلی دبائی۔ اس لیے کہ بعد کا فقرہ صاف طور پر انکار اور اچنبھے ، دونوں مضامین پر مشتمل ہے اور کچھ اس میں غصے کا انداز بھی ہے |
1 | حضرت موسیٰ کی تقریر اوپر ختم ہوگئی۔ اب براہِ راست کفارِ مکہ سے خطاب شرو ع ہوتا ہے |
Surah 26 : Ayat 69
وَٱتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ إِبْرَٲهِيمَ
اور اِنہیں ابراہیمؑ کا قصہ سناؤ1
1 | یہاں حضرت ابراہیمؑ کی حیات طیبہ کے اس دور کا قصہ بیان ہوا ہے جب کہ نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد شرک و توحید کے مسئلے پر آپ کی اپنے خاندان اور اپنی قوم سے کشمکش شروع ہوئی تھی۔ اس دور کی تاریخ کے مختلف گوشے قرآن مجید میں حسب ذیل مقامات پر بیان ہوئے ہیں : البقرہ رکوع 35۔ الانعام رکوع 9۔ مریم رکوع 3۔ الانبیاء رکوع 5۔ الصّٰفّٰت رکوع 3۔ الممتحنہ رکوع 1 )۔ سیرت ابراہیمی کے اس دور کی تاریخ خاص طور پر جس وجہ سے قرآن مجید بار بار سامنے لاتا ہے وہ یہ ہے کہ عرب کے لوگ بالعموم اور قریش بالخصوص اپنے آپ کو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا پیرو سمجھتے اور کہتے تھے اور یہ دعویٰ رکھتے تھے کہ ملت ابراہیمی ہی ان کا مذہب ہے۔ مشرکین عرب کے علاوہ نصاریٰ اور یہود کا بھی یہ دعویٰ تھا کہ حضرت ابراہیمؑ ان کے دین کے پیشوا ہیں۔ اس پر قرآن مجید جگہ جگہ ان لوگوں کو متنبہ کرتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام جو دین لے کر آئے تھے وہ یہی خالص اسلام تھا جسے نبی عربی محمد صلی اللہ علیہ و سلم لائے ہیں اور جس سے آج تم لوگ بر سر پیکار ہو۔ وہ مشرک نہ تھے بلکہ ان کی ساری لڑائی شرک ہی کے خلاف تھی اور اسی لڑائی کی بدولت انہیں اپنے باپ، خاندان، قوم، وطن سب کو چھوڑ کر شام و فلسطین اور حجاز میں غریب الوطنی کی زندگی بسر کرنی پڑی تھی۔ اسی طرح وہ یہودی و نصرانی بھی نہ تھے بلکہ یہودیت و نصرانیت تو ان کے صدیوں بعد وجود میں آئیں۔ اس تاریخی استدلال کا کوئی جواب نہ مشرکین کے پاس تھا نہ یہود و نصاریٰ کے پاس، کیونکہ مشرکین کو بھی یہ تسلیم تھا کہ عرب میں بتوں کی پرستش حضرت ابراہیمؑ کے کئی صدی بعد شروع ہوئی تھی، اور یہود و نصاریٰ بھی اس سے انکار نہ کر سکتے تھے کہ حضرت ابراہیمؑ کا زمانہ یہودیت اور عیسائیت کی پیدائش سے بہت پہلے تھا۔ اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا تھا کہ جن مخصوص عقائد اور اعمال پر یہ لوگ اپنے دین کا مدار رکھتے ہیں وہ اس دین قدیم کے اجزاء نہیں ہیں جو ابتدا سے چلا آ رہا تھا، اور صحیح دین وہی ہے جو ان آمیزشوں سے پاک ہو کر خالص خدا پرستی پر مبنی ہو۔ اسی بنیاد پر قرآن کہتا ہے : مَا کَانَاِبْرَاھِیْمُ یَھُوْدِیاً وَّ لَا نَصْرَا نِیاً وَّلٰکِنْ کَانَ حَنِیْفاً مُّسْلِماً وَّ مَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ہ اِنَّ اَوْلَی النَّاسِ بِاِبْرٰھِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ وَھٰذَ ا النَّبِیُّ وَا لَّذِیْنَ اٰمِنُوْ ا مَعَہٗ۔ (آل عمران۔ آیات 67۔ 68 )۔ ابراہیم نہ یہودی تھا نہ عیسائی بلکہ وہ تو ایک مسلم یکسو تھا۔ اور وہ مشرکوں میں سے بھی نہ تھا۔ در حقیقت ابراہیمؑ سے نسبت رکھنے کا سب سے زیادہ حق ان ہی لوگوں کو پہنچتا ہے جنہوں نے اس کے طریقے کی پیروی کی (اور اب یہ حق) اس نبی اور اس کے ساتھ ایمان لانے والوں کو (پہنچتا ہے ) |
Surah 12 : Ayat 3
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ ٱلْقَصَصِ بِمَآ أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ هَـٰذَا ٱلْقُرْءَانَ وَإِن كُنتَ مِن قَبْلِهِۦ لَمِنَ ٱلْغَـٰفِلِينَ
اے محمدؐ، ہم اس قرآن کو تمہاری طرف وحی کر کے بہترین پیرایہ میں واقعات اور حقائق تم سے بیان کرتے ہیں، ورنہ اس سے پہلے تو (ان چیزو ں سے) تم بالکل ہی بے خبر تھے1
1 | سورہ کے دیباچے میں کرچکے ہیں کہ کفار مکہ میں سے بعض لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کا امتحان لینے کے لیے، بلکہ اپنے نزدیک آپ کا بھرم کھولنے کے لیے، غالباً یہودیوں کے اشارے پر، آپ کے سامنے اچانک یہ سوال پیش کیا تھا کہ بنی اسرائیل کے مصر پہنچنے کا کیا سبب ہُوا۔ اسی بنا پر ان کے جواب میں تاریخ بنی اسرائیل کا یہ باب پیش کرنے سے پہلے تمہیداً یہ فقرہ ارشاد ہُوا ہے کہ اے محمد ؐ !تم ان واقعات سے بے خبر تھے، دراصل یہ ہم ہیں جو وحی کے ذریعہ سے تمہیں ان کی خبر دے رہے ہیں۔ بظاہر اس فقرے میں خطاب نبی ؐ سے ہے، لیکن اصل میں روئے سخن اُن مخالفین کی طرف ہے جن کو یقین نہ تھا کہ آپ کو وحی کے ذریعہ سے علم حاصل ہوتا ہے |
Surah 12 : Ayat 111
لَقَدْ كَانَ فِى قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّأُوْلِى ٱلْأَلْبَـٰبِۗ مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرَىٰ وَلَـٰكِن تَصْدِيقَ ٱلَّذِى بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَىْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
اگلے لوگوں کے ان قصوں میں عقل و ہوش رکھنے والوں کے لیے عبرت ہے یہ جو کچھ قرآن میں بیان کیا جا رہا ہے یہ بناوٹی باتیں نہیں ہیں بلکہ جو کتابیں اس سے پہلے آئی ہوئی ہیں انہی کی تصدیق ہے اور ہر چیز کی تفصیل اور ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت
Surah 28 : Ayat 3
نَتْلُواْ عَلَيْكَ مِن نَّبَإِ مُوسَىٰ وَفِرْعَوْنَ بِٱلْحَقِّ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
ہم موسیٰؑ اور فرعون کا کچھ حال ٹھیک ٹھیک تمہیں سُناتے ہیں1 ایسے لوگوں کے فائدے کے لیے جو ایمان لائیں2
2 | یعنی جولوگ بات ماننےکےلیےتیات ہی نہ ہوں ان کوسنانا توبےکار ہےہے۔ البتہ جنہوں نےہٹ دھرمی کاقفل اپنے دلوں پرچڑھانہ رکھا ہو وہ اس گفتگو کے مخاطب ہیں۔ |
1 | تقابل کےلیے ملاحظہ ہوالبقرہ(رکوع۶)۔ الاعراف(رکوع۱۳تا۱۶)۔ یونس(رکوع۸۔۹)ہود(رکوع۹)۔ بنی اسرائیل(رکوع۱۲)۔ مریم(رکوع۴)۔طٰہٰ(رکوع۱۔۴)۔ المومنون(رکوع۳)الشعراء(رکوع۲۔۴)۔ النمل(رکوع۱)۔ العنکبوت(رکوع۴) المومن(رکوع۳۔۵)۔ الزخرف(رکوع۵)الدخان(رکوع۱)۔الزاریات(رکوع۲)۔النازعات(رکوع۱)۔ |
Surah 28 : Ayat 25
فَجَآءَتْهُ إِحْدَٮٰهُمَا تَمْشِى عَلَى ٱسْتِحْيَآءٍ قَالَتْ إِنَّ أَبِى يَدْعُوكَ لِيَجْزِيَكَ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَاۚ فَلَمَّا جَآءَهُۥ وَقَصَّ عَلَيْهِ ٱلْقَصَصَ قَالَ لَا تَخَفْۖ نَجَوْتَ مِنَ ٱلْقَوْمِ ٱلظَّـٰلِمِينَ
(کچھ دیر نہ گزری تھی کہ) ان دونوں عورتوں میں سے ایک شرم و حیا سے چلتی ہوئی اس کے پاس آئی اور کہنے لگی1 "میرے والد آپ کو بُلا رہے ہیں تاکہ آپ نے ہمارے جانوروں کو پانی جو پلایا ہے اس کا اجر آپ کو دیں2" موسیٰؑ جب اس کے پاس پہنچا اور اپنا سارا قصہ اسے سُنایا تو اس نے کہا "کچھ خوف نہ کرو، اب تم ظالموں سے بچ نکلے ہو"
2 | یہ بات بھی انہوں نے شرم وحیا ہی کی وجہ سے انہوں نےکہی، کیونکہ ایک غیرمرد کے پاس اکیلی آنے کی کوئی معقول وجہ بتانی ضروری تھی۔ ورنہ ظاہر ہے کہ ایک شریف آدمی اگر عورت ذات میں مبتلا دیکھ کراس کی کوئی مدد کی ہوتو اس کابدلہ دینے کےلیے کہنا کوئی اچھی بات نہ تھی۔ اورپھر اس بدلے کانام سن لینے کےباوجود حضرے موسٰی علیہ السلام جیسے عالی ظرف انسان کاچل پڑنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس وقت انتہائی اضطرارکی حالت میںتھے۔ بےسروسامانی کے عالم میںیکایک مصر سے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ مدین تک کم ازکم آٹھ دن میںپینچے ہوں گے۔ بھوک پیاس اورسفر کی تکان سے بُرا حال ہوگا۔اورسب سے بڑھ کر یہ فکر ہوگی کہ اس دیارغیر میں کوئی ٹھکانہ میسرآئے اورکوئی ایسا ہمدرد ملے جس کی پناہ میںرہ سکیں۔ اسی مجبوری کی وجہ سے یہ لفظ سُن کے باوجود کہ اس ذراسی خدمت کا اجردینے کےلیے بلایا جارہا ہے، حضرت موسٰیؑ نے جانے میں تامل نہ کیا۔ انہوں نے خیال فرمایا ہوگا کہ خداسے ابھی ابھی جودعامیں نے مانگی ہے، اسے پوراکرنے کایہ سامان خدا ہی کی طرف سے ہوا ہےاس لیے اب خواہ مخواہ خوداری کا مظاہرہ کرکے اپنے رب کے فراہم کردہ سامان میزبانی کوٹھکرانا مناسب نہیں ہے۔ |
1 | حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اس فقرے کی یہ تشریح کی ہے: جاءت تمشی علی استحیاء قائلۃ بثوبھا علی وجھھالیست بسلفع من النساء دلاجۃ خرجۃ۔ ’’ وہ شرم وحیا کے ساتھ چلتی ہوئی اپنامنہ گھونگھٹ سے چھپائے ہوئے آئی۔ ان بے باک عورتوں کی طرح درانہ نہین چلی آئی جوہرطرف نکل جاتی اورہرجگہ جاگھستی ہیں‘‘ اس مضمون کی متعدد روایات سعید بن منصور، ابن جریر، ابن ابی حاتم اورابن المنذرنے معتبر سندوں کے ساتھ حضرت عمر ؓ سےنقل کی ہیں۔ اس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ صحابہ کرام کے عہد میں حیاداری کا اسلمی تصور، جوقرآن اورنبی ﷺ کی تعلیم وتربیت سے ان بزرگوں نے سمجھا تھا، چہرے کواجنبیوں کے سامنے کھولے پھرنے اورگھرسے باہر بے باکانہ چلت پھرت دکھانے کے قطعاََ خلاف تھا۔حضرت عمرؓ صاف الفاظ میں یہاں چہرہ ڈھانکنے کوحیا کی علامت اوراسے اجانب کے سامنے کھولنے کوبےحیائی قراردےرہے ہیں۔ |
Surah 7 : Ayat 175
وَٱتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ٱلَّذِىٓ ءَاتَيْنَـٰهُ ءَايَـٰتِنَا فَٱنسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ ٱلشَّيْطَـٰنُ فَكَانَ مِنَ ٱلْغَاوِينَ
اور اے محمدؐ، اِن کے سامنے اُس شخص کا حال بیان کرو جس کو ہم نے اپنی آیات کا علم عطا کیا تھا1 مگر وہ ان کی پابندی سے نکل بھاگا آخرکار شیطان اس کے پیچھے پڑ گیا یہاں تک کہ وہ بھٹکنے والوں میں شامل ہو کر رہا
1 | ان الفاظ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ضرور کوئی متعین شخص ہوگا جس کی طرف اشارہ فرما یا گیا ہے لیکن اللہ اور اس کے رسول کی یہ انتہائی اخلاقی بلندی ہے کہ وہ جب کبھی کسی کی برائی کو مثال میں پیش کرتے ہیں تو بالعموم اس کے نام کی تصریح نہیں کرتے بلکہ اس کی شخصیت پر پردہ ڈال کر صرف اس کی بُری مثال کا ذکر کردیتے ہیں تا کہ اس کی رسوائی کیے بغیر اصل مقصد حاصل ہو جائے۔ اسی لیے نہ قرآن میں بتایا گیا ہے اور نہ کسی صحیح حدیث میں کہ وہ شخص جس کی مثال یہاں پیش کی گئی ہے ، کون تھا۔ مفسرین نے عہد رسالت اور اس سے پہلے کی تاریخ کے مختلف اشخاص پر اس مثال کو چسپاں کیا ہے ۔ کوئی بلعم بن با عوراء کا نام لیتا ہے، کوئی اُمیّہ بن ابی الصَّلت کا، اور کوئی صَیفی ابن الراہب کا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ خاص شخص تو پردہ میں ہے جو اس تمثیل میں پیش نظر تھا، البتہ یہ تمثیل ہر اس شخص پر چسپاں پوتی ہے جس میں یہ صفت پائی جاتی ہو |