Ayats Found (4)
Surah 46 : Ayat 29
وَإِذْ صَرَفْنَآ إِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ ٱلْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ ٱلْقُرْءَانَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوٓاْ أَنصِتُواْۖ فَلَمَّا قُضِىَ وَلَّوْاْ إِلَىٰ قَوْمِهِم مُّنذِرِينَ
(اور وہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے) جب ہم جنوں کے ایک گروہ کو تمہاری طرف لے آئے تھے تاکہ قرآن سنیں1 جب وہ اُس جگہ پہنچے (جہاں تم قرآن پڑھ رہے تھے) تو انہوں نے آپس میں کہا خاموش ہو جاؤ پھر جب وہ پڑھا جا چکا تو وہ خبردار کرنے والے بن کر اپنی قوم کی طرف پلٹے
1 | اس آیت کی تفسیر میں جو روایات حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت زبیر، حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرات حسن بصری، سعید بن حبیر، زر بن حبیش، مجاہد، عکرمہ اور دوسرے بزرگوں سے منقول ہیں وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ جنوں کی پہلی حاضری کا واقعہ، جس کا اس آیت میں ذکر ہے، بطن نخلہ میں پیش آیا تھا۔ اور ابن اسحاق، ابو نعیم اصفہانی اور واقدی کا بیان ہے کہ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم طائف سے مایوس ہو کر مکہ معظمہ کی طرف واپس ہوۓ تھے۔ راستہ میں آپ نے نخلہ میں قیام کیا۔ وہاں عشاء یا فجر یا تہجد کی نماز میں آپ نے قرآن کی تلاوت فرما رہے تھے کہ جنوں کے ایک گروہ کا ادھر سے گزر ہوا اور وہ آپ کی قرأت سننے کے لیے ٹھہر گیا۔ اس کے ساتھ تمام روایات اس بات پر بھی متفق ہیں کہ اس موقع پر جن حضور کے سامنے نہیں تھے، نہ آپ نے ان کی آمد کو محسوس فرمایا تھا بلکہ بعد میں اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے آپ کو ان کے آنے اور قرآن سننے کی خبر دی۔ یہ مقام جہاں یہ واقعہ پیش آیا، یا تو الزیمہ تھا، یا اسیل الکبیر، کیونکہ یہ دونوں مقام وادی نخلہ میں واقع ہیں، دونوں جگہ پانی اور سرسبزی موجود ہے اور طائف سے آنے والوں کو اگر اس وادی میں پڑاؤ کرنے کی ضرورت پیش آۓ تو وہ ان ہی دونوں میں سے کسی جگہ ٹھہر سکتے ہیں |
Surah 46 : Ayat 32
وَمَن لَّا يُجِبْ دَاعِىَ ٱللَّهِ فَلَيْسَ بِمُعْجِزٍ فِى ٱلْأَرْضِ وَلَيْسَ لَهُۥ مِن دُونِهِۦٓ أَوْلِيَآءُۚ أُوْلَـٰٓئِكَ فِى ضَلَـٰلٍ مُّبِينٍ
اور جو1 کوئی اللہ کے داعی کی بات نہ مانے وہ نہ زمین میں خود کوئی بل بوتا رکھتا ہے کہ اللہ کو زچ کر دے، اور نہ اس کے کوئی ایسے حامی و سرپرست ہیں کہ اللہ سے اس کو بچا لیں ایسے لوگ کھلی گمراہی میں پڑ ے ہوئے ہیں
1 | ہو سکتا ہے کہ یہ فقرہ بھی جنوں ہی کے قول کا حصہ اور یہ ہو سکتا ہے کہ یہ ان کے قول پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اضافہ ہو۔ فحوائے کلام سے دوسری بات زیادہ قریب قیاس محسوس ہوتی ہے |
Surah 72 : Ayat 1
قُلْ أُوحِىَ إِلَىَّ أَنَّهُ ٱسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ ٱلْجِنِّ فَقَالُوٓاْ إِنَّا سَمِعْنَا قُرْءَانًا عَجَبًا
اے نبیؐ، کہو، میری طرف وحی بھیجی گئی ہے کہ جنوں کے ایک گروہ نے غور سے سنا1 پھر (جا کر اپنی قوم کے لوگوں سے) کہا: "ہم نے ایک بڑا ہی عجیب قرآن سنا ہے2
2 | اصل الفاظ ہیں قرانا عجباََ۔ قرآن کے معنی ہیں ’’پڑھی جانے والی چیز ‘‘ اور یہ لفظ غالباً جنوں نے اسی معنی میں استعمال کیا ہو گا کیونکہ وہ پہلی مرتبہ اس کلام سے متعارف ہوئے تھے اور شاید اس وقت ان کو یہ معلوم نہ ہو گا کہ جو چیز وہ سن رہے ہیں ان کا نام قرآن ہی ہے۔ عجب مبالغہ کا صیغہ ہے اور یہ لفظ عربی زبان میں بہت زیادہ حیرت انگیز چیز کے لیے بولا جاتا ہے۔ پس جنوں کے قول کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایک ایسا کلام سن کر آئے ہیں جو اپنی زبان اور اپنے مضامین کے اعتبار سے بے نظیر ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جن نہ صرف یہ کہ انسانوں کی باتیں سنتے ہیں بلکہ ان کی زبان بھی بخوبی سمجھتے ہیں۔ اگرچہ یہ ضروری نہیں ہے کہ تمام جن انسانی زبانیں جانتے ہوں۔ ممکن ہے کہ ان میں سے جو گروہ زمین کے جس علاقے میں رہتے ہوں اسی علاقے کے لوگوں کی زبان سے وہ واقف ہوں۔ لیکن قرآن کے اس بیان سے بہرحال یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جنہوں نے اس وقت قرآن سنا تھا وہ عربی زبان اچھی جانتے تھے کہ انہوں نے اس کلام کی بے مثل بلاغت کو بھی محسوس کیا اور اس کے بلند پایہ مضامین کو بھی خوب سمجھ لیا |
1 | اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جن اس وقت رسول اللہ ﷺ کو نظر نہیں آ رہے تھے اور آپ کو یہ معلوم نہ تھا کہ وہ قرآن سن رہے ہیں، بلکہ بعد میں وحی کے ذریعہ سے اللہ تعالی نے آپ کو اس واقعہ کی خبر دی۔ حضرت عبداللہ بن عباس بھی اس قصے کو بیان کرتے ہوئے صراحت فرماتے ہیں کہ ’’رسول اللہ ﷺ نے جنوں کے سامنے قرآن نہیں پڑھا تھا، نہ آپ نے ان کو دیکھا تھا‘‘۔ (مسلم ۔ ترمذی ۔ مسند احمد ۔ ابن جریر) |
Surah 72 : Ayat 3
وَأَنَّهُۥ تَعَـٰلَىٰ جَدُّ رَبِّنَا مَا ٱتَّخَذَ صَـٰحِبَةً وَلَا وَلَدًا
اور یہ کہ 1"ہمارے رب کی شان بہت اعلیٰ و ارفع ہے، اُس نے کسی کو بیوی یا بیٹا نہیں بنایا ہے"
1 | اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ یہ جن یا تو عیسائی جنوں میں سے تھے۔ یا ان کا کوئی اور مذہب تھا جس میں اللہ تعالی کو بیوی بچوں والا سمجھا جاتا تھا۔ دوسرے یہ کہ اس وقت رسول اللہ ﷺ نماز میں قرآن پاک کا کوئی حصہ پڑھ رہے تھے جسے سن کر ان کو اپنے عقیدے کی غلطی معلوم ہو گئی اور انہوں نے یہ جان لیا کہ اللہ تعالی کی بلند و برتر ذات کی طرف سے بیوی بچوں کو منسوب کرنا سخت جہالت اور گستاخی ہے |