Ayats Found (1)
Surah 39 : Ayat 67
وَمَا قَدَرُواْ ٱللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِۦ وَٱلْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُۥ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ وَٱلسَّمَـٰوَٲتُ مَطْوِيَّـٰتُۢ بِيَمِينِهِۦۚ سُبْحَـٰنَهُۥ وَتَعَـٰلَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ
اِن لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے1 (اس کی قدرت کاملہ کا حال تو یہ ہے کہ) قیامت کے روز پوری زمین اُس کی مٹھی میں ہو گی اور آسمان اس کے دست راست میں لپٹے ہوئے ہوں گے2 پاک اور بالاتر ہے وہ اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں3
3 | یعنی کہاں اُس کی یہ شان عظمت و کبریائی اور کہاں اس کے ساتھ خدائی میں کسی کا شریک ہونا۔ |
2 | زمین اور آسمان پر اللہ تعالٰی کے کامل اقتدار تصرف کی تصویر کھینچنے کے لیے مٹھی میں ہونے اور ہاتھ پر لپٹے ہونے کا استعارہ استعمال فرمایا گیا ہے۔جس طرح ایک آدمی کسی چھوٹی سے گیند کو مٹھی میں دبا لیتا ہے اور اس کے لیے یہ ایک معمولی کام ہے، یا ایک شخص ایک رومال کو لپیٹ کر ہاتھ میں لے لیتا ہے اور اس کے لیے یہ کوئی زحمت طلب کام نہیں ہوتا،اسی طرح قیامت کے روز تمام انسان (جو آج اللہ کی عظمت و کبریائی کا اندازہ کرنے سے قاصر ہیں) اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ زمین اور آسمان اللہ کے دست قدرت میں ایک حقیر گیند اور ایک ذرا سے رُومال کی طرح ہیں۔ مسند احمد، بخاری، مسلم، نسائی، ابن ماجہ، ابن جریر وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابوہریرہؓ کی روایات منقول ہوئی ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم منبر پر خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ دَوران خطبہ میں یہ آیت آپؐ نے تلاوت فرمائی اور فرمایا ’’اللہ تعالٰی آسمانوں اور زمینوں (یعنی سیّاروں) کو اپنی مٹھی میں لے کر اس طرح پھرائے گا جیسے ایک بچہ گیند پھراتا ہے،اور فرمائے گا میں ہوں خدائے واحد، میں ہوں بادشاہ، میں ہوں جبّار، میں ہوں کبریائی کا مالک، کہاں ہیں زمین کے بادشاہ؟ کہاں ہیں جبّار؟ کہاں ہیں متکبّر،؟ یہ کہتے کہتے حضورؐ پر ایسا لرزہ طاری ہوا کہ ہمیں خطرہ ہونے لگا کہ کہیں آپ منبر سمیت کر نہ پڑیں۔ |
1 | یعنی ان کو اللہ کی عظمت و کبریائی کا کچھ اندازہ ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کبھی یہ سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ خداوند عالم کا مقام کتنا بلند ہے اور وہ حقیر ہستیاں کیا شے ہیں جن کو یہ نادان لوگ خدائی میں شریک اور معبودیت کا حق دار بنائے بیٹھے ہیں |