Ayats Found (2)
Surah 6 : Ayat 112
وَكَذَٲلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِىٍّ عَدُوًّا شَيَـٰطِينَ ٱلْإِنسِ وَٱلْجِنِّ يُوحِى بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ ٱلْقَوْلِ غُرُورًاۚ وَلَوْ شَآءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُۖ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ
اور ہم نے تو اسی طرح ہمیشہ شیطان انسانوں اور شیطان جنوں کو ہر نبی کا دشمن بنایا ہے جو ایک دوسرے پر خوش آیند باتیں دھوکے اور فریب کے طور پر القا کرتے رہے ہیں1 اگر تمہارے رب کی مشیت یہ ہوتی کہ وہ ایسا نہ کریں تو وہ کبھی نہ کرتے2 پس تم اُنہیں ان کے حال پر چھوڑ دو کہ اپنی افترا پردازیاں کرتے رہیں
2 | یہاں ہماری سابق تشریحات کے علاوہ یہ حقیقت بھی اچھی طرح ذہن نشین ہو جانی چاہیے کہ قرآن کی رُو سے اللہ تعالیٰ کی مشِیَّت اور اس کی رضا میں بہت بڑا فرق ہے جس کو نظر انداز کر دینے سے بالعمُوم شدید غلط فہمیاں واقع ہوتی ہیں۔ کسی چیز کا اللہ کی مشیّت اور اس کے اذن کے تحت رُونما ہونا لازمی طور پر یہ معنی نہیں رکھتا کہ اللہ اس سے راضی بھی ہے اور اسے پسند بھی کرتا ہے۔ دُنیا میں کوئی واقعہ کبھی صُدُور میں نہیں آتا جب تک اللہ اس کے صُدُور کا اذن نہ دے اور اپنی عظیم الشان اسکیم میں اس کے صُدُور کی گنجائش نہ نکالے اور اسباب کو اس حد تک مساعد نہ کر دے کہ وہ واقعہ صادر ہو سکے۔ کسی چور کی چوری، کسی قاتل کا قتل، کسی ظالم و مفسد کا ظلم و فساد اور کسی کافر و مشرک کا کفر و شرک اللہ کی مشیّت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اور اسی طرح کسی مومن اور کسی متقی انسان کا ایمان و تقویٰ بھی مشیّت ِ الہٰی کے بغیر محال ہے۔ دونوں قسم کے واقعات یکساں طور پر مشِیَّت کے تحت رُونما ہوتے ہیں۔ مگر پہلی قسم کے واقعات سے اللہ راضی نہیں ہے اور اس کے برعکس دُوسری قسم کے واقعات کو اُس کی رضا اور اس کی پسند یدگی و محبُوبیّت کی سند حاصل ہے۔ اگر چہ آخر کار کسی خیرِ عظیم ہی لیے فرمانروائے کائنات کی مشیّت کام کر رہی ہے ، لیکن اُس خیرِ عظیم کے ظہُور کا راستہ نور و ظلمت ، خیر و شر اور صلاح و فساد کی مختلف قوتوں کے ایک دُوسرے کے مقابلہ میں نبرد آزما ہونے ہی سے صاف ہوتا ہے۔ اس لیے اپنی بزرگ تر مصلحتوں کی بنا پر وہ طاعت اور معصیت ، ابراہیمیت اور نمرود یّت، موسویّت اور فرعونیّت ، آدمیّت اور شیطنت ، دونوں کو اپنا اپنا کام کرنے کا موقع دیتا ہے۔ اس نے اپنی ذی اختیار مخلوق(جِن و انسان) کو خیر اور شر میں سے کسی ایک کے انتخاب کر لینے کی آزادی عطا کر دی ہے۔ جو چاہے اس کا ر گاہِ عالم میں اپنے لیے خیر کا کام پسند کر لے اور جو چاہے شر کا کام۔ دونوں قسم کے کارکنوں کو، جس حد تک خدائی مصلحتیں اجازت دیتی ہیں، اسباب کی تائید نصیب ہوتی ہے۔ لیکن اللہ کی رضا اور اس کی پسندیدگی صرف خیر ہی کے لیے کام کرنے والوں کو حاصل ہے اور اللہ کو محبُوب یہی بات ہے کہ اس کے بندے اپنی آزادی انتخاب سے فائدہ اُٹھا کر خیر کو اختیار کریں نہ کہ شر کو۔ اس کے ساتھ یہ بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ یہ جو اللہ تعالیٰ دُشمنانِ حق کی مخالفانہ کارروائیوں کا ذکر کرتے ہوئے اپنی مشیّت کا بار بار حوالہ دیتا ہے اِس سے مقصُود دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو، اور آپ کے ذریعہ سے اہلِ ایمان کو یہ سمجھانا ہے کہ تمہارے کام کی نوعیّت فرشتوں کے کام کی سی نہیں ہے جو کسی مزاحمت کے بغیر احکامِ الہٰی کی تعمیل کر رہے ہیں۔ بلکہ تمہارا اصل کام شریروں اور باغیوں کے مقابلہ میں اللہ کے پسند کر دہ طریقہ کو غالب کرنے کے لیے جدّوجہد کرنا ہے۔ اللہ اپنی مشیّت کے تحت اُن لوگوں کو بھی کام کرنے کا موقع دے رہا ہے جنہوں نے اپنی سعی و جہد کے لیے خود اللہ سے بغاوت کے راستے کو اختیار کیا ہے، اور اسی طرح وہ تم کو بھی ، جنھوں نے طاعت و بندگی کے راستے کو اختیار کیا ہے، کام کرنے کا پورا موقع دیتا ہے۔ اگرچہ اس کی رضا اور ہدایت و رہنمائی اور تائید و نصرت تمہارے ہی ساتھ ہے ، کیونکہ تم اُس پہلو میں کام کر رہے ہو جسے وہ پسند کرتا ہے ، لیکن تمھیں یہ توقع نہ رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنی فوق الفطری مداخلت سے اُن لوگوں کو ایمان لانے پر مجبُور کر دے گا جو ایمان نہیں لانا چاہتے، یا اُن شیاطین جِن و انس کو زبر دستی تمہارے راستہ سے ہٹا دے گا جنھوں نے اپنے دل و دماغ کو اور دست و پا کو قوتوں کو اور اپنے وسائل و ذرائع کو حق کی راہ روکنے کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ نہیں، اگر تم نے واقعی حق اور نیکی اور صداقت کے لیے کام کرنے کا عزم کیا ہے تو تمھیں باطل پرستوں کے مقابلہ میں سخت کشمکش اور جدوجہد کر کے اپنی حق پرستی کا ثبوت دینا ہوگا۔ ورنہ معجزوں کے زور سے باط کو مٹانا اور حق کو غالب کرنا ہوتا تو تمہاری ضرورت ہی کیا تھی، اللہ خود ایسا انتظام کر سکتا تھا کہ دنیا میں کوئی شیطان نہ ہوتا اور کسی شرک و کفر کے ظہُور کا امکان نہ ہوتا |
1 | یعنی آج اگر شیاطینِ جِن و انس متفق ہو کر تمہارے مقابلہ میں ایڑی چوڑی کا زور لگارہے ہیں تو گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے جو تمہارے ہی ساتھ پیش آرہی ہو۔ ہر زمانہ میں ایسا ہی ہوتاآیا ہے کہ جب کوئی پیغمبر دُنیا کو راہِ راست دکھانے کے لیے اُٹھا تو تمام شیطانی قوتیں اس کے مِشن کا ناکام کرنے کے لیے کمر بستہ ہو گئیں۔ ”خوش آیند باتوں“ سے مراد وہ تمام چالیں اور تدبیریں اور شکوک و شبہات و اعتراضات ہیں جن سے یہ لوگ عوام کو داعیِ حق اور اس کی دعوت کے خلاف بھڑکانے اور اکسانے کا کام لیتے ہیں۔ پھر ان سب کو بحیثیت مجموعی دھوکے اور فریب سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کیونکہ حق سے لڑنے کے لیے جو ہتھیار بھی مخالفین حق استعمال کرتے ہیں وہ نہ صرف دُوسروں کے لیے بلکہ خود ان کے لیے بھی حقیقت کے اعتبار سے محض ایک دھوکا ہوتے ہیں اگرچہبظاہر وہ ان کو نہایت مفید اور کامیاب ہتھیار نظر آتے ہیں |
Surah 6 : Ayat 121
وَلَا تَأْكُلُواْ مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ ٱسْمُ ٱللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُۥ لَفِسْقٌۗ وَإِنَّ ٱلشَّيَـٰطِينَ لَيُوحُونَ إِلَىٰٓ أَوْلِيَآئِهِمْ لِيُجَـٰدِلُوكُمْۖ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ
اور جس جانور کو اللہ کا نام لے کر ذبح نہ کیا گیا ہو اس کا گوشت نہ کھاؤ، ایسا کرنا فسق ہے شیاطین اپنے ساتھیوں کے دلوں میں شکوک و اعتراضات القا کرتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں1 لیکن اگر تم نے اُن کی اطاعت قبول کر لی تو یقیناً تم مشرک ہو2
2 | یعنی ایک طرف اللہ کی خداوندی کا اقرار کرنا اور دُوسری طرف اللہ سے پھرے ہوئے لوگوں کے احکام پر چلنا اور ان کے مقرر کیے ہوئے طریقوں کی پابندی کرنا ، شرک ہے۔ توحید یہ ہے کہ زندگی سراسر اللہ کی اطاعت میں بسر ہو۔ اللہ کے ساتھ اگر دُوسروں کو اعتقادًا مستقل بالذّات مطاع مان لیا جائے تو یہ اعتقادی شرک ہے، اور اگر عملاً ایسے لوگوں کی اطاعت کی جائے جو اللہ کی ہدایت سے بے نیاز ہو کر خود امر ونہی کے مختار بن گئے ہوں تو یہ عملی شرک ہے |
1 | حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی روایت ہے کہ عُلمائے یہُود جُہلائے عرب کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرنے کے جو سوالات سکھایا کرتے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ”آخر کیا معاملہ ہے کہ جسے خدا مارے وہ تو حرام ہو اور جسے ہم ماریں وہ حلال ہو جائے“۔ یہ ایک ادنٰی سا نمونہ ہے اس ٹیڑھی ذہنیّت کا جو ان نام نہاد اہلِ کتاب میں پائی جاتی تھی۔ وہ اس قسم کے سوالات گھڑ گھڑ کر پیش کرتے تھے تاکہ عوام کے دلوں میں شُبہات ڈالیں اور انھیں حق سے لڑنے کے لیے ہتھیار فراہم کر کے دیں |