Ayats Found (10)
Surah 17 : Ayat 100
قُل لَّوْ أَنتُمْ تَمْلِكُونَ خَزَآئِنَ رَحْمَةِ رَبِّىٓ إِذًا لَّأَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ ٱلْإِنفَاقِۚ وَكَانَ ٱلْإِنسَـٰنُ قَتُورًا
اے محمدؐ، اِن سے کہو، اگر کہیں میرے رب کی رحمت کے خزانے تمہارے قبضے میں ہوتے تو تم خرچ ہو جانے کے اندیشے سے ضرور ان کو روک رکھتے واقعی انسان بڑا تنگ دل واقع ہوا ہے1
1 | یہ اشارہ اسی مضمون کی طرف ہے جو اس سے پہلے آیت ۵۵ و َرَبُّکَ اَعْلَمُ بِمَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضِ میں گزر چکا ہے۔ مشرکین مکہ جن نفسیاتی وجوہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کرتے تھے ان میں سے ایک اہم وجہ یہ تھی کہ اس طرح انہیں آپ کا فضل وشرف ماننا پڑتا تھا، اور اپنے کسی معاصر اور ہم چشم کا فضل ماننے کے لیے انسان مشکل ہی سے آمادہ ہوا کرتا ہے۔ اسی پر فرمایا جارہاہے کہ جن لوگوں کی بخیلی کا حال یہ ہے کہ کسی کے واقعی مرتبے کا اقرار و اعتراف کرتے ہوئے بھی ان کا دل دکھتا ہے، انہیں اگر کہیں خدا نے اپنے خزانہائے رحمت کی کنجیاں حوالے کر دی ہوتیں تو وہ کسی کو پھوٹی کوڑی بھی نہ دیتے۔ |
Surah 68 : Ayat 12
مَّنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ
بھلائی سے روکتا ہے1، ظلم و زیادتی میں حد سے گزر جانے والا ہے، سخت بد اعمال ہے، جفا کار ہے2
2 | اصل میں لفظ عتل استعمال ہوا ہےجو عربی زبان میں ایسے شخص کے بولا جاتا ہے جو خوب ہٹا کٹا اور بہت کھانے پینے والا ہو، اور اس کے ساتھ نہایت بد خلق، جھگڑالو اور سفاک ہو |
1 | اصل میں مناع للخیر کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ خیر عربی زبان میں مال کو بھی کہتے ہیں اور بھلائی کو بھی۔ اگر اس کو مال کے معنی میں لیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ وہ سخت بخیل اور کنجوس آدمی ہے، کسی کو پھوٹی کوڑی دینے کا بھی روادار نہیں۔ اور اگر خیر کونیکی اور بھلائی کے معنی میں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ ہر نیک کام میں رکاوٹ ڈالتا ہے، اور یہ بھی کہ وہ اسلام سے لوگوں کو روکنے میں بہت سرگرم ہے |
Surah 70 : Ayat 15
كَلَّآۖ إِنَّهَا لَظَىٰ
ہرگز نہیں وہ تو بھڑکتی ہوئی آگ کی لپٹ ہوگی
Surah 70 : Ayat 18
وَجَمَعَ فَأَوْعَىٰٓ
اور مال جمع کیا اور سینت سینت کر رکھا1
1 | یہاں بھی سورہ الحاقہ 33۔34 کی طرح آخرت میں آدمی کے برے انجام کے دو وجوہ بیان کیے گئے ہیں۔ ایک حق سے انحراف اور ایمان لانے سے انکار۔ دوسرے دنیا پرستی اور بخل، جس کی بنا پر آدمی مال جمع کرتا ہے ا ور ا سے کسی بھلائی کے کام میں خرچ نہیں کرتا |
Surah 70 : Ayat 21
وَإِذَا مَسَّهُ ٱلْخَيْرُ مَنُوعًا
اور جب اسے خوشحالی نصیب ہوتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے
Surah 89 : Ayat 19
وَتَأْكُلُونَ ٱلتُّرَاثَ أَكْلاً لَّمًّا
اور میراث کا سارا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو1
1 | عرب میں عورتوں اور بچوں کو تو میراث سے ویسے ہی محروم رکھا جاتا تھا اور لوگوں کا نظریہ اس باب میں یہ تھا کہ میراث کا حق صرف ان مردوں کو پہنچتا ہے جو لڑنے اور کنبے کی حفاظت کرنے کے قابل ہوں۔ اس کے علاوہ مرنے والے کے ورثوں میں جو زیادہ طاقت ور اور با اثر ہوتا تھا وہ بلا تامل ساری میراث سمیٹ لیتا تھا اور اس سب لوگوں کا حصہ مار کھاتا تھا جو اپنا حصہ حاصل کرنے کا بل بوتا نہ ر کھتے ہوں۔ حق اور فرض کی کوئی اہمیت ان کی نگاہ میں نہ تھی کہ ایمانداری کے ساتھ اپنا فرض سمجھ کر حق دار کو اس کا حق دیں خواہ وہ اسے حاصل کرنے کی طاقت رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو |
Surah 89 : Ayat 20
وَتُحِبُّونَ ٱلْمَالَ حُبًّا جَمًّا
اور مال کی محبت میں بری طرح گرفتار ہو1
1 | یعنی جائز و ناجائز اور حلال و حرام کی تمہیں کوئی فکر نہیں۔ جس طریقے سے بھی ما ل حاصل کیا جا سکتا ہو اسے حاصل کرنے میں تمہیں کوئی تامل نہیں ہو تا۔ اور خواہ کتنا ہی مال مل جائے تمہاری حرص و طمع کی آگ کبھی نہیں بجھتی |
Surah 100 : Ayat 8
وَإِنَّهُۥ لِحُبِّ ٱلْخَيْرِ لَشَدِيدٌ
اور وہ مال و دولت کی محبت میں بری طرح مبتلا ہے1
1 | اصل الفاظ ہیں ’’ وَاِنَّہٗ لِحُبِّ الْخَیْرِ لَشَدِیْدٌ۔ ‘‘اس فقرے کا لفظی ترجمہ یہ ہو گا کہ ’’وہ خیر کی محبت میں بہت سخت ہے‘‘ لیکن عربی زبان میں خیر کا لفاظ نیکی اور بھلائی کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ مال و دولت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ سورہ بقرہ آیت 180 میں خیر بمعنی مال و دولت ہی استعمال ہوا ہے۔ یہ بات کلام کے موقع و محل سے معلوم ہوتا ہے کہ کہاں خیر کا لفظ نیکی کے معنی میں ہے ا ور کہاں مال و دولت کے معنی میں۔ اس آیت کے سیاق و سباق سے خود ہی یہ ظاہر ہو رہا ہےکہ اس میں خیر مال و دولت کے معنی میں ہے نہ کہ بھلائی اور نیکی کے معنی میں، کیونکہ جو انسان اپنے رب کا ناشکرا ہے اور اپنے طرز عمل سے خود اپنی ناشکری پر شہادت دے رہا ہے، اس کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ نیکی اور بھلائی کی محبت میں بہت سخت ہے |
Surah 104 : Ayat 1
وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ
تباہی ہے ہر اُس شخص کے لیے جو (منہ در منہ) لوگوں پر طعن اور (پیٹھ پیچھے) برائیاں کرنے کا خوگر ہے1
1 | اصل الفاظ ہیں ’’ ھُمَزَۃٍ لُّمَزَۃٍ ۔ ‘‘عربی زبان میں ’’ ھُمَزَ ۔ ‘‘ اور ’’ لُمَز َ ۔ ‘‘ معنی کے اعتبار سے باہم اتنے قریب ہیں کہ کبھی دونوں ہم معنی استعمال ہوتے ہیں، اور کبھی دونوں میں فرق ہوتا ہے، مگر ایسا فرق کہ خود اہل زبان میں سے کچھ لوگ ’’ ھُمَزَ ۔ ‘‘ کا جو مفہوم بیان کرتے ہیں، کچھ دوسرے لوگ وہی مفہوم ’’ لُمَز َ ۔ ‘‘ کا بیان کرتے ہیں، اور اس کے برعکس کچھ لوگ لمز کے جو معنی بیان کرتے ہیں وہ دوسرے لوگوں کے نزدیک ’’ ھُمَزَ ۔ ‘‘ کے معنی ہیں۔ یہاں چونکہ دونوں لفظ ایک ساتھ آئے ہیں اور ’’ ھُمَزَۃٍ لُّمَزَۃٍ ۔ ‘‘کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، اس لیے دونوں مل کر یہ معنی دیتے ہیں کہ اس شخص کی عادت ہی یہ بن گئی ہے کہ دوسروں کی تحقیر و تذلیل کرتا ہے، کسی کو دیکھ کر انگلیاں اٹھاتا ہے اور آنکھوں سے اشارے کرتا ہے، کسی کے نسب پرطعن کرتا ہے، کسی کی ذات میں کیڑے نکالتا ہے، کسی پر منہ در منہ چوٹیں کرتا ہے، کسی کے پیٹھ پیچھے اس کی برائیاں کرتا ہے، کہیں چغلیاں کھا کر اور لگائی بجھائی کر کے دوستوں کو لڑواتا اور کہیں بھائیوں میں پھوٹ ڈلواتا ہے، لوگوں کے برے برے نام رکھتا ہے، ان پر چوٹیں کرتا ہے اور ان کو عیب لگاتا ہے |
Surah 104 : Ayat 3
يَحْسَبُ أَنَّ مَالَهُۥٓ أَخْلَدَهُۥ
وہ سمجھتا ہے کہ اُس کا مال ہمیشہ اُس کے پاس رہے گا1
1 | دوسرے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ وہ سمجھتا ہے اس کا مال اسے حیات جاوداں بخش دے گا، یعنی دولت جمع کرنے اور اسے گن گن کر رکھنے میں وہ ایسا منہمک ہے کہ اسے اپنی موت یاد نہیں رہی ہے اور اسے کبھی یہ خیال بھی نہیں آتا کہ ایک وقت اس کو یہ سب کچھ چھوڑ کر خالی ہاتھ دنیا سے رخصت ہو جانا پڑے گا |