Ayats Found (10)
Surah 18 : Ayat 99
۞ وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِى بَعْضٍۖ وَنُفِخَ فِى ٱلصُّورِ فَجَمَعْنَـٰهُمْ جَمْعًا
اور اُس روز1 ہم لوگوں کو چھوڑ دیں گے کہ (سمندر کی موجوں کی طرح) ایک دُوسرے سے گتھم گتھا ہوں اور صُور پھُونکا جائے گا اور ہم سب انسانوں کو ایک ساتھ جمع کریں گے
1 | یعنی قیامت کے روز۔ ذوالقرنین نے جو اشارہ قیامت کے وعدۂ بر حق کی طرف کیا تھا اسی کی مناسبت سے یہ فقرے اس کے قول پر اضافہ کرتے ہوۓ ارشاد فرماۓ جا رہے ہیں۔ |
Surah 20 : Ayat 102
يَوْمَ يُنفَخُ فِى ٱلصُّورِۚ وَنَحْشُرُ ٱلْمُجْرِمِينَ يَوْمَئِذٍ زُرْقًا
اُس دن جبکہ صُور پھُونکا جائے گا 1اور ہم مجرموں کو اِس حال میں گھیر لائیں گے کہ ان کی آنکھیں (دہشت کے مارے) پتھرائی ہوئی ہوں گی2
2 | اصل میں لفظ ’’زُرقاً‘‘ استعمال ہوا ہے جو اَزْرَق کی جمع ہے۔ بعض لوگوں نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ وہ لوگ خود اَزْرق (سفیدی مائل نیلگوں) ہو جائیں گے کیونکہ خوف و دہشت کے مارے ان کا خون خشک ہو جاۓ گا اور ان کی حالت ایسی ہو جاۓ گی کہ گویا ان کے جسم میں خون کا ایک قطرہ تک نہیں ہے۔ اور بعض دوسرے لوگوں نے اس لفظ کو ارز قالعین(کرنجی آنکھوں والے) کے معنی میں لیا ہے اور وہ اس کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ شدت ہول سے ان کے دیدے پتھرا جائیں گے۔ جب کسی شخص کی آنکھ بے نور ہو جاتی ہے تو اس کے حدقۂ چشم کا رنگ سفید پڑ جاتا ہے۔ |
1 | صَور، یعنی نر سنگھا، قرناء، یا بوق۔ آج کل اسی چیز کا قائم مقام بگل ہے جو فوج کو جمع یا منتشر کرنے اور ہدایات دینے کے لیے بجایا جاتا ہے۔ اللہ تعالٰی اپنی کائنات کے نظم کو سمجھانے کے لیے وہ الفاظ اور اصطلاحیں استعمال فرماتا ہے جو خود انسانی زندگی میں اسی سے ملتے چلتے نظم کے لیے استعمال ہوتی ہیں ان الفاظ اور اصطلاحوں کے استعمال سے مقصود ہمارے تصور کو اصل چیز کے قریب لے جانا ہے، نہ یہ کہ ہم سلطنت الہٰی کے نظم کی مختلف چیزوں کو بعینہ ان محدود معنوں میں لے لیں، اوران محدود صورتوں کی چیزیں سمجھ لیں جیسی کہ وہ ہماری زندگی میں پائی جاتی ہیں۔ قدیم زمانے سے آج تک لوگوں کو جمع کرنے اور اہم باتوں کا اعلان کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی ایسی چیز پھونکی جاتی رہی ہے جو صور یا بگل سے ملتی جلتی ہو۔ اللہ تعالٰی بتاتا ہے کہ ایسی ہی ایک چیز قیامت کے روز پھونکی جاۓ گی جس کی نوعیت ہمارے نرسنگھے کی سی ہو گی۔ ایک دفع وہ پھونکی جاۓ گی اور سب پر موت طاری ہو جاۓ گی۔ دوسری دفعہ پھونکنے پر سب جی اٹھیں گے اور زمین کے ہر گوشے سے نکل نکل کر میدان حشر کی طرف دوڑنے لگیں گے۔ (مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، النمل، حاشیہ 106)۔ |
Surah 27 : Ayat 87
وَيَوْمَ يُنفَخُ فِى ٱلصُّورِ فَفَزِعَ مَن فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَمَن فِى ٱلْأَرْضِ إِلَّا مَن شَآءَ ٱللَّهُۚ وَكُلٌّ أَتَوْهُ دَٲخِرِينَ
اور کیا گزرے گی اس روز جب کہ صُور پھونکا جائے گا اور ہَول کھا جائیں گے وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں1، سوائے اُن لوگوں کے جنہیں اللہ اس ہَول سے بچانا چاہے گا، اور سب کان دبائے اس کے حضور حاضر ہو جائیں گے
1 | نفخ صور پرمفصل بحث کےلیے ملاحظہ ہوتفہیم القرآن،سورہ انعام حاشیہ۴۷۔ ابرہیم حاشیہ ۵۷۔ سورہ طٰہٰ حاشیہ ۷۸ سورہ حج ،حاشیہ۱ یسین،حواشی ۴۶۔۴۷۔ الزمر، حاشیہ ۷۹ |
Surah 36 : Ayat 51
وَنُفِخَ فِى ٱلصُّورِ فَإِذَا هُم مِّنَ ٱلْأَجْدَاثِ إِلَىٰ رَبِّهِمْ يَنسِلُونَ
پھر ایک صور پھونکا جائے گا اور یکایک یہ اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لیے اپنی قبروں سے نکل پڑیں گے1
1 | صور کے متعلق تفصیلی کلام کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم، ص 122۔ پہلے اور دوسرے صور کے درمیان کتنا زمانہ ہو گا، اس کے متعلق کوئی معلومات ہمیں حاصل نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ زمانہ سیکڑوں اور ہزاروں برس طویل ہو۔ حدیث میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: اسرافیل صور پر منہ رکھے عرش کی طرف دیکھ رہے ہیں اور منتظر ہیں کہ کب پھونک مارنے کا حکم ہوتا ہے۔یہ صور تین مرتبہ پھونکا جائے گا۔ پہلا نفخۃالفَزَ ع، جو زمین و آسمان کی ساری مخلوق کو سہما دے گا۔ دوسرا نفخۃ الصَّعق جسے سنتے ہی سب ہلاک ہو کر گر جائیں گے۔پھر جب اللہ واحد صمد کے سوا کوئی ذرا سی سلوَٹ تک نہ رہے گی۔ پھر اللہ اپنی خلق کو بس ایک جھڑکی دے گا جسے سنتے ہی ہر شخص جس جگہ مر کر گرا تھا اسی جگہ وہ اس بدلی ہوئی زمین پر اٹھ کھڑا ہو گا، اور یہی نفخۃالقیام لربّ العالمین ہے۔اسی مضمون کی تائید قرآن مجید کے بھی متعدد اشارات سے ہوتی ہے۔مثال کے طور پر ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، ص 492۔493۔ جلد سوم، ص 124۔ 125۔ |
Surah 36 : Ayat 52
قَالُواْ يَـٰوَيْلَنَا مَنۢ بَعَثَنَا مِن مَّرْقَدِنَاۜۗ هَـٰذَا مَا وَعَدَ ٱلرَّحْمَـٰنُ وَصَدَقَ ٱلْمُرْسَلُونَ
گھبرا کر کہیں گے: 1"ارے، یہ کس نے ہمیں ہماری خواب گاہ سے اُٹھا کھڑا کیا؟" "یہ وہی چیز ہے جس کا خدائے رحمان نے وعدہ کیا تھا اور رسولوں کی بات سچی تھی2"
2 | یہاں اس امر کی کوئی تصریح نہیں ہے کہ یہ جواب دینے والا کون ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ دیر بعد خود انہی لوگوں کی سمجھ میں معاملہ کی اصل حقیقت آجائے اور وہ آپ ہی اپنے دلوں میں کہیں کہ ہائے ہماری کم بختی،یہ تو وہی چیز ہے جس کی خبر خدا کے رسول ہمیں دیتے تھے اور ہم اسے جھٹلایا کرتے تھے۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اہل ایمان ان کی غلط فہمی رفع کریں اور ان کو بتائیں کہ یہ خواب سے بیداری نہیں بلکہ موت کے بعد دوسری زندگی ہے۔اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ جواب قیامت کا پورا ماحول ان کو دے رہا ہو، یا فرشتے ان کو حقیقت حال سے مطلع کریں۔ |
1 | یعنی اس وقت انہیں یہ احساس نہ ہو گا کہ وہ مر چکے تھے اور اب ایک مدت دراز کے بعد دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے گئے ہیں، بلکہ وہ اس خیال میں ہوں گے کہ ہم سوئے پڑے تھے،اب یکایک کسی خوفناک حادثہ کی وجہ سے ہم جاگ اٹھے ہیں اور بھاگے جا رہے ہیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم، ص 123۔199۔200۔)۔ |
Surah 39 : Ayat 68
وَنُفِخَ فِى ٱلصُّورِ فَصَعِقَ مَن فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَمَن فِى ٱلْأَرْضِ إِلَّا مَن شَآءَ ٱللَّهُۖ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَىٰ فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنظُرُونَ
اور اُس روز صور پھونکا جائے گا1 اور وہ سب مر کر گر جائیں گے جو آسمانوں اور زمین میں ہیں سوائے اُن کے جنہیں اللہ زندہ رکھنا چاہے پھر ایک دوسرا صور پھونکا جائے گا اور یکایک سب کے سب اٹھ کر دیکھنے لگیں گے2
2 | یہاں صرف دو مرتبہ صُور پھونکے جانے کا ذکر ہے۔ ان کے علاوہ سورہ نمل میں ان دونوں سے پہلے ایک اور نفخ صور واقع ہونے کا ذکر آیا ہے، جسے سن کر زمین و آسمان کی ساری مخلوق دہشت زدہ ہو جائے گی (آیت 87)۔ اسی بنا پر احادیث میں تین مرتبہ نفخ صور واقع ہونے کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک نفخۃالفَزَع، یعنی گھبرا دینے والا صور۔ دوسرا نفخۃ الصَّعق، یعنی مار گرانے وا لا صور۔ تیسرا نفخۃ القیام لرَبّ العالمین، یعنی وہ صور جسے پھونکتے ہی تمام انسان جی اُٹھیں گے اور اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لیے اپنے مرقدوں سے نکل آئیں گے۔ |
1 | صور کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول،الانعام‘حاشیہ ۴۷‘جلد دوم‘ابراہیم‘حاشیہ ۵۷‘جلد سوم الکہف حاشیہ ۷۳‘ٰطہ حاشیہ ۷۸‘الحج‘حاشیہ ۱‘المومنون‘حاشیہ ۹۴‘النمل‘حاشیہ ۱۰۶۔ |
Surah 50 : Ayat 20
وَنُفِخَ فِى ٱلصُّورِۚ ذَٲلِكَ يَوْمُ ٱلْوَعِيدِ
اور پھر صور پھونکا گیا1، یہ ہے وہ دن جس کا تجھے خوف دلایا جاتا تھا
1 | اس سے مراد وہ نفخ صور ہے جس کے ساتھ ہی تمام مرے ہوۓ لوگ دو بارہ حیات جسمانی پا کر اٹھ کھڑے ہوں گے۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، الانعام، حاشیہ 47۔ جلد دوم، ابراہیم، حاشیہ 57۔ جلد سوم، طہٰ، حاشیہ 78۔ الحج، حاشیہ۔1۔ جلد چہارم، یٰس، حواشی 46۔47۔ الزُّمر، حاشیہ 79 |
Surah 69 : Ayat 16
وَٱنشَقَّتِ ٱلسَّمَآءُ فَهِىَ يَوْمَئِذٍ وَاهِيَةٌ
اُس دن آسمان پھٹے گا اور اس کی بندش ڈھیلی پڑ جائے گی
Surah 74 : Ayat 8
فَإِذَا نُقِرَ فِى ٱلنَّاقُورِ
اچھا، جب صور میں پھونک ماری جائے گی
Surah 78 : Ayat 18
يَوْمَ يُنفَخُ فِى ٱلصُّورِ فَتَأْتُونَ أَفْوَاجًا
جس روز صور میں پھونک مار دی جائے گی، تم فوج در فوج نکل آؤ گے1
1 | اس سے مراد وہ آخری نفخ صور ہے جس کا آوازہ بلند ہوتے ہی تمام مرے ہوئے انسان یکایک جی اُٹھیں گے، اور تم سے مراد صرف وہی لوگ نہیں ہیں جو اس وقت مخاطب تھے، بلکہ وہ انسان ہیں جو آغاز آفرینش سے قیامت تک پیدا ہوئے ہوں (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، ابراہیم، حاشیہ 57۔ جلد سوم، الحج، حاشیہ1۔ جلد چہارم، یٰسین، حواشی 64۔74۔ الزمر، حاشیہ 79) |