Ayats Found (16)
Surah 13 : Ayat 2
ٱللَّهُ ٱلَّذِى رَفَعَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَاۖ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِۖ وَسَخَّرَ ٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَۖ كُلٌّ يَجْرِى لِأَجَلٍ مُّسَمًّىۚ يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَ يُفَصِّلُ ٱلْأَيَـٰتِ لَعَلَّكُم بِلِقَآءِ رَبِّكُمْ تُوقِنُونَ
وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کو ایسے سہاروں کے بغیر قائم کیا جو تم کو نظر آتے ہو1 ں، پھر وہ اپنے تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہوا2، اور اُس نے آفتاب و ماہتاب کو ایک قانون کا پابند بنایا3 اِس سارے نظام کی ہر چیز ایک وقت مقرر تک کے لیے چل رہی ہے4 اور اللہ ہی اِس سارے کام کی تدبیر فرما رہا ہے وہ نشانیاں کھول کھول کر بیان کرتا ہے5، شاید کہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرو6
6 | اوپر جن آثارِ کائنات کو گواہی میں پیش کیا گیا ہے ان کی یہ شہادت تو بالکل ظاہر و باہر ہے کہ اس عالم کا خالق و مدبر ایک ہی ہے، لیکن یہ بات کہ موت کے بعد دوسری زندگی، اور عدالت الہٰی میں انسان کی حاضری، اور جزا و سزا کے متعلق رسول اللہ نے جو خبریں دی ہیں ان کے برحق ہونے پر بھی یہی آثار شہادت دیتے ہیں، ذرا مخفی ہے اور زیادہ غور کرنے سے سمجھ میں آتی ہے۔ اس لیے پہلی حقیقت پر متنبہ کرنے کی ضرورت نہ سمجھی گئی ، کیونکہ سننے والا محض دلائل کو سُن کر ہی سمجھ سکتا ہے کہ ان سے کیا ثابت ہوتا ہے۔ البتہ دوسری حقیقت پر خصوصیت کے ساتھ متنبہ کیاگیا ہے کہ اپنے رب کی ملاقات کا یقین بھی تم کو اِنہی نشانیوں پر غور کرنے سے حاصل ہو سکتاہے۔ مذکورۂ بالا نشانیوں سے آخرت کا ثبوت دو طرح سے ملتا ہے: ایک یہ کہ جب ہم آسمانوں کی ساخت اور شمس و قمر کی تسخیر پر غور کرتے ہیں تو ہمارا دل یہ شہادت دیتا ہے کہ جس خدا نے یہ عظیم الشان اجرامِ فلکی پیدا کیے ہیں ، اور جس کی قدرت اتنے بڑے بڑے کُروں کو فضا میں گردش دے رہی ہے ، اُس کے لیے نوعِ انسانی کو موت کے بعد دوبارہ پید ا کردینا کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ اِسی نظامِ فلکی سے ہم کو یہ شہادت بھی ملتی ہے کہ اِس کا پیدا کرنے والا کما ل درجے کا حکیم ہے ، اور اُس کی حکمت سے یہ بات بہت بعید معلوم ہوتی ہے کہ وہ نوع انسانی کو ایک ذی عقل و شعو ر صاحب ِ اختیار و ارادہ مخلوق بنانے کے بعد ،اور اپنی زمین کی بے شمار چیزوں پر تصرف کی قدرت عطا کر نے کے بعد، اس کے کارنامۂ زندگی کا حساب نہ لے، اُس کے ظالموں سے باز پرس اور اُس کے مظلوموں کی داد رسی نہ کرے ، اُ س کے نیکوکار وں کو جزا اور اُس کے بدکاروں کو سزا نہ دے، اور اُس سے کبھی یہ پوچھے ہی نہیں کہ جو بیش قیمت امانتیں میں نے تیرے سپرد کی تھیں ان کے ساتھ تونے کیا معاملہ کیا۔ ایک اندھا راجہ تو بے شک اپنی سلطنت کے معاملات اپنے کار پردازوں کے حوالے کر کے خوابِ غفلت میں سرشار ہو سکتا ہے، لیکن ایک حکیم و دانا سے اس غلط بخشی و تغافل کیشی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اس طرح آسمانوں کا مشاہدہ ہم کو نہ صرف آخرت کے امکان کا قائل کرتا ہے، بلکہ اس کے وقوع کا یقین بھی دلا تا ہے |
5 | یعنی اِس امر کی نشانیاں کہ رسولِ خدا جن حقیقتوں کی خبر دے رہے ہیں وہ فی الواقع سچی حقیقتیں ہیں۔ کائنات میں ہر طرف اُن پر گواہی دینے والے آثار موجود ہیں۔ اگر لوگ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو انہیں نظر آجائے کہ قرآن میں جن جن باتوں پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے زمین و آسمان میں پھیلے ہوئے بے شمار نشانات اُن کی تصدیق کر رہے ہیں |
4 | یعنی یہ نظام صرف اِسی امر کی شہادت نہیں دے رہا ہے کہ ایک ہمہ گیر اقتدار اس پر فرمانروا ہے اور ایک زبردست حکمت اس میں کام کر رہی ہے ، بلکہ اس کے تمام اجزا ء اور اُن میں کام کرنے والی ساری قوتیں اِس بات پر بھی گواہ ہیں کہ اس نظام کی کوئی چیز غیر فانی نہیں ہے۔ ہر چیز کے لیے ایک وقت مقرر ہے جس کے اختتام تک وہ چلتی ہے اور جب اُس کا وقت آن پورا ہوتا ہے تو مِٹ جاتی ہے ۔ یہ حقیقت جس طرح اِس نظام کے ایک ایک جُزء کے معاملے میں صحیح ہے اسی طرح اِس پورے نظام کے بارے میں بھی صحیح ہے۔ اس عالم ِ طبیعی کی مجموعی ساخت یہ بتا رہی ہے کہ یہ ابدی و سرمدی نہیں ہے، اس کے لیے بھی کوئی وقت ضرور مقرر ہے جب یہ ختم ہو جائے گا اور اس کی جگہ کوئی دوسرا عالم برپا ہوگا۔ لہٰذا قیامت ، جس کے آنے کی خبر دی گئی ہے ، اس کا آنا مُستبَعد نہیں بلکہ نہ آنا مُستبَعد ہے |
3 | یہاں یہ امر ملحوظ ِ خاطر رہنا چاہیے کہ مخاطب وہ قوم ہے جو اللہ کی ہستی کی منکر نہ تھی، نہ اس کے خالق ہونے کی منکر تھی ، اور نہ یہ گمان رکھتی تھی کہ یہ سارے کام جو یہاں بیان کیے جارہے ہیں ، اللہ کے سوا کسی ا ورکے ہیں۔ اس لیے بجائے خود اس بات پر دلیل لانے کی ضرورت نہ سمجھی گئی کہ واقعی اللہ ہی نے آسمانوں کو قائم کیا ہے اور اسی نے سورج اور چاند کو ایک ضابطے کا پابند بنایا ہے ۔ بلکہ ان واقعات کو ، جنہیں مخاطب خود ہی مانتے تھے، ایک دوسری بات پر دلیل قرار دیا گیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی دوسرا اس نظامِ کائنات میں صاحبِ اقتدار نہیں ہے جو معبود قرار دیے جانےکا مستحق ہو۔ رہا یہ سوال کہ جو شخص سرے سے اللہ کی ہستی کا اور اس کے خالق و مدبر ہونے ہی کا قائل نہ ہو اسکے مقابلے میں یہ استدلال کیسے مفید ہوسکتا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مشرکین کے مقابلے میں توحید کو ثابت کرنے کے لیے جو دلائل دیتا ہے وہی دلائل ملاحدہ کے مقابلے میں وجود ِ باری کے اثبات کے لیے بھی کافی ہیں۔ توحید کا سارا استدلال اس بنیاد پر قائم ہے کہ زمین سے لے کر آسمانوں تک ساری کائنات ایک مکمل نظام ہے اور یہ پورا نظام ایک زبردست قانون کے تحت چل رہا ہے جس میں ہر طرف ایک ہمہ گیر اقتدار ، ایک بے عیب حکمت، اور بے خطا علم کے آثار نظر آتے ہیں۔ یہ آثار جس طرح اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اس نظام کے بہت سے فرمانروا نہیں ہیں، اسی طرح اس بات پر بھی دلالت کرتے ہیں کہ اس نظام کا ایک فرمانروا ہے۔ نظم کا تصور ایک ناظم کے بغیر ، قانون کا تصور ایک حکمران کے بغیر ، حکمت کا تصور ایک حکیم کے بغیر، علم کا تصور ایک عالم کے بغیر، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خلق کا تصور ایک خالق کے بغیر صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو ہٹ دھرم ہو، یا پھر وہ جس کی عقل ماری گئی ہو |
2 | اِس کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ اعراف حاشیہ نمبر ۴۱ ۔ مختصرًا یہاں اتنا اشارہ کافی ہے کہ عرش (یعنی سلطنتِ کائنات کے مرکز) پر اللہ تعالیٰ کی جلوہ فرمائی کو جگہ جگہ قرآن میں جس غرض کے بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ نے اس کائنات کو صرف پیدا ہی نہیں کر دیا ہے بلکہ وہ آپ ہی اس سلطنت پر فرمانروائی کر رہا ہے۔ یہ جہان ہست و بود کوئی خود بخود چلنے والا کارخانہ نہیں ہے، جیسا کہ بہت سے جاہل خیال کرتے ہیں ، اور نہ مختلف خداؤں کی آماج گاہ ہے، جیسا کہ بہت سے دوسرے جاہل سمجھے بیٹھے ہیں ، بلکہ یہ ایک باقاعدہ نظام ہے جسے اس کا پیدا کر ناے والا خود چلا رہاہے |
1 | بالفاظ دیگر آسمانوں کو غیر محسوس اور غیر مرئی سہاروں پر قائم کیا۔ بظاہر کوئی چیز فضائے بسیط میں ایسی نہیں ہے جو ان بے حد و حساب اجرام فلکی کو تھامے ہوئے ہو۔ مگر ایک غیر محسوس طاقت ایسی ہے جو ہر ایک کو اس کے مقام و مدار پر روکے ہوئے اور ان عظیم الشان اجسام کو زمین پر یا ایک دوسرے پر گرنے نہیں دیتی |
Surah 15 : Ayat 16
وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِى ٱلسَّمَآءِ بُرُوجًا وَزَيَّنَّـٰهَا لِلنَّـٰظِرِينَ
یہ ہماری کار فرمائی ہے کہ آسمان میں ہم نے بہت سے مضبوط قلعے بنائے1، اُن کو دیکھنے والوں کے لیے مزین کیا2
2 | یعنی ہر خطّے میں کوئی نہ کوئی روشن سیّارہ یا تارا رکھ دیا اور اس طرح ساراعالم جگمگا اُٹھا۔ بالفاظ دیگر ہم نے اِس ناپیدا کنار کائنات کو ایک بھیانک ڈھنڈا ر بنا کر نہیں رکھ دیا بکہ ایسی حسین و جمیل دنیا بنائی جس میں ہر طرف نگاہوں کو جذب کر لینے والے جلوے پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کاریگری میں صرف ایک صانع اکبر کی صنعت اور ایک حکیم ِ اجل کی حکمت ہی نظر نہیں آتی ہے، بلکہ ایک کمال د ر جے کا پاکیزہ ذوق رکھنے والے آرٹسٹ کا آرٹ بھی نمایاں ہے۔ یہی مضمون ایکل دوسرے مقام پر یوں بیان کیا گیا ہے ، اَلَّذِیْ ٓ اَحْسَنَ کُلَّ شِیْ ءٍ خَلَقَہٗ ”وہ خدا کہ جس نے ہر چیز جو بنائی خو ب ہی بنائی“ |
1 | بُرج عربی زبان میں قلعے، قصر اور مستحکم عمارت کو کہتے ہیں۔ قدیم علم ہیئت میں ”برج“ کا لفظ اصطلاحًا اُن بارہ منزلوں کے لیے استعمال ہوتا تھا جن پر سورج کے مدار کو تقسیم کیا گیا تھا۔ اِس وجہ سے بعض مفسرین نے یہ سمجھا کہ قرآن کا اشارہ انہی بروج کیطرف ہے ۔ بعض دوسرے مفسرین نے اس سے مراد سیّارے لیے ہیں۔ لیکن بعد کے مضمون پر غور کرنے سے خیال ہوتا ہے کہ شاید اس سے مراد عالمِ بالا کے وہ خِطّے ہیں جن میں سے ہر خِطّے کو نہایت مستحکم سرحدوں نے دوسرے خِطّے سے جدا کر رکھا ہے۔ اگرچہ یہ سرحدیں فضائے بسیط میں غیر مرئی طور پر کھچی ہوئی ہیں ، لیکن ان کو پار کر کے کسی چیز کا ایک خِطّے سے دوسرے خِطّے میں چلا جانا سخت مشکل ہے۔ اس مفہوم کے لحاظ سے ہم بروج کو محفوظ خِطّوں (Fortified Spheres ) کی معنی میں لینا زیادہ صحیح سمجھتے ہیں |
Surah 15 : Ayat 18
إِلَّا مَنِ ٱسْتَرَقَ ٱلسَّمْعَ فَأَتْبَعَهُۥ شِهَابٌ مُّبِينٌ
کوئی شیطان ان میں راہ نہیں پا سکتا، الا یہ کہ کچھ سن گن لے لے1 اور جب وہ سن گن لینے کی کوشش کرتا ہے تو ایک شعلہ روشن اُس کا پیچھا کرتا ہے2
2 | شہاب ِ مبین“ کے لغوی معنی ”شعلۂ روشن“ کے ہیں۔ دوسری جگہ قرآن مجید میں اس کے لیے ”شہابِ ثاقب“ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یعنی”تاریکی کو چھید نے والا شعلہ“۔ اِس سے مراد ضروری نہیں کہ وہ ٹوٹنے والا تارا ہی ہو جسے ہماری زبان میں اصطلاحًا شہابِ ثاقب کہا جا تا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ اور کسی قسم کی شعاعیں ہوں ، مثلاً کائناتی شعاعیں یا ان سے بھی شدید کوئی اور قسم جو ابھی ہمارے علم میں نہ آئی ہو ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہی شہابِ ثاقب مراد ہوں جنہیں کبھی کبھی ہماری آنکھیں زمین کی طرف گرتے ہوئے دیکھتی ہیں۔ زمانۂ حال کے مشاہدات سے یہ معلوم ہو ا ہے کہ دوربین سے دکھائی دینے والے شہابِ ثاقب جو فضائے بسیط سے زمین کی طرف آتے نظر آتے ہیں، اُن کی تعداد کا اوسط ۱۰ کھرب روزانہ ہے، جن میں سے دو کروڑ کے قریب ہر روز زمین کے بالائی خطے میں داخل ہوتی ہیں اور بمشکل ایک زمین کی سطح تک پہنچتا ہے ۔ اُن کی رفتار بالائی فضا میں کم و بیش ۲۶ میل فی سیکنڈ ہوتی ہے اور بسا اوقات ۵۰ میل فی سیکنڈ تک دیکھی گئی ہے۔ بارہا ایسا بھی ہوا ہے کہ برہنہ آنکھوں نے بھی ٹوٹنے والے تاروں کی غیر معمولی بارش دیکھی ہے ۔ چنانچہ یہ چیز ریکارڈ پر موجود ہے کہ ۱۳ نومبر ۱۸۳۳ء کو شمالی امریکہ کے مشرقی علاقے میں صرف ایک مقام پر نصب شب سے لے کر صبح تک ۲ لاکھ شہابِ ثاقب گرتے ہوئے دیکھے گئے (انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا۔ ۱۹۴۶ء۔ جلد ۱۵۔ ص ۳۹ – ۳۳۷)۔ ہو سکتا ہے کہ یہی بارش عالم بالا کی طرف شیاطین کی پرواز میں مانع ہوتی ہو، کیونکہ زمین کے بالائی حدود سے گزر کر فضائے بسیط میں ۱۰ کھرب روزانہ کے اوسط سے ٹوٹنے والے تاروں کی برسات اُن کے لیے اس فضا کو بالکل ناقابلِ عبور بنا دیتی ہو گی۔ اِس سے کچھ اُن”محفوظ قلعوں“ کی نوعیت کا اندازہ بھی ہو سکتا ہے جن کا ذکر اُوپر ہوا ہے۔ بظاہر فضا بالکل صاف شفاف ہے جس میں کہیں کوئی دیوار یا چھت بنی نظر نہیں آتی ، لیکن اللہ تعالیٰ نے اِسی فضا میں مختلف خِطّوں کو کچھ ایسی غیر مرئی فصیلوں سے گھیر رکھا ہے جو ایک خِطّے کو دوسرے خِطّوں کی آفات سے محفوظ رکھتی ہیں۔ یہ انہی فصیلوں کی برکت ہے کہ جو شہاب ِ ثاقب دس کھرب روزانہ کے اوسط سے زمین کی طرف گرتے ہیں وہ سب جل کر بھسم ہو جاتے اور بمشکل ایک زمین کی سطح تک پہنچ سکتا ہے۔ دنیا میں شہابی پتھروں(Meteorites ) کے جو نمونے پائے جاتے ہیں اور دنیا کے عجائب خانوں میں موجود ہیں ان میں سب سے بڑا ۶۴۵ پونڈ کا ایک پتھر ہے جو گِر کر ۱۱ فیٹ زمین میں دھنس گیا تھا۔ اس کے علاوہ ایک مقام پر ۳۶-۱/۲ ٹن کا ایک آہنی تودہ بھی پایا گیا ہے جس کے وہاں موجود ہونے کی کوئی توجیہ سائنس دان اس کے سوا نہیں کر سکے ہیں کہ یہ بھی آسمان سے گرا ہوا ہے۔ قیاس کیجیے کہ اگر زمین کی بالائی سرحدوں کی مضبوط حصاروں سے محفوظ نہ کر دیا گیا ہوتا تو اِن ٹوٹنے والے تاروں کی بارش زمین کا کیا حال کر دیتی۔ یہی حصار ہیں جن کو قرآن مجید نے”بروج“ (محفوظ قلعوں) کے لفظ سے تعبیر کیا ہے |
1 | یعنی وہ شیاطین جو اپنے اولیاء کو غیب کی خبریں لا کر دینے کی کوشش کرتے ہیں ، جن کی مدد سے بہت سے کاہن، جوگی ، عامل اور فقیر نما بہروپیے غیب دانی کا ڈھونگ رچایا کرتے ہیں ، اُن کے پاس حقیقت میں غیب دانی کے ذرائع بالکل نہیں ہیں۔ وہ کچھ سُن گن لینے کی کوشش ضرور کرتے ہیں ، کیونکہ اُن کی ساخت انسانوں ک بہ نسبت فرشتوں کی ساخت سے کچھ قریب تر ہے، لیکن فی الواقع اُن کے پلّے کچھ پڑتا نہیں ہے |
Surah 25 : Ayat 61
تَبَارَكَ ٱلَّذِى جَعَلَ فِى ٱلسَّمَآءِ بُرُوجًا وَجَعَلَ فِيهَا سِرَٲجًا وَقَمَرًا مُّنِيرًا
بڑا متبرک ہے وہ جس نے آسمان میں برج بنائے1 اور اس میں ایک چراغ2 اور ایک چمکتا چاند روشن کیا
2 | یعنی سورج، جیسا کہ سورہ نوح میں بتصریح فرمایا : وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجاً (آیت 16) ۔ |
1 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، الحجر، حواشی 8 تا 12 ۔ |
Surah 21 : Ayat 32
وَجَعَلْنَا ٱلسَّمَآءَ سَقْفًا مَّحْفُوظًاۖ وَهُمْ عَنْ ءَايَـٰتِهَا مُعْرِضُونَ
اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنا دیا1، مگر یہ ہیں کہ اس کی نشانیوں کی طرف2 توجّہ ہی نہیں کرتے
2 | یعنی ان نشانیوں کی طرف جو آسمان میں ہیں |
1 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ الحجر، حواشی نمبر 8،10،110۔120 |
Surah 22 : Ayat 65
أَلَمْ تَرَ أَنَّ ٱللَّهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِى ٱلْأَرْضِ وَٱلْفُلْكَ تَجْرِى فِى ٱلْبَحْرِ بِأَمْرِهِۦ وَيُمْسِكُ ٱلسَّمَآءَ أَن تَقَعَ عَلَى ٱلْأَرْضِ إِلَّا بِإِذْنِهِۦٓۗ إِنَّ ٱللَّهَ بِٱلنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اُس نے وہ سب کچھ تمہارے لیے مسخر کر رکھا ہے جو زمین میں ہے، اور اسی نے کشتی کو قاعدے کا پابند بنایا ہے کہ وہ اس کے حکم سے سمندر میں چلتی ہے، اور وہی آسمان کو اس طرح تھامے ہوئے کہ اس کے اِذن کے بغیر وہ زمین پر نہیں گر سکتا؟1 واقعہ یہ ہے کہ اللہ لوگوں کے حق میں بڑا شفیق اور رحیم ہے
1 | آسمان سے مرد یہاں پورا عالم بالا ہے جس کی ہر چیز اپنی اپنی جگہ تھمی ہوئی ہے |
Surah 23 : Ayat 17
وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَآئِقَ وَمَا كُنَّا عَنِ ٱلْخَلْقِ غَـٰفِلِينَ
اور تمہارے اوپر ہم نے سات راستے بنائے1، تخلیق کے کام سے ہم کچھ نابلد نہ تھے2
2 | دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے : ’’ اور مخلوقات کی طرف سے ہم غافل نہ تھے ، یا نہیں ہیں ‘‘۔ متن میں جو مفہوم لیا گیا ہے اس کے لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب کچھ جو ہم نے بنایا ہے ، یہ بس یونہی کسی اناڑی کے ہاتھوں الل ٹپ نہیں بن گیا ہے ، بلکہ اسے ایک سوچے سمجھے منصوبے پر پورے علم کے ساتھ بنایا گیا ہے ، اہم قوانین اس میں کار فرما ہیں ، ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ تک سارے نظام کائنات میں ایک مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے ، اور اس کار گاہ عظیم میں ہر طرف ایک مقصدیت نظر آتی ہے جو بنانے والے کی حکمت پر دلالت کر رہی ہے۔ دوسرا مفہوم لینے کی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ اس کائنات میں جتنی بھی مخلوقات ہم نے پیدا کی ہے اس کی کسی حاجت سے ہم کبھی غافل ، اور کسی حالت سے کبھی بے خبر نہیں رہے ہیں۔ کسی چیز کو ہم نے اپنے منصوبے کے خلاف بننے اور چلنے نہیں دیا ہے۔ کسی چیز کی فطری ضروریات فراہم کرنے میں ہم نے کوتاہی نہیں کی ہے۔ اور ایک ایک ذرے اور پتے کی حالت سے ہم با خبر رہے ہیں |
1 | اصل میں لفظ : طرائق استعمال ہوا ہے جس کے معنی راستوں کے بھی ہیں اور طبقوں کے بھی۔ اگر پہلے معنی لیے جائیں تو غالباً اس سے مراد سات سیاروں کی گردش کے راستے ہیں ، اور چونکہ اس زمانے کا انسان سبع سیارہ ہی سے واقف تھا، اس لیے سات ہی راستوں کا ذکر کیا گیا۔ اس کے معنی بہر حال یہ نہیں ہیں کہ ان کے علاوہ اور دوسرے راستے نہیں ہیں اور اگر دوسرے معنی لیے جائیں تو : سَبْعَ طَرَآئِقَ کا وہی مفہوم ہو گا جو سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَقاً (سات آسمان طبق بر طبق کا مفہوم ہے۔ اور یہ جو فرمایا کہ’’ تمہارے اوپر‘‘ ہم نے سات راستے بنائے ، تو اس کا ایک تو سیدھا سادھا مطلب وہی ہے جو ظاہر الفاظ سے ذہن میں آتا ہے ، اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم سے بھی زیادہ بڑی چیز ہم نے یہ آسمان بنائے ہیں ، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : لَخَلٰقَ السَّمٰوٰ تٍ وَالْاَرْضِ اَکْبَرُ مِنْ کَلْقِ النَّاسِ۔’’آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا انسانوں کو پیدا کرنے سے زیادہ بڑا کام ہے ‘‘ (المومن۔ آیت 57 ) |
Surah 31 : Ayat 10
خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَاۖ وَأَلْقَىٰ فِى ٱلْأَرْضِ رَوَٲسِىَ أَن تَمِيدَ بِكُمْ وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَآبَّةٍۚ وَأَنزَلْنَا مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءً فَأَنۢبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ
اس نے آسمانوں کو پیدا کیا1 بغیر ستونوں کے جو تم کو نظر آئیں2 اُس نے زمین میں پہاڑ جما دیے تاکہ وہ تمہیں لے کر ڈھلک نہ جائے3 اس نے ہر طرح کے جانور زمین میں پھیلا دیے اور آسمان سے پانی برسایا اور زمین میں قسم قسم کی عمدہ چیزیں اگا دیں
3 | تشریح کے لئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد ۲ ، صفحہ ۵۳۰، حاشیہ نمبر ۱۲ |
2 | اصل الفاظ ہیں بِغَیْرِ عَمَدٍتَرَوْ نَھَا۔اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ایک یہ کہ ’’تم خود دیکھ رہے ہو کہ وہ بغیر ستونوں کے قائم ہیں۔‘‘ دوسرا مطلب یہ کہ ’’وہ ایسے ستونوں پر قائم ہیں جو تم کو نظر نہیں آتے‘‘۔ابن عباسؓ اور مجاہد نے دوسرا مطلب لیا ہے، اور بہت سے دوسرے مفسّرین پہلا مطلب لیتے ہیں۔موجودہ زمانے کے علومِ طبیعی کے لحاظ سے اگر اس کا مفہوم بیان کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہےتمام عالمِ افلاک میں یہ بے حدو احسان عظیم الشان تارے اور سیاّرے اپنے اپنے مقام و مدار پر غیر مرئی سہاروں سے قائم کئے گئے ہیں۔کوئی تار نہیں ہیں جنھوں نے ان کو ایک دوسرے سے باندھ رکھا ہو۔کوئی سلاخیں نہیں ہیں جو ان کو ایک دوسرے پر گر جانے سے روک رہی ہوں۔صرف قانونِ جذب و کشش ہے جو اس نظام کو تھامے ہوئے ہے۔یہ تعبیر ہمارے آج کے علم کے لحاظ سے ہے۔ہو سکتا ہے کہ کل ہمارے علم میں کچھ اور اضافہ ہو اور اس سے زیادہ لگتی ہوئی کوئی دوسری تعبیر اس حقیقت کی کی جا سکے۔ |
1 | اوپر کے تمہیدی فقروں کے بعد اب اصل مدّعا، یعنی تردیدِ شرک اور دعوتِ توحید پر کلام شروع ہوتا ہے۔ |
Surah 41 : Ayat 12
فَقَضَـٰهُنَّ سَبْعَ سَمَـٰوَاتٍ فِى يَوْمَيْنِ وَأَوْحَىٰ فِى كُلِّ سَمَآءٍ أَمْرَهَاۚ وَزَيَّنَّا ٱلسَّمَآءَ ٱلدُّنْيَا بِمَصَـٰبِيحَ وَحِفْظًاۚ ذَٲلِكَ تَقْدِيرُ ٱلْعَزِيزِ ٱلْعَلِيمِ
تب اُس نے دو دن کے اندر سات آسمان بنا دیے، اور ہر آسمان میں اُس کا قانون وحی کر دیا اور آسمان دنیا کو ہم نے چراغوں سے آراستہ کیا اور اسے خوب محفوظ کر دیا1 یہ سب کچھ ایک زبردست علیم ہستی کا منصوبہ ہے
1 | ان آیات کو سمجھنے کے لیے تفہیم القرآن کے حسب ذیل مقامات کا مطالعہ مفید ہو گا۔ جلد اول البقرحاشیہ ۳۴ جلد دوم الرعد حاشیہ ۲ الحجر حواشی ۸ تا۱۲ 441 جلد الانبیا حواشی ۳۴۔۳۵ المومنون حاشیہ ۱۵ جلد چہارم، یٰس، حاشیہ نمبر 37۔ الصافّات، حواشی نمبر 5۔6) |
Surah 50 : Ayat 6
أَفَلَمْ يَنظُرُوٓاْ إِلَى ٱلسَّمَآءِ فَوْقَهُمْ كَيْفَ بَنَيْنَـٰهَا وَزَيَّنَّـٰهَا وَمَا لَهَا مِن فُرُوجٍ
اچھا1، تو کیا اِنہوں نے کبھی اپنے اوپر آسمان کی طرف نہیں دیکھا؟ کس طرح ہم نے اسے بنایا اور آراستہ کیا2، اور اس میں کہیں کوئی رخنہ نہیں ہے3
3 | یعنی اپنی اس حیرت انگیز وسعت کے باوجود یہ عظیم الشان نظام کائنات ایسا مسلسل اور مستحکم ہے اور اس کی بندش اتنی چست ہے کہ اس میں کسی جگہ کوئی دراڑ یا شگاف نہیں ہے اور اس کا تسلسل کہیں جا کر ٹوٹ نہیں جاتا۔ اس چیز کو ایک مثال سے اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔ جدید زمانے کے ریڈیائی ہیئت دانوں نے ایک کہکشانی نظام کا مشاہدہ کیا ہے جسے وہ منبع 3 ج 295(Source 3c,295) کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کے متعلق ان کا اندازہ یہ ہے کہ اس کی جو شعاعیں اب ہم تک پہنچ رہی ہیں وہ 4 ارب سال سے بھی زیادہ مدت پہلے اس میں سے روانہ ہوئی ہونگی۔ اس بعید ترین فاصلے سے ان شعاعوں کا زمین تک پہنچنا آخر کیسے ممکن ہوتا اگر زمین اور اس کہکشاں کے درمیان کائنات کا تسلسل کسی جگہ سے ٹوٹا ہوا ہوتا اور اس کی بندش میں کہیں شگاف پڑا ہوا ہوتا۔ اللہ تعالیٰ اس حقیقت کی طرف اشارہ کر کے در اصل یہ سوال آدمی کے سامنے پیش کرتا ہے کہ میری کائنات کے اس نظام میں جب تم ایک ذرا سے رخنے کی نشان دہی بھی نہیں کر سکتے تو میری قدرت میں اس کمزوری کا تصور کہاں سے تمہارے دماغ میں آگیا کہ تمہاری مہلت امتحان ختم ہو جانے کے بعد تم سے حساب لینے کے لیے میں تمہیں پھر زندہ کر کے اپنے سامنے حاضر کرنا چاہوں تو نہ کر سکوں گا۔ یہ صرف امکان آخرت ہی کا ثبوت نہیں ہے بلکہ توحید کا ثبوت بھی ہے چار ارب سال نوری(Light Years) کی مسافت سے ان شعاعوں کا زمین تک پہنچنا، اور یہاں انسان کے بناۓ ہوۓ آلات کی گرفت میں آنا صریحاً اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس کہکشاں سے لے کر زمین تک کی پوری دنیا مسلسل ایک ہی مادے سے بنی ہوئی ہے، ایک ہی طرح کی قوتیں اس میں کار فرما ہیں، اور کسی فرق و تفاوت کے بغیر وہ سب ایک ہی طرح کے قوانین پر کام کر رہی ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ شعاعیں نہ یہاں تک پہنچ سکتی تھیں اور نہ ان آلات کی گرفت میں آسکتی تھیں جو انسان نے زمین اور اس کے ماحول میں کام کرنے والے قوانین کا فہم حاصل کر کے بناۓ ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک ہی خدا اس پوری کائنات کا خالق و مالک اور حاکم و مدبر ہے |
2 | یہاں آسمان سے مراد پورا علام بالا ہے جسے انسان شب و روز اپنے اوپر چھایا ہوا دیکھتا ہے۔ جس میں دن کو سورج چمکتا ہے اور رات کو چاند اور بے حد و حساب تارے روشن نظر آتے ہیں۔ جسے آدمی برہنہ آنکھ ہی سے دیکھے تو حیرت طاری ہو جاتی ہے، لیکن اگر دوربین لگا لے تو ایک ایسی وسیع و عریض کائنات اس کے سامنے آتی ہے جو نا پیدا کنار ہے، کہیں سے شروع ہو کر کہیں ختم ہوتی نظر نہیں آتی۔ ہماری زمین سے لاکھوں گنے بڑے عظیم الشان سیارے اس کے اندر گیندوں کی طرح گھوم رہے ہیں۔ ہمارے سورج سے ہزاروں درجہ زیادہ روشن تارے اس میں چمک رہے ہیں۔ ہمارا یہ پورا نظام شمسی اس کی صرف ایک کہکشاں (Galaxy) کے ایک کونے میں پڑا ہوا ہے۔ تنہا اسی ایک کہکشاں میں ہمارے سورج جیسے کم از کم 3 ارب دوسرے تارے (ثوابت) موجود ہیں، اور اب تک کا انسانی مشاہدہ ایسی ایسی دس لاکھ کہکشانوں کا پتہ دے رہا ہے۔ ان لاکھوں کہکشانوں میں سے ہماری قریب ترین ہمسایہ کہکشاں اتنے فاصلے پر واقع ہے کہ اس کی روشنی ایک لاکھ 86 ہزار فی سیکنڈ کی رفتار سے چل کر دس لاکھ سال میں زمین تک پہنچتی ہے۔ یہ تو کائنات کے صرف اس حصے کی وسعت کا حال ہے جو اب تک انسان کے علم اور اس کے مشاہدہ میں آئی ہے۔ خدا کی خدائی کس قدر وسیع ہے، اس کا کوئی اندازہ ہم نہیں کر سکتے۔ ہو سکتا ہے کہ انسان کی معلوم کائنات کے مقابلے میں وہ نسبت بھی نہ رکھتی ہو جو قطرے کو سمندر سے ہے۔ اس عظیم کار گاہ ہست و بود کو جو خدا وجود میں لایا ہے اس کے بارے میں زمین پر رینگنے والا یہ چھوٹا سا حیوان ناطق، جس کا نام انسان ہے، اگر یہ حکم لگاۓ کہ وہ اسے مرنے کے بعد دوبارہ پیدا نہیں کر سکتا، تو یہ اس کی اپنی ہی عقل کی تنگی ہے۔ کائنات کے خالق کی قدرت اس سے کیسے تنگ ہو جاۓ گی |
1 | ۔ اوپر کی پانچ آیتوں میں کفار مکہ کے موقف کی نا معقولیت واضح کرنے کے بعد اب بتایا جا رہا ہے کہ آخرت کی جو خبر محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے دی ہے اس کی صحت کے دلائل کیا ہیں۔ اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ کفار جن دو باتوں پر تعجب کا اظہار کر رہے تھے ان میں سے ایک، یعنی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کے بر حق ہونے کی دو دلیلیں ابتدا ہی میں دی جاچکی ہیں۔ اول یہ کہ وہ تمہارے سامنے قرآن مجید پیش کر رہے ہیں جو ان کے نبی ہونے کا کھلا ہوا ثبوت ہے۔ دوم یہ کہ وہ تمہاری اپنی ہی جنس اور قوم اور برادری کے آدمی ہیں۔ اچانک آسمان سے یا کسی دوسری سر زمین سے نہیں آ گۓ ہیں کہ تمہارے لیے ان کی زندگی اور سیرت و کردار کو جانچ کر یہ تحقیق کرنا مشکل ہو کہ وہ قابل اعتماد آدمی ہیں یا نہیں اور یہ قرآن ان کا اپنا گھڑا ہوا کلام ہو بھی سکتا ہے یا نہیں، اس لیے ان کے دعواۓ نبوت پر تمہارا تعجب بے جا ہے۔ یہ استدلال تفصیل کے ساتھ پیش کرنے کے بجاۓ دو مختصر اشاروں کی شکل میں بیان کیا گیا ہے، کیونکہ جس زمانے میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم خود مکہ میں کھڑے ہو کر ان لوگوں کو قرآن سنا ہے تھے جو بچپن سے جوانی اور ادھیڑ عمر تک آپ کی ساری زندگی دیکھے ہوۓ تھے، اس وقت ان اشاروں کی پوری تفصیل ماحول کے ہر شخص پر آپ ہی واضح تھی۔ اس لیے اس کو چھوڑ کر اب تفصیلی استدلال اس دوسری بات کی صداقت پر کیا جا رہا ہے جس کو وہ لوگ عجیب اور عقل سے بعید کہہ رہے تھے |