Ayats Found (1)
Surah 38 : Ayat 41
وَٱذْكُرْ عَبْدَنَآ أَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُۥٓ أَنِّى مَسَّنِىَ ٱلشَّيْطَـٰنُ بِنُصْبٍ وَعَذَابٍ
اور ہمارے بندے ایوبؑ کا ذکر کرو1، جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ شیطان نے مجھے سخت تکلیف اور عذاب میں ڈال دیا ہے2
2 | اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ شیطان نے مجھے بیماری میں مبتلا کر دیا ہے اور میرے اوپر مصائب نازل کر دیے ہیں، بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ بیماری کی شدت، مال و دولت کے ضیاع، اور اعزّہ و اقربا کے منہ موڑ لینے سے میں جس تکلیف اور عذاب میں مبتلا ہوں اس سے بڑھ کر تکلیف اور عذاب میرے لیے یہ ہے کہ شیطان اپنے وسوسوں سے مجھے تنگ کر رہا ہے، وہ ان حالات میں مجھے اپنے رب سے مایوس کرنے کی کوشش کرتا ہے، مجھے اپنے رب کا ناشکرا بنانا چاہتا ہے، اور اس بات کے درپے ہے کہ میں دامن صبر ہاتھ سے چھوڑ بیٹھوں۔ حضرت ایوب کی فریاد کا یہ مطلب ہمارے نزدیک دو وجوہ سے قابل ترجیح ہے، ایک یہ کہ قرآن مجید کی رو سے اللہ تعالٰی نے شیطان کو صرف وسوسہ اندازی ہی کی طاقت عطا فرمائی ہے، یہ اختیارات اس کو نہیں دیے ہیں کہ اللہ کی بندگی کرنے والوں کو بیمار ڈال دے اور انہیں جسمانی اذیتیں دے کر بندگی کی راہ سے ہٹنے پر مجبور کرے۔ دوسرے یہ کہ سورہ انبیاء میں جہاں حضرت ایوبؑ اپنی بیماری کی شکایت اللہ تعالٰی کے حضور پیش کرتے ہیں وہاں شیطان کا کوئی ذکر نہیں کرتے بلکہ صرف یہ عرض کرتے ہیں کہ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرَّ ا حِمِیْنَ، ’’مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو ارحم الراحمین ہے‘‘۔ |
1 | یہ چوتھا مقام ہے جہاں حضرت ایوبؑ کا ذکر قرآن میں آیا ہے ۔ اس سے پہلے سورہ نساء آیت 163، سورہ انعام آیت 84، سورہ انبیاء آیات 83۔84 میں ان کا ذکر گزر چکا ہے اور ہم تفسیر سورہ انبیاء میں ان کے حالات کی تفصیل بیان کر چکے ہیں ۔(تفہیم القرآن، جلد سوم، صفحات 178 تا 181) |