Ayats Found (4)
Surah 54 : Ayat 6
فَتَوَلَّ عَنْهُمْۘ يَوْمَ يَدْعُ ٱلدَّاعِ إِلَىٰ شَىْءٍ نُّكُرٍ
پس اے نبیؐ، اِن سے رخ پھیر لو1 جس روز پکارنے والا ایک سخت ناگوار2 چیز کی طرف پکارے گا
2 | دوسرا مطلب انجانی چیز بھی ہو سکتا ہے ۔ یعنی ایسی چیز جو کبھی ان کے سان گمان میں بھی نہ تھی ، جس کا کوئی نقشہ اور کوئی تصور ان کے ذہن میں نہ تھا، جس کا کوئی اندازہ ہی وہ نہ کر سکتے تھے کہ یہ کچھ بھی کبھی پیش آ سکتا ہے |
1 | بالفاظ دیگر انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو۔ جب انہیں زیادہ سے زیادہ معقول طریقہ سے سمجھایا جا چکا ہے ، اور انسانی تاریخ سے مثالیں دے کر بھی بتا دیا گیا ہے کہ انکار آخرت کے نتائج کیا ہیں اور رسولوں کی بات نہ ماننے کا کیا عبرتناک انجام دوسری قومیں دیکھ چکی ہیں ، پھر بھی یہ اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہیں آتے ، تو انہیں اسی حماقت میں پڑا رہنے دو۔ اب یہ اسی وقت مانیں گے جب مرنے کے بعد قبروں سے نکل کر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ وہ قیامت واقعی برپا ہو گئی جسسے قبل از وقت خبردار کر کے راہ راست اختیار کر لینے کا مشورہ انہیں دیا جا رہا تھا |
Surah 54 : Ayat 7
خُشَّعًا أَبْصَـٰرُهُمْ يَخْرُجُونَ مِنَ ٱلْأَجْدَاثِ كَأَنَّهُمْ جَرَادٌ مُّنتَشِرٌ
لوگ سہمی ہوئی نگاہوں کے ساتھ1 اپنی قبروں2 سے اِس طرح نکلیں گے گویا وہ بکھری ہوئی ٹڈیاں ہیں
2 | قبروں سے مراد وہی قبریں نہیں ہیں جن میں کسی شخص کو زمین کھود کر باقاعدہ دفن کیا گیا ہو۔ بلکہ جس ، جگہ بھی کوئی شخص مرا تھا، یا جہاں بھی اس کی خاک پڑی ہوئی تھی، وہیں سے وہ محشر کی طرف پکارنے والے کی ایک آواز پر اٹھ کھڑا ہو گا |
1 | اصل الفاظ ہیں خُشَّعاً اَبصَا رُھُمْ، یعنی ان کی نگاہیں خشوع کی حالت میں ہوں گی۔ اس کے کؑی مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ ان پر خوف زدگی طاری ہو گی۔ دوسرے یہ کہ ذلت اور ندامت ان سے جھلک رہی ہو گی کیونکہ قبروں سے نکلتے ہیں انہیں محسوس ہو جاۓ گا کہ یہ وہی دوسری زندگی ہے جس کا ہم انکار کرتے تھے ، جس کے لیے کوئی تیاری کر کے ہم نہیں آۓ ہیں ، جس میں اب مجرم کی حیثیت سے ہمیں اپنے خدا کے سامنے پیش ہونا ہے ۔ تیسرے یہ کہ وہ گھبراۓ ہوۓ اس ہولناک منظر کو دیکھ رہے ہوں گے جو ان کے سامنے ہو گا،اس سے نظر ہٹانے کا انہیں ہوش نہ ہو گا |
Surah 68 : Ayat 43
خَـٰشِعَةً أَبْصَـٰرُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌۖ وَقَدْ كَانُواْ يُدْعَوْنَ إِلَى ٱلسُّجُودِ وَهُمْ سَـٰلِمُونَ
اِن کی نگاہیں نیچی ہوں گی، ذلت اِن پر چھا رہی ہوگی یہ جب صحیح و سالم تھے اُس وقت اِنہیں سجدے کے لیے بلایا جاتا تھا (اور یہ انکار کرتے تھے1)
1 | اس کے معنی یہ ہیں کہ قیامت کے روز علی الاعلان اس بات کا مظاہرہ کرایا جائے گا کہ دنیا میں کون اللہ تعالٰی کی عبادت کرنے والا تھا اور جون اس سے منحرف تھا۔ اس غرض کے لیے لوگوں کو بلایا جائے گا کہ وہ اللہ تعالٰی کے حضور سجدہ بجا لائیں۔ جو لوگ دنیا میں عبادت گزار تھے وہ سجدہ ریز ہو جائیں گے۔ اور جن لوگوں نے دنیا میں اللہ کے آگے سر نیاز جھکانے سے انکار کر دیا تھا ان کی کمر تختہ ہو جائے گی۔ ان کے لیے یہ ممکن نہ ہو گا کہ وہاں عبادت گزار ہونے کا جھوٹا مظاہر کرسکیں۔ اس لیے وہ ذلت اور پیشمانی کے ساتھ کھڑے کے کھڑے رہ جائیں گے |
Surah 79 : Ayat 9
أَبْصَـٰرُهَا خَـٰشِعَةٌ
نگاہیں اُن کی سہمی ہوئی ہوں گی