Ayats Found (6)
Surah 69 : Ayat 1
ٱلْحَآقَّةُ
ہونی شدنی1!
1 | اصل میں لفظ الحاقہ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں وہ واقعہ جس کو لازماً پیش آ کر رہنا ہے، جس کا آنا برحق ہے، جس کے آنے میں کسی شک کی گنجائش نہیں۔ قیامت کے لیے یہ لفظ استعمال کرنا اور پھر کلام کا آغاز ہی اس سے کرنا خود بخود یہ ظاہر کرتا ہے کہ مخاطب وہ لوگ ہیں جو اس کے آنے کو جھٹلا رہے تھے۔ ان کو خطاب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ جس چیز کی تم تکذیب کر رہے ہو وہ ہونی شدنی ہے، تمہارے انکار سے اس کا آنا رک نہیں جائے گا |
Surah 69 : Ayat 3
وَمَآ أَدْرَٮٰكَ مَا ٱلْحَآقَّةُ
اور تم کیا جانو کہ وہ کیا ہے ہونی شدنی1؟
1 | یکے بعد دیگرے یہ دو سوالات سامعین کو چونکانے کے لیے کیے گئے ہیں تاکہ وہ بات کی اہمیت کو سمجھیں اور پوری توجہ کے ساتھ آگے کی بات سنیں |
Surah 82 : Ayat 17
وَمَآ أَدْرَٮٰكَ مَا يَوْمُ ٱلدِّينِ
اور تم کیا جانتے ہو کہ وہ جزا کا دن کیا ہے؟
Surah 82 : Ayat 18
ثُمَّ مَآ أَدْرَٮٰكَ مَا يَوْمُ ٱلدِّينِ
ہاں، تمہیں کیا خبر کہ وہ جزا کا دن کیا ہے؟
Surah 101 : Ayat 1
ٱلْقَارِعَةُ
عظیم حادثہ1!
1 | اصل میں لفظ قارعہ استعمال ہوا ہے جس کا لفظی ترجمہ ہے ’’ٹھونکنے والی‘‘ ۔ قرع کے معنی کسی چیز کو کسی چیز پر زور سے مارے کے ہیں جس سے سخت آواز نکلے۔ اس لغوی معنی کی مناسبت سے قارعہ کا لفظ ہولناک حادثے ا ور بڑی بھاری آفت کے لیے بولا جاتا ہے۔ مثلاً عرب کہتے ہیں ’’ فَزَعَتْہُم القَارعَۃ ۔ ‘‘’’یعنی فلاں قبیلے یا قوم کے لوگ پر سخت آفت آ گئی ہے۔قرآن مجید میں بھی ایک جگہ یہ لفظ کسی قوم پر بڑی مصیبت نازل ہونے کے لیے استعمال ہوا ہے۔ سورہ رعد میں ہے ’’ وَلَا یَزَالُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا تُصِیْبُھُمْ بِمَا صَنَعُوْا قَارِعَۃٌ۔ ‘‘’’جن لوگوں نے کفر کیا ہے ان پر ان کے کرتوتوں کی وجہ سے کوئی نہ کوئی آفت نازل ہوتی رہتی ہے‘‘ (آیت 31)۔ لیکن یہاں ا لقارعہ کا لفظ قیامت کے لیے استعمال کیا گیا ہے، اور سورۃ ا لحاقہ میں بھی قیامت کو اسی نام سے موسوم کیا گیا ہے (آیت 4)۔ اس مقام پر یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ یہاں قیامت کے پہلے مرحلے سے لے کر عذاب و ثواب کے آخری مرحلے تک پورے عالم آخرت کا یکجا ذکر ہو رہا ہے |
Surah 101 : Ayat 3
وَمَآ أَدْرَٮٰكَ مَا ٱلْقَارِعَةُ
تم کیا جانو کہ وہ عظیم حادثہ کیا ہے؟