Ayats Found (1)
Surah 27 : Ayat 82
۞ وَإِذَا وَقَعَ ٱلْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَآبَّةً مِّنَ ٱلْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ ٱلنَّاسَ كَانُواْ بِـَٔـايَـٰتِنَا لَا يُوقِنُونَ
اور جب ہماری بات پُوری ہونے کا وقت اُن پر آ پہنچے گا1 تو ہم ان کے لیے ایک جانور زمین سے نکالیں گے جو ان سے کلام کرے گا کہ لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں کرتے تھے2
2 | ابن عمرؓ کاقول ہے کہ یہ اس وقت ہوگا جب زمین میں کوئی نیکی کا حکم کرنے والا اوربدی سےروکنے والا باقی نہ رہے گا۔ ابن مردودیہ نے ایک حدیث ابو سعید خُدری سے نقل کی ہےجس میں وہ فرماتے ہیں کہ یہی بات انہوں نے خود حضورﷺ سےسنی تھی۔ اس سےمعلوم ہواکہ جب انسان امربالمعروف اورنہی عن المنکر چھوڑدیں گے توقیامت ہونےسےپہلے اللہ تعالیٰ ایک جانور کےذریعہ سےآخری مرتبہ حجت قائم فرمائےگا۔ یہ بات واضح نہیں ہے کہ یہ ایک ہی جانور ہوگا یا ایک خاص قسم کی جنس حیوان ہوگی جس کے بہت سے افرادروئے زمین پرپھیل جائیں گے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دابۃ من الارض کے الفاظ میںدونوں معنوں کا احتمال ہے۔ بہر حال جوبات وہ کہےگا وہ یہ ہوگی کہ لوگ اللہ تعالیٰ کی ان آیات پریقین نہیں کرتےتھےجن میں قیامت کےآنے اورآخرت براپا ہونے کی خبریں دی گئی تھیں، تو لواب اس کا وقت آن پہنچا ہےاورجان لوکہ اللہ کی آیات سچی تھیں ۔ یہ فقرہ کہ ’’لوگ ہماری آیات پرف یقین نہیں کرتےتھے‘‘ یا تواس جانور کے اپنے کلام کی نقل ہے، یااللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے کلام کی حکایت۔ اگر یہ اُسی کے الفاظ کی نقل ہے تو’’ ہمار‘‘ کا لفظ وہ اُسی طرح استعمال کرےگا جس طرح ایک حکومت کا ہرکارندہ’’ہم ‘‘ کا لفظ اس معنی میں بولتا ہے کہ وہ اپنی حکومت کی طرف سے بات کررہا ہےنہ کہ اپنی شخصی حیثیت میں۔ دوسری صورت میں بات صاف ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے کلام کوچونکہ اپنے الفاظ میں بیان فرمارہا ہے اس لیے اس نے ’’ہماری آیات‘‘ کالفظ استعمال فرمایا ہے۔اس جانور کے نکلنے کا وقت کونسا ہوگا؟ اس کے متعلق نبی ﷺ کاارشاد یہ ہےکہ ’’ آفتاب سے طلوع ہوگا اورایک روز دن دہاڑے یہ جانور نکل آئے گا۔ ان میںسے جونشانی بھی پہلے ہووہ بہر حال دوسری کے قریب ہی ظاہر ہوگی ‘‘ (مسلم) دوسری روایات جومسلم ،ابن ماجہ، ترمزی، اورمُسنداحمد وغیرہ میں آئی ہیں، ان میں حضورﷺ نےبتایا ہےکہ قیامت کے قریب زمانے میں دجال کاخروج ، دابتہ الارض کاظہور، دُخان(دھواں)، اورآفتاب کا مغرب سےطلوع وہ نشانیاں ہیں جویکے بعد دیگرے ظاہرہوں گی۔ اس جانورکی ماہیت، شکل وصورت، نکلنےکی جگہ، اورایسی ہی دوسری تفصیلات کے متعلق طرح طرح کی روایات نقل کی گئی ہیں جو باہم بہت مختلف اورمتضاد ہیں۔ ان چیزوں کے ذکر سے بجز ذہن کہ پرگندگی کے اورکچھ حاصل نہی ہوتا، اوران کے جانے کا کوئی فائدہ بھی نہیں کیونکہ جس مقصد کےلیے قرآن میںیہ ذکر کیاگیا ہےاس سے ان تفصیلات کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ رہا کسی جانور کا انسانوں سے انسانی زبان میں کلام کرنا، تویہ اللہ کی قدرت کا ایک کرشمہ ہے۔ وہ جس چیز کوچاہے نطق کی طاقت بخش سکتا ہے۔ قیامت سے پہلے تووہ ایک جانور ہی کونطق بخشے گا۔ مگر جب وہ قیامت قائم ہوجائے گی تواللہ کی عدالت میں انسان کی آنکھ اورکان اوراس کےجسم کی کھال تک بول اُٹھےگی، جیسا کہ قرآن میںبتصریح بیان ہوا ہے۔ حتّی اذاماجاءوھاشھدعلیھم سمعھم وابصارھم وجلودھم بماکانویعملون ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وقالوالجلودھم لم شھدتم علینا قالوآآ نطقنا اللہ الذی انطق کل شئءِِ (حم السجدہ۔آیات ۲۰۔۲۱) |
1 | یعنی قیامت قریب آجائے گی جس کاوعدہ ان سے کیاجارہا ہے۔ |