Ayats Found (1)
Surah 70 : Ayat 4
تَعْرُجُ ٱلْمَلَـٰٓئِكَةُ وَٱلرُّوحُ إِلَيْهِ فِى يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُۥ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ
ملائکہ اور روح1 اُس کے حضور چڑھ کر جاتے ہیں2 ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے3
3 | سورہ حج ، آیت 47 میں ارشاد ہوا ہے ’’ یہ لوگ تم سے عذاب کے لیے مجلد مچا رہے ہیں۔ اللہ ہر گز اپنے وعدے کے خلاف نہ کرے گا ، مگر تیرے رب کے ہاں کا ایک دن تمہارے شمار کے ہزار برس کے برابر ہوا کرتا ہے۔‘‘۔ سورہ السجدہ ، آیت 5 میں فرمایا گیا ہے ’’وہ آسمان سے زمین تک دنیا کے معاملات کی تدبیر کرتا ہے، پھر (اس کی روداد) اوپر اس کے حضور جاتی ہے ایک ا یسے دن میں جس کی مقدار تمہارے شمار سے ایک ہزار سال ہے‘‘۔ اور یہاں عذاب کے مطالبہ کے جواب میں اللہ تعالٰی کے ایک دن کی مقدار پچاس ہزار سال بتائی گئی ہیں، پھر رسول اللہ ﷺ کو تلقین کی گئی ہے کہ جو لوگ مذاق کے طور پر عذاب کا مطالبہ کر رہے ہیں ان کی باتوں پر صبر کریں اور اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ اس کو دور سمجھتے ہیں اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں۔ ان سب ارشادات پر مجموعی نگاہ ڈالنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ لوگ اپنے ذہن اور اپنے دائرہ فکر و نظر کی تنگی کے باعث خدا کے معاملات کو اپنے وقت کے پیمانوں سے ناپتے ہیں اور انہیں سو پچاس برس کی مدت بھی بڑی لمبی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن اللہ تعالٰی کے ہاں ایک ایک اسکیم ہزار ہزار سال اور پچاس پچاس ہزار سال کی ہوتی ہے۔ اور یہ مدت بھی محض بطور مثال ہے، ورنہ کائناتی منصوبے لاکھوں اور کروڑوں اور اربوں سال کے بھی ہوتے ہیں۔ انہیں منصوبوں میں سے ایک اہم منصوبہ وہ ہے جس کے تحت زمین پر نوع انسانی کو پیدا کیا گیا ہے اور اس کے لیے ایک وقت مقرر کر دیا گیا ہے کہ فلاں ساعت خاص تک یہاں اس نوع کو کام کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ کوئی انسان یہ نہیں جا ن سکتا کہ یہ منصوبہ کب شروع ہوا، کتنی مدت اس کی تکمیل کے لیے طے کی گئی ہے، کون سی ساعت اس کے اختتام کے لیے مقرر کی گئی ہے جس پر قیامت برپا کی جائے گی، اور کون سا وقت اس غرض کے لیے رکھا گیا ہے کہ آغاز آفرینش سے قیامت تک پیدا ہونے والے سارے انسانوں کو بیک وقت اٹھا کر ان کا حساب لیا جائے۔ اس منصوبے کے صرف اس حصے کو ہم کسی حد تک جانتے ہیں جو ہمارے سامنے گزر رہا ہے یا جس کے گزشتہ ادوار کی کوئی جزوی سی تاریخ ہمارے پاس موجود ہے۔ رہا اس کا آغاز و انجام، تو اسے جاننا تو درکنار، اسے سمجھنا بھی ہمارے بس سے باہر ہے، کجا کہ ہم ان حکمتوں کو سمجھ سکیں جو اسے کے پیچھے کام کر رہی ہیں۔ اب جو لوگ یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اس منصوبے کو ختم کر کے اس کا انجام فوراً ان کے سامنے لے آیا جائے، اور اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو اسے اس بات کی دلیل قرار دیتے کہ انجام کی بات ہی سرے سے غلط ہے، وہ درحقیقت اپنی ہی نادانی کا ثبوت پیش کرتے ہیں (مزیدتشریح کے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم، الحج ، حواشی 92۔93۔ جلد چہارم، السجدہ، حاشیہ 9) |
2 | یہ سارا مضمون متشابہات میں سے ہے جس کے معنی متعین نہیں کیے جا سکتے۔ ہم نہ فرشتوں کی حقیقت جانتے ہیں، نہ ان کے چڑھنے کی کیفیت کو سمجھ سکتے ہیں، نہ یہ بات ہمارے ذہن کی گرفت میں آ سکتی ہے کہ وہ زینے کیسے ہیں جن پر فرشتے چڑھتے ہیں، اور اللہ تعالٰی کے بارے میں بھی یہ تصور نہیں کیا سکتا کہ وہ کسی خاص مقام پر رہتا ہے، کیونکہ اس کی ذات زمان و مکان کی قیود سے منزہ ہے |
1 | روح سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں اور ملائکہ سے الگ ان کا ذکر ان کی عظمت پر دلالت کرتا ہے۔ سورہ شعراء میں فرمایا گیا ہے کہ نزل بہ الروح الامین علی قبلک (اس قرآن کو روح امین لے کر تمہارے دل پر نازل ہوئے ہیں)۔ اور سورہ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے قل من کان عدوا لجبریل فانہ نزلہ علی قبلک (کہو کہ جو شخص جبریلؑ کا اس لیے دشمن ہو کہ اس نے یہ قرآن تمہارے قلب پر نازل کیا ہے ۔ ۔ ۔ ) ان دونوں آیتوں کو ملا کر پڑھنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ روح سے مراد جبریلؑ ہی ہیں |