Ayats Found (25)
Surah 7 : Ayat 187
يَسْــَٔلُونَكَ عَنِ ٱلسَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَـٰهَاۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ رَبِّىۖ لَا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَآ إِلَّا هُوَۚ ثَقُلَتْ فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِۚ لَا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةًۗ يَسْــَٔلُونَكَ كَأَنَّكَ حَفِىٌّ عَنْهَاۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ ٱللَّهِ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ آخر وہ قیامت کی گھڑی کب نازل ہوگی؟ کہو "اس کا علم میرے رب ہی کے پاس ہے اُسے اپنے وقت پر وہی ظاہر کرے گا آسمانوں اور زمین میں وہ بڑا سخت وقت ہوگا وہ تم پر اچانک آ جائے گا" یہ لوگ اس کے متعلق تم سے اس طرح پوچھتے ہیں گویا کہ تم اس کی کھوج میں لگے ہوئے ہو کہو "اس کا علم تو صرف اللہ کو ہے مگر اکثر لوگ اس حقیقت سے نا واقف ہیں"
Surah 17 : Ayat 51
أَوْ خَلْقًا مِّمَّا يَكْبُرُ فِى صُدُورِكُمْۚ فَسَيَقُولُونَ مَن يُعِيدُنَاۖ قُلِ ٱلَّذِى فَطَرَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍۚ فَسَيُنْغِضُونَ إِلَيْكَ رُءُوسَهُمْ وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هُوَۖ قُلْ عَسَىٰٓ أَن يَكُونَ قَرِيبًا
یا اس سے بھی زیادہ سخت کوئی چیز جو تمہارے ذہن میں قبول حیات سے بعید تر ہو1" (پھر بھی تم اٹھ کر رہو گے) وہ ضرور پوچھیں گے "کون ہے وہ جو ہمیں پھر زندگی کی طرف پلٹا کر لائے گا؟" جواب میں کہو "وہی جس نے پہلی بار تم کو پیدا کیا" وہ سر ہلا ہلا کر پوچھیں گے "اچھا، تو یہ ہوگا کب؟" تم کہو "کیا عجب، وہ وقت قریب ہی آ لگا ہو
1 | انغاض کے معنی ہیں سر کو اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر کی طرف بلانا، جس طرح اظہار تعجب کے لیے، یا مذاق اڑانے کے لیے آدمی کرتا ہے |
Surah 20 : Ayat 15
إِنَّ ٱلسَّاعَةَ ءَاتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيهَا لِتُجْزَىٰ كُلُّ نَفْسِۭ بِمَا تَسْعَىٰ
قیامت کی گھڑی ضرور آنے والی ہے میں اُس کا وقت مخفی رکھنا چاہتا ہوں، تاکہ ہر متنفّس اپنی سعی کے مطابق بدلہ پائے1
1 | توحید کے بعد دوسری حقیقت جو ہر زمانے میں تمام انبیاء علیم السلام پر منکشف کی گئی اور جس کی تعلیم دینے پر وہ مامور کیے گۓ، آخرت ہے۔ یہاں نہ صرف اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے بلکہ اس کے مقصد پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ ساعت منتظرہ اس لیے آۓ گی کہ ہر شخص نے دنیا میں جو سعی کی ہے اس کا بدلہ رکھا گیا ہے کہ آزمائش کا مدعا پورا ہو سکے۔ جسے عاقبت کی کچھ فکر ہو اس کو ہر وقت اس گھڑی کا کھٹکا لگا رہے اور یہ کھٹکا اسے بے راہ روی سے بچاتا رہے۔ اور جو دنیا میں گم رہنا چاہتا ہو وہ اس خیال میں مگن رہے کہ قیامت ابھی کہیں دور دور بھی آتی نظر نہیں آتی۔ |
Surah 27 : Ayat 65
قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِ ٱلْغَيْبَ إِلَّا ٱللَّهُۚ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ
اِن سے کہو، اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا1، اور وہ نہیں جانتے کہ کب وہ اٹھائے جائیں گے2
2 | یعنی دوسرے جن کے متعلق یہ گمان کیا جاتا ہے کہ وہ عالم الغیب ہیں، اوراسی بنا پرجن کوتم لوگوں نے خدائی میں شریک ٹھیرالیا ہے اُن بیچاروں کو تو خود اپنےمستقبل کی بھی خبر نہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ کب قیامت کی وہ گھڑی آئے گی جب اللہ تعالیٰ اُن کو دوبارہ اُٹھائے گا۔ |
1 | اوپرتخلیق، تدبیر اوررزاقی کےاعتبار سے اللہ کےالٰہ واحد(اکیلےخدا اواکیلے مستحق عبادت) ہونے پر استدلال کیا گیا تھا۔ اب خدائی کی ایک اوراہم صفت،یعنی علم کے لحاظ سےبتایا جارہا ہے کہ اس میں بھی اللہ تعالیٰ لاشریک ہے۔ آسمان وزمین میں جوبھی مخلوقات ہیں، خواہ فرشتے ہیںیا جن یاانبیاءاوراولیاء یا دوسرے انسان اورغیرانسان، سب کاعلم محدود ہے۔ سب سے کچھ نہ کچھ پوشیدہ ہے۔ سب کچھ جاننے والا اگرکوئی ہے تو وہ صرف اللہ تعالیٰ ہے جس سے اس کائنات کی کوئی اورکوئی بات پوشیدہ نہیں، جوماضی وحال اورمستقبل سب کوجانتاہے۔ غیب کےمعنی مخفی، پوشیدہ نہیں، جوماضی وحال اورمستقبل سب کو جانتا ہے۔ غیب کے معنی مخفی، پوشیدہ اورمستور کے ہیں۔ اصطلاحاََ اس سے مراد ہر وہ چیز ہے جومعلوم نہ ہو، جس تک ذرائع معلومات کی رسائی نہ ہو۔ دنیا میںبہت سی چیزیں ایسی ہیں فرداََفرداََ بعض انسانوں کے علم میں ہیں اوربعض کے علم میںنہیں ہیں۔ اوربہت سی چیزیں ایسی ہیںجو بحثیت مجموعی پوری نوع انسانی کے علم میں نہ کبھی تھیں، نہ آج ہیں، نہ آئندہ کبھی آئیں گی۔ ایسا ہی معاملہ جنوں اور فرشتوں اوردوسری مخلوقات کا ہے کہ بعض چیزیں ان میں سے کسی سے مخفی اورکسی کو معلوم ہیں اوربےشمار چیزیں ایسی ہیں جوان سب سے مخفی ہیں جوان سب سے مخفی ہیں اورکسی بھی معلوم نہیں۔ یہ تمام اقسام کے غیب صرف ایک ذات پرروشن ہیں، اوروہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اس کےلیے کوئی چیز غیب نہیں،سب شہادت ہی شہادت ہے۔ اس حقیقت کوبیان کرنے میںسوال کاوہ طریقہ اختیار نہیں کیاگیا جو اورپرتخلیق وتدبیر کائنات اوررزاقی کے بیان میں اختیارکیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اُن صفات کے آثار توبالکل نمایاں ہیں جنہیں ہر شخص دیکھ رہا ہے، اوران کے بارے میں کفارومشرکین تک یہ مانتے تھے اورمانتے ہیں کہ یہ سارے کام اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں۔ اس لیے وہاں طرزاستدلال یہ تھا کہ جب یہ سارے کام اللہ ہی کے ہیں اور کوئی ان میں اس کاشریک نہیں ہے توپھر خدائی میںتم نے دوسروں کوکیسے شریک بنالیا اورعبادت کے مستحق وہ کس بنا پرہوگئے؟ لیکن علم کی صفت اپنے محسوس آثار نہیں رکھتی جن کی طرف اشارہ کیا جاسکے۔ یہ معاملہ صرف غوروفکر ہی سے سمجھ میں آسکتا ہے۔ اس لیے اس کو سوال کے بجائے دعوے کے انداز میں پیش کیاگیا ہے۔ اب یہ ہر صاحب عقل کاکام ہےکہ وہ اپنی جگہ اس امر پر غور کرے کہ فی الحقیقت کیا یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ اللہ کے سوا کوئی دوسرا عالم الغیب ہو؟ یعنی تمام اُن احوال اوراشیاءاورحقائق کا جاننے والا ہو جو کائنات میں کبھی تھیں، یااب ہیں، یا آئندہ ہوں گی۔ اوراگر کوئی دوسرا عالم الغیب نہیں ہے اورنہیں ہوسکتاتو بھر کیا یہ بات عقل میں آتی ہے کہ جو لوگ پوری طرح حقائق اور احوال سے واقف ہی نہیں ہیں ان میں سے کوئی بندوں کا فریاد رس اورحاجت روااور مشکل کشا ہوسکے؟ الُوہیت اورعلم غیب کے درمیان ایک ایسا گہرا تعلق ہے کہ قدیم ترین زمانے سے انسان نے جس ہستی میں بھی خدائی کےکسی شائبے کاگمان کیا ہےاُس کےمتعلق یہ خیال ضرورکیا ہے کہ اس پر سب کچھ روشن ہےاورکوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔ گویا انسان کازہن اس حقیقت سے بالکل بدیہی طور پرآگاہ ہے کہ قسمتوں کابنانا اوربگاڑنا، دعاؤں کا سُننا، حاجتیں پوری کرنااور ہرطالب امداد کی مدد کو پہنچنا صرف اُسی ہستی کاکام ہوسکتا ہے جوسب کچھ جانتی ہواورجس سے کچھ بھی پوشیدہ نہ ہو۔ اسی بناپرانسان جس کو خدائی اختیارات کا حامل سمجھتا ہے اُسے لازماََ عالم الغیب بھی سمجھتا ہے، کیونکہ اس کی عقل بلاریب شہادت دیتی ہےکہ علم اوراختیارات باہم لازم وملزم ہیں۔ اب اگر یہ حقیقت ہے کہ خالق اورمدبر اورمجیب الدعوات اوررازق خدا کےسوا کوئی دوسرا نہیں ہے، جیسا کہ اوپر کی آیات میں ثابت کیاگیا ہے، تو آپ سے آپ یہ بھی حقیقت ہے کہ عالم الغیب بھی خدا کے سوا کوئی دوسرانہیں ہے۔آخر کون اپنے ہوش وحواس میں یہ تصور کرسکتاہے کہ کسی فرشتے یا جن نبی یاولی کو یاکسی مخلوق کوبھی یہ معلوم ہوگا کہ سمندر میںاورہوا میں اورزمین کی تہوں میں اورسطح زمین کے اوپر کس کس قسم کے کتنے جانور کہاں کہاں ہیں؟ اورعالم بالا کے بے حد وحساب سیاروں کی ٹھیک تعداد کیا ہے؟ اوران میں سے ہرایک میں کس کس طرح کی مخلوقات موجود ہیں؟اوران مخلوقات کا ایک ایک فرد ہے اورکیا اس کی ضروریات ہیں؟ یہ سب کچھ اللہ کوتولازماََ معلوم ہونا چاہیے، کیونکہ اس نے انہیںپیدا کیا ہے، اوراسی کوان کے معاملات کی تدبیر اوران کے حالات کی نگہبانی کرنی ہے، اوروہی ان کے رزق کا انتظام کرنے والا ہے۔ لیکن دوسرا کوئی اپنے محدود میںیہ وسیع ومحیط علم رکھ کیسے سکتا ہےاوراس کا کیا تعلق اس کار خلاقی ورزاقی سے ہے کہ وہ ان چیزوں کوجانے؟ پھر یہ صفت قابل تجزیہ بھی نہیں ہے کہ کوئی بندہ مثلاََ صرف زمین کی حد تک، اورزمین میںبھی صرف انسانوں کی حد تک عالم الغیب ہو۔ یہ اُسی طرح قابل تجزیہ نہیں ہےجس طرح خداکی خلاقی ورزاقی اورقیومی وپروردگاری قابل تجزیہ نہیں ہے۔ ابتدائے آفرینش سے آج تک جتنے انسان دنیا میں پیدا ہوئے ہیں اورقیامت تک پیدا ہوں گے، رحم مادرمیں استقرار کے وقت سے آخری ساعت حیات تک ان سب کےتمام حالات وکیفیات کو جاننا آخر کس بندے کاکام ہوسکتا ہے؟ اوروہ کیسے اورکیوں اس کو جانے گا؟ کیا وہ اس بےحد وحساب خلقت کا خالق ہے؟ کیا اس نے ان کی زندہ ولادت کا انتظام کیا تھا؟ کیا اس نے ان میںسے ایک ایک شخص کی قسمت بنائی تھی؟ کیاوہ ان کی موت اورحیات ان کی صحت اورمرض، ان کی خوشحالی اوربدحالی اوران کےعروج اورزوال کے فیصلے کرنے کا زمہ دار ہے؟ اورآخر یہ کام کب سے اس کے زمے ہُوا؟ اس کی اپنی ولادت سے پہلے یا اس کے بعد؟ اورصرف انسانوں کی حد تک یہ زمہ داریاں محدود کیسے ہوسکتی ہیں؟ یہ کام تولازماََ زمین اورآسمانوں کے عالمگیر انتظام کا ایک جز ہے۔ جوہستی ساری کائنات کی تدبیر کررہی ہے وہی تو انسانوں کی پیدائش وموت اوران کے رزق کی تنگی وکشادگی اوران کی قسمتون کے بناؤ اوربگاڑ کی زمہ دار ہوسکتی ہے۔ اسی بنا ہریہ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے کہ عالم الغیب اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میںسے جس پر چاہے اورجس قدر چاہے اپنی معلومات کا کوئی گوشہ کھول دے، اورکسی غیب یا بعض غیوب کواس پر روشن کردے، لیکن غیب بحثیت مجموعی کسی نصیب نہیں اورعالم الغیب ہونے کی صفت صرف اللہ ربّ العلمین کےلیے مخصوص ہے۔ وعندہ مفاتح الغیب لایعلمھاالاھو، ’’اوراُسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں، انہیں کوئی نہیں جانتا اُس کے سوا’’(الانعام، آیت۵۹)ان اللہ عندہ علم الساعۃج وینزالغیث ج ویعلم مافی الارحام ط وما تدری نفس ماذا تکسب غد ط وما تدری نفس بای ارض تموت ط، ’’اللہ ہی کے پاس ہے قیامت کا علم اوردہی بارش نازل کرنے والا ہے۔ اوروہی جانتا ہے کہ ماؤں کے رحم میں کیا(پرورش پارہا) ہے اور کوئی متنفس نہیںجانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرگا۔ اورکسی متنفس کوخبر نہیں ہےکہ کس سرزمین میں اس کو موت آئے گی ‘‘(لقمان۔ آیت ۳۴)یعلم مابین ایدیھم وما خلفھم ولا یحیطون بشیء من علمہ الابما شآء، ’’وہ جانتا ہے جوکچھ مخلوقات کےسامنے ہے اورجو کچھ ان سے اورجھل اوراس کے علم میں سے کسی چیز پربھی وہ احاطہ نہیں کرسکتے الا یہ کہ وہ جس چیز کاچاہے انہیں علم دے‘‘(البقرہ۔آیت ۲۵۵)۔ قرآن مجید مخلوقات کےلیے علم غیب کی اس عام اورمطلق نفی پرہی اکتفا نہیں کرتا بلکہ خاص طورپرانبیاء علیہم السلام اورخود محمدﷺ کے بارے میں اس امر کی صاف صاف تصریح کرتا ہے کہ وہ عالم الغیب نہیں ہیں اوراُن کوغیب کا صرف اُتنا علم اللہ تعالیٰ کی طرف سےدیاگیا ہے جو رسالت کی خدمت انجان دینے کےلیے درکارتھا۔سورہ انعام آیت ۵۰، الاعراف آیت ۱۸۷، التوبہ آیت۱۰۱ ہود،آیت ۳۱ ،احزاب، آیت ۶۳ الاحقاف آیت ۹ التحریم،آیت ۳، اورالجن آیات ۲۶تا۲۸ اس معاملہ میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں چھوڑتیں۔ قرآن کی یہ تمام تصریحات زیر بحث آیت کی تائید وتشریح کرتی ہیں جن کے بعد اس امر میں کسی شک کی گنچائش نہیں رہتی کہ اللہ تعالیٰ کےسوا کس کوعالم الغیب سمجھنا اوریہ سمجھبا کہ کوئی دوسرا بھی جمیع ماکان دمایکون کا علم رکھتا ہے، قطعاََ ایک غیر اسلامی عقیدہ ہے۔ شیخین، ترمزی نسائی، امام احمد، ابن جریر، اورابن ابی حاتم نے صحیح سندوں کے ساتھ عائشہ ؓکا یہ قول نقل کیا ہے کہ من زعم انہ (ای النبی ﷺ)،یعلم مایکون فی عد فقد اعظم الفریۃ یقول قل لا یعلم من فی السموات والارض الغیب الا اللہ۔ یعنی جس نے دعویٰ کیا کہ نبی ﷺجانتے ہیں کل کیا ہونے والا ہے اس نے اللہ پرسخت جھوٹ کا الزام لگایا، کیونکہ اللہ توفرماتا ہے اےنبی تم کہہ دو کہ غیب کا علم اللہ کے سواآسمانوں اورزمین کے رہنے والوں میں سے کسی کوبھی نہیں ہے‘‘ ابن امنزر حضرت عبداللہ بن عباس کے مشہور شاگرد عکرمہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی ﷺ سے پوچھا’’ اے محمدﷺ، قیامت کب آئے گی اورہمارے علاقے میں قحط برپاہے بارش کب تک ہوگی ؟ اور میری بیوی حاملہ ہے، وہ لڑگا جنے گی یا لڑکی ؟ اوریہ تو مجھے معلوم ہے کہ میں نے آج کیا کمایا ہے، کل میں کیا کماؤں گا؟ اوریہ تو مجھے معلوم ہے کہ میں کہاں پیداہُوا ہوں ، مروں گا کہاں ‘‘ ان سوالات کے جواب میں سورہ لقمان کی وہ آیت حضورﷺ نے سنائی جو اورپر ہم نےنقل کہ ہے ان اللہ عندہ علم الساعۃ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔پھر بخاری ومسلم اوردوسری کتب حدیث کی وہ مشہور اروایت بھی اسی کی تائید کرتی ہے جس میں زکر ہے کہ صحابہ کے مجمع میں حضرت جبریلؑ نے انسانی شکل میں آکر حضورﷺ سے جوسوالات کیے تھےان میںایک یہ بھی تھا کہ قیامت کب آئے گی؟ حضورﷺ نے جواب دیا ماالمسئول عنھا باعلم من السائل (جس سے پوچھا جارہا ہے وہ خود پوچھنے والے سے زیادہ اس بارے میں کوئی علم نہیں رکھتا )۔ پھر فرمایا یہ اُن پانچ چیزوں میں سے ہے جن کا علم اللہ کے سوا کسی کونہیں ِاوریہی مزکورہ بالاآیت حضورﷺ نے تلاوت فرمائی ۔ |
Surah 27 : Ayat 66
بَلِ ٱدَّٲرَكَ عِلْمُهُمْ فِى ٱلْأَخِرَةِۚ بَلْ هُمْ فِى شَكٍّ مِّنْهَاۖ بَلْ هُم مِّنْهَا عَمُونَ
بلکہ آخرت کا تو علم ہی اِن لوگوں سے گم ہو گیا ہے، بلکہ یہ اس کی طرف سے شک میں ہیں، بلکہ یہ اُس سے اندھے ہیں1
1 | الوہیت کے بارےمیں ان لوگوں کی بنیادی غلطیون پرمتنبہ کرنے کے بعد اب یہ بتایا جارہا ہے کہ یہ لوگ جو ان شدید گمراہیوں میں پڑے ہوئے ہین اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ غوروفکر کرنے کے بعد یہ کسی دلیل و برہان سے اس نتیجے پرپینچے تھے کہ خدائی میں درحقیقت کچھ دوسری ہستیاں اللہ تعالیٰ کی شریک ہیں بلکہ اس کی اصلی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے کبھی سنجیدگی کے ساتھ غوروفکر ہی نہیں کیا ہے۔ چونکہ یہ لوگ آخرت سے بےخبر ہیں یا اس کی طرف سے شک میں ہیں، یااس سے اندھے بنے ہوئے ہیں، اس لیے فکر عقبیٰ سے بے نیازی نے ان کے اندرایک غیرذمہ دارانہ رویّہ پیدا کردیا ہے۔ یہ کائنات اورخود اپنی زندگی کے حقیقی مسائل کے بارے میں سرے سے کوئی سنجیدگی رکھتے ہی نہیں ان کواس کی پروا ہی نہیں ہے کہ حقیقت کیا ہے اوران کا فلسفہء حیات اُس حقیقت سے مطابقت رکھتا ہے یانہیں، کیونکہ ان کے نزدیک آخر کار مشرک اوردہریےاورموحد اورمشکک سب کومرکر مٹی ہوجانا ہے اورکسی چیز کا بھی کوئی نتیجہ نکلنا نہیں ہے۔ آخرت کا یہ مضمون اس سے پہلے کی آیت کے اس فقر سے نکلا ہے کہ’’ وہ نہیں جانتے کہ کب وہ اُٹھائے جائیں گے‘‘ اُس فقرےمیں تو یہ بتایا گیا تھا کہ جن کو معبود بنایا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان میں فرشتے، جن ، انبیاء اوراولیاء سب شامل تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان میں سے کوئی بھی آخرت کے وقت سے واقف نہیں ہے کہ وہ کب آئے گی۔ اس کے بعد اب عام مشرکین وکفار کے بارے میں تین باتیں ارشاد ہوئی ہیں۔ اوّل یہ کہ وہ سرے سے یہی نہیں جانتے کہ آخرت کبھی ہوگی بھی یانہیں ۔ دوسرے یہ کہ ان کی یہ بےخبری اس نبا پر نہیں ہے کہ انہیں اس کی اطلاع ہی کبھی نہ دی گئی ہو، بلکہ اس بنا پر ہے کہ جو خبر انہیں دی گئی اس پر انہوں نے یقین نہیں کیا بلکہ اس کی صحت میںشک کرنے لگے۔ تیسرے یہ ک انہون نے کبھی غور وخوض کرکے اُن دلائل کو جانچنے کی زحمت ہی نہیں اٹھائی جو آخرت کے وقوع کے بارے میں پیش کیے گئے، بلکہ اس کی طرف سے اندھے بن کر رہنے ہی کو انہوں نے ترجیح دی۔ |
Surah 27 : Ayat 71
وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هَـٰذَا ٱلْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَـٰدِقِينَ
وہ کہتے ہیں کہ "یہ دھمکی کب پُوری ہو گی اگر تم سچے ہو؟"1
1 | اس سےمراد وہی دھمکی ہےجواوپرکی آیت میںپوشیدہ ہے۔ ان کامطلب یہ تھا کہ اس فقرے میں ہماری خبرلینے کی جودرپردہ دھمکی جارہی ہے یہ آخر کب عمل میں لائی جائے گی؟ ہم تو تمہاری بات رد بھی کرچکے ہیں اورتمہیں نیچادکھانےکےلیے اپنی تدبیروں میںبھی ہم نےکوئی کسر نہیں اُٹھارکھی ہے۔ اب کیوں ہماری خبر نہیں لی جاتی؟ |
Surah 27 : Ayat 72
قُلْ عَسَىٰٓ أَن يَكُونَ رَدِفَ لَكُم بَعْضُ ٱلَّذِى تَسْتَعْجِلُونَ
کہو کیا عجب کہ جس عذاب کے لیے تم جلدی مچا رہے ہو اس کا ایک حصہ تمہارے قریب ہی آ لگا ہو1
1 | یہ شاہانہ کلام کااندازہ ہے۔ قادر مطلق کےکلام میںجب’’شاید‘‘اور’’کیاعجب‘‘اور’’کیابعیدہے‘‘ جیسےالفاظ آتے ہیں توان میں شک کاکوئی مفہوم نہیں ہوتا بلکہ ان سےشان بےنیازی کااظہار ہوتا ہے۔ اس کی قدرت ایسی غالب ہےکہ اس کا کسی چیز کو چاہنا اوراس چیز کا ہوجانا کویا ایک ہی بات ہے۔ اس کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کوئی کام کرناچاہے اوروہ نہ ہوسکے۔ اس لیے اس کا یہ فرمان کہ ’’کیا عجب ایساہو‘‘ یہ معنی رکھتا ہے کہ ایسا ہوکررہے گا اگر تم سیدھے نہ ہوئے۔ ایک معمولی تھا نہ دار بھی اگر بستی کےکسی شخص سے کہہ دے کہ تمہاری شامت پکاررہی ہے تو اسے رات کونیند نہیں آتی۔ کجا کہ قادر مطلق کسی سے کہہ دے کہ تمہارا بُرا وقت کچھ دورنہیں ہے اورپھر وہ بےخوف رہے۔ |
Surah 31 : Ayat 34
إِنَّ ٱللَّهَ عِندَهُۥ عِلْمُ ٱلسَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ ٱلْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِى ٱلْأَرْحَامِۖ وَمَا تَدْرِى نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًاۖ وَمَا تَدْرِى نَفْسُۢ بِأَىِّ أَرْضٍ تَمُوتُۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرُۢ
اُس گھڑی کا علم اللہ ہی کے پاس ہے، وہی بارش برساتا ہے، وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے پیٹوں میں کیا پرورش پا رہا ہے، کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرنے والا ہے اور نہ کسی شخص کو یہ خبر ہے کہ کس سرزمین میں اس کی موت آنی ہے، اللہ ہی سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے1
1 | یہ آیت دراصل اس سوال کا جواب ہے جو قیامت کا ذکراورآخرت کا وعدہ سن کر کفارِ مکہ بار بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کرتے تھے کہ آخر وہ گھڑی کب آئے گی۔ قرآن مجید میں کہیں ان کے اس سوال کو نقل کر کے اس کا جواب دیا گیا ہے، اور کہیں نقل کیے بغیر جواب دے دیا گیا ہے، کیوں کہ مخاطبین کے ذہن میں وہ موجود تھا۔ یہ آیت بھی انہی آیات میں سے ہے جن میں سوال کا ذکر کیے بغیر اس کا جواب دیا گیا ہے۔ پہلا فقرہ:’’ اُس کھڑی کا علم اللہ ہی کے پاس ہے۔‘‘ یہ اصل سوال کا جواب ہے۔ اس کے بعد کے چاروں فقرے اس کے لیے دلیل کے طور پر ارشاد ہوئے ہیں۔ دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ جن معاملات سے انسان کی قریب ترین دلچسپیاں وابستہ ہیں، انسان ان کے متعلق بھی کوئی علم نہیں رکھتا، پھر بھلا یہ جاننا اس کے لیے کیسے ممکن ہے کہ ساری دُنیا کے انجام کا کب آئے گا ۔ تمہاری خوشحالی و بد حالی کا بڑا انحصار بارش پر ہے۔ مگر اس کا سررشتہ بالکل اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ جب، جہاں، جتنی چاہتا ہے برساتا ہے اورجب چاہتا ہے روک لیتا ہے۔ ہم قطعاً نہیں جانتے کہ کہاں، کس وقت کتنی بارش ہو گی اور کونسی زمین اس سے محروم رہ جائے گی، یا کس زمین پر بارش اُلٹی نقصان دہ ہو جائے گی۔ تمہاری اپنی بیویوں کے پیٹ میں تمہارے اپنے نطفے سے حمل قرار پاتا ہی جس سے تمہاری نسل کا مستقبل وابستہ ہوتا ہے۔ مگر تم نہیں جانتے کہ کیا چیز اس پیٹ میں پرورش پا رہی ہے اور کس شکل میں کن بھلائیوں یا بُرائیوں کو لیے ہوئے وہ برآمد ہو گی۔ تم کو یہ تک پتہ نہیں ہے کہ کل تمہارے ساتھ کیا کچھ پیش آنا ہے۔ ایک اچانک حادثہ تمہاری تقدیر بدل سکتا ہے، مگر ایک منٹ پہلے بھی تم کو اس کی خبر نہیں ہوتی، تم کو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ تمہاری اس زندگی کا خاتمہ آخر کار کہاں کس طرح ہو گا۔ یہ ساری معلومات اللہ نے اپنے ہی پاس رکھی ہیں اور ان میں سے کسی کا علم بھی تم کو نہیں دیا۔ ان میں سے ایک ایک چیز ایسی ہے جسے تم چاہتے ہو کہ پہلے سے تمہیں اس کا علم ہو جائے تو کچھ اس کے لیے پیش بندی کر سکو لیکن تمہارے لیے اس کے سوا چارہ نہیں ہے کہ ان معاملات میں اللہ ہی کی تدبیر اور اسی کی قضا پر بھروسہ کرو۔ اسی طرح دُنبے کے اختتام کی ساعت کے معاملے میں بھی اللہ کے فیصلے پر اعتماد کرنے کے سوا چارہ نہیں ہے۔ اِس کا علم بھی نہ کسی کو دیا گیا ہے نہ دیا جا سکتا ہے۔ یہاں ایک بات اور بھی اچھی طرح سمجھ لینی ضروری ہے، کہ اس آیت میں امورِ غیب کی کوئی فہرست نہیں دی گئی ہے جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے ۔ یہاں تو صرف سامنے کی چند چیزیں مثالاً پیش کی گئی ہیں جن سے انسان کی نہایت گہری اور قریبی دلچسپیاں وابستہ ہیں اور انسان اس سے بے خبر ہے ۔ اس سے نتیجہ نکالنا درست نہ ہو گا کہ صرف یہی پانچ امورغیب ہیں جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ حالاں کہ غیب نام ہی اُس چیز کا ہے جو مخلوقات سے پوشیدہ اور صرف اللہ پر روشن ہو، اور فی الحقیقت اِس غیب کی کوئی حد نہیں ہے۔ (اس مسئلے پر تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جِلد سوم، صفحات ۵۹۵ تا ۵۹۸) |
Surah 33 : Ayat 63
يَسْــَٔلُكَ ٱلنَّاسُ عَنِ ٱلسَّاعَةِۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ ٱللَّهِۚ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ ٱلسَّاعَةَ تَكُونُ قَرِيبًا
لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ قیامت کی گھڑی کب آئے گی1 کہو، اُس کا علم تو اللہ ہی کو ہے تمہیں کیا خبر، شاید کہ وہ قریب ہی آ لگی ہو
1 | رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ سوال عموماً کفار و منافقین کیا کرتے تھے۔ اور اس سے ان کا مقصد علم حاصل کرنا نہ تھا بلکہ وہ دِل لگی اور استہزاء کے طور پر یہ بات پوچھا کرتے تھے۔ دراصل ان کو آخرت کے آنے کا یقین نہ تھا۔ قیامت کے تصوّر کو وہ محض ایک خالی خولی دھمکی سمجھتے تھے۔ وہ قیامت کے آنے کی تاریخ اس لیے دریافت نہیں کرتے تھے کہ اس کے آنے سے پہلے وہ اپنے معاملات درست کر لینے کا ارادہ رکھتے ہوں، بلکہ انکا اصل مطلب یہ ہوتا تھا کہ اے محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) ہم نے تمہیں نیچا دکھانے کے لیے یہ کچھ کیا ہے اور آج تک تم ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے ہو، اب ذرا ہمیں بتاؤ تو سہی کہ آخر وہ قیامت کب برپا ہو گی جب ہماری خبر لی جائے گی۔ |
Surah 34 : Ayat 29
وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هَـٰذَا ٱلْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَـٰدِقِينَ
یہ لوگ تم سے کہتے ہیں کہ وہ (قیامت کا) وعدہ کب پورا ہو گا اگر تم سچے ہو؟1
1 | یعنی جس وقت کے متعلق ابھی تم نے کہا ہے کہ ’’ ہمارا رب ہم کو جمع کرے گا اور ہمارے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دے گا ‘‘، وہ وقت آخر کب آئے گا؟ ایک مدت سے ہمارا مقدمہ چل رہا ہے۔ ہم تمہیں بار بار جھٹلا چکے ہیں اور کھلم کھلا تمہاری مخالفت کیے جا رہے ہیں۔ اب اس کا فیصلہ کیوں ہیں کر ڈالا جاتا؟ |