Ayats Found (7)
Surah 6 : Ayat 12
قُل لِّمَن مَّا فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِۖ قُل لِّلَّهِۚ كَتَبَ عَلَىٰ نَفْسِهِ ٱلرَّحْمَةَۚ لَيَجْمَعَنَّكُمْ إِلَىٰ يَوْمِ ٱلْقِيَـٰمَةِ لَا رَيْبَ فِيهِۚ ٱلَّذِينَ خَسِرُوٓاْ أَنفُسَهُمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ
ان سے پوچھو، آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ کس کاہے؟کہو سب کچھ اللہ ہی کا ہے1، اس نے رحم و کرم کا شیوہ اپنے اوپر لازم کر لیا ہے (اسی لیے وہ نافرمانیوں اور سرکشیوں پر تمہیں جلدی سے نہیں پکڑ لیتا)، قیامت کے روز وہ تم سب کو ضرور جمع کرے گا، یہ بالکل ایک غیر مشتبہ حقیقت ہے، مگر جن لوگوں نے اپنے آپ کو خود تباہی کے خطرے میں مبتلا کر لیا ہے وہ اسے نہیں مانتے
1 | یہ ایک لطیف اندازِ بیان ہے ۔ پہلے حکم ہوا کہ ان سے پوچھو، زمین و آسمان کی موجودات کس کی ہیں۔ سائل نے سوال کیا اور جواب کے انتظار میں ٹھیر گیا۔ مخاطب اگرچہ خود قائل ہیں کہ سب کچھ اللہ کا ہے ، لیکن نہ تو وہ غلط جواب دینے کی جرأت رکھتے ہیں ، اور نہ صحیح جواب دینا چاہتے ہیں، کیونکہ اگر صحیح جواب دیتے ہیں تو انھیں خوف ہے کہ مخالف اس سے ان کے مشرکانہ عقیدہ کے خلاف استدلال کرے گا۔ اس لیے وہ کچھ جواب نہیں دیتے۔ تب حکم ہوتا ہے کہ تم خود ہی کہو کہ سب کچھ اللہ کا ہے |
Surah 17 : Ayat 99
۞ أَوَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّ ٱللَّهَ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ قَادِرٌ عَلَىٰٓ أَن يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ وَجَعَلَ لَهُمْ أَجَلاً لَّا رَيْبَ فِيهِ فَأَبَى ٱلظَّـٰلِمُونَ إِلَّا كُفُورًا
کیا ان کو یہ نہ سوجھا کہ جس خدا نے زمین اور آسمانو ں کو پیدا کیا ہے وہ اِن جیسوں کو پیدا کرنے کی ضرور قدرت رکھتا ہے؟ اس نے اِن کے حشر کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے جس کا آنا یقینی ہے، مگر ظالموں کو اصرار ہے کہ وہ اس کا انکار ہی کریں گے
Surah 18 : Ayat 21
وَكَذَٲلِكَ أَعْثَرْنَا عَلَيْهِمْ لِيَعْلَمُوٓاْ أَنَّ وَعْدَ ٱللَّهِ حَقٌّ وَأَنَّ ٱلسَّاعَةَ لَا رَيْبَ فِيهَآ إِذْ يَتَنَـٰزَعُونَ بَيْنَهُمْ أَمْرَهُمْۖ فَقَالُواْ ٱبْنُواْ عَلَيْهِم بُنْيَـٰنًاۖ رَّبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْۚ قَالَ ٱلَّذِينَ غَلَبُواْ عَلَىٰٓ أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًا
اِس طرح ہم نے اہل شہر کو ان کے حال پر مطلع کیا1 تاکہ لوگ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ قیامت کی گھڑی بے شک آ کر رہے گی2 (مگر ذرا خیال کرو کہ جب سوچنے کی اصل بات یہ تھی) اُس وقت وہ آپس میں اِس بات پر جھگڑ رہے تھے کہ اِن (اصحاب کہف) کے ساتھ کیا کیا جائے کچھ لوگوں نے کہا 3"اِن پر ایک دیوار چن دو، ان کا رب ہی اِن کے معاملہ کو بہتر جانتا ہے" مگر جو لوگ اُن کے معاملات پر غالب تھے 4انہوں نے کہا 5" ہم تو ان پر ایک عبادت گاہ بنائیں گے"
5 | مسلمانوں میں سے بعض لوگوں نے قرآن مجید کی اس آیت کا بالکل الٹا مفہوم لیا ہے۔ وہ اسے دلیل ٹھیرا کر مقبِر صلحاء پر عمارتیں اور مسجدیں بنانے کو جائز قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ یہاں قرآن ان کی اس گمراہی کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ جو نشانی ان ظالموں کو بعث بعد الموت اور امکان آخرت کا یقین دلانے لیے دکھائی گئی تھی اسے انہوں نے ارتکاب شرک کے لیے ایک خدا داد موقع سمجھا اور خیال کیا کہ چلو، کچھ اور دلی پوجا پاٹ کے لیے ہاتھ آ گئے۔ پھر آخر اس آیت سے قبور صالحین پر مسجدیں بنانے کے لیے کیسے استدلال کیا جا سکتا ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے یہ ارشادات اس کی نہی میں موجود ہیں : لعن اللہ تعالٰی زائرات القبور و المتخذین علیھا المساجد والسرج۔ (احمد، ترمذی، ابو داؤد نسائی۔ ابن ماجہ)۔ ’’اللہ نے لعنت فرمائی ہے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر، اور قبروں پر مسجدیں بنانے اور چراغ روشن کرنے والوں پر۔ الاوان من کان قبلکم کا نو ا یتخذون قبور انبیاء ھم مَساجد فانی اَنھٰکم عن ذٰلک (مسلم) خبردار رہو، تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنا دیتے تھے، میں تمہیں اس حرکت سے منع کرتا ہوں۔ لعن اللہ تعالٰی الیھود و النصاریٰ اتخذوا قبور انبیآء ھم مساجد (احمد، بخاری، مسلم، نَسائی) ’’اللہ نے لعنت فرمائی یہود اور نصاریٰ پر، انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا۔ اِنَّ اولٰٓئک اذا کان فیھم الر جل الصالح فما ت بنو ا علیٰ قبرہ مسٰجد او صورو افیہ تلک الصور اولٰٓئک شرار الخلق یوم القیٰمۃ (احمد ، بخاری، مسلم، نسائی) ’’ان لوگوں کا حال یہ تھا کہ اگر ان میں کوئی مرد صالح ہوتا تو اس کے مرنے کے بعد اس کی قبر پر مسجدیں بناتے اور اس کی تصویریں تیار کرتے تھے۔ یہ قیامت کے روز بد ترین مخلوقات ہوں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ان تصریحات کی موجودگی میں کون خدا ترس آدمی یہ جرأت کر سکتا ہے کہ قرآن مجید میں عیسائی پادریوں اور رومی حکمرانوں کے جس گمراہانہ فعل کا حکایۃً ذکر کیا گیا ہے اس کو ٹھیک وہی فعل کرنے کے لیے دلیل و حجت ٹھیرائے؟ اس موقع پر یہ ذکر کر دینا بھی خالی اس فائدہ نہیں کہ ۱۸۳۴ء میں ریورنڈٹی ارنڈیل (Arundeil) نے ایشیائے کوچک کے اکتشافات‘‘ (Discoveries in Asia Mino) کے نام سے اپنے جو مشاہدات شائع کیے تھے ان میں وہ بتاتا ہے کہ قدیم شہر افسس کے کھنڈرات سے متصل ایک پہاڑی پر اس نے حضرت مریم اور ’’سات لڑکوں‘‘ (یعنی اصحاب کہف) کے مقبروں کے آثار پائے ہیں۔ |
4 | اس سے مراد رومی سلطنت کے ارباب اقتدار اور مسیحی کلیسا کے مذہبی پیشوا ہیں جن کے مقابلے میں صالح العقیدہ عیسائیوں کی بات نہ چلتی تھی۔ پانچویں صدی کے وسط تک پہنچتے پہنچتے عام عیسائیوں میں اور خصوصاً رومن کیتھولک کلیسا میں شرک اور اولیاء پرستی اور قبر پرستی کا پورا زور ہو چکا تھا، بزرگوں کے آستانے پوجے جا رہے تھے، اور مسیح، مریم اور حواریوں کے مجسمے گرجوں میں رکھے جا رہے تھے۔ اصحاب کہف کے بعث سے چند ہی سال پہلے ۴۳۱ء میں پوری عیسائی دنیا کے مذہبی پیشواؤں کی ایک کونسل اسی افسس کے مقام پر منعقد ہو چکی تھی جس میں مسیح علیہ السلام کی الوہیت اور حضرت مریمؑ کے ’’مادر خدا‘‘ ہونے کا عقیدہ چرچ کا سرکاری عقیدہ قرار پایا تھا۔ اس تاریخ کو نگاہ میں رکھنے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اَلَّذِیْنَ غَلَبُوْ اعَلٰٓی اَمْرِھِمْ سے مراد وہ لوگ ہیں جو سچے پیروان مسیح کے مقابلے میں اس وقت عیسائی عوام کے رہنما اور سربراہ کار بنے ہوئے تھے اور مذہبی و سیاسی امور کی باگیں جن کے ہاتھوں میں تھیں۔ یہی لوگ دراصل شرک کے علم بردار تھے اور انہوں نے ہی فیصلہ کیا کہ اصحاب کہف کا مقبرہ بنا کر اس کو عبادت گاہ بنایا جائے۔ |
3 | فحوائے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ صالحین نصاریٰ کا قول تھا۔ ان کے رائے یہ تھی کہ اصحاب کہف جس طرح غار میں لیٹے ہوئے ہیں اسی طرح انہیں لیٹا رہنے دو اور غار کے دہانے کو تیغا دو، ان کا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ کون لوگ ہیں، کس مرتبے کے ہیں اور کس جزا کے مستحق ہیں۔ |
2 | سُریانی روایت کے مطابق اس زمانے میں وہاں قیامت اور عالِم آخرت کے مسئلے پر زور شور کی بحث چھڑی ہوئی تھی۔ اگرچہ رومی سلطنت کے اثر سے عام لوگ مسیحیت قبول کر چکے تھے، جس کے بنیادی عقائد میں آخرت کا عقیدہ بھی شامل تھا، لیکن ابھی تک رومی شرک و بت پر ستی اور یونانی فلسفے کے اثرات کافی طاقت ور تھے جن کی بدولت بہت سے لوگ آخرت سے انکار، یا کم ازکم اس کے ہونے میں شک کرتے تھے۔ پھر اس شک و انکار کو سب سے زیادہ جو چیز تقویت پہنچا رہی تھی وہ یہ تھی کہ افسس میں یہودیوں کی بڑی آبادی تھی اور ان میں سے ایک فرقہ (جسے صَدوقی کہا جاتا تھا) آخرت کا کھلم کھلا منکر تھا۔ یہ گروہ کتاب اللہ (یعنی توراۃ) سے آخرت کے انکار پر دلیل لاتا تھا اور مسیحی علماء کے پاس اس کے مقابلے میں مضبوط دلائل موجود نہ تھے۔ متی، مرقس، لوقا، تینوں انجیلوں میں صدوقیوں اور مسیح علیہ السلام کے اس مناظرے کا ذکر ہمیں ملتا ہے جو آخرت کے مسئلے پر ہوا تھا، مگر تینوں نے مسیح علیہ السلام کی طرف سے ایسا کمزور جواب نقل کیا ہے جس کی کمزوری کو خود علمائے مسیحیت بھی تسلیم کرتے ہیں (ملاحظہ ہو مری باب ۲۲۔ آیت ۲۳۔ مرقس باب ۱۲۔ آیت ۱۸۔ ۲۷۔ لوقاباب ۲۰۔ آیت ۲۷۔۴۰) اسی وجہ سے منکرین آخرت کا پلا بھاری ہو رہا تھا اور مومنین آخرت بھی شک و تذبذب میں مبتلا ہوتے جا رہے تھے۔ عین اس وقت اصحاب کہف کے بعث کا یہ واقعہ پیش آیا اور اس نے بعث بعد الموت کا ایک باقابل انکار ثبوت بہم پہنچا دیا۔ |
1 | یعنی جب وہ شخص کھانا خریدنے کے لیے شہر گیا تو دنیا بدل چکی تھی۔ بت پرست روم کو عیسائی ہوئے ایک مدت گزر چکی تھی۔زبان تہذیب، تمدن، لباس ہر چیز میں نمایاں فرق آگیا تھا۔ دو سو برس پہلے کا یہ آدمی اپنی سج دھج، لباس، زبان ہر چیز کے اعتبار سے فوراً ایک تماشا بن گیا۔ اور جب اس نے قیصر ڈیسیس کے وقت کا سکہ کھانا خریدنے کے لیے پیش کیا تو دُکاندار کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ سریانی روایت کی رو سے دُکاندار کو اس پر شبہ یہ ہوا کہ شاید یہ کسی پرانے زمانے کا دفینہ نکال لایا ہے۔ چنانچہ اس نے آس پاس کے لوگوں کو اس طرف متوجہ کیا اور آخرکار اس شخص کو حکام کے سامنے پیش کیا گیا۔ وہاں جا کر یہ معاملہ کھلا کہ یہ شخص تو ان پیروان مسیح میں سے ہے جو دو سو برس پہلے اپنا ایمان بچانے کے لیے بھاگ نکلے تھے۔ یہ خبر آناً فاناً شہر کی عیسائی آبادی میں پھیل گئی اور حکام کے ساتھ لوگوں کا ایک ہجوم غار پہنچ گیا۔ اب جو اصحاب کہف خبر دار ہوئے کہ وہ دوسو برس بعد سو کر اٹھے ہیں تو وہ اپنے عیسائی بھائیوں کو سلام کر کے لیٹ گئے اور ان کی روح پرواز کر گئی۔ |
Surah 22 : Ayat 7
وَأَنَّ ٱلسَّاعَةَ ءَاتِيَةٌ لَّا رَيْبَ فِيهَا وَأَنَّ ٱللَّهَ يَبْعَثُ مَن فِى ٱلْقُبُورِ
اور یہ (اِس بات کی دلیل ہے) کہ قیامت کی گھڑی آ کر رہے گی، اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، اور اللہ ضرور اُن لوگوں کو اٹھائے گا جو قبروں میں جا چکے ہیں1
1 | ان آیات میں انسان کی پیدائش کے مختلف اطوار ، زمین پر بارش کے اثرات ، اور نباتات کی پیداوار کو پانچ حقیقتوں کی نشان دہی کرنے والے دلائل قرار دیا گیا ہے : 1 : یہ کہ اللہ ہی حق ہے ، 2 : یہ کہ وہ مردوں کو زندہ کرتا ہے ، 3 : یہ کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے ، 4 : یہ کہ قیامت کی گھڑی آ کر رہے گی، اور 5: یہ کہ اللہ ضرور ان سب لوگوں کو زندہ کر کے اٹھائے گا جو مر چکے ہیں۔ اب دیکھیے کہ یہ آثار ان پانچوں حقیقتوں کی کس طرح نشان دہی کرتے ہیں۔ پورے نظام کائنات کو چھوڑ کر آدمی صرف اپنی ہی پیدائش پر غور کرے تو معلوم ہو جائے کہ ایک ایک انسان کی ہستی میں اللہ کی حقیقی اور واقعی تدبیر ہر وقت بالفعل کار فرما ہے اور ہر ایک کے وجود اور نشو و نما کا ایک ایک مرحلہ اس کے ارادی فیصلے پر ہی طے ہوتا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ ایک لگے بندھے قانون پر ہو رہا ہے جس کو ایک اندھی بہری بے علم و بے ارادہ فطرت چلا رہی ہے۔ لیکن وہ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو انہیں نظر آئے کہ ایک ایک فرد انسانی جس طرح وجود میں آتا ہے اور پھر جس طرح وہ وجود کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے اس میں ایک حکیم و قادر مطلق ہستی کا ارادی فیصلہ کس شان سے کام کر رہا ہے۔ آدمی جو غذا کھاتا ہے اس میں کہیں انسانی تخم موجود نہیں ہوتا، نہ اس میں کوئی چیز ایسی ہوتی ہے جو نفس انسانی کے خواص پیدا کرتی ہو۔ یہ غذا جسم میں جا کر کہیں بال ، کہیں گوشت اور کہیں ہڈی بنتی ہے ، اور ایک خاص مقام پر پہنچ کر یہی اس نطفے میں تبدیل ہو جاتی ہے جس کے اندر انسان بننے کی استعداد رکھنے والے تخم موجود ہوتے ہیں۔ ان تخموں کی کثرت کا حال یہ ہے کہ ایک وقت میں مرد سے جتنا نطفہ خارج ہوتا ہے اس کے اندر کئی کروڑ تخم پائے جاتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک بیضۂ انثٰی سے مِل کر انسان بن جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مگر یہ کسی حکیم و قدیر اور حاکم مطلق کا فیصلہ ہے جو ان بے شمار امیدواروں میں سے کسی ایک کو کسی خاص وقت پر چھانٹ کر بیضۂ انثٰی سے ملنے کا موقع دیتا ہے اور اس طرح استقرار حمل رونما ہوتا ہے۔ پھر استقرار کے وقت مرد کے تخم اور عورت کے بیضیٰ خلیے (Egg Cell) کے ملنے سے جو چیز ابتداءً بنتی ہے وہ اتنی چھوٹی ہوتی ہے کہ خورد بین کے بغیر نہیں دیکھی جا سکتی۔ یہ حقیر سی چیز 9 مہینے اور چند روز میں رحم کے اندر پرورش پا کر جن نے شمار مرحلوں سے گزرتی ہوئی ایک جیتے جاگتے انسان کی شکل اختیار کرتی ہے ان میں سے ہر مرحلے پر غور کرو تو تمہارا دل گواہی دے گا کہ یہاں ہر آن ایک حکیم فعال کا ارادی فیصلہ کام کرتا رہا ہے۔ وہی فیصلہ کرتا ہے کہ کسے تکمیل کو پہنچانا ہے اور کسے خون کے لوتھڑے ، یا گوشت کی بوٹی، یا ناتمام بچے کی شکل میں ساقط کر دینا ہے۔ وہی فیصلہ کرتا ہے کہ کس کو زندہ نکالنا ہے اور کس کو مردہ۔ کس کو معمولی انسان کی صورت و ہیئت میں نکالنا ہے اور کسے ان گنت غیر معمولی صورتوں میں سے کوئی صورت دے دینی ہے۔ کس کو صحیح و سالم نکالنا ہے اور کسے اندھا ، بہرا، گونگا یا ٹُنڈا اور لُنجا بنا کر پھینک دینا ہے۔ کس کو خوبصورت بنانا ہے اور کسے بد صورت۔ کس کو مرد بنانا ہے اور کس کو عورت۔ کس کو اعلیٰ درجے کی قوتیں اور صلاحیتیں دے کر بھیجنا ہے اور کسے کو دن اور کند ذہن پیدا کرنا ہے۔ یہ تخلیق و تشکیل کا عمل ، جو ہر روز کروڑوں عورتوں کے رحموں میں ہو رہا ہے ، اس کے دوران میں کسی وقت کسی مرحلے پر بھی ایک خدا کے سوا دنیا کی کوئی طاقت ذرہ برابر اثر انداز نہیں ہو سکتی، بلکہ کسی کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کس پیٹ میں کیا چیز بن رہی ہے اور کیا بن کر نکلنے والی ہے۔ حالانکہ انسانی آبادیوں کی قسمت کے کم از کم 90 فی صدی فیصلے ان ہی مراحل میں ہو جاتے ہیں اور یہیں افراد ہی کے نہیں ، قوموں کے ، بلکہ پوری نوع انسانی کی مستقبل کی شکل بنائی اور بگاڑی جاتی ہے۔ اس کے بعد بچے دنیا میں آتے ہیں ، ان میں سے ہر ایک کے بارے میں یہ فیصلہ کون کرتا ہے کہ کسے زندگی کا پہلا سانس لیتے ہی ختم ہو جانا ہے ، کسے بڑھ کر جواب ہونا ہے ، اور کس کو قیامت کے بوریے سمیٹنے ہیں ؟ یہاں بھی ایک غالب ارادہ کار فرما نظر آتا ہے اور غور کیا جاۓ تو محسوس ہو تا ہے کہ اس کی کارفرمائی کسی عالمگیر تدبیر و حکمت پر مبنی ہے جس کے مطابق وہ افراد ہی کی نہیں ، قوموں اور ملکوں کی قسمت کے بھی فیصلے کر رہا ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر بھی اگر کسی کو اس امر میں شک ہے کہ اللہ ’’حق‘‘ ہے اور صرف اللہ ہی ’’حق‘‘ ہے تو بے شک وہ عقل کا اندھا ہے۔ دوسری بت جو پیش کردہ آثار سے ثابت ہوتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ ’’ اللہ مردوں کو زندہ کرتا ہے ‘‘۔ لوگوں کو تو یہ سن کر اچنبھا ہوتا ہے کہ اللہ کسی وقت مردوں کو زندہ کرے گا، مگر وہ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو انہیں نظر آئے کہ وہ تو ہر وقت مردے جلا رہا ہے۔ جن مادوں سے آپ کا جسم بنا ہے اور جن غذاؤں سے وہ پرورش پاتا ہے ان کا تجزیہ کر کے دیکھ لیجیے۔ کوئلہ، لوہا، چونا، کچھ نمکیات ، کچھ ہوائیں ، اور ایسی ہی چند چیزیں اور ہیں۔ ان میں سے کسی چیز میں بھی حیات اور نفس انسانی کے خواص موجود نہیں ہیں۔ مگر ان ہی مردہ ، بے جان مادوں کو جمع کر کے آپ کو جیتا جاگتا وجود بنا دی گیا ہے۔ پھر انہی مادوں کی غذا آپ کے جسم میں جاتی ہے اور وہاں اس سے مردوں میں وہ تخم اور عورتوں میں وہ بیضی خلیے بنتے ہیں جن کے ملنے سے آپ ہی جیسے جیتے جاگتے انسان روز بن بن کر نکل رہے ہیں۔ اس کے بعد ذرا اپنے گرد و پیش کی زمین پر نظر ڈالیے۔ بے شمار مختلف چیزوں کے بیج تھے جن کو ہواؤں اور پرندوں نے جگہ جگہ پھیلا دیا تھا، اور بے شمار مختلف چیزوں کی جڑیں تھیں جو جگہ جگہ پیوند خاک ہو ئی پڑی تھیں۔ ان میں کہیں بھی بناتی زندگی کا کوئی ظہور موجود نہ تھا۔ آپ کے گرد و پیش کی سوکھی زمین ان لاکھوں مردوں کی قبر بنی ہوئی تھی۔ مگر جونہی کہ پانی کا ایک چھینٹا پڑا ، ہر طرف زندگی لہلہانے لگی، ہر مردہ جڑ اپنی قبر سے جی اٹھی ، اور ہر بے جان بیج ایک زندہ پودے کی شکل اختیار کر گیا۔ یہ احیائے اموات کا عمل ہر برسات میں آپ کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے۔ تیسری چیز جو ان مشاہدات سے ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ’’ اللہ ہر چیز پر قادر ہے ‘‘ ساری کائنات کو چھوڑ کر صرف اپنی اسی زمین کو لے لیجیے ، اور زمین کے بھی تمام حقائق و واقعات کو چھوڑ کر صرف انسان اور نباتات ہی کی زندگی پر نظر ڈال کر دیکھ لیجیے۔ یہاں اس کی قدرت کے جو کرشمے آپ کو نظر آتے ہیں کیا انہیں دیکھ کر کوئی صاحب عقل آدمی یہ بات کہہ سکتا ہے کہ خدا بس وہی کچھ کر سکتا ہے جو آج ہم اسے کرتے ہوۓ دیکھ رہے ہیں۔ اور کل اگر وہ کچھ اور کرنا چاہے تو نہیں کر سکتا ؟ خدا تو خیر بہت بلند و برتر ہستی ہے ، انسان کے متعلق پچھلی صدی تک لوگوں کے یہ اندازے تھے کہ یہ صرف زمین ہی پر چلنے والی گاڑیاں بنا سکتا ہے ، ہوا پر اڑنے والی گاڑیاں بنانا اس کی قدرت میں نہیں ہے۔ مگر آج کے ہوائی جہازوں نے بتا دیا کہ انسان کے ’’ امکانات‘‘ کی حدیں تجویز کرنے میں ان کے اندازے کتنے غلط تھے۔ اب اگر کوئی شخص خدا کے لیے اس کے صرف اپنے ہی ذہن کی تنگی کا ثبوت دیتا ہے ، خدا کی قدرت بہر حال اس کی باندھی ہوئی حدوں میں بند نہیں ہو سکتی۔ چوتھی اور پانچویں بات، یعنی یہ کہ ’’ قیامت کی گھڑی آ کر رہے گی ‘‘ اور یہ کہ ’’ اللہ ضرور ان سب لوگوں کو زندہ کر کے اٹھائے گا جو مر چکے ہیں ‘‘ ، ان تین مقدمات کا عقلی نتیجہ ہے جو اوپر بیان ہوئے ہیں۔ اللہ کے کاموں کو اس کی قدرت کے پہلو سے دیکھیے تو دل گواہی دے گا کہ وہ جب چاہے قیامت برپا کر سکتا ہے اور جب چاہے ان سب مرنے والوں کو پھر سے زندہ کر سکتا ہے جن کو پہلے ہو عدم سے وجود میں لایا تھا۔ اور اگر اس کے کاموں کو اس کی حکمت کے پہلو سے دیکھیے تو عقل شہادت دے گی کہ یہ دونوں کام بھی وہ ضرور کر کے رہے گا کیونکہ ان کے بغیر حکمت کے تقاضے پورے نہیں ہوتے اور ایک حکیم سے یہ بعید ہے کہ وہ ان تقاضوں کو پورا نہ کرے۔ جو محدود سی حکمت و دانائی انسان کو حاصل ہے اس کا یہ نتیجہ ہم دیکھتے ہیں کہ آدمی اپنا مال یا جائداد یا کرو بار جس کے سپرد بھی کرتا ہے اس سے کسی نہ کسی وقت حساب ضرور لیتا ہے۔ گویا امانت اور محاسبے کے درمیان ایک لازمی عقلی رابطہ ہے جس کو انسان کی محدود حکمت بھی کسی حال میں نظر انداز نہیں کرتی۔ پھر اسی حکمت کی بنا پر آدمی ارادی اور غیر ارادی افعال کے درمیان فرق کرتا ہے ، ارادی افعال کے ساتھ اخلاقی ذمہ داری کا تصور وابستہ کرتا ہے ، افعال میں نیک اور بد کی تمیز کرتا ہے ‘‘، اچھے افعال کا نتیجہ تحسین اور انعام کی شکل میں دیکھنا چاہتا ہے ، اور برے افعال پر سزا کا تقاضا کرتا ہے ، حتیٰ کہ خود ایک نظام عدالت اس غرض کے لیے وجود میں لاتا ہے۔ یہ حکمت جس خالق نے انسان میں پیدا کی ہے ، کیا باور کیا جا سکتا ہے کہ وہ خود اس حکمت سے عاری ہو گا۔ کیا مانا جا سکتا ہے کہ اپنی اتنی بڑی دنیا اتنے سر و سامان اور اس قدر اختیارات کے ساتھ انسان کے سپرد کر کے وہ بھول گیا ہے ، اس کا حساب وہ کبھی نہ لے گا ؟ کیا کسی صحیح الدماغ آدمی کی عقل یہ گواہی دے سکتی ہے کہ انسان کے جو برے اعمال سزا سے بچ نکلے ہیں ، یا جن برائیوں کی متناسب سزا اسے نہیں مل سکی ہے ان کی باز پرس کے لیے کبھی عدالت قائم نہ ہو گی، اور جو بھلائیاں اپنے منصفانہ انعام سے محروم رہ گئی ہیں وہ ہمیشہ محروم ہی رہیں گی؟ اگر ایسا نہیں ہے تو قیامت اور زندگی بعد موت خدائے حکیم کی حکمت کا ایک لازمی تقاضا ہے جس کا پورا ہونا نہیں بلکہ نہ ہونا سراسر بعید از عقل ہے |
Surah 40 : Ayat 59
إِنَّ ٱلسَّاعَةَ لَأَتِيَةٌ لَّا رَيْبَ فِيهَا وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ
یقیناً قیامت کی گھڑی آنے والی ہے، اس کے آنے میں کوئی شک نہیں، مگر اکثر لوگ نہیں مانتے1
1 | یہ وقوع آخرت کا قطعی حکم ہے جو استدلال کی بنیاد پر نہیں بلکہ صرف علم ہی کی بنا پر لگایا جا سکتا ہے، اور کلام وحی کے سوا کسی دوسرے کلام میں یہ بات اس قطعیت کے ساتھ بیان نہیں ہو سکتی۔ وحی کے بغیر محض عقلی استدلال سے جو کچھ کہا جا سکتا ہے وہ بس اسی قدر ہے کہ آخرت ہو سکتی ہے، اور اس کو ہونا چاہیے۔ اس سے آگے بڑھ کر یہ کہنا کہ آخرت یقیناً ہو گی اور ہو کر رہے گی، یہ صرف اس ہستی کے کہنے کی بات ہے جسے معلوم ہے کہ آخرت ہو گی، اور وہ ہستی اللہ تعالٰی کے سوا کوئی نہیں ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قیاس و استدلال کے بجاۓ خالص علم پر دین کی بنیاد اگر قائم ہو سکتی ہے تو وہ صرف وحی الہیٰ کے ذریعہ ہی سے ہو سکتی ہے۔ |
Surah 42 : Ayat 7
وَكَذَٲلِكَ أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ قُرْءَانًا عَرَبِيًّا لِّتُنذِرَ أُمَّ ٱلْقُرَىٰ وَمَنْ حَوْلَهَا وَتُنذِرَ يَوْمَ ٱلْجَمْعِ لَا رَيْبَ فِيهِۚ فَرِيقٌ فِى ٱلْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِى ٱلسَّعِيرِ
ہاں، اِسی طرح اے نبیؐ، یہ قرآن عربی ہم نے تمہاری طرف وحی کیا ہے1 تاکہ تم بستیوں کے مرکز (شہر مکہ) اور اُس کے گرد و پیش رہنے والوں کو خبردار کر دو2، اور جمع ہونے کے دن سے ڈرا دو3 جن کے آنے میں کوئی شک نہیں ایک گروہ کو جنت میں جانا ہے اور دوسرے گروہ کو دوزخ میں
3 | یعنی انہیں یہ بھی بتا دو کہ یہ تباہی و بربادی صرف دنیا ہی تک محدود نہیں ہے بلکہ آگے وہ دن بھی آنا ہے جب اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو جمع کر کے ان کا حساب لے گا۔ دنیا میں اگر کوئی شخص اپنی گمراہی و بد عملی کے برے نتائج سے بچ بھی نکلا تو اس دن بچاؤ کی کوئی صورت نہیں ہے۔ اور بڑا ہی بد قسمت ہے وہ جو یہاں بھی خراب ہو اور وہاں بھی اس کی شامت آۓ |
2 | یعنی انہیں غفلت سے چونکا دو اور متنبہ کر دو کہ افکار و عقائد کی جن گمراہیوں اور اخلاق و کردار کی جن خرابیوں میں تم لوگ مبتلا ہو، اور تمہاری انفرادی اور قومی زندگی جن فاسد اصولوں پر چل رہی ہے ان کا انجام تباہی کے سوا کچھ نہیں ہے |
1 | وہی بات پھر دہرا کر زیادہ زور دیتے ہوۓ کہی گئی ہے جو آغاز کلام میں کہی گئی تھی۔ اور ’’قرآن عربی‘‘ کہہ کر سامعین کو متنبہ کیا گیا ہے کہ یہ کسی غیر زبان میں نہیں ہے ، تمہاری اپنی زبان میں ہے۔ تم پراہ راست اسے خود سمجھ سکتے ہو، اس کے مضامین پر غور کر کے دیکھو کہ یہ پاک صاف اور بے غرض رہنمائی کیا خداوند عالم کے سوا کسی اور کی طرف سے بھی ہو سکتی ہے |
Surah 45 : Ayat 26
قُلِ ٱللَّهُ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يَجْمَعُكُمْ إِلَىٰ يَوْمِ ٱلْقِيَـٰمَةِ لَا رَيْبَ فِيهِ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
اے نبیؐ، اِن سے کہو اللہ ہی تمہیں زندگی بخشتا ہے، پھر وہی تمہیں موت دیتا ہے1، پھر وہی تم کو اُس قیامت کے دن جمع کرے گا جس کے آنے میں کوئی شک نہیں2، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں3
3 | یعنی جہالت اور قصور فکر و نظر ہی لوگوں کے انکار آخرت کا اصل سبب ہے، ورنہ حقیقت میں تو آخرت کا ہونا نہیں بلکہ، اس کا نہ ہونا بعید از عقل ہے۔ کائنات کے نظام اور خود اپنے وجود پر کوئی شخص صحیح طریقہ سے غور کرے تو اسے خود محسوس ہو جاۓ گا کہ آخرت کے آنے میں کسی شک کی گنجائش نہیں |
2 | یہ جواب ہے ان کی اس بات کا کہ اٹھا لاؤ ہمارے باپ دادا کو۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ یہ اب نہیں ہو گا، اور متفرق طور پر نہیں ہو گا، بلکہ ایک دن سب انسانوں کے جمع کرنے کے لیے مقرر ہے |
1 | یہ جواب ہے ان کی اس بات کا کہ موت گردش ایام سے آپ ہی آپ آ جاتی ہے۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ نہ تمہیں زندگی اتفاقاً ملتی ہے، نہ تمہارے موت خود بخود واقع ہو جاتی ہے۔ ایک خدا ہے جو تمہیں زندگی دیتا ہے اور وہی اسے سلب کرتا ہے |