Ayats Found (2)
Surah 15 : Ayat 27
وَٱلْجَآنَّ خَلَقْنَـٰهُ مِن قَبْلُ مِن نَّارِ ٱلسَّمُومِ
اور اُس سے پہلے جنوں کو ہم آگ کی لپٹ سے پیدا کر چکے تھے1
1 | سَموم گرم ہوا کو کہتے ہیں ، اور نار کو سموم کی طرف نسبت دینے کی صورت میں اُس کے معنی آگ کے بجائے تیز حرارت کے ہوجاتے ہیں۔ اِس سے اُن مقامات کی تشریح ہو جاتی ہے جہاں قرآن مجید میں یہ فرمایا گیا ہے کہ جن ّ آگے سے پیدا کیے گئے ہیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو ، الرحمٰن ، حواشی ۱۴ تا ۱۶) |
Surah 55 : Ayat 15
وَخَلَقَ ٱلْجَآنَّ مِن مَّارِجٍ مِّن نَّارٍ
اور جن کو آگ کی لپٹ سے پیدا کیا1
1 | اصل الفاظ ہیں مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ۔ نار سے مراد ایک خاص نوعیت کی آگ ہے نہ کہ وہ آگ جو لکڑی یا کوئلہ جلانے سے پیدا ہوتی ہے۔ اس مارج کے معنی ہیں خالص شعلہ جس میں دھواں نہ ہو اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح پہلا انسان مٹی سے بنایا گیا، پھر تخلیق کے مختلف مدارج سے گزرتے ہوۓ اس کےلُبدِ خاکی نے گوشت پوست کے زندہ بشر کی شکل اختیار کی اور آگے اس کی نسل نطفہ سے چلی، اسی طرح پہلا جِن خالص آگ کے شعلے، یا آگ کی لَپَٹ سے پیدا کیا گیا، اور بعد میں اس کی ذریت سے جِنوں کی نسل پیدا ہوئی۔ اس پہلے جِن کی حیثیت جِنوں کے معاملہ میں وہی ہے جو آدم علیہ السلام کی حیثیت انسانوں کے معاملہ میں ہے۔ زندہ بشر بن جانے کے بعد حضرت آدم اور ان کی نسل سے پیدا ہونے والے انسانوں کے جسم کو اس مٹی سے کوئی مناسبت باقی نہ رہی جس سے ان کو پیدا کیا گیا تھا۔ اگر چہ اب بھی ہمارا جسم پورا کا پورا زمین ہی کے اجزاء سے مرکب ہے، لیکن ان اجزاء نے گوشت پوست اور خون کی شکل اختیار کر لی ہے اور جان پڑنے کے بعد وہ تو خاک کی بہ نسبت ایک بالکل ہی مختلف چیز بن گیا ہے۔ ایسا ہی معاملہ جنوں کا بھی ہے۔ ان کا وجود بھی اصلاً ایک آتشیں وجود ہی ہے، لیکن جس طرح ہم محض تودہ خاک نہیں ہیں اسی طرح وہ بھی محض شعلہ آتش نہیں ہیں۔ اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ جن مجّرد روح نہیں ہیں بلکہ ایک خاص نوعیت کے مادی اجسام ہی ہیں، مگر چونکہ وہ خالص آتشیں اجزاء سے مرکب ہیں اس لیے وہ خاکی اجزاء سے بن ہوۓ انسانوں کو نظر نہیں آتے۔ اسی چیز کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے کہ اِنَّہٗ یَرٰ کُمْ ھُوَ وَقَبِیْلُہٗ مِنْ حَیْثُ لَا تَرَوْ نَھُمْ۔ ’’شیطان اور اس کا قبیلہ تم کو ایسی جگہ سے دیکھ رہا ہے جہاں تم اس کو نہیں دیکھتے ‘‘۔ (الاعراف۔27)۔ اسی طرح جِنوں کا سریع الحرکت ہو نا، ان کا بہ آسانی مختلف شکلیں اختیار کر لینا، اس ان مقامات پر غیر محسوس طریقے سے نفوذ کر جانا جہاں خاکی اجزاء سے بنی ہوئی چیزیں جہاں خاکی اجزا ءسے بنی ہوئی چیزیں نفوذ نہیں کر سکتیں، یا نفوذ کرتی ہیں تو ان کا نفوذ محسوس ہو جاتا ہے، یہ سب امور بھی اسی وجہ سے ممکن اور قابل فہم ہیں کہ وہ فی الاصل آتشیں مخلوق ہیں۔ دوسری بات اس سے یہ معلوم ہوئی کہ جن نہ صرف یہ کہ انسان سے بالکل الگ نوعیت کی مخلوق ہیں، بلکہ ان کا مادہ تخلیق ہی انسان، حیوان، نباتات اور جمادات سے قطعی مختلف ہے یہ صریح الفاظ میں ان لوگوں کے خیال کی غلطی ثابت کر رہی ہے جو جنوں کو انسانوں ہی کی ایک قسم قرار دیتے ہیں۔ وہ اس کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ مٹی سے انسان کو اور آگ سے جِن کو پیدا کرنے کا مطلب در اصل دو قسم کے لوگوں کی مزاجی کیفیت کا فرق بیان کرنا ہے، ایک قسم کے انسان منکسر المزاج ہوتے ہیں جنہیں آدمی کے بجاۓ شیطان کہنا زیادہ صحیح ہوتا ہے۔ لیکن یہ قرآن کی تفسیر نہیں بلکہ تحریف ہے۔ اوپر حاشیہ نمبر 14 میں ہم نے تفصیل کے ساتھ یہ دکھایا ہے کہ قرآن مجید مڑی سے انسان کے پیدا کیے جانے کا مطلب کتنی وضاحت کے ساتھ خود بیان کرتا ہے۔ کیا ان ساری تفصیلات کو پڑھ کر کوئی معقول آدمی یہ معنی لے سکتا ہے کہ ان ساری باتوں کا مقصد محض اچھے انسانوں کے منکسر المزاج ہونے کی تعریف بیان کرنا ہے؟ پھر آخر یہ بات کسی صحیح العقل آدمی کے ذہن میں کیسے آسکتی ہے کہ انسان کی تخلیق سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے کرنے،اور جن کی تخلیق خالص آگ کے شعلے سے کرنے کا مطلب ایک ہی نوع انسان کے دو مختلف المزاج افراد دی گرہوں کی جدا گانہ اخلاقی خصوصیات کا فرق ہے؟ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، تفسیر سورہ ذاریات، حاشیہ 53 ) |