Ayats Found (10)
Surah 6 : Ayat 128
وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا يَـٰمَعْشَرَ ٱلْجِنِّ قَدِ ٱسْتَكْثَرْتُم مِّنَ ٱلْإِنسِۖ وَقَالَ أَوْلِيَآؤُهُم مِّنَ ٱلْإِنسِ رَبَّنَا ٱسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَبَلَغْنَآ أَجَلَنَا ٱلَّذِىٓ أَجَّلْتَ لَنَاۚ قَالَ ٱلنَّارُ مَثْوَٮٰكُمْ خَـٰلِدِينَ فِيهَآ إِلَّا مَا شَآءَ ٱللَّهُۗ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ
جس روز اللہ ان سب لوگوں کو گھیر کر جمع کرے گا، اس روز وہ جنوں1 سے خطاب کر کے فرمائے گا کہ 2"ا ے گروہ جن! تم نے نوع انسانی پر خوب ہاتھ صاف کیا" انسانوں میں سے جو اُن کے رفیق تھے وہ عرض کریں گے "پروردگار! ہم میں سے ہر ایک نے دوسرے کو خو ب استعمال کیا ہے، اور اب ہم اُس وقت پر آ پہنچے ہیں جو تو نے ہمارے لیے مقرر کر دیا تھا3" اللہ فرمائے گا "اچھا اب آگ تمہارا ٹھکانا ہے، اس میں تم ہمیشہ رہو گے" ا"س سے بچیں گے صرف وہی جنہیں اللہ بچانا چاہے گا، بے شک تمہارا رب دانا اور علیم ہے
3 | یعنی اگرچہ اللہ کو اختیار ہے کہ جسے چاہے سزا دے اور جسے چاہے معاف کر دے ، مگر یہ سزا اور معافی بلاوجہِ معقول ، مجرّد خواہش کی بنا پر نہیں ہو گی، بلکہ علم اور حکمت پر مبنی ہو گی۔ خدا معاف اسی مجرم کو کرے گا جس کے متعلق وہ جانتا ہے کہ وہ کود اپنے جُرم کا ذمّہ دار نہیں ہے اور جس کے متعلق اس کی حکمت یہ فیصلہ کر ے گی کہ اسے سزا نہ دی جانی چاہیے |
2 | یعنی ہم میں سے ہر ایک نے دُوسرے سے ناجائز فائدے اُٹھائے ہیں، ہر ایک دُوسرے کو فریب میں مبتلا کر کے اپنی خواہشات پوری کرتا رہا ہے |
1 | یہاں جِنوں سے مراد شیاطین جِن ہیں |
Surah 6 : Ayat 130
يَـٰمَعْشَرَ ٱلْجِنِّ وَٱلْإِنسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ ءَايَـٰتِى وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَآءَ يَوْمِكُمْ هَـٰذَاۚ قَالُواْ شَهِدْنَا عَلَىٰٓ أَنفُسِنَاۖ وَغَرَّتْهُمُ ٱلْحَيَوٲةُ ٱلدُّنْيَا وَشَهِدُواْ عَلَىٰٓ أَنفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُواْ كَـٰفِرِينَ
(اس موقع پر اللہ ان سے پوچھے گا کہ) 1"اے گروہ جن وانس، کیا تمہارے پاس خود تم ہی میں سے وہ پیغمبر نہیں آئے تھے جو تم کو میری آیات سناتے اور اِس دن کے انجام سے ڈراتے تھے؟" وہ کہیں گے "ہاں، ہم اپنے خلاف خود گواہی دیتے ہیں" آج دنیا کی زندگی نے اِن لوگوں کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے، مگر اُس وقت وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ کافر تھے2
2 | یعنی بے خبر اور ناواقف نہ تھے بلکہ کافر تھے۔ وہ خود تسلیم کریں گے کہ حق ہم تک پہنچا تھا مگر ہم نے خود اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا |
1 | یعنی ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ کی طرف سے رسُول پر رسُول آتے اور ہمیں حقیقت سے خبردار کرتے رہے، مگر یہ ہمارا اپنا قصُور تھا کہ ہم نے ان کی بات نہ مانی |
Surah 7 : Ayat 38
قَالَ ٱدْخُلُواْ فِىٓ أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِكُم مِّنَ ٱلْجِنِّ وَٱلْإِنسِ فِى ٱلنَّارِۖ كُلَّمَا دَخَلَتْ أُمَّةٌ لَّعَنَتْ أُخْتَهَاۖ حَتَّىٰٓ إِذَا ٱدَّارَكُواْ فِيهَا جَمِيعًا قَالَتْ أُخْرَٮٰهُمْ لِأُولَـٰهُمْ رَبَّنَا هَـٰٓؤُلَآءِ أَضَلُّونَا فَـَٔـاتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ ٱلنَّارِۖ قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَلَـٰكِن لَّا تَعْلَمُونَ
اللہ فرمائے گا جاؤ، تم بھی اسی جہنم میں چلے جاؤ جس میں تم سے پہلے گزرے ہوئے گروہ جن و انس جا چکے ہیں ہر گروہ جب جہنم میں داخل ہوگا تو اپنے پیش رو گروہ پر لعنت کرتا ہوا داخل ہوگا، حتیٰ کہ جب سب وہاں جمع ہو جائیں گے تو ہر بعد والا گروہ پہلے گروہ کے حق میں کہے گا کہ اے رب، یہ لوگ تھے جنہوں نے ہم کو گمراہ کیا لہٰذا انہیں آگ کا دوہرا عذاب دے جواب میں ارشاد ہوگا، ہر ایک کے لیے دوہرا ہی عذاب ہے مگر تم جانتے نہیں ہو1
1 | یعنی بہرحال تم میں سے ہر گروہ کسی کا خلف تھا تو کسی کا سلف بھی تھا۔ اگر کسی گروہ کے اسلاف نے اُس کے لیے فکر وعمل کی گمراہیوں کا ورثہ چھوڑا تھا تو خود وہ بھی اپنے اخلاف کے لیے ویسا ہی ورثہ چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوا۔ اگر ایک گرہ کے گمراہ ہونے کی کچھ ذمہ داری اس کے اسلاف پر عائد ہوتی ہے تو اس کے اخلاف کی گمراہی کااچھا خاصا بارخود اس پر بھی عائد ہوتا ہے۔ اسی بنا پر فرمایا کہ ہر ایک کے لیے دو ہر عذاب ہے۔ ایک عذاب خود گمراہی اختیار کرنے کا اور دوسرا عذاب دوسروں کو گمراہ کرنے کا۔ ایک سزا اپنے جرائم کی اور دوسری سزا دوسروں کے جرائم پیشگی کی میراث چھوڑ آنے کی۔ حدیث میں اسی مضمون کی توضیح یوں بیان فرمائی گئی ہے کہ من ابتدع بدعة ضلالةِ لا یر ضا ھا اللہ و رسولہ کان علیہ من الاثم مثل اٰثام من عمل بھا لا ینقص ذالک من اوزارھم شیئا۔ یعنی جس نے کسی نئی گمراہی کا آغاز کیا جو اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک نا پسندیدہ ہو، تو اس پر ان سب لوگوں کے گناہ کی ذمہ داری عائد ہوگی جنہوں نے اس کے نکالے ہوئے طریقہ پر عمل کیا ، بغیر اس کے کہ خود ان عمل کرنے والوں کی ذمہ داری میں کوئی کمی ہو۔ دوسری حدیث میں ہے لاتقتل نفس ظلما الاکان علی ابن اٰدم الاول کفل من دمھالا نہ اول من سن القتل ۔ یعنی دنیا میں جو انسان بھی ظلم کے ساتھ قتل کیا جاتا ہے اس کے خونِ نا حق کا ایک حصہ آدم کے اُس پہلے بیٹے کو پہنچتا ہے جس نے اپنے بھائی کو قتل کیاتھا، کیونکہ قتلِ انسان کا راستہ سب سے پہلے اسی نے کھولا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص یا گرہ کسی غلط خیال یا غلط رویّہ کی بنا ڈالتا ہے وہ صرف اپنی ہی غلطی کا ذمہ دار نہیں ہوتا بلکہ دنیا میں جتنے انسان اس سے متاثر ہوتے ہیں اُن سب کے گناہ کی ذمہ داری کا بھی ایک حصہ اس کے حساب میں لکھا جاتا رہتا ہے اور جب تک اس کی غلطی کے اثرات چلتے رہتے ہیں اس کے حساب میں ان کا اندراج ہوتا رہتا ہے۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر شخص اپنی نیکی یا بدی کا صرف اپنی ذات کی حد تک ہی ذمہ دار نہیں ہے بلکہ اس امر کا بھی جواب دہ ہے کہ اس کی نیکی یا بدی کے کیا اثرات دوسروں کی زندگیوں پر مرتب ہوئے۔ مثال کے طور پر ایک زانی کو لیجیے۔ جن لوگوں کی تعلیم و تربیت سے، جن کی صحبت کے اثر سے، جن کی بُری مثالیں دیکھنے سے ، اور جن کی ترغیبات سے اس شخص کے اندر زنا کاری کی صفت نےظہور کیا وہ سب اس کے زنا کار بننے میں حصہ دار ہیں۔ اور خود اُن لوگوں نے اوپر جہاں جہاں سے اس بد نظری وبدنیتی اور بدکاری کی میراث پائی ہے وہاں تک اس کی ذمہ داری پہنچتی ہے حتٰی کہ یہ سلسلہ اس اولین انسان پر منتہی ہوتا ہے جس نے سب سے پہلے نوعِ انسانی کوخواہش نفس کی تسکین کا یہ غلط راستہ دکھایا۔ یہ اُس زانی کے حساب کا وہ حصہ ہے جو اس کے ہم عصروں اور اس کے اسلاف سے تعلق رکھتا ہے۔ پھر وہ خود بھی اپنی زنا کاری کا ذمہ دار ہے۔ اُس کو بھلے اور بُرے کی جو تمیز دی گئی تھی، اس میں ضمیر کی جوطاقت رکھی گئی تھی، اس کے اندر ضبطِ نفس کی جو قوت ودیعت کی گئی تھی، اس کو نیک لوگوں سےخیر و شر کا جو علم پہنچاتھا، اس کے سامنے اخیار کی جو مثالیں موجود تھیں، اس کو صنفی بدعملی کے برے نتائج سے جو واقفیت تھی، ان میں سے کسی چیز سے بھی اس نے فائدہ نہ اُٹھایا اور اپنےآپ کو نفس کی اُس اندھی خواہش کے حوالے کر دیا جو صرف اپنی تسکین چاہتی تھی خواہ وہ کسی طریقہ سے ہو۔ یہ اس کےحساب کا وہ حصہ ہے جو اس کی اپنی ذات سے تعلق رکھتا ہے۔ پھر یہ شخص اُس بدی کو جس کا اکتساب اس نے کیا اور جسے خود اپنی سے وہپرورش کرتا رہا، دوسروں میں پھیلانا شروع کرتا ہے۔ کسی مرضِ خبیث کی چھوت کہیں سے لگا لاتا ہے اور اسےاپنی نسل میں اور خدا جانے کن کن نسلوں میں پھیلا کر نہ معلوم کتنی زندگیوں کوخراب کر دیتا ہے۔کہیں اپنا نطفہ چھوڑ آتا ہے اور جس بچہ کی پرورش کا بار اسے خود اُٹھانا چاہیے تھا اسے کسی اور کی کمائی کا ناجائز حصہ دار، اس کےبچون کےحقوق میں زبردستی کا شریک، اس کی میراث میں ناحق کا حق دار بنا دیتا ہے اور اِس حق تلفی کا سلسلہ نہ معلوم کتنی نسلوں تک چلتا رہتا ہے۔ کسی دوشیزہ لڑکی کو پُھسلا کر بد اخلاقی کی راہ پر ڈالتا ہےاور اس کے اندر وہ بُری صفات ابھار دیتا ہے جو اس سے منعکس ہو کر نہ معلوم کتنے خاندانوں اور کتنی نسلوں تک پہنچتی ہیں اور کتنے گھر بگاڑ دیتی ہیں۔ اپنی اولاد ،اپنے اقارب، اپنے دوستوں اور اپنی سوسائٹی کےدوسرے لوگوں کے سامنے اپنے اخلاق کی ایک بُری مثال پیش کرتا ہے اور نہ معلوم کتنے آدمیں کے چال چلن خرب کرنے کا سبب بن جاتا ہےجس کےاثرات بعد کی نسلوں میں مدّتہائے دراز تک چلتے رہتے ہیں ۔ یہ سارا فساد جو اس شخص نے سوسائٹی میں برپا کیا، انصاف چاہتا ہے کہ یہ بھی اس کے حساب میں لکھا جائے اور اس وقت تک لکھا جاتا رہے جب تک اس کی پھیلائی ہوئی خرابیوں کا سلسلہ دنیا میں چلتا رہے ۔ اس پر نیکی کو بھی قیاس کر لینا چاہیے۔ جو نیک ورثہ اپنے اسلاف سے ہم کو ملا ہے اُس کا اجر اُن سب لوگوں کو پہنچنا چاہیے جو ابتدائے آفر نیش سے ہمارے زمانہ تک اُس کے منتقل کرنے میں حصہ لیتے رہے ہیں پھراس ورثہ کو لے کر اسے سنبھالنے اور ترقی دینے میں جو خدمت ہم انجام دیں گے اس کا اجر ہمیں بھی ملنا چاہیے۔ پھر اپنی سعی خیر کے جو نقوش و اثرات ہم دنیا میں چھوڑ جائیں گے انہیں بھی ہماری بھلائیوں کے حساب میں اس وقت تک برابر درج ہوتے رہنا چاہیےجب تک یہ نقوش باقی رہیں اور ان کے اثرات کا سلسلہ نوعِ انسانی میں چلتا رہے اور ان کے فوائد سے خلقِ خدا متمتع ہوتی رہے۔ جزا کی یہ صورت جو قرآن پیش کر رہا ہے، ہر صاحب ِ عقل انسان تسلیم کرےگا کہ صحیح اور مکمل انصاف اگر ہو سکتا ہے تو اسی طرح ہو سکتا ہے۔ اس حقیقت کو اگر اچھی طرح سمجھ لیا جائے تو اس سے اُن لوگوں کی غلط فہمیاں بھی دور ہو سکتی ہیں جنہوں نے جزا ء کے لیے اسی دنیا کی موجودہ زندگی کو کافی سمجھ لیا ہے، اور اُن لوگوں کی غلط فہمیاں بھی جو یہ گمان رکھتے ہیں کہ انسان کو اس کے اعمال کی پوری جزاء تناسُخ کی صورت میں مل سکتی ہے۔ دراصل ان دونوں گروہوں نے نہ تو انسانی اعمال اور ان کے اثرات و نتائج کی وسعتوں کو سمجھا ہے اور نہ منصفانہ جزا اور اس کے تقاضوں کو ۔ ایک انسان آج اپنء پچاس ساٹھ سال کی زندگی میں جو اچھے یا بُرے کام کرتا ہے ان کی ذمہ داری میں نہ معلوم اوپر کی کتنی نسلیں شریک ہیں جو گزر چکیں اور آج یہ ممکن نہیں کہ انہیں اس کی جزاء یا سزا پہنچ سکے۔ پھر اس شخص کے یہ اچھے یا بُرے اعمال جو وہ آج کر رہا ہے اس کی موت کے ساتھ ختم نہیں ہو جائیں گے بلکہ ان کے اثرات کا سلسلہ آئندہ صد ہا برس تک چلتا رہے گا، ہزاروں لاکھوں بلکہ کروڑوں انسانوں تک پھیلے گا اور اس کے حساب کا کھاتہ اس وقت تک کھلا رہے گا جب تک یہ اثرات چل رہے ہیں اور پھیل رہے ہیں۔ کس طرح ممکن ہے کہ آج ہی اِس دنیا کی زندگی میں اس شخص کو اس کے کسب کی پوری جزا مل جائے درآں حالے کہ ابھی اس کے کسب کے اثرات کا لاکھواں حصہ بھی رونما نہیں ہوا ہے۔ پھر اس دنیا کی محدود زندگی اور اس کے محدود امکانا ت سرے سے اتنی گنجائش ہی نہیں رکھتے کہ یہاں کسی کو اس کے کسب کا پورا بدلہ مل سکے۔ آپ کسی ایسے شخص کے جرم کا تصور کیجیے جو مثلاً دنیا میں ایک جنگِ عظیم کی آگ بھڑکاتا ہے او ر اس کی اس حرکت کے بے شمار برے نتائج ہزاروں برس تک اربوں انسانوں تک پھیلتے ہیں۔ کیا کوئی بڑی سے بڑی جسمانی ، اخلاقی ، روحانی، یا مادّی سزا بھی، جو اس دنیا میں دی جانی ممکن ہے، اُس کے اِس جرم کی پوری منصفانہ سزا ہو سکتی ہے؟ اسی طرح کیا دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا انعام بھی، جس کا تصور آپ کر سکتے ہیں، کسی ایسے شخص کے لیے کافی ہو سکتا ہے جو مدّةالعمر نوعِ انسانی کی بھلائی کے لیے کام کرتا رہا ہو اور ہزاروں سال تک بے شمار انسان جس کی سعی کے ثمرات سے فائدہ اُٹھائے چلے جارہے ہوں۔ عمل اور جزا کے مسئلے کو اس پہلو سے جو شخص دیکھے گا اُسے یقین ہو جائے گا کہ جزا کے لیے ایک دوسرا ہی عالم درکار ہے جہاں تمام اگلی اور پچھلی نسلیں جمع ہوں، تمام انسانوں کے کھاتے بند ہو چکے ہوں، حساب کرنے کے لیے ایک علیم و خیبر خدا انصاف کی کُرسی پر متمکن ہو، اور اعمال کا پورا بدلہ پانے کے لیے انسان کے پاس غیر محدود زندگی اور اس کے گردوپیش جزا و سزا کے غیر محدودامکانات موجود ہوں۔ پھر اسی پہلو پر غور کرنے سے اہلِ تناسُخ کی ایک اور بنیادی غلطی کا ازالہ بھی ہو سکتا ہے جس میں مبتلا ہو انہوں ے آواگون کو چکر تجویز کیا ہے۔ وہ اس حقیقت کو نہیں سمجھے کہ صرف ایک ہی مختصر سی پچاس سالہ زندگی کے کارنامے کا پھل پانے کے لیے اُس سے ہزاروں گنی زیادہ طویل زندگی درکار ہے،کجا کہاس پچاس سالہ زندگی کے ختم ہوتے ہی ہماری ایک دوسری اور پھر تیسری ذمہ دارانہ زندگی اِسی دنیا میں شروع ہو جائے اور ان زندگیوں میں بھی ہم مزید ایسے کام کرتے چلے جائیں جن کا اچھا یا بُرا پھل ہمیں ملنا ضروری ہو۔ اِس طرح تو حساب بے باق ہونے کے بجائے اور زیادہ بڑھتا ہی چلا جائے گا اور اس کے بے باق ہونے کی نوبت کبھی آہی نہ سکے گی |
Surah 7 : Ayat 179
وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِّنَ ٱلْجِنِّ وَٱلْإِنسِۖ لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ ءَاذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَآۚ أُوْلَـٰٓئِكَ كَٱلْأَنْعَـٰمِ بَلْ هُمْ أَضَلُّۚ أُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْغَـٰفِلُونَ
اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے1 ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھو ئے گئے ہیں2
2 | اب تقریر اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے اس لیے خاتمہ کلام پر نصیحت اور ملامت کے ملے جلے انداز میں لوگوں کو ان کی چند نمایاں ترین گمراہیوں پر متنبہ کیا جارہا ہے اور ساتھ ہی پیغمبر کی دعوت کے مقابلہ میں انکا ر و استہزا کا جو رویّہ انہوں نے اختیار کر رکھا تھا اُس کی غلطی سمجھاتے ہوئے اس کے بُرے انجام سے اُنہیں خبردار کیا جارہا ہے |
1 | اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم نے اُن کو پیدا ہی اس غرض کے لیے کیا تھا کہ وہ جہنم میں جائیں اور ان کو وجود میں لاتے وقت ہی یہ ارادہ کر لیا تھا کہ انہیں دوزخ کا ایندھن بنانا ہے، بلکہ اس کا صھیح مفہوم یہ ہے کہ ہم نے تو ان کو پیدا کیا تھا دل، دماغ، آنکھیں اور کان دے کر ، مگر ظالموں نے ان سے کوئی کام نہ لیا اور اپنی غلط کاریوں کی بدولت آخر کار جہنم کا ایندھن بن کر رہے۔ اس مضمون کو ادا کرنے کے لیے وہ اندازِ بیان اختیار کیا گیا ہے جو انسانی زبان میں انتہائی افسوس اور حسرت کے موقع پر استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی ماں کے متعدد جوان جوان بیٹے لڑائی میں جاکر لقمہ اجل ہوگئے ہوں تو وہ لوگوں سے کہتی ہے کہ میں نے انہیں اس لیے پال پوس کر بڑا کیا تھا کہ لوہے اور آگ کے کھیل میں ختم ہوجائیں۔ اس قول سے اس کا مدعا یہ نہیں ہوتا کہ واقعی اس کے پالنے پوسنے کی غرض یہی تھی، بلکہ اس حسرت بھرے انداز میں دراصل وہ کہنا یہ چاہتی ہے کہ میں تو اتنی محنتوں سے اپنا خونِ جگر پلاپلا کر ان بچوں کو پالا تھا، مگر خدا ان لڑنے والے فسادیوں سے سمجھے کہ میری محنت اور قربانی کے ثمرات یوں خاک میں مل کر رہے |
Surah 11 : Ayat 119
إِلَّا مَن رَّحِمَ رَبُّكَۚ وَلِذَٲلِكَ خَلَقَهُمْۗ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ ٱلْجِنَّةِ وَٱلنَّاسِ أَجْمَعِينَ
اور بے راہ رویوں سے صرف وہ لوگ بچیں گے جن پر تیرے رب کی رحمت ہے اِسی (آزادی انتخاب و اختیار) کے لیے ہی تو اس نے انہیں پیدا کیا تھا1 اور تیرے رب کی وہ بات پوری ہو گئی جو اس نے کہی تھی کہ میں جہنم کو جن اور انسان، سب سے بھر دوں گا
1 | یہ اس شبہہ کاجواب ہے جوبالعموم ایسے مواقع پرتقدیم کے نام سے پیش کیاجاتا ہے۔ اوپراقوام گرشتہ کی تباہی کاجوسبب بیان کیاگیا ہےاس پریہ اعتراض کیاجاسکتا تھا کہ ان میں اہل خیر کاموجود نہ رہنایا بہت کم پایا جانا بھی توآخر اللہ کی مشیت ہی سے تھا، پھر اس کاالزام ان قوموں پرکیوں نہ اللہ نے ان کے اندر بہت سے اہل خیر پیدا کردیے؟اس کے جواب میںیہ حقیقت حال صاف صاف بیان کردی گئی ہے کہ اللہ کی مشیت انسان کےبارے میں یہ ہےہی نہیں کہ حیوانات اورنباتات اورایسی دوسری مخلوقات کی طرح اُس کوبھ جبلی طور پرایک لگے بندھے راستے کاپابند بنادیا جائے جس سے ہٹ کر وہ چل ہی نہ سکے۔ اگر یہ اس کی مشیت ہوتی توپھر دعوت ایمان، بعثت انبیاء اورتنزیل کتب کی ضرورت ہی کیاتھی، سارے انسان مسلم ومومن ہی پیدا ہوتے اورکفرو عصیان کاسرے سے کوئی امکان ہی نہ ہوتا۔ لیکن اللہ نےانسان کے بارے میںجومشیت فرمائی ہے وہ دراصل یہ ہے کہ اس کوانتخاب واختیار کی آزادی بخشی جائے،اسے اپنی پشندکے مطابق مختلف راہوں پرچلنے کی قدرت دی جائے، اس کے سامنے جنت اوردوزخ دونوں کی راہیں کھول دی جائیں اورپھر ہرانسان اورہرانسانی گروہ کوموقع دیاجائے کہ وہ ان میں سے جس راہ کوبھی اپنے لیے پسند کرے اس پر چل سکے تاکہ ہرایک جوکچھ بھی پائے اپنی وکسب کےنتیجہ میں پائے پس جب وہ اسکیم جس کےتحت انسان پیداکیا گیا ہےہ، آزادی انتخاب اوراختیاری کفروایمان کےاصول پرمبنی ہے تویہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی قوم خود توبڑھنا چاہے بدی کی راہ پراوراللہ زبردستی اس کوخیر پرموڑ دے۔ کوئی قوم خود اپنے انتخاب سے توانسان سازی کے وہ کارخانے بنائے جوایک سے ایک بڑھ کر بدکار اورظالم اورفاسق آدمی ڈھال ڈھال کرنکالیں، اوراللہ اپنی براہ راست مداخلت سے اس کو وہ پیدائشی نیک انسان مہیا کردے جواس کےبگڑے پوئے سانچوں کوٹھیک کردیں۔اس قسم کی مداخلت خدا کےدستور میںنہیں ہے۔ نیک ہوں یابد، دونوں قسم کے آدمی ہر قوم کوخود ہی مہیا کرنے ہوں گے۔جو قوم بحیثیت مجموعی بدی کی راہ کوپسند کرے گی ، جس میں سے کوئی معتد بہ گروہ ایسا نہ اٹھے گا جونیکی کاجھنڈا بلند کرے، اورجس نے اپنے اجتماعی نظام میںاس امر کی گنجائش ہی نہ چھوڑی ہوگی کہ اصلاح کی کوششیں اس کے اندر پھل پھول سکیں، خداکو کیاپڑی ہے کہ اس کو بزور نیک بنائے۔ وہ تواس کواس انجام کی طرف دھکیل دے گا جواس نے خود اپنے لیے انتخاب کیا ہے البتہ خدا کی رحمت کی مستحق اگر کوئی قوم ہوسکتی ہے توصرف وہ جس میں بہت سےافراد ایسے نکلیں جوخود دعوت خیر کولبیک کہنے والے ہوں اورجس نے اپنے اجتماعی نظام میںیہ صلاحیت باقی رہنے دی ہوکہ اصلاح کی کوشش کرنے والے اس کے اندر کام کرسکیں۔ (مزید تشریح کےلیے ملاحظہ ہوالانعام ،حاشیہ ۲۴)۔ |
Surah 32 : Ayat 13
وَلَوْ شِئْنَا لَأَتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدَٮٰهَا وَلَـٰكِنْ حَقَّ ٱلْقَوْلُ مِنِّى لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ ٱلْجِنَّةِ وَٱلنَّاسِ أَجْمَعِينَ
(جواب میں ارشاد ہو گا) 1"اگر ہم چاہتے تو پہلے ہی ہر نفس کو اس کی ہدایت دے دیتے مگر میری وہ بات پُوری ہو گئی جو میں نے کہی تھی کہ میں جہنّم کو جنوں اور انسانوں سب سے بھر دوں گا2
2 | اشارہ ہے اُس قول کی طرف جواللہ تعالٰی نے تخلیق آدم ؑ کے وقت ابلیس کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا تھا۔ سورہ ص کے آخری رکوع میں اُس وقت کا پورا قصّہ بیان کیا گیا ہے۔ ابلیس نے آدمؑ کو سجدہ کرنے سے انکار کیا اورنسل آدم کو بہکانے کے لیے قیامت تک کی مہلت مانگی۔ جواب میں اللہ تعالٰی نے فرمایا : فَا لْحَقُّ وَالْحَقَّ اَقُوْلُ لَاَمْلَئَنَّ جَھَنَّمَ مِنْکَ وَمِمَّنْ تَبِعَکَ مِنْھُمْ اَجْمَعِیْنَ‘‘ پس حق یہ ہے اور میں حق ہی کہا کرتا ہوں کہ جہنم کو بھردوں گا تجھ سے اوراُن لوگوں سے جو انسانوں میں سے تیری پیروی کریں گے۔‘‘ اَجْمَعِیْنَ کا لفظ یہاں اس معنی میں استعمال نہیں کیا گیا ہے کہ تمام جن اور تمام انسان جہنم میں ڈال دیے جائیں گے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے شیاطین اوران شیاطین کے پیروانسان سب ایک ساتھ ہی وصل جہنم ہوں گے۔ |
1 | یعنی ا س طرح حقیقت کا مشاہدہ اور تجربہ کرا کر ہی لوگوں کو ہدایت دینا ہمارے پیش نظر ہوتا تو دنیا کی زندگی میں اتنے بڑے امتحان سے گزار کر تم کو یہاں لانے کی کیا ضرورت تھی‘ ایسی ہدایت تو ہم پہلے ہی تم کو دے سکتے تھے لیکن تمہارے لیے توآغاز ہی سے ہماری اسکیم یہ نہ تھی ہم تو حقیقت کو نگاہوں سے اوجھل اورحواس سے مخفی رکھ کر تمہارا امتحان لینا چاہتے تھے کہ تم براہ راست اُس کو بے نقاب دیکھنے کے بجائے کائنات میں اور خود اپنے نفس میں اُس کی علامات دیکھ کر اپنی عقل سے اُس کو پہچانتے ہو یا نہیں، ہم اپنے انبیاء اوراپنی کتابوں کے ذریعہ سے اِس حقیقت شناسی میں تمہاری جو مدد کرتے ہیں اُس سے فائدہ اُٹھاتے ہو یا نہیں، اور حقیقت جان لینے کے بعد اپنے نفس پراتنا قابو پاتے ہو یا نہیں کہ خواہشات اوراغراض کی بندگی سے آزاد ہو کراس حقیقت کو مان جاؤ اور اس کے مطابق اپنا طرز عمل درست کرلو۔ اس امتحان میں تم ناکام ہو چکے ہو۔ اب دوبارہ اِسی امتحان کا سلسلہ شروع کرنے سے کیا حاصل ہو گا۔ دوسرا امتحان اگر اس طرح لیا جائے کہ تمہیں وہ سب کچھ یاد ہو جو تم نے یہاں دیکھ اور سُن لیا ہے تو یہ سرے سے کوئی امتحان ہی نہ ہو گا۔ اگر پہلے کی طرح تمہیں خالی الذہن کر کے اور حقیقت کو نگاہوں سے اوجھل رکھ کر تمہیں پھر دُنیا میں پیدا کر دیا جائے اور نئے سِرے سے تمہارا اُسی طرح امتحان لیا جائے جیسے پہلے لیا گیا تھا، تو نتیجہ پچھلے امتحان سے کچھ بھی مختلف نہ ہو گا۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اوّل، صفحات ۱۶۰۔ ۱۶۱۔ ۵۶۵۔ ۶۲۵۔ ۵۳۲ ۔ ۶۰۳ ۔۶۰۴۔جلد دوّم ص، ۲۷۶ ۔ جلد سوّم ص ۳۰۰)۔ |
Surah 32 : Ayat 25
إِنَّ رَبَّكَ هُوَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ فِيمَا كَانُواْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ
یقیناً تیرا رب ہی قیامت کے روز اُن باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں (بنی اسرائیل) باہم اختلاف کرتے رہے ہیں1
1 | یہ اشارہ ہے ان اختلافات اور فرقہ بندیوں کی طرف جن کے اندر بنی اسرائیل ایمان و یقین کی دولت سے محروم ہونے اور اپنے راست روائمہ کی پیروی چھوڑ دینے اور دُنیا پرستی میں پڑ جانے کے بعد مبتلا ہوئے۔ اس حالت کا ایک نتیجہ تو ظاہر ہے جسے ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ بنی اسرائیل ذلت و نکبت میں گرفتار ہیں۔ دوسرا وہ ہے جو دنیا نہیں جانتی اور وہ قیامت کے روز ظاہر ہو گا۔ |
Surah 32 : Ayat 26
أَوَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَبْلِهِم مِّنَ ٱلْقُرُونِ يَمْشُونَ فِى مَسَـٰكِنِهِمْۚ إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَأَيَـٰتٍۖ أَفَلَا يَسْمَعُونَ
اور کیا اِن لوگوں کو (اِن تاریخی واقعات میں) کوئی ہدایت نہیں ملی کہ ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں جن کے رہنے کی جگہوں میں آج یہ چلتے پھرتے ہیں؟1 اس میں بڑی نشانیاں ہیں، کیا یہ سنتے نہیں ہیں؟
1 | یعنی کیا تاریخ کے اس مسلسل تجربے سے ان لوگوں نے کوئی سبق نہیں لیا کہ جس قوم میں بھی خدا کا رسول آیا ہے اس کی قسمت کا فیصلہ اس رویّے کے ساتھ معلق ہو گیا ہے جو اپنے رسول کے معاملہ میں اس نے اختیار کیا۔ رسول کو جھٹلا دینے کے بعد پھر کوئی قوم بچ نہیں سکی ہے۔ اس میں سے بچے ہیں تو صرف وہی لوگ جو اس پر ایمان لائے۔ انکار کر دینے والے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سامانِ عبرت بن کر رہ گئے۔ |
Surah 32 : Ayat 29
قُلْ يَوْمَ ٱلْفَتْحِ لَا يَنفَعُ ٱلَّذِينَ كَفَرُوٓاْ إِيمَـٰنُهُمْ وَلَا هُمْ يُنظَرُونَ
ان سے کہو 1"فیصلے کے دن ایمان لانا اُن لوگوں کے لیے کچھ بھی نافع نہ ہو گا جنہوں نے کفر کیا ہے اور پھر اُن کو کوئی مہلت نہ ملے گی"
1 | یعنی یہ کونسی ایسی چیز ہے جس کے لیے تم بے چین ہوتے ہو۔خُدا کا عذاب آگیا تو پھر سنبھلنے کا موقع تم کو نصیب نہ ہو گا۔ اس مہلت کو غنیمت جانو جو عذاب آنے سے پہلے تم کو ملی ہوئی ہے۔ عذاب سامنے دیکھ کر ایمان لاؤ گے تو کچھ حاصل نہ ہو گا۔ |
Surah 46 : Ayat 18
أُوْلَـٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ ٱلْقَوْلُ فِىٓ أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِم مِّنَ ٱلْجِنِّ وَٱلْإِنسِۖ إِنَّهُمْ كَانُواْ خَـٰسِرِينَ
یہ وہ لوگ ہیں جن پر عذاب کا فیصلہ چسپاں ہو چکا ہے اِن سے پہلے جنوں اور انسانوں کے جو ٹولے (اِسی قماش کے) ہو گزرے ہیں اُنہی میں یہ بھی جا شامل ہوں گے بے شک یہ گھاٹے میں رہ جانے والے لوگ ہیں1
1 | یہاں دو طرح کے کردار آمنے سامنے رکھ کر گویا سامعین کے سامنے یہ خاموش سوال رکھ دیا گیا ہے تاکہ بتاؤ، ان دونوں میں سے کونسا کردار بہتر ہے۔ اس وقت یہ دونوں ہی کردار معاشرے میں عملاً موجود تھے اور لوگوں کے لیے یہ جانا کچھ بھی مشکل نہ تھا کہ پہلی قسم کا کردار کہاں پایا جاتا ہے اور دوسری قسم کا کہاں۔ یہ جواب ہے سرداران قریش کے اس قول کا اگر اس کتاب کو مان لینا کوئی اچھا کام ہوتا تو یہ چند نوجوان اور چند غلام اس معاملہ میں ہم سے بازی نہ لے جا سکتے تھے۔ اس جواب کے آئینہ میں ہر شخص خود دکھ سکتا تھا کہ ماننے والوں کا کردار کیا ہے اور نہ ماننے والوں کا کیا |