Ayats Found (10)
Surah 22 : Ayat 17
إِنَّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَٱلَّذِينَ هَادُواْ وَٱلصَّـٰبِــِٔينَ وَٱلنَّصَـٰرَىٰ وَٱلْمَجُوسَ وَٱلَّذِينَ أَشْرَكُوٓاْ إِنَّ ٱللَّهَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ شَهِيدٌ
جو لوگ ایمان لائے، اور جو یہودی ہوئے2، اور صابئی3، اور نصاریٰ4، اور مجوس5، اور جن لوگوں نے شرک کیا6، ان سب کے درمیان اللہ قیامت کے روز فیصلہ کر دے گا1، ہر چیز اللہ کی نظر میں ہے
6 | یعنی عرب اور دوسرے ممالک کے مشرکین جو مذکورہ بالا گروہوں کی طرح کسی خاص نام سے موسوم نہ تھے۔ قرآن مجید ان کو دوسرے گروہوں سے ممیز کرنے کے لیے مشرکین اور اَلَّذِیْنَاَشْرَکُوْا کے اصطلاحی ناموں سے یاد کرتا ہے ، اگر چہ اہل ایمان کے سوا باقی سب کے ہی عقائد و اعمال میں شرک داخل ہو چکا تھا |
5 | یعنی ایران کے آتش پرست جو روشنی اور تاریکی کے دو خدا مانتے تھے اور اپنے آپ کو زر دشت کا پیرو کہتے تھے۔ ان کے مذہب و اخلاق کو مزْدَک کی گمراہیوں نے بری طرح مسخ کر کے رکھ دیا تھا، حتیٰ کہ سگی بہن سے نکاح تک ان میں رواج پا گیا تھا |
4 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، المائدہ ، حاشیہ 36 |
3 | صابئی کے نام سے قدیم زمانے میں دو گروہ مشہور تھے۔ ایک حضرت یحیٰ علیہ السلام کے پیرو، جو بالائی عراق (یعنی الجزیرہ) کے علاقے میں اچھی خاصی تعداد میں پائے جاتے تھے ، اور حضرت یحیٰ کی پیروی میں اصطباغ کے طریقے پر عمل کرتے تھے۔ دوسرے ستارہ پرست لوگ جو اپنے دین کو حضرت شیث اور حضرت ادریس علیہما السلام کی طرف منسوب کرتے تھے اور عناصر پر سیاروں کی اور سیاروں پر فرشتوں کی فرماں روائی کے قائل تھے۔ ان کا مرکز حرّان تھا اور عراق کے مختلف حصوں میں ان کی شاخیں پھیلی ہوئی تھیں۔ یہ دوسرا گروہ اپنے فلسفہ و سائنس اورفن طب کے کمالات کی وجہ سے زیادہ مشہور ہوا ہے۔ لیکن اغلب یہ ہے کہ یہاں پہلا گروہ مراد ہے۔ کیونکہ دوسرا گروہ غالباً نزول قرآن کے زمانے میں اس نام سے موسوم نہ تھا |
2 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ، النساء، حاشیہ 72۔ |
1 | یعنی خدا کے بارے میں مختلف انسانی گروہوں کے درمیان جو جھگڑا ہے اُس کا فیصلہ اس دنیا میں نہیں ہوگا بلکہ قیامت کے روز ہوگا۔ وہیں اس بات کا دو ٹوک فیصلہ کردیاجائے گا کہ ان میں سے کون حق پر ہے اور کون باطل پر۔ اگرچہ ایک معنی کے لحاظ سے یہ فیصلہ اس دنیا میں بھی خدا کی کتابیں کرتی رہی ہیں لیکن یہاں فیصلے کا لفظ ’’جھگڑا چکانے اور فریقین کے درمیان عدالت کرنے کے معنی میں استعمال ہُوا ہے جبکہ ایک کے حق میں اور دوسرے کے خلاف باقاعدہ ڈگری دے دی جائے |
Surah 22 : Ayat 56
ٱلْمُلْكُ يَوْمَئِذٍ لِّلَّهِ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْۚ فَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ فِى جَنَّـٰتِ ٱلنَّعِيمِ
اُس روز بادشاہی اللہ کی ہو گی، اور وہ ان کے درمیان فیصلہ کر دے گا جو ایمان رکھنے والے اور عمل صالح کرنے والے ہوں گے وہ نعمت بھری جنتوں میں جائیں گے
Surah 22 : Ayat 69
ٱللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ فِيمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ
اللہ قیامت کے روز تمہارے درمیان ان سب باتوں کا فیصلہ کر دے گا جن میں تم اختلاف کرتے رہے ہو"
Surah 37 : Ayat 20
وَقَالُواْ يَـٰوَيْلَنَا هَـٰذَا يَوْمُ ٱلدِّينِ
اُس وقت یہ کہیں گے "ہائے ہماری کم بختی، یہ تو یوم الجزا ہے"
Surah 37 : Ayat 21
هَـٰذَا يَوْمُ ٱلْفَصْلِ ٱلَّذِى كُنتُم بِهِۦ تُكَذِّبُونَ
"یہ وہی فیصلے کا دن ہے جسے تم جھٹلایا کرتے تھے1"
1 | ہو سکتا ہے کہ یہ بات ان سے اہل ایمان کہیں،ہو سکتا ہے کہ یہ فرشتوں کا قول ہو،ہو سکتا ہے کہ میدان حشر کا سارا ماحول اس وقت زبان حال سے یہ کہہ رہا ہو،اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ خود انہی لوگوں کا دوسرا رد عمل ہو۔یعنی اپنے دلوں میں وہ اپنے آپ ہی کو مخاطب کر کے کہیں کہ دنیا میں ساری عمر تم یہ سمجھتے رہے کہ کوئی فیصلے کا دن نہیں آنا ہے،اب آ گئی تمہاری شامت،جس دن کو جھٹلاتے تھے وہی سامنے آگیا۔ |
Surah 44 : Ayat 40
إِنَّ يَوْمَ ٱلْفَصْلِ مِيقَـٰتُهُمْ أَجْمَعِينَ
اِن سب کے اٹھائے جانے کے لیے طے شدہ وقت فیصلے کا دن ہے1
1 | یہ ان کے اس مطالبے کا جواب ہے کہ اٹھا لاؤ ہمارے باپ دادا کو اگر تم سچے ہو ۔ مطلب یہ ہے کہ زندگی بعد موت کوئی تماشا تو نہیں ہے کہ جہاں کوئی اس سے انکار کرے، فوراً ایک مردہ قبرستان سے اٹھا کر اس کے سامنے لا کھڑا کیا جاۓ اس کے لیے تو رب العالمین نے ایک وقت مقرر کر دیا ہے جب تمام اولین و آخرین کو وہ دوبارہ زندہ کر کے اپنی عدالت میں جمع کرے گا اور ان کے مقدمات کا فیصلہ صادر فرماۓ گا۔ تم مانو چاہے نہ مانو، یہ کام بہر حال اپنے وقت مقرر پر ہی ہوگا۔ تم مانو گے تو اپنا ہی بھلا کرو گے، کیونکہ اس طرح قبل از وقت خبردار ہو کر اس عدالت سے کامیاب بکنے کی تیاری کر سکو گے۔ نہ مانو گے تو اپنا ہی نقصان کرو گے، کیونکہ اپنی ساری عمر اس غلط فہمی میں کھپا دو گے کہ برائی اور بھلائی جو کچھ بھی ہے بس اسی دنیا کی زندگی تک ہے، مرنے کے بعد پھر کوئی عدالت نہیں ہونی ہے جس میں ہمارے اچھے یا برے اعمال کا کوئی مستقل نتیجہ نکلنا ہو |
Surah 77 : Ayat 11
وَإِذَا ٱلرُّسُلُ أُقِّتَتْ
اور رسولوں کی حاضری کا وقت آ پہنچے گا1 (اس روز وہ چیز واقع ہو جائے گی)
1 | قرآن کریم میں متعدد مقامات پر یہ بات بیان کی گئی ہے کہ میدان حشر میں جب نوعِ انسانی کا مقدمہ پیش ہو گا تو ہر قوم کے رسول کو شہادت کے لیے پیش کیا جائے گا تاکہ وہ اس امر کی گواہی دے کہ اس نے اللہ کا پیغام ان لوگوں تک پہنچا دیا تھا۔ یہ گمراہوں اور مجرموں کے خلاف اللہ کی سب سے پہلی اور سب سے بڑی حجت ہو گی جس سے یہ ثابت کیا جاسے گا کہ وہ اپنی غلط روش کے خود ذمہ د ار ہیں ورنہ اللہ تعالی کی طرف سے ان کو خبردار کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی گئی تھی۔ مثال کے طور پر حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں: تفہیم القرآن ، جلد دوم، الاعراف، آیات 172، 173۔ حواشی 134، 135۔ جلد چہارم، الزمر، آیت 69، حاشیہ 80۔ جلد ششم، الملک ، آیت 8، حاشیہ 14 |
Surah 77 : Ayat 14
وَمَآ أَدْرَٮٰكَ مَا يَوْمُ ٱلْفَصْلِ
اور تمہیں کیا خبر کہ وہ فیصلے کا دن کیا ہے؟
Surah 77 : Ayat 38
هَـٰذَا يَوْمُ ٱلْفَصْلِۖ جَمَعْنَـٰكُمْ وَٱلْأَوَّلِينَ
یہ فیصلے کا دن ہے ہم نے تمہیں اور تم سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو جمع کر دیا ہے
Surah 78 : Ayat 17
إِنَّ يَوْمَ ٱلْفَصْلِ كَانَ مِيقَـٰتًا
بے شک فیصلے کا دن ایک مقرر وقت ہے