Ayats Found (4)
Surah 10 : Ayat 11
۞ وَلَوْ يُعَجِّلُ ٱللَّهُ لِلنَّاسِ ٱلشَّرَّ ٱسْتِعْجَالَهُم بِٱلْخَيْرِ لَقُضِىَ إِلَيْهِمْ أَجَلُهُمْۖ فَنَذَرُ ٱلَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَآءَنَا فِى طُغْيَـٰنِهِمْ يَعْمَهُونَ
اگر کہیں1 اللہ لوگوں کے ساتھ برا معاملہ کرنے میں بھی اتنی ہی جلدی کرتا جتنی وہ دنیا کی بھلائی مانگنے میں جلدی کرتے ہیں تو ان کی مہلت عمل کبھی کی ختم کر دی گئی ہوتی (مگر ہمارا یہ طریقہ نہیں ہے) اس لیے ہم اُن لوگوں کو جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اُن کی سرکشی میں بھٹکنے کے لیے چھُوٹ دے دیتے ہیں
1 | اوپر کے تمہیدی فقروں کے بعد اب نصیحت اور تفہیم کی تقریر شروع ہوتی ہے۔ اس تقریر کو پڑھنے سے پہلے اس کے پس منظر سے متعلق دو باتیں پیشِ نظر رکھینی چاہییں: ایک یہ کہ اِس تقریر سے تھوڑی مدّت پہلے وہ مسلسل اور سخت بلا انگیز، قحط ختم ہوا تھا جس کی مصیبت سے اہلِ مکہ چیخ اُٹھے تھے۔ اس قحط کے زمانے میں قریش کے متکبرین کی اکڑی ہوئی گردنیں بہت جھک گئی تھیں۔ دعائیں اور زاریاں کرتے تھے، بت پرستی میں کمی آگئی تھی، خدائے واحد کی طرف رجوع بڑھ گیا تھا اور نوبت یہ آگئی تھی کہ آخرکار ابو سفیان نے آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپؐ خدا سے اس بلا کو ٹالنے کے لیے دعا کریں۔ مگر جب قحط دُور ہو گیا، بارشیں ہونے لگیں اور خوشحالی کا دَور آیا تو ان لوگوں کی وہی سرکشیاں اور بداعمالیاں، اور دینِ حق کے خلا ف وہی سرگرمیاں پھر شروع ہو گئیں اور جو دل خدا کی طرف رجوع کر نے لگے تھے وہ پھر اپنی سابق غفلتوں میں ڈوب گئے۔ (ملاحظہ ہو النحل، آیت ۱۱۳۔ المومنون، آیات ۷۵ تا ۷۷۔ الدخان، آیات ۱۰ تا ۱۶)۔ دوسرے یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی ان لوگوں کو انکار ِحق کی پاداش سے ڈراتے تھے تو یہ لوگ جواب میں کہتے تھے کہ تم جس عذابِ الہٰی کی دھمکیاں دیتے ہو وہ آخر آ کیوں نہیں جاتا۔ اس کے آنے میں دیر کیوں لگ رہی ہے۔ اسی پر فرمایا جا رہا ہے کہ خدا لوگوں پر رحم و کرم فرمانے میں جتنی جلدی کرتا ہے ان کو سزا دینے اور ان کے گناہوں پر پکڑ لینے میں اتنی جلدی نہیں کرتا۔ تم چاہتے ہو کہ جس طرح اس نے تمہاری دعائیں سُن کر بلائے قحط جلدی سے دُور کر دی۔ اُسی طرح وہ تمہارےچیلنج سُن کر اور تمہاری سرکشیاں دیکھ کر عذاب بھی فورًا بھیج دے۔ لیکن خدا کا طریقہ یہ نہیں ہے۔ لوگ خواہ کتنی ہی سرکشیاں کیے جائیں وہ ان کو پکڑنے سے پہلے سنبھلنے کا کافی موقع دیتا ہے۔ پیہم تنبیہات بھیجتا ہے اور رسی ڈھیلی چھوڑے رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ جب رعایت کی حد ہو جاتی ہے تب پاداش عمل کا قانون نافذ کیا جاتا ہے۔ یہ تو ہے خدا کا طریقہ۔ اور اس کے برعکس کم ظرف انسانوں کا طریقہ وہ ہے جو تم نے اختیار کیا کہ جب مصیبت آئی تو خدا یاد آنے لگا، بلبلانا اور گڑگڑانا شروع کر دیا، اور جہاں راحت کا دَور آیا کہ سب کچھ بھول گئے۔ یہی وہ لچھن ہیں جن سے قومیں اپنے آپ کو عذاب ِالہٰی کا مستحق بناتی ہیں۔ |
Surah 17 : Ayat 11
وَيَدْعُ ٱلْإِنسَـٰنُ بِٱلشَّرِّ دُعَآءَهُۥ بِٱلْخَيْرِۖ وَكَانَ ٱلْإِنسَـٰنُ عَجُولاً
انسان شر اُس طرح مانگتا ہے جس طرح خیر مانگنی چاہیے انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے1
1 | یہ جواب ہے کفار مکہ کی اُن احمقانہ باتوں کا جو وہ بار بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےکہتے تھے کہ بس لے آؤ وہ عذاب جس سے تم ہمیں ڈرایا کرتے ہو۔ اوپر کے بیان کے بعد معاً یہ فقرہ ارشاد فرمانے کی غرض اس بات پر متنبہ کرنا ہے کہ بیوقوفو! خیر مانگنے کے بجائے عذاب مانگتے ہو؟ تمہیں کچھ اندازہ بھی ہے خدا کا عذاب جب کسی قوم پر آتا ہے تو اس کی کیا گت بنتی ہے؟ اس کے ساتھ اس فقرے میں ایک لطیف تنبیہ مسلمانوں کے لیے بھی تھی جو کفار کے ظلم و ستم اور ان کی ہٹ دھرمیوں سے تنگ آ کر کبھی کبھی ان کے حق میں نزول عذاب کی دعا کرنے لگتے تھے، حالانکہ ابھی انہی کفار میں بہت سے وہ لوگ موجود تھے جوآگے چل کر ایمان لانے والے اور دنیا بھر میں اسلام کا جھنڈا بلند کرنے والے تھے۔ اس پر اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ انسان بڑا بے صبر واقع ہوا ہے۔، ہر وہ چیز مانگ بیٹھتا ہے جس کی بر وقت ضرورت محسوس ہوتی ہے، حالانکہ بعد میں اسے خود تجربہ سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اگر اُس وقت اُس کی دعا قبول کر لی جاتی تووہ اس کے حق میں خیر نہ ہوتی۔ |
Surah 42 : Ayat 18
يَسْتَعْجِلُ بِهَا ٱلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِهَاۖ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ مُشْفِقُونَ مِنْهَا وَيَعْلَمُونَ أَنَّهَا ٱلْحَقُّۗ أَلَآ إِنَّ ٱلَّذِينَ يُمَارُونَ فِى ٱلسَّاعَةِ لَفِى ضَلَـٰلِۭ بَعِيدٍ
جو لوگ اس کے آنے پر ایمان نہیں رکھتے وہ تو اس کے لیے جلدی مچاتے ہیں، مگر جو اس پر ایمان رکھتے ہیں وہ اس سے ڈرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ یقیناً وہ آنے والی ہے خوب سن لو، جو لوگ اُس گھڑی کے آنے میں شک ڈالنے والی بحثیں کرتے ہیں وہ گمراہی میں بہت دور نکل گئے ہیں
Surah 51 : Ayat 14
ذُوقُواْ فِتْنَتَكُمْ هَـٰذَا ٱلَّذِى كُنتُم بِهِۦ تَسْتَعْجِلُونَ
(اِن سے کہا جائے گا) اب چکھو مزا اپنے فتنے کا1 یہ وہی چیز ہے جس کے لیے تم جلدی مچا رہے تھے2
2 | کفار کا یہ پوچھنا کہ ’’آخر وہ روز جزا کب آۓ گا‘‘ اپنے اندر خود یہ مفہوم رکھتا تھا کہ اس کے آنے میں دیر کیوں لگ رہی ہے؟ جب ہم اس کا انکار کر رہے ہیں اور اس کے جھٹلانے کی سزا ہمارے لیے لازم ہو چکی ہے تو وہ آ کیوں نہیں جاتا؟ اسی لیے جہنم کی آگ میں جب وہ تپ رہے ہوں گے اس وقت ان سے کہا جاۓ گا کہ یہ ہے وہ چیز جس کے لیے تم جلدی مچا رہے تھے۔ اس فقرے سے یہ مفہوم آپ سے آپ نکلتا ہے کہ یہ تو اللہ تعالیٰ مہر بانی تھی کہ اس نے تم سے نافرمانی کا ظہور ہوتے ہی تمہیں فوراً نہ پکڑ لیا اور سوچنے، سمجھنے اور سنبھلنے کے لیے وہ تم کو ایک لمبی مہلت دیتا رہا۔ مگر تم ایسے احمق تھے کہ اس مہلت سے فائدہ اٹھانے کے بجاۓ الٹا یہ مطالبہ کرتے رہے کہ یہ وقت تم پر جلدی لے آیا جاۓ۔ اب دیکھ لو کہ وہ کیا چیز تھی جس کے جلدی آ جا نے کا مطالبہ تم کر رہے تھے |
1 | فتنے کا لفظ یہاں دو معنی دے رہا ہے۔ ایک معنی یہ ہیں کہ اپنے اس عذاب کا مزہ چکھو۔ دوسرے معنی یہ کہ اپنے اس فتنے کا مزہ چکھو جو تم نے دنیا میں بر پا کر رکھا تھا۔ عربی زبان میں اس لفظ کے ان دونوں مفہوموں کی یکساں گنجائش ہے |