Ayats Found (2)
Surah 99 : Ayat 4
يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا
اُس روز وہ اپنے (اوپر گزرے ہوئے) حالات بیان کرے گی1
1 | حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آیت پڑھ کر پوچھا ’’جانتے ہو اس کے وہ حالات کیا ہیں؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا اللہ ا ور اس کے رسول کو زیادہ ع لم ہے۔ فرمایا ’’وہ حالات یہ ہیں کہ زمین ہر بندے ا ور بندی کے بارے میں اس عمل کی گواہی دے گی جو اس کی پیٹھ پر اس نے کیا ہو گا۔ وہ کہے گی کہ اس نے فلاں دن فلاں کام کیا تھا۔ یہ ہیں وہ حالات جو زمین بیان کرے گی‘‘۔ (مسند احمد، ترمذی، نسائی، ابن جریر، عبد بن حمید، ابن المنذر، حاکم، ابن مردویہ، بیہقی فی الشعب)۔ حضرت بیعۃ الخرشی کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا ’’ذرا زمین سے بچ کر رہنا کیونکہ یہ تماری جڑ بنیاد ہے اور اس پر عمل کرنے والا کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس کے عمل کی بہ خبر نہ دے خواہ اچھا ہو یا برا‘‘۔ (معجم الطبرانی)۔ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’قیامت کے روز زمین ہر اس عمل کو لے آئے گی جو اس کی پیٹھ پر کیا گیا ہو‘‘۔ پھر آپ نے یہی آیات تلاوت فرمائیں (ابن مردویہ۔ بیہقی)۔ حضرت علی کے حالات میں لکھا ہے کہ جب آپ بیت المال کا سب روپیہ اہل حقوق میں تقسیم کر کے اسے خالی کر دیتے تو اس میں دو رکعت نماز پڑھتے اور پھر فرماتے ’’تجھے گواہی دینی ہو گی کہ میں نے تجھ کو حق کے ساتھ بھرا اور حق ہی کے ساتھ خالی کر دیا‘‘۔ زمین کے متعلق یہ بات کہ وہ قیامت کے روز اپنے اوپر گزر ہوئے سب حالات اور واقعات بیان کرے گی، قدیم زمانے کے آدمی کے لیے تو بڑی حیران کن ہو گی کہ آخر زمین کیسے بولنے لگے گی، لیکن آج علوم طبیعی کے اکتشافات اور سینما ، لاؤڈ اسپیکر، ریڈیو، ٹیلیویژن، ٹیپ ریکارڈر، الیکٹرانکس وغیرہ کی ایجادات کے اس دور میں یہ سمجھنا کبھی مشکل نہیں کہ زمین اپنے حالات کیسے بیان کرے گی۔ انسان ا پنی زبان سے جو کچھ بولتا ہے اس کے نقوش ہوا میں ریڈیائی لہروں میں، گھروں کی دیواروں اور ان کے فرش اور چھت کے ذرے ذرے میں، اور اگر کسی سڑک یا م یدان یا کھیت میں آدمی نے بات کی ہو تو ان سب کے ذرات میں ثبت ہیں۔ اللہ تعالی جس وقت چاہے ان ساری آوازوں کو ٹھیک سی طرح ا ن چیزوں سے دہروا سکتا ہے جس طرح کبھی وہ انسان کے منہ سے نکلی تھیں۔ انسان اپنے کانوں سے اس وقت سن لے گا کہ یہ اس کی اپنی ہی آوازیں ہیں۔ اور اس کے سب جاننے والے پہچان لیں گے کہ جو کچھ وہ سن رہے ہیں وہ اسی شخص کی آواز اور اس کا لہجہ ہے۔ پھر انسان نے زمین پر جہاں جس ح الت میں بھی کوئی کام کیا ہے اس کی ایک ایک حرکت کا عکس اس کے گرد و پیش کی تمام چیزوں پر پڑا ہے اور اس کی تصویر ان پر نقش ہو چکی ہے۔ بالکل گھپ اندھیرا اور اجالا کوئی معنی نہیں رکھتا، وہ ہر حالت میں اس کی تصویر لے سکتی ہے۔ یہ ساری تصویریں قیامت کے روز ایک متحرک فلم کی طرح انسان کے سامنے آ جائیں گی اور یہ دکھا دیں گی کہ وہ زندگی بھر کس وقت، کہاں کہاں کیا کچھ کرتا رہاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ اللہ تعالی ہر انسان کے اعمال کو براہِ راست خود جانتا ہے، مگر آخرت میں جب وہ عدالت قائم کرے گا تو جس کو بھی سزا دے گا، انصاف کے تمام تقاضے پورے کر کے دے گا ، اس کی عدالت میں ہر مجرم انسان کے خلاف جو مقدمہ قائم کیا جائے گا اس کو ا یسی مکمل شہادتوں سے ثابت کر دیا جائے گا کہ اس کے مجرم ہونے میں کسی کلام کی گنجائش باقی نہ رہے گی۔ سب سے پہلے تو وہ نامہ اعمال ہے جس میں ہر وقت اس کے ساتھ ہوئے کراماً کاتبین اس کے ا یک ا یک قول ا ور فعل کا ریکارڈ درج کر رہے ہیں (ق، آیات 17۔18۔ الانفطار، آیات 1 تا 12)۔ یہ نامہ اعمال اس کے ہاتھ میں دے دیا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا کہ پڑھ اپنا کارنامہ حیات، اپنا ح ساب لینے کے لیے تو خود کافی ہے (بنی اسرائیل۔14)۔ انسان اسے پڑھ کر حیران رہ جائے گا کہ کوئی چھوٹی یا بڑی چیز ایسی نہیں ہے جو اس میں ٹھیک ٹھیک درج نہ ہو (الکہف 49)۔ اس کے بعد انسان کا اپنا جسم ہے جس سے اس نے دنیا میں کام لیا ہے۔ اللہ کی ع دالت میں اس کی اپنی زبان شہادت دے گی کہ اس سے وہ کیا کچھ بولتا رہا ہے، اس کے اپنے ہاتھ پاؤں شہادت دیں گے کہ ان سے کیا کیا کام اس نے لیے ۔ (النور۔24)۔ اس کی آنکھیں شہادت دیں گے، اس کے کان شہادت دیں گے کہ ان سے اس نے کیا کچھ سنا۔ اس کے جسم کی پوری کھال اس کے افعال کی شہادت دے گی۔ وہ حیران ہو کر اپنے اعضا سے کہے گاکہ تم بھی میرے خلاف گواہی دے رہے ہو؟ اس کے ا عضا جواب دیں گے کہ آج جس خدا کے حکم سے ہ ر چیز بول رہی ہے اسی کے حکم سے ہم بھی بول رہے ہیں (حمٰ السجدہ۔ 20 تا 22)۔ اس پر مزید وہ شہادتیں ہیں جو زمین اور اس کے پورے ماحول سے پیش کی جائیں گی جن میں آدمی اپنی آوازیں خود اپنے کانوں سے، اور ا پنی حرکات کی ہو بہو تصویریں خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ کہ انسان کے دل میں جو خیالات، ارادے اور مقاصد چھپے ہوئے تھے، اور جن نیتوں کے ساتھ اس نے سارے اعمال کیے تھے وہ بھی نکال کر سامنے رکھ دیے جائیں گے، جیسا کہ آگے سورہ عادیات میں آ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اتنے قطعی اور صریح اور ناقابل انکار ثبوت سامنے آ جانے کے بعد انسان دم بخود رہ جائے گا اور اس کے لیے اپنی معذرت میں کچھ کہنے کا موقع باقی نہ رہے گا (المرسلٰت، آیات 35۔36) |
Surah 99 : Ayat 5
بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحَىٰ لَهَا
کیونکہ تیرے رب نے اُسے (ایساکرنے کا) حکم دیا ہوگا