Ayats Found (3)
Surah 15 : Ayat 27
وَٱلْجَآنَّ خَلَقْنَـٰهُ مِن قَبْلُ مِن نَّارِ ٱلسَّمُومِ
اور اُس سے پہلے جنوں کو ہم آگ کی لپٹ سے پیدا کر چکے تھے1
1 | سَموم گرم ہوا کو کہتے ہیں ، اور نار کو سموم کی طرف نسبت دینے کی صورت میں اُس کے معنی آگ کے بجائے تیز حرارت کے ہوجاتے ہیں۔ اِس سے اُن مقامات کی تشریح ہو جاتی ہے جہاں قرآن مجید میں یہ فرمایا گیا ہے کہ جن ّ آگے سے پیدا کیے گئے ہیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو ، الرحمٰن ، حواشی ۱۴ تا ۱۶) |
Surah 51 : Ayat 56
وَمَا خَلَقْتُ ٱلْجِنَّ وَٱلْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ
میں نے جن اور انسانوں کو اِس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں1
1 | یعنی میں نے ان کو دوسروں کی بندگی کے لیے نہیں بلکہ اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا ہے۔ میری بندگی تو ان کو اس لیے کرنی چاہیے کہ میں ان کا خالق ہوں۔ دوسرے کسی نے جب ان کو پیدا نہیں کیا ہے تو اس کو کیا حق پہنچتا ہے کہ یہ اس کی بندگی کریں، اور ان کے لیے یہ کیسے جائز ہو سکتا ہے کہ ان کا خالق تو ہوں میں اور یہ بندگی کرتے پھریں دوسروں کی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف جنوں اور انسانوں ہی کا خالق تو نہیں ہے۔ بلکہ سارے جہان اور اس کی ہر چیز کا خالق ہے، پھر یہاں صرف جنوں اور انسانوں ہی کے متعلق کیوں فرمایا گیا کہ میں نے ان کو اپنے سوا کسی کی بندگی کے لیے پیدا نہیں کیا ہے؟ حالانکہ مخلوقات کا ذرہ ذرہ اللہ ہی کی بندگی کے لیے ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ زمین پر صرف جن اور انسان ایسی مخلوق ہیں جن کو یہ آزادی بخشی گئی ہے کہ اپنے دائرہ اختیار میں اللہ تعالیٰ کی بندگی کرنا چاہیں تو کریں، درد وہ بندگی سے منہ بھی موڑ سکتے ہیں، اور اللہ کے سوا دوسروں کی بندگی بھی کر سکتے ہیں۔ دوسری جتنی مخلوقات بھی اس دنیا میں ہیں وہ اس نوعیت کی کوئی آزادی نہیں رکھتیں۔ ان کے لیے سرے سے کوئی دائرہ اختیار ہے ہی نہیں کہ وہ اس میں اللہ کی بندگی نہ کریں یا کسی اور کی بندگی کر سکیں۔ اس لیے یہاں صرف جنوں اور انسانوں کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ وہ اپنے اختیار کے حدود میں اپنے خالق کی اطاعت و عبودیت سے منہ موڑ کر، اور خالق کے سوا دوسروں کی بندگی کر کے خود اپنی فطرت سے لڑ رہے ہیں، ان کو یہ جاننا چاہیے کہ وہ خالق کے سوا کسی کی بندگی کے لیے پیدا نہیں کیے گۓ ہیں اور ان کے لیے سیدھی راہ یہ ہے کہ جو آزادی انہیں بخشی گئی ہے اسے غلط استعمال نہ کریں بلکہ اس آزادی کے حدود میں بھی خود پنی مرضی سے اسی طرح خدا کی بندگی کریں جس طرح ان کے جسم کا رونگٹا رونگٹا ان کی زندگی کے غیر اختیاری حدود میں اس کی بندگی کر رہا ہے۔ عبادت کا لفظ اس آیت میں محض نماز روزے اور اسی نوعیت کی دوسری عبادات کے معنی میں استعمال نہیں کیا گیا ہے کہ کوئی شخص اس کا مطلب یہ لے لے کہ جن اور انسان صرف نماز پڑھنے اور روزے رکھنے اور تسبیح و تہلیل کرنے کے لیے پیدا کیے گۓ ہیں۔ یہ مفہوم بھی اگر چہ اس میں شامل ہے، مگر یہ اس کا پورا مفہوم نہیں ہے۔ اس کا پورا مفہوم یہ ہے کہ جن اور انسان اللہ سوا کسی اور کی پرستش،اطاعت، فرمانبرداری اور نیاز مندی کے لیے پیدا نہیں کیے گۓ ہیں۔ ان کا کام کسی اور کے سامنے جھکنا، کسی اور کے احکام بجا لانا، کسی اور سے تقویٰ کرنا، کسی اور کے بناۓ ہوۓ دین کی پیروی کرنا، کسی اور کو اپنی قسمتوں کا بنانے اور بگاڑنے والا سمجھنا، اور کسی دوسری ہستی کے آگے دعا کے لیے ہاتھ پھیلانا نہیں ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ سبا، حاشیہ 63۔ الزمر، حاشیہ 2۔ الجاثیہ، حاشیہ 30۔ ایک اور بات جو ضمنی طور پر اس آیت سے صاف ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ جن انسانوں سے الگ ایک مستقل مخلوق ہے۔ اس سے ان لوگوں کے خیال کی غلطی بالکل واضح ہو جاتی ہے جو دعویٰ کرتے ہیں کہ انسانوں ہی میں سے کچھ لوگوں کو قرآن میں جن کہا گیا ہے۔ اسی حقیقت پر قرآن مجید کی حسب ذیل آیات بھی ناقابل انکار شہادت بہم پہنچاتی ہیں (الانعام،100،128۔ الاعراف 38، 179، ہود ، 119،الحجر ، 27 تا 33۔ بنی اسرائیل،88۔ الکہف، 50۔ السجدہ، 13۔سبا، 41۔ صٓ، 75،767۔ حٰم السجدہ، 25۔ الاحقاف، 18۔ الرحمٰن، 15،39،56۔(اس مسئلے پر مفصل بحث کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد،سوم، الانبیاء، حاشیہ 21۔ النمل، حاشیہ 23، 45۔ جلد چہارم، تفسیر سورہ سبا، حاشیہ 24) |
Surah 55 : Ayat 15
وَخَلَقَ ٱلْجَآنَّ مِن مَّارِجٍ مِّن نَّارٍ
اور جن کو آگ کی لپٹ سے پیدا کیا1
1 | اصل الفاظ ہیں مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ۔ نار سے مراد ایک خاص نوعیت کی آگ ہے نہ کہ وہ آگ جو لکڑی یا کوئلہ جلانے سے پیدا ہوتی ہے۔ اس مارج کے معنی ہیں خالص شعلہ جس میں دھواں نہ ہو اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح پہلا انسان مٹی سے بنایا گیا، پھر تخلیق کے مختلف مدارج سے گزرتے ہوۓ اس کےلُبدِ خاکی نے گوشت پوست کے زندہ بشر کی شکل اختیار کی اور آگے اس کی نسل نطفہ سے چلی، اسی طرح پہلا جِن خالص آگ کے شعلے، یا آگ کی لَپَٹ سے پیدا کیا گیا، اور بعد میں اس کی ذریت سے جِنوں کی نسل پیدا ہوئی۔ اس پہلے جِن کی حیثیت جِنوں کے معاملہ میں وہی ہے جو آدم علیہ السلام کی حیثیت انسانوں کے معاملہ میں ہے۔ زندہ بشر بن جانے کے بعد حضرت آدم اور ان کی نسل سے پیدا ہونے والے انسانوں کے جسم کو اس مٹی سے کوئی مناسبت باقی نہ رہی جس سے ان کو پیدا کیا گیا تھا۔ اگر چہ اب بھی ہمارا جسم پورا کا پورا زمین ہی کے اجزاء سے مرکب ہے، لیکن ان اجزاء نے گوشت پوست اور خون کی شکل اختیار کر لی ہے اور جان پڑنے کے بعد وہ تو خاک کی بہ نسبت ایک بالکل ہی مختلف چیز بن گیا ہے۔ ایسا ہی معاملہ جنوں کا بھی ہے۔ ان کا وجود بھی اصلاً ایک آتشیں وجود ہی ہے، لیکن جس طرح ہم محض تودہ خاک نہیں ہیں اسی طرح وہ بھی محض شعلہ آتش نہیں ہیں۔ اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ جن مجّرد روح نہیں ہیں بلکہ ایک خاص نوعیت کے مادی اجسام ہی ہیں، مگر چونکہ وہ خالص آتشیں اجزاء سے مرکب ہیں اس لیے وہ خاکی اجزاء سے بن ہوۓ انسانوں کو نظر نہیں آتے۔ اسی چیز کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے کہ اِنَّہٗ یَرٰ کُمْ ھُوَ وَقَبِیْلُہٗ مِنْ حَیْثُ لَا تَرَوْ نَھُمْ۔ ’’شیطان اور اس کا قبیلہ تم کو ایسی جگہ سے دیکھ رہا ہے جہاں تم اس کو نہیں دیکھتے ‘‘۔ (الاعراف۔27)۔ اسی طرح جِنوں کا سریع الحرکت ہو نا، ان کا بہ آسانی مختلف شکلیں اختیار کر لینا، اس ان مقامات پر غیر محسوس طریقے سے نفوذ کر جانا جہاں خاکی اجزاء سے بنی ہوئی چیزیں جہاں خاکی اجزا ءسے بنی ہوئی چیزیں نفوذ نہیں کر سکتیں، یا نفوذ کرتی ہیں تو ان کا نفوذ محسوس ہو جاتا ہے، یہ سب امور بھی اسی وجہ سے ممکن اور قابل فہم ہیں کہ وہ فی الاصل آتشیں مخلوق ہیں۔ دوسری بات اس سے یہ معلوم ہوئی کہ جن نہ صرف یہ کہ انسان سے بالکل الگ نوعیت کی مخلوق ہیں، بلکہ ان کا مادہ تخلیق ہی انسان، حیوان، نباتات اور جمادات سے قطعی مختلف ہے یہ صریح الفاظ میں ان لوگوں کے خیال کی غلطی ثابت کر رہی ہے جو جنوں کو انسانوں ہی کی ایک قسم قرار دیتے ہیں۔ وہ اس کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ مٹی سے انسان کو اور آگ سے جِن کو پیدا کرنے کا مطلب در اصل دو قسم کے لوگوں کی مزاجی کیفیت کا فرق بیان کرنا ہے، ایک قسم کے انسان منکسر المزاج ہوتے ہیں جنہیں آدمی کے بجاۓ شیطان کہنا زیادہ صحیح ہوتا ہے۔ لیکن یہ قرآن کی تفسیر نہیں بلکہ تحریف ہے۔ اوپر حاشیہ نمبر 14 میں ہم نے تفصیل کے ساتھ یہ دکھایا ہے کہ قرآن مجید مڑی سے انسان کے پیدا کیے جانے کا مطلب کتنی وضاحت کے ساتھ خود بیان کرتا ہے۔ کیا ان ساری تفصیلات کو پڑھ کر کوئی معقول آدمی یہ معنی لے سکتا ہے کہ ان ساری باتوں کا مقصد محض اچھے انسانوں کے منکسر المزاج ہونے کی تعریف بیان کرنا ہے؟ پھر آخر یہ بات کسی صحیح العقل آدمی کے ذہن میں کیسے آسکتی ہے کہ انسان کی تخلیق سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے کرنے،اور جن کی تخلیق خالص آگ کے شعلے سے کرنے کا مطلب ایک ہی نوع انسان کے دو مختلف المزاج افراد دی گرہوں کی جدا گانہ اخلاقی خصوصیات کا فرق ہے؟ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، تفسیر سورہ ذاریات، حاشیہ 53 ) |