Ayats Found (33)
Surah 2 : Ayat 187
أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ ٱلصِّيَامِ ٱلرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَآئِكُمْۚ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّۗ عَلِمَ ٱللَّهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَخْتَانُونَ أَنفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنكُمْۖ فَٱلْـَٔـٰنَ بَـٰشِرُوهُنَّ وَٱبْتَغُواْ مَا كَتَبَ ٱللَّهُ لَكُمْۚ وَكُلُواْ وَٱشْرَبُواْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ ٱلْخَيْطُ ٱلْأَبْيَضُ مِنَ ٱلْخَيْطِ ٱلْأَسْوَدِ مِنَ ٱلْفَجْرِۖ ثُمَّ أَتِمُّواْ ٱلصِّيَامَ إِلَى ٱلَّيْلِۚ وَلَا تُبَـٰشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَـٰكِفُونَ فِى ٱلْمَسَـٰجِدِۗ تِلْكَ حُدُودُ ٱللَّهِ فَلَا تَقْرَبُوهَاۗ كَذَٲلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ ءَايَـٰتِهِۦ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ
تمہارے لیے روزوں کے زمانے میں راتوں کو اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا ہے وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم اُن کے لیے1 اللہ کو معلوم ہو گیا کہ تم لوگ چپکے چپکے اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے، مگر اُ س نے تمہارا قصور معاف کر دیا اور تم سے درگزر فرمایا اب تم اپنی بیویوں کے ساتھ شب باشی کرو اور جو لطف اللہ نے تمہارے لیے جائز کر دیا ہے، اُسے حاصل کرو2 نیز راتوں کو کھاؤ پیو3 یہاں تک کہ تم کو سیاہی شب کی دھاری سے سپیدۂ صبح کی دھاری نمایاں نظر آ جائے4 تب یہ سب کام چھوڑ کر رات تک اپنا روزہ پورا کرو5 اور جب تم مسجدوں میں معتکف ہو، تو بیویوں سے مباشرت نہ کرو6 یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں، ان کے قریب نہ پھٹکنا7 اِس طرح اللہ اپنے احکام لوگوں کے لیے بصراحت بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ وہ غلط رویے سے بچیں گے
7 | یہ نہیں فرمایا کہ ان حدوں سے تجاوز نہ کرنا، بلکہ یہ فرمایا کہ ان کے قریب نہ پھٹکنا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس مقام سے معصیت کی حد شروع ہوتی ہے، عین اسی مقام کے آخری کناروں پر گھومتے رہنا آدمی کے لیے خطرناک ہے۔ سلامتی اس میں ہے کہ آدمی سرحد سے دُور ہی رہے تاکہ بھُولے سے بھی قدم اس کے پار نہ چلا جائے۔ یہی مضمون اُس حدیث میں بیان ہوا ہے ، جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لِکل ملکٍ حِمیٰ و ان حمی اللہ محار مہ، فمن رتع حول الحمی، یوشک ان یقع فیہ۔ عربی زبان میں حِمیٰ اُس چراگاہ کو کہتے ہیں، جسے کوئی رئیس یا بادشاہ پبلک کے لیے ممنوع کر دیتا ہے۔ اس استعارے کو استعمال کرتے ہوئے حضور ؐ فرماتے ہیں کہ”ہر بادشاہ کی ایک حِمیٰ ہوتی ہے اور اللہ کی حِمیٰ اُس کی وہ حدیں ہیں، جن سے اس نے حرام و حلال اور طاعت و معصیت کا فرق قائم کیا ہے۔ جو جانور حِمیٰ کے گِرد ہی چرتا رہے گا، ہو سکتا ہے کہ ایک روز وہ حِمیٰ کے اندر داخل ہو جائے۔“ افسوس ہے کہ بہت سے لوگ جو شریعت کی رُوح سے ناواقف ہیں ، ہمیشہ اجازت کی آخری حدوں تک ہی جانے پر اصرار کرتے ہیں اور بہت سے علما و مشائخ بھی اسی غرض کے لیے سندیں ڈھونڈ کر جواز کی آخری حدیں انھیں بتایا کرتے ہیں، تاکہ وہ اُس باریک خطِ امتیاز ہی پر گھُومتے رہیں، جہاں اطاعت اور معصیت کے درمیان محض بال برابر فاصلہ رہ جاتا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بکثرت لوگ معصیت اور معصیت سے بھی بڑھ کر ضلالت میں مبتلا ہو رہے ہیں، کیونکہ ان باریک سرحدی خطوط کی تمیز اور ان کے کنارے پہنچ کر اپنے آپ کو قابو میں رکھنا ہر ایک کے بس کا کام نہیں ہے |
6 | معتکف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی رمضان کے آخری دس دن مسجد میں رہے اور یہ دن اللہ کے ذکر کے لیے مختص کردے۔ اس اعتکاف کی حالت میں آدمی اپنی انسانی حاجات کے لیے مسجد سے باہر جا سکتا ہے ، مگر لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو شہوانی لذتوں سے روکے رکھے |
5 | رات تک روزہ پورا کرنے سے مراد یہ ہے کہ جہاں رات کی سرحد شروع ہوتی ہے، وہیں تمہارے روزے کی سرحد ختم ہو جائے۔ اور ظاہر ہے کہ رات کی سرحد غروبِ آفتاب سے شروع ہوتی ہے۔ لہٰذا غروبِ آفتاب ہی کے ساتھ افطار کر لینا چاہیے۔ سحر اور افطار کی صحیح علامت یہ ہے کہ جب رات کے آخری حصّے میں اُفق کے مشرقی کنارے پر سفیدہٴ صبح کی باریک سی دھاری نمودار ہو کر اُوپر بڑھنے لگے، تو سحری کا وقت ختم ہو جاتا ہے اور جب دن کے آخری حصّے میں مشرق کی جانب سے رات کی سیاہی بلند ہوتی نظر آئے تو افطار کا وقت آجاتا ہے۔ آج کل لوگ سحری اور افطار ، دونوں کے معاملے شدّتِ احتیاط کی بنا پر کچھ بے جا تشدّد برتنے لگے ہیں۔ مگر شریعت نے ان دونوں اوقات کی کوئی ایسی حد بندی نہیں کی ہے جس سے چند سیکنڈ یا چند منٹ اِدھر اُدھر ہو جانے سے آدمی کا رازہ خراب ہو جاتا ہو۔ سحر میں سیاہی شب سے سپیدہٴ سحر کا نمودار ہونا اچھی خاصی گنجائش اپنے اندر رکھتا ہے اور ایک شخص کے لیے یہ بالکل صحیح ہے کہ اگر عین طلوعِ فجر کے وقت اس کی آنکھ کھُلی ہو تو وہ جلدی سے اُٹھ کر کچھ کھا پی لے۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا: اگر تم میں سے کوئی شخص سحری کھا رہا ہو اور اذان کی آواز آجائے تو فوراً چھوڑ نہ دے، بلکہ اپنی حاجت بھر کھا پی لے۔ اسی طرح افطار کے وقت میں بھی غروبِ آفتاب کے بعد خواہ مخواہ دن کی روشنی ختم ہونے کا انتظار کرتے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سُورج ڈوبتے ہی بلال ؓ کو آواز دیتے تھے کہ لا ؤ ہمارا شربت۔ بلال ؓ عرض کرتے کہ یا رسُول اللہ: ابھی تو دن چمک رہا ہے۔ آپ ؐ فرماتے کہ جب رات کی سیاہی مشرق سے اُٹھنے لگے ، تو روزے کا وقت ختم ہو جاتا ہے |
4 | اسلام نے اپنی عبادات کے لیے اوقات کا وہ معیار مقرر کیا ہے جس سے دُنیا میں ہر وقت ہر مرتبہء تمدّن کے لو گ ہر جگہ اوقات کی تعیین کر سکیں۔ وہ گھڑیوں کے لحاظ سے وقت مقرر کرنے کے بجائے اُن آثار کے لحاظ سے وقت مقرر کرتا ہے جو آفاق میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ مگر نادان لوگ اس طریقِ توقیت پر عموماً یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قُطبَین کے قریب، جہاں رات اور دن کئی کئی مہینوں کے ہوتے ہیں، اوقات کی یہ تعیین کیسے چل سکے گی۔ حالانکہ یہ اعتراض دراصل علمِ جغرافیہ کی سرسری واقفیت کا نتیجہ ہے۔ حقیقت میں نہ وہاں چھ مہینوں کی رات اُس معنی میں ہوتی ہے اور نہ چھ مہینوں کا دن ، جس معنی میں ہم خطِ استوا کے آس پاس رہنے والے لوگ دن اور رات کے لفظ بولتے ہیں۔ خواہ رات کا دَور ہو یا دن کا بہرحال صبح و شام کے آثار وہاں پُوری باقاعدگی کے ساتھ اُفق پر نمایاں ہوتے ہیں اور اُنہی کے لحاظ سے وہاں کے لوگ ہماری طرح اپنے سونے جاگنے اور کام کرنے اور تفریح کرنے کے اوقات مقرر کرتے ہیں ۔ جب گھڑیوں کا رواج عام نہ تھا، تب بھی فن لینڈ ، ناروے اور گرین لینڈ وغیرہ ملکوں کے لوگ اپنے اوقات معلوم کرتے ہی تھے اور اس کا ذریعہ یہی اُفق کے آثار تھے۔ لہٰذا جس طرح دُوسرے تمام معاملات میں یہ آثار ان کے لیے تعیینِ اوقات کا کام دیتے ہیں اسی طرح نماز اور سحر و افطار کے معاملے میں بھی دے سکتے ہیں |
3 | اس بارے میں بھی لوگ ابتداءً غلط فہمی میں تھے ۔ کسی کا خیال تھا کہ عشا کی نماز پڑھنے کے بعد سے کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے اور کوئی یہ سمجھتا تھا کہ رات کو جب تک آدمی جاگ رہا ہو، کھا پی سکتا ہے۔ جہاں سو گیا، پھر دوبارہ اُٹھ کر وہ کچھ نہیں کھا سکتا۔ یہ احکام لوگوں نے خود اپنے ذہن میں سمجھ رکھے تھے اور اس کی وجہ سے بسا اوقات بڑی تکلیفیں اُٹھاتے تھے۔ اِس آیت میں انہی غلط فہمیوں کو رفع کیا گیا ہے۔ اس میں روزے کی حد طلوع فجر سے لے کر غروبِ آفتاب تک مقرر کر دی گئی اور غروبِ آفتاب سے طلوع فجر تک رات بھر کھانے پینے اور مباشرت کرنے کے لیے آزادی دے دی گئی۔ اس کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری کا قاعدہ مقرر فرما دیا تاکہ طلُوعِ فجر سے عین پہلے آدمی اچھی طرح کھا پی لے
|
2 | ابتدا میں اگرچہ اس قسم کا کوئی صاف حکم موجود نہ تھا کہ رمضان کی راتوں میں کوئی شخص اپنی بیوی سے مباشرت نہ کرے، لیکن لوگ اپنی جگہ یہی سمجھتے تھے کہ ایسا کر نا جائز نہیں ہے۔ پھر اس کے ناجائز یا مکروہ ہونے کا خیال دل میں لیے ہوئے بسا اوقات اپنی بیویوں کے پاس چلے جاتے تھے۔ یہ گویا اپنے ضمیر کے ساتھ خیانت کا ارتکاب تھا اور اس سے اندیشہ تھا کہ ایک مجرمانہ اور گناہ گارانہ ذہنیت اُن کے اندر پرورش پاتی رہے گی۔ اس لیے اللہ تعالٰی نے پہلے اس خیانت پر تنبیہ فرمائی اور پھر ارشاد فرمایا کہ یہ فعل تمہارے لیے جائز ہے۔ لہٰذا اب اسے بُرا فعل سمجھتے ہوئے نہ کرو، بلکہ اللہ کی اجازت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے قلب و ضمیر کی پوری طہارت کے ساتھ کرو |
1 | یعنی جس طرح لباس اور جسم کے درمیان کوئی پردہ نہیں رہ سکتا ، بلکہ دونوں کا باہمی تعلق و اتّصال بالکل غیر منفک ہوتا ہے، اسی طرح تمہارا اور تمہاری بیویوں کا تعلق بھی ہے |
Surah 2 : Ayat 235
وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا عَرَّضْتُم بِهِۦ مِنْ خِطْبَةِ ٱلنِّسَآءِ أَوْ أَكْنَنتُمْ فِىٓ أَنفُسِكُمْۚ عَلِمَ ٱللَّهُ أَنَّكُمْ سَتَذْكُرُونَهُنَّ وَلَـٰكِن لَّا تُوَاعِدُوهُنَّ سِرًّا إِلَّآ أَن تَقُولُواْ قَوْلاً مَّعْرُوفًاۚ وَلَا تَعْزِمُواْ عُقْدَةَ ٱلنِّكَاحِ حَتَّىٰ يَبْلُغَ ٱلْكِتَـٰبُ أَجَلَهُۥۚ وَٱعْلَمُوٓاْ أَنَّ ٱللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِىٓ أَنفُسِكُمْ فَٱحْذَرُوهُۚ وَٱعْلَمُوٓاْ أَنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ
زمانہ عدت میں خواہ تم اُن بیوہ عورتوں کے ساتھ منگنی کا ارادہ اشارے کنایے میں ظاہر کر دو، خواہ دل میں چھپائے رکھو، دونوں صورتوں میں کوئی مضائقہ نہیں اللہ جانتا ہے کہ اُن کا خیال تو تمہارے دل میں آئے گا ہی مگر دیکھو! خفیہ عہد و پیمان نہ کرنا اگر کوئی بات کرنی ہے، تو معرف طریقے سے کرو اور عقد نکاح باندھنے کا فیصلہ اُس وقت تک نہ کرو، جب تک کہ عدت پوری نہ ہو جائے خوب سمجھ لو کہ اللہ تمہارے دلوں کا حال تک جانتا ہے لہٰذا اس سے ڈرو اور یہ بھی جان لو کہ اللہ بردبار ہے، چھوٹی چھوٹی باتوں سے درگزر فرماتا ہے
Surah 6 : Ayat 33
قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُۥ لَيَحْزُنُكَ ٱلَّذِى يَقُولُونَۖ فَإِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُونَكَ وَلَـٰكِنَّ ٱلظَّـٰلِمِينَ بِـَٔـايَـٰتِ ٱللَّهِ يَجْحَدُونَ
اے محمدؐ! ہمیں معلوم ہے کہ جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان سے تمہیں رنج ہوتا ہے، لیکن یہ لوگ تمہیں نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم دراصل اللہ کی آیات کا انکار کر رہے ہیں1
1 | واقعہ یہ ہے کہ جب تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی آیات سنانی شروع نہ کی تھیں، آپ کی قوم کے سب لوگ آپ کو امین اور صادق سمجھتے تھے اور آپ کی راستبازی پر کام اعتماد رکھتے تھے۔ انہو ں نے آپ کو جھٹلایا اُس وقت جبکہ آپ نے اللہ کی طرف سے پیغام پہنچانا شروع کیا۔ اور اس دُوسرے دَور میں بھی ان کے اندر کوئی شخص ایسا نہ تھا کہ جو شخصی حیثیت سے آپ کو جھوٹا قرار دینے کی جرأت کر سکتا ہو۔ آپ کے کسی سخت سے سخت مخالف نے بھی کبھی آپ پر یہ الزام نہیں لگایا کہ آپ دنیا کے کسی معاملہ میں کبھی جھُوٹ بولنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ انہوں نے جتنی آپ کی تکذیب کی وہ محض نبی ہونے کی حیثیت سے کی۔ آپ کا سب سے بڑا دشمن ابو جہل تھا اور حضرت علی ؓ کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ اس نے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرتے ہوئے کہا انا لا نکذ بک ولکن نکذبُ ما جئت بہٖ ” ہم آپ کو تو جھوٹا نہیں کہتے ، مگر جو کچھ آپ پیش کر رہے ہیں اُسے جھوٹ قرار دیتے ہیں“۔ جنگ ِ بدر کے موقع پر اَخْنَس بن شَرِیق نے تخلیہ میں ابُو جہل سے پُوچھا کہ یہاں میرے اور تمہارے سوا کوئی تیسرا موجود نہیں ہے ، سچ بتاؤ کہ محمد ؐ تم سچا سمجھتے ہو یا جھُوٹا؟ اس نے جواب دیا کہ ”خدا کی قسم محمد ؐ ایک سچا آدمی ہے ، عمر بھر کبھی جھُوٹ نہیں بولا، مگر جب لِواء اور سقایت اور حجابت اور نبوّت سب کچھ بنی قُصَیّ ہی کے حصّہ میں آجائے تو بتاؤ باقی سارے قریش کے پاس کیا رہ گیا؟“ اسی بناپر یہاں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو تسلّی دے رہا ہے کہ تکذیب دراصل تمہاری نہیں بلکہ ہماری کی جارہی ہے ، اور جب ہم تحمل و بُردباری کے ساتھ اسے برداشت کیے جا رہے ہیں اور ڈھیل پر ڈھیل دیے جاتے ہیں تو تم کیوں مضطرب ہوتے ہو |
Surah 8 : Ayat 66
ٱلْـَٔـٰنَ خَفَّفَ ٱللَّهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًاۚ فَإِن يَكُن مِّنكُم مِّاْئَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُواْ مِاْئَتَيْنِۚ وَإِن يَكُن مِّنكُمْ أَلْفٌ يَغْلِبُوٓاْ أَلْفَيْنِ بِإِذْنِ ٱللَّهِۗ وَٱللَّهُ مَعَ ٱلصَّـٰبِرِينَ
اچھا، اب اللہ نے تمہارا بوجھ ہلکا کیا اور اسے معلوم ہوا کہ ابھی تم میں کمزوری ہے، پس اگر تم میں سے سو آدمی صابر ہوں تو وہ دو سو پر اور ہزار آدمی ایسے ہوں تو دو ہزار پر اللہ کے حکم سے غالب آئیں گے1، اور اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو صبر کرنے والے ہیں
1 | اس کا مطلب نہیں ہے کہ پہلے ایک اور دس کی نسبت تھی اور اب چونکہ تم میں کمزوری آگئی ہے اس لیے ایک اور دو کی نسبت قائم کر دی گئی ہے۔ بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ اصولی اور معیاری حیثیت سے تو اہل ایمان اور کفار کے درمیان ایک اور دس ہی کی نسبت ہے، لیکن چونکہ ابھی تم لوگوں کی اخلاقی تربیت مکمل نہیں ہوئی ہے اور ابھی تک تمہارا شعور اور تمہاری سمجھ بوجھ کا پیمانہ بلوغ کی حد کو نہیں پہنچا ہے اس لیے سروست بر سبیلِ تنزل تم سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اپنے سے دوگنی طاقت سے ٹکرانے میں تو تمہیں کوئی تامل نہ ہونا چاہیے۔ خیال رہے کہ یہ ارشادسن۲ ھج کا ہے جب کہ مسلمانوں میں بہت سے لوگ ابھی تازہ تازہ ہی داخلِ اسلام ہوئے تھے اور ان کی تربیت ابتدائی حالت میں تھی۔ بعد میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی میں یہ لوگ پختگی کو پہنچ گئے تو فی الواقع ان کے اور کفار کے درمیان ایک اور دس ہی کی نسبت قائم ہوگئی، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آخر عہد اور خلفائے راشدین کے زمانہ کی لڑائیوں میں بارہا اس کا تجربہ ہوا ہے |
Surah 9 : Ayat 42
لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيبًا وَسَفَرًا قَاصِدًا لَّٱتَّبَعُوكَ وَلَـٰكِنۢ بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ ٱلشُّقَّةُۚ وَسَيَحْلِفُونَ بِٱللَّهِ لَوِ ٱسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ يُهْلِكُونَ أَنفُسَهُمْ وَٱللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُمْ لَكَـٰذِبُونَ
اے نبیؐ، اگر فائدہ سہل الحصول ہوتا اور سفر ہلکا ہوتا تو وہ ضرور تمہارے پیچھے چلنے پر آمادہ ہو جاتے، مگر ان پر تو یہ راستہ بہت کٹھن ہو گیا1 اب وہ خدا کی قسم کھا کھا کر کہیں گے کہ اگر ہم چل سکتے تو یقیناً تمہارے ساتھ چلتے وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں
1 | یعنی یہ دیکھ کر کہ مقابلہ روم جیسی طاقت سے ہے اور زمانہ شدید گرمی کا ہے اور ملک میں قحط برپا ہے اور نئے سال کی فصلیں جن سے آس لگی ہوئی تھی، کٹنے کے قریب ہیں، ان کو تبوک کا سفر بہت ہی گراں محسُوس ہونے لگا |
Surah 9 : Ayat 101
وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ ٱلْأَعْرَابِ مُنَـٰفِقُونَۖ وَمِنْ أَهْلِ ٱلْمَدِينَةِۖ مَرَدُواْ عَلَى ٱلنِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْۖ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْۚ سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَىٰ عَذَابٍ عَظِيمٍ
تمہارے گرد و پیش جو بدوی رہتے ہیں ان میں بہت سے منافق ہیں اور اسی طرح خود مدینہ کے باشندوں میں بھی منافق موجود ہیں جو نفاق میں طاق ہو گئے ہیں تم انہیں نہیں جانتے، ہم ان کو جانتے ہیں1 قریب ہے وہ وقت جب ہم ان کو دوہری سزا دیں گے2، پھر وہ زیادہ بڑی سزا کے لیے واپس لائے جائیں گے
2 | دوہری سزا سے مراد یہ ہے کہ ایک طرف تو وہ دنیا جس کی محبت میں مبتلا ہو کر انہوں نے ایمان و اخلاص کی بجائے منافقت اور غداری کا رویہ اختیار کیا ہے، ان کے ہاتھ سے جائے گی اور یہ مال و جاہ اور عزت حاصل کرنے کے بجائے اُلٹی ذلت و نامرادی پائیں گے۔ دوسری طرف جس مشن کو یہ ناکام دیکھنا اور اپنی چال بازیوں سے ناکام کرنا چاہتے ہیں وہ ان کی خواہشوں کو کوششوں کے علی الرغم ان کی آنکھوں کے سامنے فروغ پائے گا |
1 | یعنی اپنے نفاق کو چھپانے میں وہ اتنے مشاق ہوگئے ہیں کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی کمان درجے کی فراست کے باوجود ان کو نہیں پہنچا ن سکتے تھے |
Surah 12 : Ayat 50
وَقَالَ ٱلْمَلِكُ ٱئْتُونِى بِهِۦۖ فَلَمَّا جَآءَهُ ٱلرَّسُولُ قَالَ ٱرْجِعْ إِلَىٰ رَبِّكَ فَسْــَٔلْهُ مَا بَالُ ٱلنِّسْوَةِ ٱلَّـٰتِى قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّۚ إِنَّ رَبِّى بِكَيْدِهِنَّ عَلِيمٌ
بادشاہ نے کہا اسے میرے پاس لاؤ مگر جب شاہی فرستادہ یوسفؑ کے پاس پہنچا تو اس نے کہا1 "اپنے رب کے پاس واپس جا اور اس سے پوچھ کہ اُن عورتوں کا کیا معاملہ ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے؟ میرا رب تو ان کی مکاری سے واقف ہی ہے2"
2 | یہاں سے لے کر بادشاہ کی ملاقات تک جو کچھ قرآن نے بیان کیا ہے۔۔۔۔۔۔ جو اس قصے کا ایک بڑا ہی اہم باب ہے۔۔۔۔۔۔ اس کا کوئی ذکر بائیبل اور تلمود میں نہیں ہے۔ بائیبل کا بیا ن ہے کہ بادشاہ کی طلبی پر حضرت یوسف ؑ فوراً چلنے کے لیے تیار ہوگئے، حجامت بنوائی، کپڑے بدلے اور دربار میں جا حاضر ہوئے۔ تلمود اس سے بھی زیادہ گھٹیا صورت میں اس واقعے کو پیش کرتی ہے۔ اس کا بیا ن یہ ہے کہ ”بادشاہ نے اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ یوسف ؑ کو میرے حضور پیش کرو، اور یہ بھی ہدایت کر دی کہ دیکھو ایسا کوئی کام نہ کرنا کہ لڑکا گھبرا جائے اور صحیح تعبیر نہ دے سکے۔ چنانچہ شاہی ملازموں نے یوسف ؑ کو قید خانے سے نکالا، حجامت بنوائی، کپڑے بدلوائے اور دربار میں لا کر پیش کر دیا۔ بادشاہ اپنے تخت پر بیٹھا تھا ۔ وہاں زروجواہر کی چمک دمک اور دربار کی شان دیکھ کر یوسف ؑ ہکا بکا رہ گیا اور اس کی آنکھیں خیرہ ہونےلگیں۔ شاہی تخت کی سات سیڑھیاں تھیں۔ قاعدہ یہ تھا کہ جب کوئی معزز آدمی بادشاہ سے کچھ عرض کرنا چاہتا تو وہ چھ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جاتا اور بادشاہ سےہم کلام ہوتا تھا۔ اور جب ادنیٰ طبقہ کا کوئی آدمی شاہی مُخاطبہ کے لیے بلایا جاتا تو وہ نیچے کھڑا رہتا اور بادشاہ تیسری سیڑھی تک اتر کر اس سے بات کرتا۔ یوسف ؑ اس قاعدے کے مطابق نیچے کھڑا ہوا اور زمین بوس ہو کر اس نے بادشاہ کو سلامی دی۔ اور بادشاہ نے تیسری سیڑھی تک اتر کر اس سے گفتگو کی“۔ اس تصویر میں بنی اسرائیل نے اپنے جلیل القدر پیغمبر کو جتنا گرا کر پیش کیا ہے اس کو نگاہ میں رکھیے اور پھر دیکھیے کہ قرآن ان کے قید سے نکلنے اور بادشاہ سے ملنے کا واقعہ کس شان اور کس آن بان کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ اب یہ فیصلہ کرنا ہر صاحب نظر کا اپنا کام ہے کہ ان دونوں تصویروں میں سے کونسی تصویر پیغمبر ی کے مرتبے سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔ علاوہ بریں یہ بات بھی عقلِ عام کو کھٹکتی ہے کہ اگر بادشاہ کی ملاقات کے وقت تک حضرت یوسف ؑ کی حیثیت اتنی گہری ہوئی تھی جتنی تلمود کے بیان سے معلوم ہوتی ہے، تو خواب کی تعبیر سنتے ہی یکایک ان کو تمام سلطنت کا مختار کل کیسے بنا دیا گیا۔ ایک مہذب و متمدن ملک میں اتنا بڑا مرتبہ تو آدمی کو اُسی وقت ملا کرتا ہے جب کہ وہ اپنی اخلاقی و ذہنی بر تری کا سکہ لوگوں پر بٹھا چکا ہو۔ پس عقل کی رو سے بھی بائیبل اور تلمود کی بہ نسبت قرآن کا بیان زیادہ مطابق حقیقت معلوم ہوتا ہے |
1 | متن میں لفظ”یعصروف“استعمال ہوا ہے جس کے لفظی معنی ”نچوڑنے“ کے ہیں۔ اس سے مقصود یہاں سر سبزی و شادابی کی وہ کیفیت بیان کرنا ہے جو قحط کے بعد باران رحمت اور دریائے نیل کے چڑھاؤ سے رونما ہونے والی تھی۔ جب زمین سیراب ہوتی ہے تو تیل دینے والے بیج اور رس دینے والے پھر اور میوے خوب پیداہوتے ہیں ، اور مویشی بھی چاہ اچھا ملنے کی وجہ سے خوب دودھ دینے لگتے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اس تعبیر میں صرف بادشاہ کے خواب کا مطلب بتانے ہی پر اکتفا نہ کیا، بلکہ ساتھ ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ خوشحالی کے ابتدائی سات برسوں میں آنے والے قحط کے لیے کیا پیش بندی کی جائے اور غلہ کو محفوظ رکھنے کا کیا بندوبست کیا جائے۔ پھر مزید براں آپ نے قحط کے بعد اچھے دن آنے کی خوشخبری بھی دے دی جس کا ذکر بادشاہ کے خواب میں نہ تھا |
Surah 13 : Ayat 42
وَقَدْ مَكَرَ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَلِلَّهِ ٱلْمَكْرُ جَمِيعًاۖ يَعْلَمُ مَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍۗ وَسَيَعْلَمُ ٱلْكُفَّـٰرُ لِمَنْ عُقْبَى ٱلدَّارِ
اِن سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں وہ بھی بڑی بڑی چالیں چل چکے ہیں1، مگر اصل فیصلہ کن چال تو پوری کی پوری اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے وہ جانتا ہے کہ کون کیا کچھ کمائی کر رہا ہے، اور عنقریب یہ منکرین حق دیکھ لیں گے کہ انجام کس کا بخیر ہوتا ہے
1 | یعنی آج یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ حق کی آواز کو دبانے کے لیے جھوٹ اور فریب اور ظلم کے ہتھیار استعمال کیے جا رہے ہیں ۔ پچھلی تاریخ میں بارہا ایسی ہی چالوں سے دعوتِ حق کو شکست دینے کی کوششیں کی جا چکی ہیں |
Surah 15 : Ayat 24
وَلَقَدْ عَلِمْنَا ٱلْمُسْتَقْدِمِينَ مِنكُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا ٱلْمُسْتَــْٔخِرِينَ
پہلے جو لوگ تم میں سے ہو گزرے ہیں اُن کو بھی ہم نے دیکھ رکھا ہے، اور بعد کے آنے والے بھی ہماری نگاہ میں ہیں
Surah 15 : Ayat 97
وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُولُونَ
ہمیں معلوم ہے کہ جو باتیں یہ لوگ تم پر بناتے ہیں ان سے تمہارے دل کو سخت کوفت ہوتی ہے