Ayats Found (2)
Surah 114 : Ayat 4
مِن شَرِّ ٱلْوَسْوَاسِ ٱلْخَنَّاسِ
اُس وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے جو بار بار پلٹ کر آتا ہے1
1 | ۔ اصل میں وَسْوَاسِ الْخَنَّاس ۔‘‘کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ وَسْوَاس کے معنی ہیں بار بار وسوسہ ڈالنے والا۔ اور وَسْوَسے کے معنی ہیں پے در پے ایسے طریقے یا طریقوں سے کسی کے دل میں کوئی بری بات ڈالنا کہ جس کے دل میں وہ ڈالی جا رہی ہو اُسے یہ محسوس نہ ہو سکے کہ وسوسہ انداز اُس کے دل میں ایک بری بات ڈال رہا ہے ۔ وَسوسے کے لفظ میں خود تکر ار کا مفہوم شامل ہے ، جیسے زلزلہ میں حرکت کی تکرار کا مفہوم شامل ہے ۔ چونکہ انسان صرف ایک دفعہ بہکانے سے نہیں بہکتا بلکہ اسے بہکانے کی پے درپے کوشش کرنی ہوتی ہے، اس لیے ایسی کوشش کو وَسْوَسہ اور کوشش کرنے والے کو وَسْوَاس کہا جاتا ہے۔ رہا لفظ خَنَّاس ، تو یہ خُنوس سے ہے جس کے معنی ظاہر ہونے کے بعد چھپنے یا آنے کےبعد پیچھے ہٹ جانے کے ہیں، اور خناس چونکہ مبالغہ کا صیغہ ہے اس لیے اس کے معنی یہ فعل بکثرت کرنے والے کے ہوئے۔ اب یہ ظاہر بات ہے کہ وسوسہ ڈالنے والے کو بار بار وسوسہ اندازی کے لیے آدمی کے پاس آنا پڑتا ہے ، اور ساتھ ساتھ جب اسے خَناس بھِ کہا گیا تو دونوں الفاظ کے ملنے سے خود بخود یہ مفہوم پیدا ہوگا کہ وسوسہ ڈال کروہ پیچھے ہٹ جاتا ہے اور پھر پے در پے وسوسہ اندازی کے لیے پلٹ کر آتا ہے۔ بالفاظ دیگر ایک مرتبہ اس کی وسوسہ اندازی کی کوشش جب ناکام ہوتی ہے تو وہ چلا جاتا ہے، پھر وہی کوشش کرنے کے لیے دوبارہ، سہ بارہ اور بار بار آتا رہتا ہے۔ وسواس الخناس کا مطلب سمجھ لینے کے بعد اب اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اس کے شر سے پناہ مانگنے کے مطلب کیا ہے؟ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ پناہ مانگنے والا خود اُس کے شرسے خدا کی پناہ مانگتا ہے، یعنی اِس شر سے کہ وہ کہیں اُس کے اپنے دل میں کوئی وسوسہ نہ ڈال دے ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے راستے کی طرف دعوت دینے والے کے خلاف جو شخص بھی لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا پھرے اُس کے شر سے داعیِ حق خدا کی پناہ مانگتا ہے۔ داعی الٰی الحق کے بس کا یہ کام نہیں ہے کہ اُس کی ذات کے خلاف جن جن لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالے جا رہے ہوں ان سب تک خود پہنچے اور ایک ایک شخص کی غلط فہمیوں کو صاف کرے۔ اُس کے لیے یہ بھی مناسب نہیں ہے کہ اپنی دعوت الٰی اللہ کا کام چھوڑ چھاڑ کر وسوسہ اندازوں کی پیدا کردہ غلط فہمیوں کو صاف کرنے اور اُن کے الزامات کی جواب دہی کرنے میں لگ جائے۔ اُس کے مقام سے یہ بات بھی فروتر ہے کہ جس سطح پر اس کے مخالفین اُتر ے ہوئے ہیں اسی پر خو د بھی اتر آئے۔ اس لیے اللہ تعالٰی نے دعوتِ حق دینے والے کو ہدایت فرمائی کہ ایسے اَشرار کے شر سے بس خدا کی پناہ مانگ لے اور پھر بے فکری کے ساتھ اپنی دعوت کے کام میں لگا رہ۔ اس کے بعد اُن سے نمٹنا تیرا کام نہیں بلکہ رب الناس، ملک الناس اور اِلٰہُ الناس کا کام ہے۔ اس مقام پر یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ وسوسہ عملِ شر کا نقطہ آغاز ہے ۔ وہ جب ایک غافل یا خالی الذہن آدمی کے اندر اثر انداز ہو جاتا ہے تو پہلے اُس میں بُرائی کی خواہش پیدا ہوتی ہے ۔ پھر مزید وسوسہ اندازی اُس بُری خواہش کو بُری نیت اور بُرے ارادے میں تبدیل کر دیتی ہے۔ پھر اس سے آگے جب وسوسے کی تاثیر بڑھتی ہے تو ارادہ عزم بن جاتا ہے اور آخری قدم پھر عملِ شر ہے۔ اس لیے وسوسہ انداز کے شر سے خدا کی پناہ مانگنے کا مطلب یہ ہے کہ شر کاآغاز جس مقام سے ہوتا ہے، اللہ تعالٰی اُسی مقام پر اس کا قلع قمع فرمادے۔ دوسرے لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو وسوسہ اندازوں کے شر کی ترتیب یہ نظر آتی ہے کہ پہلے وہ کھلے کھلے کفر، شرک، دہریت، یا اللہ اور رسول سے بغاوت اور اللہ والوں کی عداوت پر اُکساتے ہیں۔ اس میں ناکامی ہو اور آدمی دین اللہ میں داخل ہی ہو جائے تو وہ اسے کسی نہ کسی بدعت کی راہ سمجھا تے ہیں۔ یہ بھی نہ ہو سکے تو معصیت کی رغبت دلاتے ہیں۔ اس میں بھی کامیابی نہ ہوسکے تو آدمی کے دل میں یہ خیال ڈالتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے گناہ کر لینے می تو کوئی مضائقہ نہیں ، تاکہ یہی اگر کثرت سے صادر ہو جائیں تو گناہوں کا بار عظیم انسان پر لد جائے۔ اس سے بھی اگر آدمی بچ نکلے تو بدرجہ آخر وہ کوشش کرتے ہیں کہ آدمی دین حق کو بس اپنے آپ تک ہی محدود رکھے، اُسے غالب کرنے کی فکر نہ کرے، لیکن اگر کوئی شخص اِن تمام چالوں کو ناکام کر دے تو پھر شیاطین جن و انس کی پوری پارٹی ایسے آدمی پر پِل پڑتی ہے، اس کے خلاف لوگوں کو اکساتی اور بھڑ کاتی ہے ، اُس پر گالیوں اور الزامات کی بو چھاڑ کراتی ہے، اسے ہر طرف بدنام اور رسوا کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔ پھر شیطان اُس مرد مومن کو آکر غصہ دلاتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ سب کچھ بر داشت کر لینا تو بڑی بذدلی کی بات ہے، اُٹھ اور اِن حملہ آوروں سے بھڑ جا۔ یہ شیطان کا آخری حربہ ہے جس سے وہ دعوتِ حق کی راہ کھوٹی کرانے اور داعیِ حق کو راہ کے کانٹوں سے الجھا دینے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سے بھی اگر داعی حق بچ نکلے تو شیطان اُس کے آگے بے بس ہوجاتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کے متعلق قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے وَاِمَّایَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذَ بِا للہِ ۔‘‘، ”اور اگر شیطان کی طرف سے تمہیں کوئی اُکساہٹ محسوس ہوتو اللہ کی پناہ مانگو“(الاعراف200۔حٰم السجدہ۔36)۔ ، ”جو لوگ پرہیز گارہیں ان کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال اُنہیں چھو بھی جائے تو وہ فوراً چونک جاتے ہیں۔ اور پھر انہیں (صحیح راستہ) صاف نظر آنے لگتا ہے“(الاعراف۔201)۔ اور اسی بنا پر جو لوگ شیطان کے اس آخری حربے سے بچ نکلیں ان کے بارے میں اللہ تعالٰی کا ارشا د ہے (ق۔16)۔”اور ہم اُس کے اپنے نفس سے اُبھرنے والے وسوسوں کو جانتے ہیں“ اسی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مشہور خطبہ مسنونہ میں فرمایا ہے نعوذ با للہ من شر و رانفسنا ”ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں اپنے نفس کی شرارتوں سے |
Surah 114 : Ayat 6
مِنَ ٱلْجِنَّةِ وَٱلنَّاسِ
خواہ وہ جنوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے1
1 | بعض اہل علم کے نزدیک اِن الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ وسوسہ ڈالنے والا دوقسم کے لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے، ایک جن، دوسرے انسان۔ اس بات کو اگر تسلیم کیا جائے تو لفظ ناس کا اطلاق جن اور انسان دونوں پر ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسا ہو سکتا ہے، کیونکہ قرآن میں جب رِجَا لٌ ( مردوں ) کا لفظ جِنوں کے لیے استعمال ہوا ہے، جیسا کہ سورہ جن آیت 6 میں ہم دیکھتے ہیں، اور جب نَفَر کا استعمال جِنوں کے گروہ پر ہو سکتا ہے، جیسا کہ سورہ احقاف آیت29 میں ہوا ہے، تو مجازًا ناس کے لفظ میں بھی انسان اور جِن دونوں شامل ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہ رائے اس لیے غلط ہے کہ ناس اور انس اور انسان کے الفاظ لغت ہی کے اعتبار سے لفظ جِن کی ضد ہیں۔ جِنّ کے اصل معنی پوشیدہ مخلوق کے ہیں اور جِن کوجِن اسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ وہ انسانی آنکھ سے مخفی ہے۔ اس کے بر عکس ناس او ر اِنس کے الفاظ انسان کے لییے بولے ہی اس بنا پر جاتے ہیں کہ وہ ظاہر اور مَرْئی اور محسوس ہے۔ سورہ قَصص ، آیت29 میں ہے ،”اگر تم محسوس کرو کہ یتیم بچے اب ہوشمند ہوگئے ہیں“ یہاں اٰنَسْتُم کے معنی اَحْسَنْتُمْ یَا رَاَیْتُمْ ہیں۔ پس ناس کا اطلاق لغتِ عرب کی رو سے جِنوں پر نہیں ہو سکتا، اور آیت کے صحیح معنی یہ ہیں کہ ” اُس وسوسہ انداز کے شر سے جو انسانوں کے دلو ں میں وسوسے ڈالتا ہے، خواہ وہ جِنوں میں سے ہو یا خود انسانوں میں سے“ یعنی دوسرے الفاظ میں وسوسہ اندازی کا کام شیاطینِ جِن بھی کرتے ہیں اور شیاطین اِنس بھی، اور دونوں کے شر سے پناہ مانگنے کی اس سورہ میں تلقین کی گئی ہے۔ اس معنی کی تائید قرآن سے بھی ہوتی ہے اور حدیث سے بھی۔ قرآن میں فرمایا |