Ayats Found (4)
Surah 4 : Ayat 6
وَٱبْتَلُواْ ٱلْيَتَـٰمَىٰ حَتَّىٰٓ إِذَا بَلَغُواْ ٱلنِّكَاحَ فَإِنْ ءَانَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَٱدْفَعُوٓاْ إِلَيْهِمْ أَمْوَٲلَهُمْۖ وَلَا تَأْكُلُوهَآ إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن يَكْبَرُواْۚ وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْۖ وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِٱلْمَعْرُوفِۚ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَٲلَهُمْ فَأَشْهِدُواْ عَلَيْهِمْۚ وَكَفَىٰ بِٱللَّهِ حَسِيبًا
اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کے قابل عمر کو پہنچ جائیں1 پھر اگر تم اُن کے اندر اہلیت پاؤ تو اُن کے مال اُن کے حوالے کر دو 2ایسا کبھی نہ کرنا کہ حد انصاف سے تجاوز کر کے اِس خوف سے اُن کے مال جلدی جلدی کھا جاؤ کہ وہ بڑے ہو کر اپنے حق کا مطالبہ کریں گے یتیم کا جو سرپرست مال دار ہو وہ پرہیز گاری سے کام لے اور جو غریب ہو وہ معروف طریقہ سے کھائے3 پھر جب اُن کے مال اُن کے حوالے کرنے لگو تو لوگوں کو اس پر گواہ بنا لو، اور حساب لینے کے لیے اللہ کافی ہے
3 | یعنی اپنا حق الخدمت اس حد تک لے کہ ہر غیر جانبدار معقول آدمی اس کو مناسب تسلیم کرے۔ نیز یہ کہ جو کچھ بھی حق الخدمت وہ لے چوری چھُپے نہ لے بلکہ علّانیہ متعین کر کے لے اور اس کا حساب رکھے |
2 | مال ان کے حوالہ کرنے کے لیے دو شرطیں عائد کی گئی ہیں: ایک بلوغ، دوسرے رُشد، یعنی مال کے صحیح استعمال کی اہلیت۔ پہلی شرط کے متعلق تو فقہائے اُمّت میں اتفاق ہے۔ دُوسری شرط کے بارے میں امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی رائے یہ ہے کہ اگر سنِّ بُلوغ کو پہنچنے پر یتیم میں رُشد نہ پایا جائے تو ولی یتیم کو زیادہ سے زیادہ سات سال اور انتظام کر نا چاہیے ۔ پھر خواہ رُشد پایا جائے یا نہ پایا جائے ، اس کا مال اس کے حوالہ کر دینا چاہیے۔ اور امام ابو یوسف ، امام محمد اور امام شافعی رحمہم اللہ کے رائے یہ ہے کہ مال حوالہ کیے جانے کے لیے بہر حال رُشد کا پایا جانا ناگزیر ہے۔ غالباً موخّر الذکر حضرات کی رائے کے مطابق یہ بات زیادہ قرینِ صواب ہو گی کہ اس معاملہ میں قاضیِ شرع سے رُجوع کیا جائے اور اگر قاضی پر ثابت ہو جائے کہ اس میں رُشد نہیں پایا جاتا تو وہ اس کے معاملات کی نگرانی کے لیے خود کوئی مناسب انتظام کر دے |
1 | یعنی جب وہ سنِ بلوغ کے قریب پہنچ رہےہوں تو دیکھتے رہو کہ اُن کا عقلی نشونما کیسا ہے اور ان میں اپنے معاملات کو خود اپنی ذمّہ داری پر چلانے کی صلاحیت کس حد تک پیدا ہو رہی ہے |
Surah 6 : Ayat 141
۞ وَهُوَ ٱلَّذِىٓ أَنشَأَ جَنَّـٰتٍ مَّعْرُوشَـٰتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشَـٰتٍ وَٱلنَّخْلَ وَٱلزَّرْعَ مُخْتَلِفًا أُكُلُهُۥ وَٱلزَّيْتُونَ وَٱلرُّمَّانَ مُتَشَـٰبِهًا وَغَيْرَ مُتَشَـٰبِهٍۚ كُلُواْ مِن ثَمَرِهِۦٓ إِذَآ أَثْمَرَ وَءَاتُواْ حَقَّهُۥ يَوْمَ حَصَادِهِۦۖ وَلَا تُسْرِفُوٓاْۚ إِنَّهُۥ لَا يُحِبُّ ٱلْمُسْرِفِينَ
وہ اللہ ہی ہے جس نے طرح طرح کے باغ اور تاکستان1 اور نخلستان پیدا کیے، کھیتیاں اگائیں جن سے قسم قسم کے ماکولات حاصل ہوتے ہیں، زیتون اور انار کے درخت پیدا کیے جن کے پھل صورت میں مشابہ اور مزے میں مختلف ہوتے ہیں کھاؤ ان کی پیداوار جب کہ یہ پھلیں، اور اللہ کا حق ادا کرو جب اس کی فصل کاٹو، اور حد سے نہ گزرو کہ اللہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا
1 | اصل میں جَنّٰتٍ مَّعْرُوْ شٰتٍ وّ غَیْرَ مَعْرُوْشٰتٍ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن سے مراد دو طرح کے باغ ہیں، ایک وہ جن کی بیلیں ٹٹیوں پر چڑھائی جاتی ہیں ، دُوسرے وہ جن کے درخت خود اپنے تنوں پرکھڑے رہتے ہیں۔ ہماری زبان میں باغ کا لفظ صرف دُوسری قسم کے باغوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اس لیے ہم نے جَنّٰتٍّ غَیْرَ مَعْرُوْشٰتٍ کا ترجمہ”باغ“ کیا ہے اور جَنّٰتٍ مَّعْرُوْ شٰتٍ کے لیے ”تاکستان“(یعنی انگوری باغ) کا لفظ اختیار کیا ہے |
Surah 7 : Ayat 31
۞ يَـٰبَنِىٓ ءَادَمَ خُذُواْ زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُواْ وَٱشْرَبُواْ وَلَا تُسْرِفُوٓاْۚ إِنَّهُۥ لَا يُحِبُّ ٱلْمُسْرِفِينَ
اے بنی آدم، ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ رہو1 اور کھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا2
2 | یعنی خد اکو تمہاری خستہ حالی ور فا قہ کشی اور طیّباتِ رزق سے محرومی عزیز نہیں ہے کہ اس کی بندگی بجالانے کےلیے یہ کسی درجہ میں بھی مطلوب ہو۔ بلکہ اس کی عین خوشی یہ ہے کہ تم اس کے بخشے ہوئے عمدہ لباس پہنو اور پاک رزق سے متمتع ہو۔ اس کی شریعت میں اصل گناہ یہ ہے کہ آدمی ا س کی مقرر کردہ حدوں سے تجاوز کرے، خواہ یہ تجاوز حلال کو حرام کرلینے کی شکل میں ہو یا حرام کو حلال کر لینے کی شکل میں |
1 | یہاں زینت سے مراد مکمل لباس ہے۔ خدا کی عبادت میں کھڑے ہونے کے لیے صرف اتنا کافی نہیں ہے کہ آدمی محض اپنا ستر چھپا لے، بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ حسب استطاعت وہ اپنا پورا لباس پہنے جس میں ستر پوشی بھی ہو اور زینت بھی۔ یہ حکم اُس غلط رویہ کی تردید کے لیے ہے جس پر جہلا اپنی عبادتوں میں عمل کرتے رہے ہیں اور آج تک کر رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بر ہنہ یا نیم برہنہ ہو کر اور اپنی ہیئتوں کو بگاڑ کر خدا کی عبادت کرنی چاہیے۔ اس کے برعکس خدا کہتا ہے کہ اپنی زینت سے آراستہ ہو کو ایسی وضع میں عبادت کرنی چاہیے جس کے اندر بر ہنگی تو کیا، نا شائستگی کا بھی شائبہ تک نہ ہو |
Surah 17 : Ayat 26
وَءَاتِ ذَا ٱلْقُرْبَىٰ حَقَّهُۥ وَٱلْمِسْكِينَ وَٱبْنَ ٱلسَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا
رشتہ دار کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق فضول خرچی نہ کرو