Ayats Found (2)
Surah 74 : Ayat 30
عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ
انیس کارکن اُس پر مقرر ہیں
Surah 74 : Ayat 31
وَمَا جَعَلْنَآ أَصْحَـٰبَ ٱلنَّارِ إِلَّا مَلَـٰٓئِكَةًۙ وَمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ إِلَّا فِتْنَةً لِّلَّذِينَ كَفَرُواْ لِيَسْتَيْقِنَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلْكِتَـٰبَ وَيَزْدَادَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِيمَـٰنًاۙ وَلَا يَرْتَابَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلْكِتَـٰبَ وَٱلْمُؤْمِنُونَۙ وَلِيَقُولَ ٱلَّذِينَ فِى قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَٱلْكَـٰفِرُونَ مَاذَآ أَرَادَ ٱللَّهُ بِهَـٰذَا مَثَلاًۚ كَذَٲلِكَ يُضِلُّ ٱللَّهُ مَن يَشَآءُ وَيَهْدِى مَن يَشَآءُۚ وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَۚ وَمَا هِىَ إِلَّا ذِكْرَىٰ لِلْبَشَرِ
ہم1 نے دوزخ کے یہ کارکن فرشتے بنائے ہیں2، اور ان کی تعداد کو کافروں کے لیے فتنہ بنا دیا ہے3، تاکہ اہل کتاب کو یقین آ جائے4 اور ایمان لانے والوں کا ایمان بڑھے5، اور اہل کتاب اور مومنین کسی شک میں نہ رہیں، اور دل کے بیمار6 اور کفار یہ کہیں کہ بھلا اللہ کا اِس عجیب بات سے کیا مطلب ہو سکتا ہے7 اِس طرح اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت بخش دیتا ہے8 اور تیرے رب کے لشکروں کو خود اُس کے سوا کوئی نہیں9 جانتا اور اس دوزخ کا ذکر اِس کے سوا کسی غرض کے لیے نہیں کیا گیا ہے کہ لوگوں کو اس سے نصیحت ہو10
10 | یعنی لوگ اپنے آپ کو اس کا مستحق بنانے اور اس کے عذاب کا مزا چکھنے سے پہلے ہوش میں آ جائیں اور اپنے آپ کو اس سے بچانے کی فکر کریں |
9 | یعنی اللہ تعالی نے اپنی اس کائنات میں کیسی کیسی اور کتنی مخلوقات پیدا کر رکھی ہیں، اور ان کو کیا کیا طاقتیں اس نے بخشی ہیں، اور ان سے کیا کیا کام وہ لے رہا ہے، ان باتوں کو ا للہ کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا ایک چھوٹے سے کرہ زمین پر رہنے والا انسان اپنی محدود نظر سے اپنے گرد و پیش کی چھوٹی سی دنیا کو دیکھ کر اگر اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے کہ خدا کی خدائی میں بس وہی کچھ ہے جو اسے اپنے حواس یا اپنے آلات کی مدد سے محسوس ہوتا ہے، تو یہ اس کی اپنی ہی نادانی ہے۔ ورنہ یہ خدائی کا کارخانہ اتنا وسیع وعظیم ہے کہ اس کی کسی چیز کا بھی پوراعلم حاصل کرلینا انسان کے بس میں نہیں ہے، کجا کہ اس کی ساری وسعتوں کا تصور اس کے چھوٹے سےدماغ میں سماسکے |
8 | یعنی اس طرح اللہ تعالی اپنے کلام اور ا پنے احکام و فرامین میں وقتاً فوقتاً ایسی باتیں ارشاد فرما دیتا ہے جو لوگوں کے لیے امتحان اور آزمائش کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ ایک ہی بات ہوتی ہے جسے ا یک راستی پسند، سلیم الطبع اور صحیح الفکر آدمی سنتا ہے اور سیدھے طریقے سے اس کا سیدھا مطلب سمجھ کر سیدھی راہ اختیار کر لیتا ہے۔ اسی بات کو ا یک ہٹ دھرم ، کج فہم اور راستی سے گریز کرنے والا آدمی سنتا ہے اور اس کا ٹیڑھا مطلب نکال کر اسے حق سے دور بھاگ جانے کے لیے ایک نیا بہانا لیتا ہے ۔ پہلا آدمی چونکہ خود حق پسند ہوتا ہے اس لیے اللہ تعالی اسے ہدایت بخش دیتا ہے، کیونکہ اللہ کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ وہ ہدایت چاہنے والے کو زبردستی گمراہ کرے ۔ اور دوسرا آدمی چونکہ خود ہدایت نہیں چاہتا بلکہ گمراہی کو ہی اپنے لیے پسند کرتا ہے اس لیےاللہ اسےضلالت ہی کے راستوں پر دھکیل دیتا ہے، کیونکہ ا للہ کا یہ طریقہ بھی نہیں ہے کہ جو حق سے نفرت رکھتا ہو وہ اسے جبراً کھینچ کر حق کی راہ پر لائے۔ (اللہ کے ہدایت دینے اور گمراہ کرنے کے مسئلے پر تفہیم القرآن میں بکثرت مقامات پر وضاحت کے ساتھ روشنی ڈالی جا چکی ہے۔ مثال کے طور پر حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں: جلد اول، البقرہ ، حواشی 10، 16، 19، 20۔ النساء، حاشیہ 173۔ الانعام، حواشی 17، 28، 90۔ جلد دوم، یونس، حاشیہ 13۔ جلد سوم، الکہف، حاشیہ 45۔ القصص، حاشیہ 71) |
7 | اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ اسے اللہ کا کلام تو مان رہے تھے مگر تعجب اس بات پر ظاہر کر رہے تھے کہ اللہ نے یہ بات کیوں فرمائی ۔ بلکہ دراصل وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ جس کلام میں ایسی بعید از عقل و فہم بات کہی گئی ہے وہ بھلا اللہ کا کلام کیسے ہو سکتا ہے |
6 | قرآن مجید میں چونکہ بالعموم ’’دل کی بیماری‘‘ سے مراد منافقت لی جاتی ہے، اس لیے یہاں اس لفظ کو دیکھ کر بعض مفسرین نے یہ خیال کیا ہے کہ یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی کیونکہ منافقین کا ظہور مدینہ ہی میں ہوا ہے۔ لیکن یہ خیال کئی وجوہ سے صحیح نہیں ہے۔ اول تو یہ دعویٰ ہی غلط ہے کہ مکہ میں منافق موجود نہ تھے، اور اس کی غلطی ہم تفہیم القرآن ، جلد سوم میں صفحہ 672 ، 674 اور 680 تا 682 پر واضح کر چکے ہیں۔ دوسرے یہ طرز تفسیر ہمارے نزدیک درست نہیں ہے کہ ایک سلسلہ کلام جو خاص موقع پر خاص حالات میں ارشاد ہوا ہو، اس کے اندر یکایک کسی ایک فقرے کے متعلق یہ کہہ دیا جائے کہ وہ کسی دوسرے موقعہ پر نازل ہوا تھا ا ور یہاں لا کر کسی مناسبت کے بغیر شامل کر دیا گیا۔ سورہ مدثر کے اس حصے کا تاریخی پس منظر ہمیں معتبر روایات سے معلوم ہے۔ یہ ابتدائی مکی دور کے ایک خاص واقعہ کے بارے میں نازل ہوا ہے۔ اس کا پورا سلسلہ کلام اس واقعہ کے ساتھ صریح مناسبت رکھتا ہے۔ اس مضمون میں آخر کونسا موقع تھا کہ اس ایک فقرے کو، اگر وہ کئی سال بعد مدینہ میں نازل ہوا تھا، اس جگہ لا کر چسپاں کر دیا جاتا؟ اب رہا یہ سوال کہ یہاں دل کی بیماری سے مراد کیا ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے مراد شک کی بیماری ہے۔ مکہ ہی میں نہیں، دنیا بھر میں پہلے بھی اور آج بھی کم لوگ ایسے تھےاورہیں جو قطعیت کےساتھ خدا، آخرت، وحی، رسالت، جنت، دوزخ وغیرہ کا انکار کرتے ہوں۔ اکثریت ہر زمانے میں انہی لوگوں کی رہی ہے جو اس شک میں مبتلا رہے ہیں کہ معلوم نہیں خدا ہے یا نہیں۔ آخرت ہو گی یا نہیں، فرشتوں اور جنت اور دوزخ کا واقعی کوئی وجود ہے یا یہ محض افسانے ہیں، اور رسول واقعی رسول تھےاوران پر وحی آتی تھی یا نہیں۔ یہی شک اکثر لوگوں کو کفر کے مقام پر کھینچ لےگیا ہے، ورنہ ایسے بے وقوف دنیا میں کبھی زیادہ نہیں رہے جنہوں نے بالکل قطعی طور پر ان حقائق کا انکار کر دیا ہو، کیونکہ جس آدمی میں ذرہ برابر بھی عقل کا مادہ موجود ہے وہ یہ جانتا ہے کہ ان امور کے صحیح ہونے کا امکان بالکل رد کر دینے اورانہیں قطعاً خارج از امکان قرار دینے کے لیے ہر گز کوئی بنیاد موجود نہیں ہے |
5 | یہ بات اس سے پہلے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان ہو چکی ہے کہ ہرآزمائش کے موقع پرجب ایک مومن اپنے ایمان پر ثابت قدم رہتا ہےاورشک وانکار یا اطاعت سے فراریا دین سے بے وفائی کی راہ چھوڑ کر یقین واعتماد اوراطاعت وفرمانبرداری اور دین سےوفاداری کی راہ اختیار کرتا ہے تو اس کےایمان کوبالیدگی نصیب ہوتی ہے(تشریح کے لیے ملاحظہ تفہیم القرآن ، جلد اول، آل عمران، آیت 173۔ جلد دوم، الانفال، آیت 2، حاشیہ 6۔ التوبہ، آیات 124 ۔ 125۔ حاشیہ 125۔ جلد چہارم، الاحزاب ، آیت 22، حاشیہ 83۔ جلد پنجم، الفتح، آیت 4، حاشیہ 7) |
4 | بعض مفسرین نے اس کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اہل کتاب (یہود و نصاری) کے ہاں چونکہ ان کی اپنی کتابوں میں بھی دوزخ کے فرشتوں کی یہی تعداد بیان کی گئی ہے، اس لیے یہ بات سن کر ان کو یقین آ جائے گا کہ یہ بات فی الواقع اللہ تعالی ہی کی فرمائی ہوئی ہے۔ لیکن یہ تفسیر ہمارے نزدیک دو وجوہ سے صحیح نہیں ہے۔ اول یہ کہ یہود و نصاری کی جو مذہبی کتابیں دنیا میں پائی جاتی ہیں ان میں تلاش کے باوجود ہمیں یہ بات کہیں نہیں ملی کہ دوزخ کے فرشتوں کی تعداد 19 ہے۔ دوسرے قرآن مجید میں بکثرت ایسی باتیں ہیں جو اہل کتاب کے ہاں ان کی مذہبی کتابوں میں بھی بیان کی گئی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ اس کی یہ توجیہ کر دیتے ہیں کہ محمد ﷺ نے یہ باتیں ان کتابوں سے نقل کر لی ہیں۔ ان وجوہ سے ہمارے نزدیک اس ارشاد کا صحیح مطلب یہ ہے کہ محمد ﷺ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ میری زبان سے دوزخ کے 19 فرشتوں کا ذکر سن کر میراخوب مذاق اڑایا جائے گا، لیکن اس کے باوجود جو بات اللہ تعالی کی طرف سے آنے والی وحی میں بیان ہوئی تھی اسے انہوں نے کسی خوف اور جھجک کے بغیر علی الاعلان لوگوں کے سامنے پیش کر دیا اور کسی کے مذاق و استہزاء کی ذرہ برابر پروا نہ کی۔ جہلائے عرب تو انبیاء کی شان سے ناواقف تھے، مگر اہل کتاب خوب جانتے تھے کہ انبیاء کا ہر زمانے میں یہی طریقہ رہا ہے کہ جو کچھ خدا کی طرف سے آتا تھا اسے وہ جوکا تولوگوں تک پہنچا دیتے تھے خواہ وہ لوگوں کو پسند ہو یا نا پسند۔ اس بنا پر اہل کتاب سے یہ بات زیادہ متوقع تھی کہ رسول اللہ ﷺ کے اس طرز عمل کو دیکھ کر انہیں یقین آ جائے گا کہ ایسے سخت مخالف ماحول میں ایسی بظاہر انتہائی عجیب بات کو کسی جھجک کے بغیر پیش کر دینا ایک نبی ہی کا کام ہو سکتا ہے۔ یہ بات بھی وا ضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے یہ طرز عمل بارہا ظاہرہوا ہے۔ اس کی سب سے زیادہ نمایاں مثال معراج کا واقعہ ہے جسے آپؐ نے کفار کے مجمع عام میں بلا تکلف بیان کر دیا اور اس بات کی ذرہ برابر پروا نہ کی اس حیرت انگیز قصے کو سن کر آپ کے مخالفین کیسی کیسی باتیں بنائیں گے |
3 | یعنی بظاہر تو اس بات کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ دوزخ کے کارکنوں کی تعداد بیان کی جاتی۔ لیکن ہم نے ان کی یہ تعداد اس لیے بیان کر دی ہے کہ یہ ہر اس شخص کے لیے فتنہ بن جائے جو اپنے اندر کوئی کفر چھپائے بیٹھا ہو۔ ایسا آدمی چاہے ایمان کی کتنی ہی نمائش کر رہا ہو، اگر وہ خدا کی خدائی اور اس کی عظیم قدرتوں کے با رے میں، یا وحی ورسالت کے بارے میں شک کا کوئی شائبہ بھی اپنے دل کے کے کسی گوشے میں لیے بیٹھا ہو تو یہ سنتے ہی کہ خدا کی اتنی بڑی جیل میں بے حد و حساب مجرم جنوں اورانسانوں کو صرف 19 سپاہی قابو میں بھی رکھیں گے اور فرداََ فرداََ ایک ایک شخص کو عذاب بھی دیں گے، تو اس کا کفر فورا کھل کر باہر آ جائے گا |
2 | یعنی ان کی قوتوں کو انسانی قوتوں پر قیاس کرنا تمہاری حماقت ہے۔ وہ آدمی نہیں، فرشتے ہونگے اور تم اندازہ نہیں کر سکتے کہ اللہ تعالی نے کیسی کیسی زبردست طاقتوں کے فرشتے پیدا کیے ہیں |
1 | یہاں سے لے کر ’’تیرے رب کے لشکروں کو خود اس کے سوا کوئی نہیں جانتا‘‘ تک کی پوری عبارت ایک جملہ معترضہ ہے جو دوران تقریر میں سلسلہ کلام کو توڑ کر ان معترضین کے جواب میں ارشاد فرمایا گیا ہے جنہوں نے حضورؐ کی زبان سے یہ سن کر کہ دوزخ کے کارکنوں کی تعداد صرف 19 ہو گی، اس کا مذاق اڑانا شروع کر دیا تھا۔ ان کو یہ بات عجیب معلوم ہوئی کہ ایک طرف سے ہم سے یہ کہا جا رہا کہ آدم علیہ السلام کے وقت سے لے کر قیامت تک دنیا میں جتنے انسانوں نے بھی کفراورکبیرہ گناہوں کا ارتکاب کیا ہے وہ دوزخ میں ڈالے جائیں گے، اور دوسری طرف ہمیں یہ خبر دی جا رہی ہے کہ اتنی بڑی دوزخ میں اتنے بے شمار انسانوں کو عذاب دینے کے لیے صرف 19 کارکن مقرر ہوں گے۔ اس پر قر یش کے سرداروں نے بڑے زور کا ٹھٹھا مارا۔ ابو جہل بولا، ’’بھائیو، کیا تم اتنے گئے گزرے ہو کہ تم میں سے دس دس آدمی مل کر بھی دوزخ کے ایک ا یک سپاہی سے نمٹ نہ لیں گے‘‘؟ بنی جمح کے ایک پہلوان صاحب کہنے لگے’’ 17 سے تو میں اکیلا نمٹ لوں گا، باقی دو کو تم سب مل کر سنبھال لینا‘‘۔ انہی باتوں کے جواب میں یہ فقرے بطور جملہ معترضہ ارشاد ہوئے ہیں |