Ayats Found (9)
Surah 36 : Ayat 49
مَا يَنظُرُونَ إِلَّا صَيْحَةً وَٲحِدَةً تَأْخُذُهُمْ وَهُمْ يَخِصِّمُونَ
دراصل یہ جس چیز کی راہ تک رہے ہیں وہ بس ایک دھماکا ہے جو یکایک اِنہیں عین اُس حالت میں دھر لے گا جب یہ (اپنے دنیوی معاملات میں) جھگڑ رہے ہوں گے
Surah 36 : Ayat 50
فَلَا يَسْتَطِيعُونَ تَوْصِيَةً وَلَآ إِلَىٰٓ أَهْلِهِمْ يَرْجِعُونَ
اور اُس وقت یہ وصیت تک نہ کر سکیں گے، نہ اپنے گھروں کو پلٹ سکیں گے1
1 | یعنی ایسا نہیں ہو گا کہ قیامت آہستہ آہستہ آ رہی ہے اور لوگ دیکھ رہے ہیں کہ وہ آ رہی ہے۔بلکہ وہ اس طرح آئے گی کہ لوگ پورے اطمینان کے ساتھ اپنی دنیا کے کاروبار چلا رہے ہیں اور ان کے حاشیہ خیال میں بھی یہ تصوّر موجود نہیں ہے کہ دنیا کے خاتمہ کی گھڑی آ پہنچی ہے۔اس حالت میں اچانک ایک زور کا کڑاکا ہو گا اور جو جہاں تھا وہیں دھرا کا دھرا رہ جائے گا۔حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمرو اور حضرت ابو ہریرہؓ نبی صلی اللہ ولیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ لوگ راستوں پر چل رہے ہوں گے،بازاروں میں خرید و فروخت کر رہے ہوں گے،اپنی مجلسوں میں بیٹھے گفتگوئیں کر رہے ہوں گے۔ایسے میں یکایک صور پھونکا جائے گا۔ کوئی کپڑا خرید رہا تھا تو ہاتھ سے کپڑا رکھنے کی نوبت نہ آئے گی کہ ختم ہو جائے گا۔ کوئی اپنے جانوروں کو پانی پلانے کے لیے حوض بھرے گا اور ابھی پلانے نہ پائے گا کہ قیامت برپا ہو جائے گی۔ کوئی کھانا کھانے بیٹھے گا اور لقمہ اٹھا کر منہ تک لے جانے کی بھی اسے مہلت نہ ملے گی۔ |
Surah 36 : Ayat 53
إِن كَانَتْ إِلَّا صَيْحَةً وَٲحِدَةً فَإِذَا هُمْ جَمِيعٌ لَّدَيْنَا مُحْضَرُونَ
ایک ہی زور کی آواز ہو گی اور سب کے سب ہمارے سامنے حاضر کر دیے جائیں گے
Surah 37 : Ayat 19
فَإِنَّمَا هِىَ زَجْرَةٌ وَٲحِدَةٌ فَإِذَا هُمْ يَنظُرُونَ
بس ایک ہی جھڑکی ہو گی اور یکایک یہ اپنی آنکھوں سے (وہ سب کچھ جس کی خبر دی جا رہی ہے) دیکھ رہے ہوں گے1
1 | یعنی جب یہ بات ہونے کا وقت آئے گا تو دنیا کو دوبارہ برپا کر دینا کوئی بڑا لمبا چوڑا کام نہ ہو گا۔بس ایک ہی جھڑکی سوتوں کو جگا اٹھا نے کے لیے کافی ہو گی۔ ’’جھڑکی‘‘ کا لفظ یہاں بہت معنیٰ خیز ہے،اس سے بعث بعد الموت کا کچھ ایسا نقشہ نگاہوں کے سامنے آتا ہے کہ ابتدائے آفرینش سے قیامت تک جو انسان مرے تھے وہ گویا سوتے پڑے ہیں، یکایک کوئی ڈانٹ کر کہتا ہے’’اٹھ جاؤ‘‘اور بس آن کی آن میں وہ سب اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ |
Surah 37 : Ayat 21
هَـٰذَا يَوْمُ ٱلْفَصْلِ ٱلَّذِى كُنتُم بِهِۦ تُكَذِّبُونَ
"یہ وہی فیصلے کا دن ہے جسے تم جھٹلایا کرتے تھے1"
1 | ہو سکتا ہے کہ یہ بات ان سے اہل ایمان کہیں،ہو سکتا ہے کہ یہ فرشتوں کا قول ہو،ہو سکتا ہے کہ میدان حشر کا سارا ماحول اس وقت زبان حال سے یہ کہہ رہا ہو،اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ خود انہی لوگوں کا دوسرا رد عمل ہو۔یعنی اپنے دلوں میں وہ اپنے آپ ہی کو مخاطب کر کے کہیں کہ دنیا میں ساری عمر تم یہ سمجھتے رہے کہ کوئی فیصلے کا دن نہیں آنا ہے،اب آ گئی تمہاری شامت،جس دن کو جھٹلاتے تھے وہی سامنے آگیا۔ |
Surah 38 : Ayat 15
وَمَا يَنظُرُ هَـٰٓؤُلَآءِ إِلَّا صَيْحَةً وَٲحِدَةً مَّا لَهَا مِن فَوَاقٍ
یہ لوگ بھی بس ایک دھماکے کے منتظر ہیں جس کے بعد کوئی دوسرا دھماکا نہ ہوگا1
1 | یعنی عذاب کا ایک ہی کڑکا انہیں ختم کر دینے کے لیے کافی ہو گا۔ کسی دوسرے کڑکے کی حاجت پیش نہ آئے گی۔ دوسرا مفہوم اس فقرے کا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے بعد پھر انہیں کوئی افاقہ نصیب نہ ہو گا، اتنی دیر کی بھی مہلت نہ ملے گی جتنی دیر اُونٹنی کا دودھ نچوڑتے وقت ایک دفعہ سونتے ہوئے تھن میں دوبارہ سونتنے تک دودھ اترنے میں لگتی ہے۔ |
Surah 50 : Ayat 42
يَوْمَ يَسْمَعُونَ ٱلصَّيْحَةَ بِٱلْحَقِّۚ ذَٲلِكَ يَوْمُ ٱلْخُرُوجِ
جس دن سب لوگ آوازۂ حشر کو ٹھیک ٹھیک سن رہے ہوں گے1، وہ زمین سے مُردوں کے نکلنے کا دن ہو گا
1 | اصل الفاظ ہیں یَسْمَعُوْنَ الصَّیْحَۃَ بِالْحَقِّ۔ اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ سب لوگ امِر حق کی پکار کو سن رہے ہوں گے۔ دوسرے یہ کہ آواز حشر کو ٹھیک ٹھیک سن رہے ہوں گے۔ پہلے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ لوگ اسی امر حق کی پکار کو اپنے کانوں سے سن رہے ہوں گے جس کو دنیا میں وہ ماننے کے لیے تیار نہ تھے، جس سے انکار کرنے پر انہیں اصرار تھا، اور جس کی خبر دینے والے پیغمبروں کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ وہ یقینی طور پر یہ آوازہ حشر سنیں گے، انہیں خود معلوم ہو جاۓ گا کہ یہ کوئی وہم نہیں ہے بلکہ واقعی یہ آوازہ حشر ہی ہے، کوئی دبہ انہیں اس امر میں نہ رہے گا کہ جس حشر کی انہیں خبر دی گئی تھی وہ آگیا ہے اور یہ اسی کی پکار بلند ہو رہی ہے |
Surah 79 : Ayat 13
فَإِنَّمَا هِىَ زَجْرَةٌ وَٲحِدَةٌ
حالانکہ یہ بس اتنا کام ہے کہ ایک زور کی ڈانٹ پڑے گی
Surah 79 : Ayat 14
فَإِذَا هُم بِٱلسَّاهِرَةِ
اور یکایک یہ کھلے میدان میں موجود ہوں1 گے
1 | یعنی یہ لوگ اسے ایک امر محال سمجھ کر اس کی ہنسی اڑا رہے ہیں، حالانکہ اللہ کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے جس کو انجام دینے کے لیے کچھ بڑی لمبی چوڑی تیاریوں کی ضرورت ہو۔ اس کے لیے صرف ایک ڈانٹ یا جھڑکی کافی ہےجس کے ساتھ ہی تمہاری خاک یا راکھ، خواہ کہیں پڑی ہو، ہر طرف سے سمٹ کر ایک جگہ جمع ہو جا ئے گی اور تم یکایک اپنے آپ کو زمین کی پیٹھ پر زندہ موجود پاؤ گے۔ اس واپسی کو گھاٹے کی واپسی سمجھ کر چاہے تم اس سے کتنا ہی فرار کرنے کی کوشش کرو، یہ تو ہو کر رہنی ہے، تمہارے انکار یا فرار یا تمسخر سے یہ رک نہیں سکتی |