Ayats Found (2)
Surah 20 : Ayat 102
يَوْمَ يُنفَخُ فِى ٱلصُّورِۚ وَنَحْشُرُ ٱلْمُجْرِمِينَ يَوْمَئِذٍ زُرْقًا
اُس دن جبکہ صُور پھُونکا جائے گا 1اور ہم مجرموں کو اِس حال میں گھیر لائیں گے کہ ان کی آنکھیں (دہشت کے مارے) پتھرائی ہوئی ہوں گی2
2 | اصل میں لفظ ’’زُرقاً‘‘ استعمال ہوا ہے جو اَزْرَق کی جمع ہے۔ بعض لوگوں نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ وہ لوگ خود اَزْرق (سفیدی مائل نیلگوں) ہو جائیں گے کیونکہ خوف و دہشت کے مارے ان کا خون خشک ہو جاۓ گا اور ان کی حالت ایسی ہو جاۓ گی کہ گویا ان کے جسم میں خون کا ایک قطرہ تک نہیں ہے۔ اور بعض دوسرے لوگوں نے اس لفظ کو ارز قالعین(کرنجی آنکھوں والے) کے معنی میں لیا ہے اور وہ اس کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ شدت ہول سے ان کے دیدے پتھرا جائیں گے۔ جب کسی شخص کی آنکھ بے نور ہو جاتی ہے تو اس کے حدقۂ چشم کا رنگ سفید پڑ جاتا ہے۔ |
1 | صَور، یعنی نر سنگھا، قرناء، یا بوق۔ آج کل اسی چیز کا قائم مقام بگل ہے جو فوج کو جمع یا منتشر کرنے اور ہدایات دینے کے لیے بجایا جاتا ہے۔ اللہ تعالٰی اپنی کائنات کے نظم کو سمجھانے کے لیے وہ الفاظ اور اصطلاحیں استعمال فرماتا ہے جو خود انسانی زندگی میں اسی سے ملتے چلتے نظم کے لیے استعمال ہوتی ہیں ان الفاظ اور اصطلاحوں کے استعمال سے مقصود ہمارے تصور کو اصل چیز کے قریب لے جانا ہے، نہ یہ کہ ہم سلطنت الہٰی کے نظم کی مختلف چیزوں کو بعینہ ان محدود معنوں میں لے لیں، اوران محدود صورتوں کی چیزیں سمجھ لیں جیسی کہ وہ ہماری زندگی میں پائی جاتی ہیں۔ قدیم زمانے سے آج تک لوگوں کو جمع کرنے اور اہم باتوں کا اعلان کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی ایسی چیز پھونکی جاتی رہی ہے جو صور یا بگل سے ملتی جلتی ہو۔ اللہ تعالٰی بتاتا ہے کہ ایسی ہی ایک چیز قیامت کے روز پھونکی جاۓ گی جس کی نوعیت ہمارے نرسنگھے کی سی ہو گی۔ ایک دفع وہ پھونکی جاۓ گی اور سب پر موت طاری ہو جاۓ گی۔ دوسری دفعہ پھونکنے پر سب جی اٹھیں گے اور زمین کے ہر گوشے سے نکل نکل کر میدان حشر کی طرف دوڑنے لگیں گے۔ (مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، النمل، حاشیہ 106)۔ |
Surah 20 : Ayat 104
نَّحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ إِذْ يَقُولُ أَمْثَلُهُمْ طَرِيقَةً إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا يَوْمًا
ہمیں خوب معلوم ہے کہ وہ کیا باتیں کر رہے ہوں گے (ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ) اُس وقت ان میں سے جو زیادہ سے زیادہ محتاط اندازہ لگانے والا ہوگا وہ کہے گا کہ نہیں، تمہاری دنیا کی زندگی بس ایک دن کی تھی1
1 | یہ بھی جملۂ معترضہ ہے جو دوران تقریر میں کسی سامع کے سوال پر ارشاد ہوا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت یہ سورت ایک الہامی تقریر کے انداز میں سنائی جا رہی ہو گی اس وقت کسی نے مذاق اڑانے کے لیے یہ سوال اٹھایا ہو گا کہ قیامت کا جو نقشہ آپ کھینچ رہے ہیں اس سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دنیا بھر کے لوگ کسی ہموار میدان میں بھاگے چلے جا رہے ہوں گے۔ آخر یہ بڑے بڑے پہاڑ اس وقت کہاں چلے جائیں گے؟ اس سوال کا موقع سمجھنے کے لیے اس ماحول کو نگاہ میں رکھیے جس میں یہ تقریر کی جا رہی تھی۔ مکہ جس مقام پر واقع ہے اس کی حالت ایک حوض کی سی ہے جس کے چاروں طرف اونچے اونچے پہاڑ ہیں۔ سائل نے انہی پہاڑوں کی طرف اشارہ کر کے یہ بات کہی ہو گی۔ اور وحی کے اشارہ سے جواب برملا اسی وقت یہ دے دیا گیا کہ یہ پہاڑ کوٹ پیٹ کراس طرح ریزہ ریزہ کر دیے جائیں گے جیسے ریت کے ذرے، اور ان کو دھول کی طرح اڑا کر ساری زمین ایک ایسی ہموار میدان بنا دی جاۓ گی کہ اس میں کوئی اونچ نیچ نہ رہے گی، کوئی نشیب و فراز نہ ہو گا،اس کی حالت ایک ایسے صاف فرش کی سی ہو گی جس میں ذرا سا بَل اور کوئی معمولی سی سلوٹ تک نہ ہو۔ |