Ayats Found (13)
Surah 39 : Ayat 75
وَتَرَى ٱلْمَلَـٰٓئِكَةَ حَآفِّينَ مِنْ حَوْلِ ٱلْعَرْشِ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْۖ وَقُضِىَ بَيْنَهُم بِٱلْحَقِّ وَقِيلَ ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ ٱلْعَـٰلَمِينَ
اور تم دیکھو گے کہ فرشتے عرش کے گرد حلقہ بنائے ہوئے اپنے رب کی حمد اور تسبیح کر رہے ہوں گے، اور لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ فیصلہ چکا دیا جائے گا، اور پکار دیا جائے گا کہ حمد ہے اللہ ربّ العالمین کے لیے1
1 | یعنی پوری کائنات اللہ کی حمد پکار اُٹھے گی۔ |
Surah 23 : Ayat 7
فَمَنِ ٱبْتَغَىٰ وَرَآءَ ذَٲلِكَ فَأُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْعَادُونَ
البتہ جو اُس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں1
1 | یہ جملہ معترضہ ہے جو اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے ارشاد ہوا ہے جو’’ شرمگاہوں کی حفاظت ‘‘ کے لفظ سے پیدا ہوتی ہے۔ دنیا میں پہلے بھی یہ سمجھا جاتا رہا ہے آج بھی بہت سے لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ قوت شہوانی بجائے خود ایک بڑی چیز ہے اور اس کے تقاضے پورے کرنا، خواہ جائز طریقے ہی سے کیوں نہ ہو ، بہر حال نیک اور اللہ والے لوگوں کے لیے موزوں نہیں ہے۔ اس غلط فہمی کو تقویت پہنچ جاتی اگر صرف اتنا ہی کہہ کر بات ختم کر دی جاتی کہ فلاح پانے والے اہل ایمان اپنی شرمگاہوں کو محفوظ رکھتے ہیں۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ لیا جا سکتا تھا کہ وہ لنگوٹ بند رہتے ہیں ، راہب اور سنیاسی قسم کے لوگ ہوتے ہیں ، شادی بیاہ کے جھگڑوں میں نہیں پڑتے۔ اس لیے ایک جملہ معترضہ بڑھا کر حقیقت واضح کر دی گئی کہ جائز مقام پر اپنی خواہش نفس پوری کرنا کوئی قابل ملامت چیز نہیں ہے ، البتہ گناہ یہ ہے کہ آدمی شہوت رانی کے لیے اس معروف اور جائز صورت سے تجاوز کر جائے۔ اس جملہ معترضہ سے چند احکام نکلتے ہیں جن کو ہم اختصار کے ساتھ یہاں بیان کرتے ہیں۔ 1: شرمگاہوں کی حفاظت کے حکم عام سے دو قسم کی عورتوں کو مستثنیٰ کیا گیا ہے۔ ایک ازواج دوسرے مَامَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ۔ ’’ ازواج ‘‘ کا اطلاق عربی زبان کے معروف استعمال کی رو سے بھی اور خود قرآن کی تصریحات کے مطابق بھی صرف ان عورتوں پر ہوتا ہے جن سے باقاعدہ نکاح کیا گیا ہو، اور یہی اس کے ہم معنی اردو لفظ ’’ بیوی‘‘ کا مفہوم ہے۔ رہا لفظ : مَا مَلَکَتْ اَیْمَا نُھُمْ ، تو عربی زبان کے محاورے اور قرآن کے استعمالات دونوں اس پر شاہد ہیں کہ اس کا اطلاق لونڈی پر ہوتا ہے ، یعنی وہ عورت جو آدمی کی مِلک میں ہو۔ اس طرح یہ آیت صاف تصریح کر دیتی ہے کہ منکوحہ بیوی کی طرح مملوکہ لونڈی سے بھی صنفی تعلق جائز ہے ، اور اس کے جواز کی بنیاد نکاح نہیں بلکہ ملک ہے۔ اگر اس کے لیے بھی نکاح شرط ہوتا تو اسے ازواج سے الگ بیان کرنے کی کوئی حاجت نہ تھی کیونکہ منکوحہ ہونے کی صورت میں وہ بھی ازواج میں داخل ہوتی۔ آج کل کے بعض مفسرین جنہیں لونڈی سے تمتع کا جواز تسلیم کرنے سے انکار ہے ، سورہ نساء کی آیت : وَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْ کُمْ طَولاً اَنْ یَّنْکِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ (آیت 25 ) سے استدلال کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ لونڈی سے تمتع بھی صرف نکاح ہی کر کے کیا جا سکتا ہے ، کیونکہ وہاں یہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر تمہاری مالی حالت کسی آزاد خاندانی عورت سے شادی کرنے کی تحمل نہ ہو تو کسی لونڈی سے ہی نکاح کر لو۔ لیکن ان لوگوں کی یہ عجیب خصوصیت ہے کہ ایک ہی آیت کے ایک ٹکڑے کو مفید مطلب پا کر لے لیتے ہیں ، اور اسی آیت کا جو ٹکڑا ان کے مدعا کے خلاف پڑتا ہو اسے جان بوجھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ اس آیت میں لونڈیوں سے نکاح کرنے کی ہدایات جن الفاظ میں دی گئی ہے وہ یہ ہیں :۔ فَانْکِحُوْ ھُنَّ بِاِذْنِ اَھْلِھِنَّ وَاٰتُوْ ھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۔’’ پس ان( لونڈیوں ) سے نکاح کر لو ان کے سر پرستوں کی اجازت سے اور ان کو معروف طریقہ سے ان کے مہر ادا کرو‘‘۔ یہ الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ یہاں خود لونڈی کے مالک کا معاملہ زیر بحث نہیں ہے بلکہ کسی ایسے شخص کا معاملہ زیر بحث ہے جو آزاد عورت سے شادی کا خرچ نہ برداشت کر سکتا ہو اور اس بنا پر کسی دوسرے شخص کی مملوکہ لونڈی سے نکاح کر نا چاہے۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اگر معاملہ اپنی ہی لونڈی سے نکاح کرنے کا ہو تو اس کے وہ ’’اہل‘‘(سرپرست) کون ہو سکتے ہیں جن سے اس کو اجازت لینے کی ضرورت ہو؟ مگر قرآن سے کھیلنے والے صرف : فَانْکِحُوْ ھُنَّ کو لے لیتے ہیں اور اس کے بعد ہی : بِاِذْنِ اَھْلِھِنَّ کے جو الفاظ موجود ہیں انہیں نظر انداز کر دیتے ہیں۔ مزید برآں وہ ایک آیت کا ایسا مفہوم نکالے ہیں جو اسی موضوع سے متعلق قرآن مجید کی دوسری آیات سے ٹکراتا ہے۔ کوئی شخص اگر اپنے خیالات کی نہیں بلکہ قرآن پاک کی پیروی کرنا چاہتا ہو تو وہ سورہ نساء، آیت 3۔ 25 سورہ احزاب ، آیت 50۔ 52۔ اور سورہ معارج، آیت 30 کو سورہ مومنون کی اس آیت کے ساتھ ملا کر پڑھے۔ اسے خود معلوم ہو جائے گا کہ قرآن کا قانون اس مسئلے میں کیا ہے۔ (اس مسئلے کی مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، النساء، حاشیہ 44۔ تفہیمات جلد دوم، صفحہ، 29 تا 324۔ رسائل و مسائل ، جلد اول، صفحہ 324 تا 323 )۔ 2: اِلَّا عَلیٰٓ اَزْوَاجِھِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَا نُھُمْ میں لفظ عَلیٰ اس بات کی صراحت کر دیتا ہے کہ اس جملہ معترضہ میں جو قانون بیان کیا جا رہا ہے اس کا تعلق صرف مردوں سے ہے۔ باقی تمام آیات اَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ سے لے کر خٰلِدُوْنَ تک مذکّر کی ضمیروں کے باوجود مرد و عورت دونوں کو شامل ہیں ، کیونکہ عربی زبان میں عورتوں اور مردوں کے مجموعے کا جب ذکر کیا جاتا ہے تو ضمیر مذکر ہی استعمال کی جاتی ہے۔ لیکن یہاں لِفُرُوْجِھِمْ حٰفِظُوْ ن کے حکم سے مستثنیٰ کرتے ہوئےعلیٰ کا لفظ استعمال کر کے یہ بات واضح کر دی گئی کہ یہ استثنا مردوں کے لیے ہے نہ کہ عورتوں کے لیے۔ اگر ’’ان پر‘‘ کہنے کے بجائے ’’ ان سے ‘‘ محفوظ نہ رکھنے میں وہ قابل ملامت نہیں ہیں کہا جاتا تو البتہ یہ حکم بھی مرد و عورت دونوں پر حاوی ہو سکتا تھا۔ یہی وہ باریک نکتہ ہے جسے نہ سمجھنے کی وجہ سے ایک عورت حضرت عمر کے زمانے میں اپنے غلام سے تمتع کر بیٹھی تھی۔ صحابہ کرام کی مجلس شوریٰ میں جب اس کا معاملہ پیش کیا گیا تو سب نے بالاتفاق کہ کہ تاولت کتاب اللہ تعالیٰ غیر تاویلہٖ، ’’ اس نے اللہ تعالیٰ کی کتاب کا غلط مفہوم لے لیا‘‘۔ یہاں کسی کو یہ شبہ نہ ہو کہ اگر یہ استثناء مردوں کے لیے خاص ہے تو پھر بیویوں کے لیے ان کے شوہر کیسے حلال ہوئے ؟ یہ شبہ اس لیے غلط ہے کہ جب بیویوں کے معاملے میں شوہروں کو حفظ فروج کے حکم سے مستثنیٰ کیا گیا تو اپنے شوہروں کے معاملے میں بیویاں آپ سے آپ اس حکم سے مستثنیٰ ہو گئیں۔ ان کے لیے پھر الگ کسی تصریح کی حاجت نہ رہی۔اس طرح اس حکم استثناء کا اثر عملاً صرف مرد اور اس کی مملوکہ عورت تک محدود ہو جاتا ہے ، اور عورت پر اس کا غلام حرام قرار پاتا ہے۔ عورت کے لیے اس چیز کو حرام کرنے کی حکمت یہ ہے کہ غلام اس کی خواہش نفس تو پوری کر سکتا ہے مگر اس کا اور گھر کا قوّام نہیں بن سکتا جس کی وجہ سے خاندانی زندگی کی چول ڈھیلی رہ جاتی ہے۔ 3: ’’ البتہ جو اس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں ‘‘، اس فقرے نے مذکورہ بالا دو جائز صورتوں کے سوا خواہش نفس پوری کرنے کی تمام دوسری صورتوں کو حرام کر دیا ، خواہ وہ زنا ہو ، یا عمل قوم لوط یا وطی بہائم یا کچھ اور۔ صرف ایک استمنا بالید (Masturbation) کے معاملے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔ امام احمد بن حنبل اس کو جائز قرار دیتے ہیں۔ امام مالک اور امام شافعی اس کو قطعی حرام ٹھیراتے ہیں۔ اور حنفیہ کے نزدیک اگر چہ یہ حرام ہے ، لیکن وہ کہتے ہیں کہ اگر شدید غلبۂ جذبات کی حالت میں آدمی سے احیاناً اس فعل کا صدور ہو جائے تو امید ہے کہ معاف کر دیا جائے گا۔ 4 : بعض مفسرین نے مُتعہ کی حرمت بھی اس آیت سے ثابت کی ہے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ ممتوعہ عورت نہ تو بیوی کے حکم میں داخل ہے اور نہ لونڈی کے حکم میں۔ لونڈی تو وہ ظاہر ہے کہ نہیں ہے۔ اور بیوی اس لیے نہیں ہے کہ زوجیت کے لیے جتنے قانونی احکام ہیں ان میں سے کسی کا بھی اس پر اطلاق نہیں ہوتا۔ نہ وہ مرد کی وارث ہوتی ہے نہ مرد اس کا وارث ہوتا ہے۔ نہ اس کے لیے عدت ہے۔ نہ طلاق۔ نہ نفقہ۔ نہ ایلاء اور ظہار اور لعان وغیرہ۔ بلکہ چار بیویوں کی مقررہ حد سے بھی وہ مستثنیٰ ہے۔ پس جب وہ ’’بیوی‘‘ اور لونڈی دونوں کی تعریف میں نہیں آتی تو لا محالہ وہ ’’ ان کے علاوہ کچھ اور ‘‘ میں شمار ہو گی جس کے طالب کو قرآن ’’حد سے گزرنے والا‘‘ قرار دیتا ہے۔ یہ استدلال بہت قوی ہے، مگر اس میں کمزوری کا ایک پہلو ایسا ہے جس کی بنا پر یہ کہنا مشکل ہے کہ متعہ کی حرمت کے بارے میں یہ آیت ناطق ہے۔ وہ پہلو یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے متعہ کی حرمت کا آخری اور قطعی حکم فتح مکہ کے سال دیا ہے ، اور اس سے پہلے اجازت کے ثبوت صحیح احادیث میں پائے جاتے ہیں۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ حرمت متعہ کا حکم قرآن کی اس آیت ہی میں آ چکا تھا جو بالا تفاق مکی ہے اور ہجرت سے کئی سل پہلے نازل ہوئی تھی، تو کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اسے فتح مکہ تک جائز رکھتے۔ لہٰذا یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ متعہ کی حرمت قرآن مجید کے کسی صریح حکم پر نہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت پر مبنی ہے۔ سنت میں اس کی صراحت نہ ہوتی تو محض اس آیت کی بنا پر تحریم کا فیصلہ کر دینا مشکل تھا۔ متعہ کا جب ذکر آگیا ہے تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دو باتوں کی اور توضیح کر دی جائے۔ اول یہ کہ اس کی حرمت خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے۔ لہٰذا یہ کہاں کہ اسے حضرت عمرؓ نے حرام کیا، درست نہیں ہے۔ حضرت عمرؓ اس حکم کے موجد نہیں تھے بلکہ صرف اسے شائع اور نافذ کرنے والے تھے۔ چونکہ یہ حکم حضورؐ نے آخر زمانے میں دیا تھا اور عام لوگوں تک نہ پہنچا تھا، اس لیے حضرت عمرؓ نے اس کی عام اشاعت کی اور بذریعہ قانون اسے نافذ کیا۔ دوم یہ کہ شیعہ حضرات نے متعہ کو مطلقاً مباح ٹھیرانے کا جو مسلک اختیار کیا ہے اس کے لیے تو بہر حال نصوص کتاب و سنت میں سرےسے کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ صدر اول میں صحابہ اور تابعین اور فقہاء میں سے چند بزرگ جو اس کے جواز کے قائل تھے وہ اسے صرف اضطرار اور شدید ضرورت کی حالت میں جائز رکھتے تھے۔ ان میں سے کوئی بھی اسے نکاح کی طرح مباح مطلق اور عام حالات میں معمول بہ بنا لینے کا قائل نہ تھا۔ ابن عباس ، جن کا نام قائلین جواز میں سب سے زیادہ نمایاں کر کے پیش کیا جاتا ہے ، اپنے مسلک کی توضیح خود ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ : ماھی الا کالمیتۃ لا تحل الا للمضطر (یہ تو مردار کی طرح ہے کہ مضطر کے سوا کسی کے لیے حلال نہیں ) اور اس فتوے سے بھی وہ اس وقت باز آ گۓ تھے جب انہوں نے دیکھا کہ لوگ اباحت کی گنجائش سے ناجائز فائدہ اٹھا کر آزادانہ متعہ کرنے گلے ہیں اور ضرورت تک اسے موقوف نہیں رکھتے۔ اس سوال کو اگر نظر انداز بھی کر دیا جائے کہ ابن عباس اور ان کے ہم خیال چند گنے چنے اصحاب نے اس مسلک سے رجوع کر لیا تھا یا نہیں ، تو ان کے مسلک کو اختیار کرنے والا زیادہ سے زیادہ جواز بحالت اضطرار کی حد تک جا سکتا ہے۔ مطلق اباحت، اور بلا ضرورت تمتع، حتیٰ کہ منکوحہ بیویوں تک کی موجودگی میں بھی ممتوعات سے استفادہ کرنا تو ایک ایسی آزادی ہے جسے ذوق سلیم بھی گورا نہیں کرتا کجا کہ اسے شریعت محمدیہ کی طرف منسوب کیا جائے اور ائمہ اہل بیت کو اس سے متہم کیا جائے۔ میرا خیال ہے کہ خود شیعہ حضرات میں سے بھی کوئی شریف آدمی یہ گوارا نہیں کر سکتا کہ کوئی شخص اس کی بیٹی یا بہن کے لیے نکاح کے بجائے متعہ کا پیغام دے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ جواز متعہ کے لیے معاشرے میں زنان بازاری کی طرح عورتوں کا ایک ایسا ادنیٰ طبقہ موجود رہنا چاہیے جس سے تمتع کرنے کا دروازہ کھلا رہے۔یا پھر یہ کہ متعہ صرف غریب لوگوں کی بیٹیوں اور بہنوں کے لیے ہو اور اس سے فائدہ اٹھانا خوش حال طبقے کے مردوں کا حق ہو۔ کیا خدا اور رسول کی شریعت سے اس طرح کے غیر منصفانہ قوانین کی توقع کی جا سکتی ہے ؟ اور کیا خدا اور اس کے رسول سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ کسی ایسے فعل کو مباح کر دیں گے جسے ہر شریف عورت اپنے لیے بے عزتی بھی سمجھے اور بے حیائی بھی |
Surah 23 : Ayat 15
ثُمَّ إِنَّكُم بَعْدَ ذَٲلِكَ لَمَيِّتُونَ
پس بڑا ہی بابرکت ہے1 اللہ، سب کاریگروں سے اچھا کاریگر
1 | اصل میں فَتَبَارَکَ اللہُ کے الفاظ ارشاد ہوئے ہیں جن کی پوری معنویت ترجمے میں ادا کرنا محال ہے۔ لغت اور استعمالات زبان کے لحاظ سے اس میں دو مفہوم شامل ہیں۔ ایک یہ کہ وہ نہایت مقدس اور منزہ ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ اس قدر خیر اور بھلائی اور خوبی کا مالک ہے کہ جتنا تم اس کا اندازہ کرو اس سے زیادہ ہی اس کو پاؤ حتّیٰ کہ اس کی خیرات کا سلسلہ کہیں جا کر ختم نہ ہو۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، الفرقان حواشی 1۔19)۔ ان دونوں معنوں پر غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ تخلیق انسانی کے مراتب بیان کرنے کے بعد فَتَبَا رَکَ اللہُ کا فقرہ محض ایک تعریفی فقرہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ دلیل کے بعد نتیجہ دلیل بھی ہے۔ اس میں گویا یہ کہا جا رہا ہے کہ جو خدا مٹی کے ست کو ترقی دے کر ایک پورے انسان کے مرتبے تک پہنچا دیتا ہے وہ اس سے بدر جہا زیادہ منزّہ ہے کہ خدائی میں کوئی اس کا شریک ہو سکے ، اور اس سے بدرجہا مقدس ہے اسی انسان کو پھر پیدا نہ کر سکے ، اور اس کی خیرات کا یہ بڑا ہی گھٹیا اندازہ ہے کہ بس ایک دفعہ انسان بنا دینے ہی پر اس کے کمالات ختم ہو جائیں ، اس سے آگے وہ کچھ نہ بنا سکے |
Surah 43 : Ayat 82
سُبْحَـٰنَ رَبِّ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِ رَبِّ ٱلْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ
پاک ہے آسمانوں اور زمین کا فرماں روا عرش کا مالک، اُن ساری باتوں سے جو یہ لوگ اُس کی طرف منسوب کرتے ہیں
Surah 69 : Ayat 17
وَٱلْمَلَكُ عَلَىٰٓ أَرْجَآئِهَاۚ وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَئِذٍ ثَمَـٰنِيَةٌ
فرشتے اس کے اطراف و جوانب میں ہوں گے اور آٹھ فرشتے اُس روز تیرے رب کا عرش اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے1
1 | یہ آیت متشابہات میں سے ہے جس کے معنی متعین کرنا مشکل ہے۔ ہم نہ یہ جان سکتے ہیں کہ عرش کیا چیز ہے اور نہ یہی سمجھ سکتے ہیں کہ قیامت کے روز أٓٹھ فرشتوں کی اس کو ا ٹھانے کی کیفیت کیا ہو گی۔ مگر یہ بات بہرحال قابل تصور نہیں ہے کہ اللہ تعالٰی عرش پر بیٹھا ہو گا اور آٹھ فرشتے اس کو عرش سمیت اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ آیت میں بھی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ اس وقت اللہ تعالٰی عرش پر بیٹھا ہوا ہو گا، اور ذات باری کا جو تصور ہم کو قرآن مجید میں دیا گیا ہے وہ بھی یہ خیال کرنے میں مانع ہے کہ وہ جسم اور جہت اور مقام سے منزہ ہستی کسی جگہ متمکن ہو اور کوئی مخلوق اسے اٹھائے۔ اس لیے کھوج کرید کر کے اس کے معنی متعین کرنے کی کوشش کرنا اپنے آپ کو گمراہی کے خطرے میں مبتلا کرنا ہے۔ البتہ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالٰی کی حکومت و فرمانروائی اور اس کے معاملات کا تصور دلانے کے لیے لوگوں کے سامنے وہی نقشہ پیش کیا گیا ہے جو دنیا میں بادشاہی کا نقشہ ہوتا ہے، اور اس کے لیے وہی اطلاحیں استعمال کی گئی ہیں جو انسانی زبانوں میں سلطنت اور اس کے مظاہر و لوازم کے لیے مستعمل ہیں، کیونکہ انسانی ذہن اسی نقشے اور انہی اصلاحات کی مدد سے کسی حد تک کائنات کی سلطانی کے معاملات کو سمجھ سکتا ہے۔ یہ سب کچھ اصل حقیقت کو انسانی فہم سے قریب تر کرنے کے لیے ہے۔ اس کو بالکل لفظی معنوں میں لے لینا درست نہیں ہے |
Surah 81 : Ayat 20
ذِى قُوَّةٍ عِندَ ذِى ٱلْعَرْشِ مَكِينٍ
جو بڑی توانائی رکھتا ہے1، عرش والے کے ہاں بلند مرتبہ ہے
1 | سورہ نجم آیات 4۔5 میں اسی مضمون کو یوں ا دا کیا گیا ہے کہ ان ھو الا وحی یوحی۔ علمہ شدید القوی۔ یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نال کی جاتی ہے۔ اس کو زبردست قوتوں والے نے تعلیم دی ہے‘‘۔یہ بات درحقیقت متشابہات میں سے ہے کہ جبریل علیہ السلام کی ان زبردست قوتوں اور ان کی اس عظیم توانائی سے کیا مراد ہے۔ بہرحال اس سے اتنی بات ضرور معلوم ہوتی ہے کہ فرشتوں میں بھی وہ اپنی غیر معمولی طاقتوں کے اعتبار سے ممتاز ہیں۔ مسلم، کتاب الایمان میں حضرت عائشہؓ رسول اللہ ﷺ کا یہ قول نقل کرتی ہیں کہ میں نے دومرتبہ جبریل کو ان کی اصلی صورت میں دیکھا ہے، ان کی عظیم ہستی زمین و آسمان کے د رمیان ساری فضا پر چھائی ہوئی تھی۔ بخاری، مسلم، ترمذی اور مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو اس شان میں دیکھا کہ ان کے چار سو پر تھے۔ اس سے کچھ ان کی زبردست طاقت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے |
Surah 85 : Ayat 15
ذُو ٱلْعَرْشِ ٱلْمَجِيدُ
عرش کا مالک ہے، بزرگ و برتر ہے
Surah 7 : Ayat 54
إِنَّ رَبَّكُمُ ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ يُغْشِى ٱلَّيْلَ ٱلنَّهَارَ يَطْلُبُهُۥ حَثِيثًا وَٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَ وَٱلنُّجُومَ مُسَخَّرَٲتِۭ بِأَمْرِهِۦٓۗ أَلَا لَهُ ٱلْخَلْقُ وَٱلْأَمْرُۗ تَبَارَكَ ٱللَّهُ رَبُّ ٱلْعَـٰلَمِينَ
در حقیقت تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا1، پھر اپنے تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہوا2 جو رات کو دن پر ڈھانک دیتا ہے اور پھر دن رات کے پیچھے دوڑا چلا آتا ہے جس نے سورج اور چاند اور تارے پیدا کیے سب اس کے فرمان کے تابع ہیں خبردار رہو! اُسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے3 بڑا با برکت ہے اللہ4، سارے جہانوں کا مالک و پروردگار
4 | برکت کے اصل معنی ہیں نمو، افزائش اور بڑھوتری کے ، اور اسی کے ساتھ اس لفظ میں رفعت و عظمت کا مفہوم بھی ہے اور ثبات اور جماؤ کا بھی۔ پھر ان سب مفہومات کے ساتھ خیر اور بھلائی کا تصورّ لازماً شامل ہے۔ پس اللہ کے نہایت با برکت ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ اس کی خوبیوں اور بھلائیوں کی کوئی حد نہیں ہے، بے حدوحساب خیرات اس کی ذات سے پھیل رہی ہیں، اور وہ بہت بلند و بر تر ہستی ہے ، کہیں جا کر اس کی بلندی ختم نہیں ہوتی ، اور اس کی یہ بھلائی اور رفعت مستقل ہے، عارضی نہیں ہے کہ کبھی اس کو زوال ہو۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو، الفرقان، حواشی۔١۔١۹) |
3 | یہ اُسی مضمون کی مزید تشریح ہے جو”استواء علی العرش“ کے الفاظ میں مجملاً بیان کیا گیا تھا۔ یعنی یہ کہ خدا محض خالق ہی نہیں آمر اور حا کم بھی ہے۔ اس نے اپنی خلق کو پیدا کر کے نہ تو دوسروں کے حوالے کر دیا کہ وہ اس میں حکم چلائیں، اور نہ پوری خلق کو یا اس کے کسی حصّے کو خود مختار بنا دیا ہے کہ جس طرح چاہے خود کام کرے۔ بلکہ عملاً تمام کائنات کی تدبیر خدا کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ لیل ونہار کی گردش آپ سے آپ نہیں ہو رہی ہے بلکہ خدا کے حکم سے ہو رہی ہے، جب چاہے اسے روک دے اور جب چاہے اس کے نظام کو تبدیل کر دے۔سورج اور چاند اور تارے خود کسی طاقت کے مالک نہیں ہیں بلکہ خدا کے ہاتھ میں بالکل مسخّر ہیں اور مجبور غلاموں کی طرح بس وہی کام کیے جا رہے ہیں جو خدا ان سے لے رہا ہے |
2 | خد ا کے استواءعلی العرش(تخت سلطنت پر جلوہ فرماہونے )کی تفصیلی کیفیت کو سمجھنا ہمارے لیے مشکل ہے۔ بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق کے بعد کسی مقام کو اپنی اس لا محدود سلطنت کا مرکز قرار دے کر اپنی تجلیات کو وہاں مرتکز فرمادیا ہو اور اسی کا نام عرش ہو جہاں سے سارے عالم پر موجود اور قوت کا فیضان بھی ہو رہا ہے اور تدبیر امر بھی فرمائی جا رہی ہے ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ عرش سے مراد اقتدار فرماں روائی ہو اور ا س پر جلوہ فرما ہوے سے مراد یہ ہو کہ اللہ نے کا ئنات کو پیدا کر کے اس کی زمامِ سلطنت اپنے ہاتھ میں لی۔ بہر حال استواء علی العرش کا تفصیلی مفہوم خواہ کچھ بھی ہو، قرآن میں اس کے ذکر کا اصل مقصد یہ ذہن نشین کر نا ہے کہ اللہ تعالیٰ محض خالقِ کا ئنات ہی نہیں ہے بلکہ مدبّر ِ کائنات بھی ہے۔ وہ دنیا کو وجود میں لانے کے بعد اس سے بے تعلق ہو کر کہیں بیٹھ نہیں گیا ہے بلکہ عملاً وہی سارے جہان کے جزو کل پر فرماں روائی کر رہا ہے۔ سلطانی و حکمرانی کے تمام اختیارات بالفعل اس کے ہاتھ میں ہیں،ہر چیز اس کے امر کی تابع ہے، ذرّہ ذرّہ اس کے فرمان کا مطیع ہے اور موجودات کی قسمتیں دائماً اس کے حکم سے وابستہ ہیں۔ اس طرح قرآن اُ س کی بنیادی غلط فہمی کی جڑ کاٹنا چاہتا ہے جس کی وجہ سے انسان کبھی شرک کی گمراہی میں مبتلا ہوا ہے اور کبھی خود مختیاری و خود سری کی ضلالت میں۔ خدا کو کائنات کے انتظام سے عملاً بے تعلق سمجھ لینے کا لازمی نتیجہ یہ ہےکہ آدمی یا تو اپنی قسمت کو دوسرں سےوابستہ سمجھے اور ان کے آگے سر جھکادے ، یا بھر اپنی قسمت کا مالک خود اپنے آپ کو سمجھے اور خود مختار بن بیٹھے۔ یہاں ایک اور بات اور قابل توجہ ہے۔ قرآن مجید میں خدا اور خلق کے تعلق کو واضح کرنے کے لیے انسانی زبان میں سے زیادہ تر وہ الفاظ، مصطلحات، استعارے اور انداز بیان انتخاب کیے گئے ہیں جو سلطنت و بادشاہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ طرز بیان قرآن میں اس قدر نمایاں ہے کہ کوئی شخص جو سمجھ کر قرآن کو پڑھتا ہوا سے محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ بعض کم فہم ناقدین کے معکوس دماغوں نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ کتاب جس عہد کی ”تصنیف “ہے اس زمانہ میں انسان کے ذہن پر شاہی نظام کا تسلط تھا اس لیے مصنف نے(جس سے مراد ان ظالموں کے نزدیک محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں) خدا کو بادشاہ کے رنگ میں پیش کیا۔ حالانکہ دراصل قرآن فس دائمی و ابدی حقیقت کو پیش کر رہا ہے وہ اس کے بر عکس ہے۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ زمین اور آسمانوں میں پادشاہی صرف ایک ذات کی ہے، اور حاکمیت (Sovereignity ) جس شے کا نام ہے وہ اسی ذات کے لیے خاص ہے، اور یہ نظامِ کائنات ایک کامل مرکزی نظام ہے جس میں تمام اختیارات کو وہی ایک ذات استعمال کر رہی ہے، لہذا اس نظام میں جو شخص یا گروہ اپنی یا کسی اور کی جزوی یا کُلّی حاکمیت کا مدعی ہے وہ محض فریب میں مبتلا ہے۔ نیز یہ کہ اس نظام کے اندر رہتے ہوئے انسان کے لیے اِس کے سوا کوئی دوسرا رویہ صحیح نہیں ہو سکتا کہ اُسی ایک ذات کو مذہبی معنوں میں واحد معبود بھی مانے اور سیاسی و تمدنی معنوں میں واحد سلطان (Sovereign )بھی تسلیم کرے |
1 | یہاں دن کا لفظ یا تو اسی چوبیس گھنٹے کے دن کا ہم معنی ہے جسے دنیا کے لوگ دن کہتے ہیں، یا پھر یہ لفظ دور ( Period ) کے معنی میں استعمال ہوا ہے، جیسا کہ سورة الحج آیت نمبر ۴۷ میں فرمایا وَاِنَّ یَوْمًاعِنْدَرَبِّکِ کَاَلْفِ سَنَةٍمِمَّاتَعُدُّوْنَ(اور حقیقت یہ ہے کہ تیرے رب کے ہاں ایک دن ہزار سال کے برابر ہے اُس حساب سے جو تم لوگ لگاتے ہو)، اور سورة مارج کی آیت ۴ میں فرمایا کہ تَعْرُجُ الْمَلٰئِکَةُوَالرُّوْحُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَةٍ(فرشتے اور جبرائیل اس کی طرف ایک دن میں چڑھتے ہیں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے)۔اس کا صحیح مفہوم اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔(مزید تشریح کے لیے ملا حظہ ہو حٰم السجدہ حواشی ١١ تا ١۵) |
Surah 10 : Ayat 3
إِنَّ رَبَّكُمُ ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِۖ يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَۖ مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِنۢ بَعْدِ إِذْنِهِۦۚ ذَٲلِكُمُ ٱللَّهُ رَبُّكُمْ فَٱعْبُدُوهُۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ
حقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب وہی خدا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر تخت حکومت پر جلوہ گر ہوا اور کائنات کا انتظام چلا رہا ہے1 کوئی شفاعت (سفارش) کرنے والا نہیں اِلّا یہ کہ اس کی اجازت کے بعد شفاعت کرے2 یہی اللہ تمہارا رب ہے لہٰذا تم اُسی کی عبادت کرو3 پھر کیا تم ہوش میں نہ آؤ گے؟4
4 | یعنی جب یہ حقیقت تمہارے سامنے کھول دی گئی ہے اور تم کو صاف صاف بتا دیا گیا ہے کہ اس حقیقت کی موجودگی میں تمہارے لیے صحیح طرزِعمل کیا ہے تو کیا اب بھی تمہاری آنکھیں نہ کھلیں گی اور اُنہی غلط فہمیوں میں پڑے رہو گے جن کی بنا پر تمہاری زندگی کا پورا رویہ اب تک حقیقت کے خلاف رہا ہے؟ |
3 | اوپر کےتین فقروں میں حقیقتِ نفس الامری کا بیان تھا کہ فی الواقع خدا ہی تمہارا رب ہے۔ اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ اِس امر واقعی کی موجودگی میں تمہارا طرزِعمل کیا ہونا چاہیے۔ جب واقعہ یہ ہے کہ ربوبیت بالکلیہ خدا کی ہے تو اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ تم صرف اُسی کی عبادت کرو۔ پھر جس طرح ربوبیت کا لفظ تین مفہومات پر مشتمل ہے، یعنی پروردگاری، مالی و آقائی، اور فرماں روائی، اسی طرح اس کے بالمقابل عبادت کا لفظ بھی تین مفہومات پر مشتمل ہے۔ یعنی پرستش، غلامی اور اطاعت۔ خدا کے واحد پروردگار ہونے سے لازم آتا ہے کہ انسان اسی کا شکر گزار ہو، اسی سے دعائیں مانگے اور اسی کے آگے محبت و عقیدت سے سر جھکائے۔ یہ عبادت کا پہلا مفہوم ہے۔ خدا کے واحد مالک و آقا ہونے سے لازم آتا ہے کہ انسان اس کا بندہ و غلام بن کر رہے اور اُس کے مقابلہ میں خود مختارانہ رویّہ نہ اختیار کرے اوراس کے سوا کسی اور کی ذہنی یا عملی غلامی قبول نہ کرے۔ یہ عبادت کا دوسرا مفہوم ہے۔ خدا کے واحد مالک و آقا ہونے سے لازم آتا ہے کہ انسان اس کے حکم کی اطاعت اور اس کے قانون کی پیروی کرے نہ خود اپناحکمران بنے اور نہ اس کے سوا کسی دوسرے کی حاکمیت تسلیم کرے۔ یہ عبادت کا تیسرا مفہوم ہے۔ |
2 | یعنی دنیا کی تدبیر وانتظام میں کسی دوسرے کا دخیل ہونا تو درکنار کوئی اتنا اختیار بھی نہیں رکھتا کہ خدا سے سفارش کر کے اس کا کوئی فیصلہ بدلوا دے یا کسی کی قسمت بنوا دے یا بگڑوا دے۔ زیادہ سے زیادہ کوئی جو کچھ کر سکتا ہے وہ بس اتنا ہے کہ خدا سے دعا کرے، مگراس کی دعا کا قبول ہونا یا نہ ہونا بالکل خدا کی مرضی پر منحصر ہے۔ خدا کی خدائی میں اتنا زوردار کوئی نہیں ہے کہ اس کی بات چل کر رہے اور اس کی سفارش ٹل نہ سکے اور وہ عرش کا پایہ پکڑ کر بیٹھ جائے اور اپنی بات منوا کر ہی رہے۔ |
1 | یعنی پیدا کرکے وہ معطل نہیں ہو گیا بلکہ اپنی پیدا کی ہوئی کائنات کے تخت سلطنت پر وہ خود جلوہ فرما ہوا اور اب سارے جہان کا انتظام عملًا اُسی کے ہاتھ میں ہے۔ نادان لوگ سمجھتے ہیں خدا نے کائنات کو پیدا کر کے یونہی چھوڑ دیا ہے کہ خود جس طرح چاہے چلتی رہے، یا دوسروں کے حوالے کر دیا ہے کہ وہ اس میں جیسا چاہیں تصرف کریں۔ قرآن اس کے برعکس یہ حقیقت پیش کرتا ہے کہ اللہ تعالٰی اپنی تخلیق کی اس پوری کار گاہ پرآپ ہی حکمرانی کر رہا ہے، تمام اختیارات اس کے اپنے ہاتھ میں ہیں، ساری زمامِ اقتدار پر وہ خود قابض ہے، کائنات کے گوشے گوشے میں ہر وقت ہر آن جو کچھ ہو رہا ہے براہِ راست اس کے حکم یا اذن سے ہو رہا ہے، اِس جہانِ ہستی کے ساتھ اس کا تعلق صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ وہ کبھی اسے وجود میں لایا تھا، بلکہ ہمہ وقت وہی اس کا مدبر و منتظم ہے، اسی کے قائم رکھنے سے یہ قائم ہے اور اسی کے چلانے سے یہ چل رہا ہے۔ (ملاحظہ ہو سورۂ اعراف، حاشیہ نمبر۴۰، ۴۱) |
Surah 25 : Ayat 59
ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِى سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِۚ ٱلرَّحْمَـٰنُ فَسْــَٔلْ بِهِۦ خَبِيرًا
وہ جس نے چھ دنوں میں زمین اور آسمان کو اور اُن ساری چیزوں کو بنا کر رکھ دیا جو آسمان و زمین کے درمیان ہیں، پھر آپ ہی (کائنات کے تخت سلطنت) 1"عرش" پر جلوہ فرما ہوا رحمٰن، اس کی شان بس کسی جاننے والے سے پوچھو
1 | اللہ تعالیٰ کے عرش پر جلوہ گر ہونے کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، الاعراف، حواشی 41 ۔42 ، یونس، حاشیہ 4، ھود ، حاشیہ 7 ۔ زمین و آسمان کو چھ دنوں میں پیدا کرنے کا مضمون متشابہات کے قبیل سے ہے جس کا مفہوم متعین کرنا مشکل ہے ۔ ممکن ہے کہ ایک دن سے مراد ایک دَور ہو۔ اور ممکن ہے کہ اس سے مراد وقت کی اتنی ہی مقدار ہو جس پر ہم دنیا میں لفظ دن کا اطلاق کرتے ہیں ۔ (مفصل تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، حٰم السجدہ، حواشی 11 تا 15 ) |