Ayats Found (2)
Surah 18 : Ayat 50
وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَـٰٓئِكَةِ ٱسْجُدُواْ لِأَدَمَ فَسَجَدُوٓاْ إِلَّآ إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ ٱلْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِۦٓۗ أَفَتَتَّخِذُونَهُۥ وَذُرِّيَّتَهُۥٓ أَوْلِيَآءَ مِن دُونِى وَهُمْ لَكُمْ عَدُوُّۢۚ بِئْسَ لِلظَّـٰلِمِينَ بَدَلاً
یاد کرو، جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدمؑ کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا1 وہ جنوں میں سے تھا اس لیے اپنے رب کے حکم کی اطاعت سے نکل گیا2 اب کیا تم مجھے چھوڑ کر اُس کو اور اس کی ذرّیّت کو اپنا سرپرست بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں؟ بڑا ہی برا بدل ہے جسے ظالم لوگ اختیار کر رہے ہیں
2 | یعنی ابلیس فرشتوں میں سے نہ تھا بلکہ جنوں میں سے تھا، اسی لیے اطاعت سے باہر ہو جانا اس کے لیے ممکن ہوا۔ فرشتوں کے متعلق قرآن تصریح کرتا ہے کہ وہ فرۃً مطیع فرمان ہیں : لَایَعْصُوْنَ اللہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَایُؤْ مَرْوْنَ مَا لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ رَبُّھُمْ مِنْ فَوْقِہمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُوؤْ نَ مَا یُؤْمَرُوْنَ (النحل ۵۰) ’’وہ سرکشی نہیں کرتے، اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے ڈرتے ہیں اور وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے‘‘۔ بخلاف اس کے جن انسانوں کی طرح ایک ذی اختیار مخلوق ہے جسے پیدائشی فرمان بردار نہیں بنایا گیا بلکہ کفر و ایمان اور طاعت و معصیت، دونوں کی قدرت بخشی گئی ہے۔ اس حقیقت کو یہاں کھولا گیا ہے کہ ابلیس جنوں میں سے تھا اس لیے اس نے خود اپنے اختیار سے فسق کی راہ انتخاب کی۔ یہ تصریح ان تمام غلط فہمیوں کو رفع کر دیتی ہے جو عموماً لوگوں میں پائی جاتی ہیں کہ ابلیس فرشتوں میں سے تھا اور فرشتہ بھی کوئی معمولی نہیں بلکہ معلم الملکوت۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الحِجر،آیت ۲۷۔ اور الجِن، آیات ۱۳۔ ۱۵)۔ رہا یہ سوال کی جب ابلیس فرشتوں میں سے نہ تھا تو پھر قرآن کا یہ طرزِ بیان کیونکہ صحیح ہو سکتا ہے کہ ’’ہم نے ملائکہ کو کہا کہ آدم کو سجدہ کرو پس ان سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا‘‘؟ اس کا جواب یہ ہے کہ فرشتوں کو سجدے کا حکم دینے کے معنی یہ تھے کہ وہ تمام مخلوقات ارضی بھی انسان کی مطیع فرمان بن جائی جو کرۂ زمین کی عملداری میں فرشتوں کے زیر انتظام آباد ہیں۔چنانچہ فرشتوں کے ساتھ یہ سب مخلوقات بھی سر بسجود ہوئیں۔ مگر ابلیس نے ان کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ (لفظ ابلیس کے معنی کے لیے ملاحظہ ہو المومنون حاشیہ ۷۳) |
1 | اس سلسلہ کلام میں قصہ آدم و ابلیس کی طرف اشارہ کرنے سے مقصود گمراہ انسانوں کو ان کی اس حماقت پر متنبہ کرنا ہے کہ وہ اپنے رحیم و شفیق پروردگار اور خیر خواہ پیغمبروں کو چھوڑ کر اپنے اس ازلی دشمن کے پھندے میں پھنس رہے ہیں جو اول روزِ آفرینش سے ان کے خلاف حسد رکھتا ہے۔ |
Surah 34 : Ayat 40
وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ يَقُولُ لِلْمَلَـٰٓئِكَةِ أَهَـٰٓؤُلَآءِ إِيَّاكُمْ كَانُواْ يَعْبُدُونَ
اور جس دن وہ تمام انسانوں کو جمع کرے گا پھر فرشتوں سے پوچھے گا 1"کیا یہ لوگ تمہاری ہی عبادت کیا کرتے تھے؟"
1 | قدیم ترین زمانے سے آج تک ہر دور کے مشرکین فرشتوں کو دیوی اور دیوتا قرار دے کر ان کے بُت بناتے اور ان کی پرستش کرتے رہے ہیں۔کوئی بارش کا دیوتا ہے تو کوئی بجلی کا اور کوئی ہوا کا۔ کوئی دولت کی دیوی ہے تو کوئی علم کی اور کوئی موت و ہلاکت کی۔ اسی کے متعلق اللہ تعالٰی فرما رہا ہے کہ قیامت کے روز ان فرشتوں سے پوچھا جائے گا کہ کیا تم ہی ان لوگوں کے معبود بنے ہوئے تھے؟ اس سوال کا مطلب محض دریافت حال نہیں ہے بلکہ اس میں یہ معنی پوشیدہ ہیں کہ کیا تم ان کی اس عبادت سے راضی تھے؟ کیا تم نے یہ کہا تھا کہ لوگو ہم تمہارے معبود ہیں، تم ہماری پوجا کیا کرو؟ یا تم نے یہ چاہا کہ یہ لوگ تمہاری پوجا کریں؟ قیامت میں یہ سوال صرف فرشتوں ہی سے نہیں بلکہ تمام ان ہستیوں سے کیا جائے گا جن کی دنیا میں عبادت کی گئی ہے۔ چنانچہ سورہ فرقان میں ارشاد ہوا ہے : وَیَوْمَ یَحْشُرُ ھُمْ وَمَا یَعبُدُوْن مِنْ دُوْنِ اللہِ فَیَقُوْلُءَ اَنْتُمْ اَضْلَلْتُمْ عِبَادِیْ ھٰٓؤُلَآءِاَمْ ھُمْ ضَلُّو االسَّبِیْلَ۔ (آیت 17) جس روز اللہ تعالٰی ان لوگوں کو اور ان ہستیوں کو جن کی یہ اللہ کے سوا عبادت کرتے ہیں جمع کریگا، پھر پوچھے گا کی تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا یا یہ خود راہِ راست سے بھٹک گئے تھے؟ |