Ayats Found (4)
Surah 27 : Ayat 17
وَحُشِرَ لِسُلَيْمَـٰنَ جُنُودُهُۥ مِنَ ٱلْجِنِّ وَٱلْإِنسِ وَٱلطَّيْرِ فَهُمْ يُوزَعُونَ
سلیمانؑ کے لیے جن اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کیے گئے تھے اور وہ پورے ضبط میں رکھے جاتے تھے1
1 | بائیبل میں اس کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے کہ جن حضرت سلیمان کے لشکروں میں شامل تھے اور وہ ان سے خدمت لیتے تھے۔ لیکن تلمود اور ربّیوں کی روایات میں اس کا تفصیلی ذکر ملتا ہے (جیوش انسائکلوپیڈیاجلد ۱۱صفحہ۴۴۰)۔ موجودہ زمانہ کے بعض لوگوں نے یہ ثابت کرنے کےلیے ایڑی چوٹی کا زورلگایا ہے کہ جن اور طیر سے مراد جنات اور پرندے نہیں بلکہ انسان ہی ہیں جو حضرت سلیمان ؑکے لشکرمیں مختلف کام کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ جن سے مراد پیہاڑی قبائل کے وہ لوگ ہیں جنہیں حضرت سلیمان مسخر کیا تھا اور وہ ان کے ہاں حیرت انگیز طاقت اور محنت کے کام کرتے تھےاور طیر سے مراد گھوڑے سواروں کے دستے ہیں جو پیدل دستوں کی بہ نسبت بہت زیادہ تیزی سے نقل و حرکت کرتے تھے۔ لیکن یہ قرآن مجید میں بےجا تاویل کی بد ترین مثالیں ہیں۔ قرآن یہاں جن، انس اور طیر، تین الگ الگ اقسام کے لشکر بیان کررہاہے اور تینوں پر الف ل تعریف جنس کےلیےلایا گیا ہے۔ اس لیے لا محالہ الجن اور الطیر،الانس میں شامل نہیں ہوسکتے بلکہ وہ اس سے مختلف دو الگ اجناس ہی ہو سکتی ہیں۰ علاوہ بریں کو ئی شخص جو عربی زبان سے ذڑہ برابر بھی واقفیت رکھتا ہو، یہ تصویر نہیں کرسکتا کہ اس زبان میں محض لفظ الجن بول کر انسانوں کا کوئی گروہ، یا محض الطیر بول کر سواروں کا رسالہ کبھی مراد کبھی مراد لیا جاسکتا ہےاورکوئی عرب ان الفاظ کو سن کر ان کے معنی سمجھ سکتا ہے ۔محض محاورے میں کسی انسان کو اس کے فوق العادۃ کام کی وجہ سے جن، یا کسی عورت کو اس کے حسن کی وجہ سے پری، اور کسی تیز آدمی کوپرندہ کہہ دینا یہ معنی نہیں رکھتا کہ اب جن کے معنی طاقت ور آدمی اور پری کےمعنی عور اور پرندے کے معنی تیز رفتار انسان ہی کے ہوجائیں ۔ ان الفاظ کےیہ معنی تو مجازی ہیں نہ کہ حقیقی، اور کسی کلام میں کسی لفظ کو حقیقی معنی چھوڑ کر مجازی معنوں میں صرف اُسی وقت استعمال کیا جاتا ہے اور سننے والے بھی ان کو مجازی معنوں میں صرف اُسی وقت لےسکتے ہیں جب کہ آس پاس کوئی واضح قرینہ ایسا موجود ہو جو اس کے مجاز ہونے پردلالت کرتا ہو یہاں آخر کونسا قرینا پایاجاتا ہےجس سےیہ گمان کیا جاسکے کہ جن اور طیر کے الفاظ اپنے حقیقی لغوی معنوں میں نہیں بلکہ مجازی معنوں میں استعمال کیےگئے ہیں؟ بلکہ آگے ان دونوں گروہوں کے ایک ایک فرد کا جو حال اور کام بیان کیا گیا ہے وہ تو اس تاویل کے بالکل خلاف معنی پرصریح دلالت کر رہا ہے۔ کسی شخص کا دل اگر قرآن کی بات پر یقین نہ کرنا چاہتا ہو تو اسے صاف کہنا چاہیے کہ میں اس باگت کو نہیں مانتا۔ لیکن یہ بڑی اخلاقی بزدلی اور علمی خیانت ہے کہ آدمی قرآن کے صاف صاف الفاظ کو توڑ مروڑ کر اپنے من مانے معنی پر ڈھالےوہ یہ ظاہر کرے کہ وہ قرآن کے بیان کو مانتا ہے، حالانکہ دراصل قرآن نے جوکچھ بیان کیا ہے وہ اسے نہیں بلکہ خود اپنے زبردستی گھڑے ہوئے مفہوم کو مانتا ہے۔ |
Surah 27 : Ayat 39
قَالَ عِفْرِيتٌ مِّنَ ٱلْجِنِّ أَنَا۟ ءَاتِيكَ بِهِۦ قَبْلَ أَن تَقُومَ مِن مَّقَامِكَۖ وَإِنِّى عَلَيْهِ لَقَوِىٌّ أَمِينٌ
جنوں میں سے ایک قوی ہیکل نے عرض کیا "میں اسے حاضر کر دوں گا قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں1 میں اس کی طاقت رکھتا ہوں اور امانتدار ہوں2"
2 | یعنی آپ مجھ پریہ بھروسا کرسکتے ہیں کہ میں اسے خوداُڑانہ لےجاؤں گا، یا اس میں سے کوئی قیمتی چیز نہ چرالوں گا |
1 | اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس جوجن تھا وہ آیا موجودہ زمانے کے بعض عقل پرست مفسرین کی تاویلوں کے مطابق بنی نوع انسان میں سے تھے یا عرف عام کے مطابق اُسی پوشیدہ مخلوق میں سے جوجن کےنام سے معروف ہے۔ ظاہر ہے کہ حضرت سلیمانؑ کے دربار کی نشست زیادہ سے زیادہ تین چارگھنٹے کی ہوگی۔ اور بیت المقدس سے سبا کے پایہ تخت ارب کا فاصلہ پرندے کہ اڑان کے لحاظ سے بھی کم ازکم ڈیڑھ ہزار میل کا تھا ۔اتنے فاصلہ سے ایک ملکہ عظیم الشان تخت اتنی کم مدت میں اُٹھا لانا کسی انسان کا کام نہیں ہوسکتا تھا، خواہ وہ عمالقہ میں سے کتنا ہی موٹا تازہ آدمی کیوں نہ ہو۔ یہ کام تو آج کل کا جٹ طیارہ بھی انجام دینے پرقادر نہیں ہے۔ مسئلہ اتنا ہی نہیں ہے کہ تخت کہیں جنگل میں رکھا ہوا اوراسے اٹھالایا جائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ تخت ایک ملکہ کے محل میں تھا جس پریقیناََ پہرہ دار متعین ہوں گے اوروہ ملکہ کہ غیر موجودگی میں ضرور محفوظ جگہ رکھا گیا ہوگا۔ انسان جاکر اٹھالانا چاہتا تو اس کے ساتھ ایک چھاپہ ماردستہ چاہیے تھا کہ لڑبھڑ کراسے پہرہ داروں سے چھین لائے۔ یہ سب کچھ آخر درباربرخاست ہونے سے پہلےکیسے ہوسکتا تھا۔ اس چیز کا تصور اگر کیا جاسکتا ہے توایک حقیقی جن ہی کے بارے میں کیا جاسکتا ہے |
Surah 34 : Ayat 12
وَلِسُلَيْمَـٰنَ ٱلرِّيحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَرَوَاحُهَا شَهْرٌۖ وَأَسَلْنَا لَهُۥ عَيْنَ ٱلْقِطْرِۖ وَمِنَ ٱلْجِنِّ مَن يَعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِإِذْنِ رَبِّهِۖۦ وَمَن يَزِغْ مِنْهُمْ عَنْ أَمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ ٱلسَّعِيرِ
اور سلیمانؑ کے لیے ہم نے ہوا کو مسخر کر دیا، صبح کے وقت اس کا چلنا ایک مہینے کی راہ تک اور شام کے وقت اس کا چلنا ایک مہینے کی راہ تک1 ہم نے اُس کے لیے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہا دیا2 اور ایسے جن اس کے تابع کر دیے جو اپنے رب کے حکم سے اس کے آگے کام کرتے تھے3 اُن میں سے جو ہمارے حکم سے سرتابی کرتا اس کو ہم بھڑکتی ہوئی آگ کا مزہ چکھاتے
3 | یہ جن جو سلیمان علیہ السلام کے لیے مسخر کیے گیے تھے، آیا یہ دہقانی اور کوہستانی انسان تھے یا واقعی وہی جن تھے جو ایک پوشیدہ مخلوق کی حیثیت سے دنیا بھر میں معروف ہیں، اس مسئلے پر بھی سورہ انبیا اور سورہ نحل کی تفسیر میں ہم مفصل بحث کر چکے ہیں۔(ملا حظہ ہو تفہم القرآن،جلد سوم،الانبیاء،حاشیہ ۷۵،النمل،۲۳۔۴۵۔۵۲۔ |
2 | بعض قدیم مفسرین نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ زمین سے ایک چشمہ حضرت سلیمانؑ کے لیے پھوٹ نکلا تھا جس میں سے پانی کے بجائے پگھلا ہوا تانبہ بہتا تھا۔ لیکن آیت کی دوسری تاویل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ حضرت سلیمانؑ کے زمانے میں تانبے کو پگھلا نے اور اس سے طرح طرح کی چیزیں بنانے کا کام بڑے پیمانے پر کیا گیا کہ گویا وہاں تانبے کے چشمے بہ رہے تھے۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، ص 176) |
1 | یہ مضمون بھی سورہ انبیا آیت 81 میں گزر چکا ہے اور اس کی تشریح وہاں کی جا چکی ہے (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم 176۔177) |
Surah 34 : Ayat 1
ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ ٱلَّذِى لَهُۥ مَا فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِ وَلَهُ ٱلْحَمْدُ فِى ٱلْأَخِرَةِۚ وَهُوَ ٱلْحَكِيمُ ٱلْخَبِيرُ
حمد اُس خدا کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کا مالک ہے1 اور آخرت میں بھی اسی کے لیے حمد ہے2 وہ دانا اور باخبر ہے3
3 | یعنی جس کے سارے کام کمال درجہ حکمت و دانائی پر مبنی ہیں، جو کچھ کرتا ہے بالکل ٹھیک کرتا ہے۔ اور اسے اپنی ہر مخلوق کے متعلق پورا علم ہے کہ وہ کہاں ہے، کس حال میں ہے، کیا اس کی ضروریات ہیں، کیا کچھ اس کی مصلحت کے لیے مناسب ہے، کیا اس نے اب تک کیا ہے اور آگے کیا اس سے صادر ہونے والا ہے۔ وہ اپنی بنائی ہوئی دنیا سے بے خبر نہیں ہے بلکہ اسے ذرے ذرّے کی حالت پوری طرح معلوم ہے |
2 | یعنی اس طرح اس دنیا کی ساری نعمتیں اسی کی بخشش ہیں اسی طرح آخرت میں بھی جو کچھ کسی کو ملے گا اسی کے خزانوں سے اور اسی کی عطا سے ملے گا، اس لیے وہاں بھی وہی تعریف کا مستحق بھی ہے اور شکر کا مستحق بھی |
1 | حمد کا لفظ عربی زبان میں تعریف اور شکر دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اور یہاں دونوں معنی مراد ہیں۔ جب اللہ تعالٰی ساری کائنات اور اس کی ہر چیز کا مالک ہے تو لامحالہ اس کائنات میں جمال و کمال اور حکمت و قدرت اور صناعی و کاری گری کی جو شان بھی نظر آتی ہے اس کی تعریف کا مستحق وہی ہے۔ اور اس کائنات میں رہنے والا جس چیز سے بھی کوئی فائدہ یا لطف و لذت حاصل کر رہا ہے اس پر خدا ہی کا شکر اسے ادا کرنا چاہئے۔ کوئی دوسرا جب ان اشیاء کی ملکیت میں شریک نہیں ہے تو اسے نہ حمد کا استحقاق پہنچتا ہے نہ شکر کا |