Ayats Found (4)
Surah 18 : Ayat 47
وَيَوْمَ نُسَيِّرُ ٱلْجِبَالَ وَتَرَى ٱلْأَرْضَ بَارِزَةً وَحَشَرْنَـٰهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ أَحَدًا
فکر اُس دن کی ہونی چاہیے جب کہ ہم پہاڑوں کو چلائیں گے1، اور تم زمین کو بالکل برہنہ پاؤ گے2، اور ہم تمام انسانوں کو اس طرح گھیر کر جمع کریں گے کہ (اگلوں پچھلوں میں سے) ایک بھی نہ چھوٹے گا3
3 | یعنی ہر انسان جو آدم سے لے کر قیامت کی آخری ساعت تک پیدا ہوا ہے، خواہ ماں کے پیٹ سے نکل کر اس نے ایک ہی سانس لیا ہو، اس وقت دوبارہ پیدا کیا جائے گا اور سب کو ایک وقت میں جمع کر دیا جائے گا۔ |
2 | یعنی اس پر کوئی روئیدگی اور کوئی عمارت باقی نہ رہے گی، بالکل ایک چٹیل میدان بن جائے گی۔ یہ وہی بات ہے جو اس سورے کے آغاز میں ارشاد ہوئی تھی کہ ’’جو کچھ اس زمین پر ہے اسے ہم نے لوگوں کی آزمائش کے لیے ایک عارضی آرائش بنایا ہے۔ ایک وقت آئے گا جب یہ بالکل ایک بے آب و گیاہ صحرا بن کر رہ جائے گی۔‘‘ |
1 | یعنی جبکہ زمین کی گرفت ڈھیلی پڑ جائے گی اور پہاڑ اس طرح چلنے شروع ہونگے جیسے بادل چلتے ہیں۔ اس کیفیت کو ایک دوسرے مقام پر قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے : وَتَرَی الْجِبَا لَ تَحْسَبُھَا جَا مِدَۃً وَّھِیَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ (النحل۔ آیت ۸۸)۔ ’’تم پہاڑوں کو دیکھتے ہو اور سمجھتے ہو کہ یہ سخت جمے ہوئے ہیں۔ مگر وہ چلیں گے اس طرح جیسے بادل چلتے ہیں۔ |
Surah 27 : Ayat 88
وَتَرَى ٱلْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَهِىَ تَمُرُّ مَرَّ ٱلسَّحَابِۚ صُنْعَ ٱللَّهِ ٱلَّذِىٓ أَتْقَنَ كُلَّ شَىْءٍۚ إِنَّهُۥ خَبِيرُۢ بِمَا تَفْعَلُونَ
آج تو پہاڑوں کو دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خوب جمے ہوئے ہیں، مگر اُس وقت یہ بادلوں کی طرح اڑ رہے ہوں گے، یہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہو گا جس نے ہر چیز کو حکمت کے ساتھ استوار کیا ہے وہ خوب جانتا ہے کہ تم لوگ کیا کرتے ہو1
1 | یعنی ایسے خداسے تم یہ توقع نہ رکھو کہ اپنی دنیا میں تم کوعقل وتمیز اورتصرف کے اختیارات دےکروہ تمہارے اعمال وافعال سے بےخبررہےگا اوریہ نہ دیکھے گا کہ اس کی زمین میںتم ان اختیارات کوکیسے استعمال کرتے رہےہو |
Surah 52 : Ayat 10
وَتَسِيرُ ٱلْجِبَالُ سَيْرًا
اور پہاڑ اڑے اڑے پھریں1 گے
1 | دوسرے الفاظ میں زمین کی وہ گرفت جس نے پہاڑوں کو جما رکھا ہے ، ڈھیلی پڑ جاۓ گی اور وہ اپنی جڑوں سے اکھڑ کر فضا میں اس طرح اڑنے لگیں گے جیسے بادل اڑے پھرتے ہیں |
Surah 78 : Ayat 20
وَسُيِّرَتِ ٱلْجِبَالُ فَكَانَتْ سَرَابًا
اور پہاڑ چلائے جائیں گے یہاں تک کہ وہ سراب ہو جائیں گے1
1 | اس مقام پر یہ بات ذہن میں رہنی چاہیےکہ یہاں بھی قرآن کے دوسرے بہت سے مقامات کی طرح قیامت کے مختلف مراحل کا ذکر ایک ساتھ کیا گیا ہے۔ پہلی آیت میں اس کیفیت کا ذکر ہے جو آخری نفخ صور کے وقت پیش آئے گی، اور بعد کی دو آیتوں میں وہ حالت بیان کی گئی ہے جو دوسرے نفخ صور کےموقع پررونما ہوگی۔ اس کی وضاحت ہم تفہیم القرآن، جلد ششم تفسیر سورۃ الحاقہ، حاشیہ 10میں کر چکے ہیں۔ ’’آسمان کھول دیا جائے گا‘‘۔ سے مراد یہ ہے کہ عالم بالا میں کوئی بندش اوررکاوٹ باقی نہ رہے گی اور ہر طرف سے ہر آفت سماری اس طرح ٹوٹی پڑ رہی ہو گی کہ معلوم ہو گا گویا اس کے آنے کے لیے سارے دروازے کھلے ہیں اوراس کو روکنے کے لیے کوئی دروازہ بھی بند نہیں رہا ہے۔ پہاڑوں کے چلنے اور سراب بن کر رہ جانے کا مطلب یہ ہے کہ دیکھتے دیکھتے پہاڑ اپنی جگہ سے اکھڑ کر اڑیں گے اور پھر ریزہ ریزہ ہو کر اس طرح پھیل جائیں گے کہ جہاں پہلے کبھی پہاڑ تھے وہاں ریت کے وسیع میدانوں کے سوااورکچھ نہ ہوگا۔ اس کیفیت کو سورہ طہٰ میں یوں بیان کیا گیا ہے ’’یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ آخراس دن پہاڑ کہاں چلےجائیں گے؟ اس سے کہو کہ میرا رب ان کو دھول بنا کر اڑا دے گا اور زمین کو ایسا ہموار چٹیل میدان بنا دے گا کہ اس میں تم کوئی بل اورسلوٹ تک نہ دیکھو گے‘‘۔ آیات 105 تا 107 مع حاشیہ 83) |