Ayats Found (7)
Surah 51 : Ayat 1
وَٱلذَّٲرِيَـٰتِ ذَرْوًا
قسم ہے اُن ہواؤں کی جو گرد اڑانے والی ہیں1
1 | اس امر پر تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ الذاریات سے مراد پراگندہ کرنے والی اور گردو غبار اڑانے والی ہوئیں ہیں، اور اَلْحٰمِلٰتِ وِقْراً، (بھاری بوجھ اٹھانے والیوں) سے مراد وہ ہوائیں ہیں جو سمندروں سے لاکھوں کروڑوں گیلن پانی کے بخارات بادلوں کی شکل میں اٹھا لیتی ہیں۔ یہی تفسیر حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن عمر اور مجاہد، سعید بن جبیر، حسن بصری، قتادہ اور سدی وغیرہ حضرات سے منقول ہے |
Surah 51 : Ayat 5
إِنَّمَا تُوعَدُونَ لَصَادِقٌ
حق یہ ہے کہ جس چیز کا تمہیں خوف دلایا جا رہا ہے1 وہ سچی ہے
1 | اصل میں لفظ تُوْعَدُوْنَ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ اگر وَعْد سے ہو تو اس کا مطلب ہو گا ’’جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے ‘‘۔ اور وَعید سے ہو تو مطلب یہ ہو گا کہ ’’ جس چیز کا تم کو ڈراوا دیا جا رہا ہے ‘‘۔ زبان کے لحاظ سے دونوں مطلب یکساں درست ہیں۔ لیکن موقع و محل کے ساتھ دوسرا مفہوم زیادہ مناسبت رکھتا ہے، کیونکہ مخاطب وہ لوگ ہیں جو کفر و شرک اور فسق و فجور میں غرق تھے اور یہ بات ماننے کے لیے تیار نہ تھے کہ کبھی ان کو محاسبے اور جزاۓ اعمال سے بھی سابقہ پیش آنے والا ہے۔ اسی لیے ہم نے تُوْعَدُوْنَ کو وعدے کے بجاۓ وعید کے معنی میں لیا ہے |
Surah 56 : Ayat 1
إِذَا وَقَعَتِ ٱلْوَاقِعَةُ
جب وہ ہونے والا واقعہ پیش آ جائے گا
Surah 56 : Ayat 2
لَيْسَ لِوَقْعَتِهَا كَاذِبَةٌ
تو کوئی اس کے وقوع کو جھٹلانے والا نہ1 ہوگا
1 | اس فقرے سے کلام کا آغاز خود یہ ظاہر کر رہا ہے، کہ یہ ان باتوں کا جواب ہے جو اس وقت کفار کی مجلسوں میں قیامت کے خلاف بنائی جا رہی تھیں۔ زمانہ وہ تھا جب مکہ کے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے نئی نئی اسلام کی دعوت سن رہے تھے۔ اس میں جو چیز انہیں سب سے زیادہ عجیب اور بعید از عقل و امکان نظر آتی تھی وہ یہ تھی کہ ایک روز زمین و آسمان کا یہ سارا نظام درہم برہم ہو جاۓ گا اور پھر ایک دوسرا عالم برپا ہوگا جس میں سب اگلے پچھلے مرے ہوۓ لوگ دوبارہ زندہ کیے جائیں گے۔ یہ بات سن کر حیرت سے ان کے دیدے پھٹے کے پھٹے رہ جاتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ایسا ہونا بالکل نا ممکن ہے۔ آخر یہ زمین، یہ پہاڑ، یہ سمندر، یہ چاند، یہ سورج کہاں چلے جائیں گے؟ صدیوں کے گڑے مردے کیسے جی اٹھیں گے؟ مرنے کے بعد دوسری زندگی، اور پھر اس میں بہشت کے باغ اور جہنم کی آگ، آخر یہ خواب و خیال کی باتیں عقل و ہوش رکھتے ہوۓ ہم کیسے مان لیں؟ یہی چہ میگوئیاں اس وقت مکہ میں ہر جگہ ہو رہی تھیں۔ اس پس منظر میں فرمایا گیا ہے کہ جب وہ ہونے والا واقعہ پیش آ جاۓ گا اس وقت کوئی اسے جھٹلانے والا نہ ہو گا۔ اس ارشاد میں قیامت کے لیے ’’واقعہ ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی قریب قریب وہی ہیں جس کے لیے اردو زبان میں ہونی شدنی کے الفاظ بونے جاتے ہیں، یعنی وہ ایسی چیز ہے جسے لازماً پیش آ کر ہی رہنا ہے۔ پھر اس کے پیش آنے کو ’’وَقْعَۃ‘‘ کہا گیا ہے جو عربی زبان میں کسی بڑے حادثہ کے اچانک برپا ہو جانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ لَیْسَ لِوَ قْعَتِھَا کَاذِبَۃٌ کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ایک یہ کہ اس کے وقوع کا ٹل جانا اور اس کا آتے آتے رک جا نا اور اس کی آمد کا پھیر دیا جانا ممکن نہ ہو گا، یا بالفاظ دیگر کوئی طاقت پھر اس کو واقعہ سے غیر واقعہ بنا دینے والی نہ ہو گی۔ دوسرے یہ کہ کوئی متنفس اس وقت یہ جھوٹ بولنے والا نہ ہو گا کہ وہ واقعہ پیش نہیں آیا ہے |
Surah 77 : Ayat 1
وَٱلْمُرْسَلَـٰتِ عُرْفًا
قسم ہے اُن (ہواؤں) کی جو پے در پے بھیجی جاتی ہیں
Surah 77 : Ayat 7
إِنَّمَا تُوعَدُونَ لَوَٲقِعٌ
جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے1 وہ ضرور واقع ہونے والی ہے2
2 | یہاں قیامت کے ضرور واقع ہونے پر پانچ چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے۔ ایک ۔ المرسلت عرفا ۔ ’’پے درپے، یا بھلائی کے طور پر بھیجی جانے والیاں‘‘۔ دوسرے، العاصفات عصفا۔ ’’بہت تیزی اور شدت کے سات چلنے والیاں‘‘۔ تیسرے، الناشرات نشرا۔ ’’خوب پھیلانے والیاں‘‘۔ چوتھے، الفارقات فرقاً۔ ’’الگ الگ کرنے والیاں‘‘۔ پانچویں، الملقیات ذکراً۔ ’’یاد کا القا کرنے والیاں‘‘۔ چونکہ ان الفاظ میں صرف صفات بیان کی گئی ہیں، اور یہ صراحت نہیں کی گئی ہے کہ یہ کس چیز یا کن چیزوں کی صفات ہیں، اس لیے مفسرین کے درمیان اس امر میں ا ختلاف ہوا ہے کہ آیا یہ پانچوں صفات ایک ہی چیز کی ہیں، یا الگ الگ چیزوں کی، اور وہ چیز یا چیزیں کیا ہیں۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ پانچوں سے مراد ہوائیں ہیں۔ دوسرا کہتا ہے بانچوں سے مراد فرشتے ہیں۔ تیسرا کہتا ہے پہلے تین سے مراد ہوائیں ہیں اور باقی دوسے مراد فرشتے ہیں۔ چوتھا کہتا ہے پہلے دو سے مراد ہوائیں اور باقی تین سے مراد فرشتے ہیں اور ایک گروہ کی رائے یہ بھی ہے کہ پہلے سے مراد ملائکہ رحمت، دوسرے سے مراد ملائکہ عذاب اور باقی تین سے مراد قرآن مجید کی آیات ہیں۔ ہمارے نزدیک پہلی بات تو یہ قابلِ غور ہے کہ جب ایک ہی سلسلہ کلام میں پانچ صفات کا مسلسل ذکر کیا گیا ہے اور کوئی علامت بیچ میں ایسی نہیں پائی جاتی جس سے یہ سمجھا جا سکے کہ کہاں تک ایک چیز کی صفات کا ذکر ہے اور کہاں سے دوسری چیز کا ذکر شروع ہوا ہے، تو یہ کیسے صحیح ہو سکتا ہے کہ محض کسی بے بنیاد یا قیاس کی بنا پر ہم یہ سمجھ لیں کہ یہاں دو باتیں مختلف چیزوں کی قسمیں کھائی گئی ہیں،بلکہ اس صورت میں نظم کلام خود اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ پوری عبارت کو کسی ایک ہی چیز کی صفات سے متعلق مانا جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں بھی شک یا انکار کرنے و الوں کو کسی حقیقت غیر محسوس کا یقین دلانے کے لیے کسی چیز ، یا بعض چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے وہاں قسم دراصل استدلال کی ہم معنی ہوتی ہے، یعنی اس سے مقصود یہ بتانا ہوتا ہے کہ یہ چیز یا چیزیں اس حقیقت کے صحیح و برحق ہونے پر دلالت کر رہی ہیں۔ اس غرض کے لیے ظاہر ہے کہ ایک غیر محسوس شے کے حق میں کسی دوسری غیر محسوس شے کو بطورِ استدلال پیش کرنا درست نہیں ہو سکتا، بلکہ غیر محسوس پر محسوس سے دلیل لانا ہی موزوں اور مناسب ہو سکتا ہے۔ اس لیے ہماری رائے میں صحیح تفسیر یہی ہے کہ اس سے مراد ہوائیں ہیں، اور ان لوگوں کی تفسیر قابلِ قبول نہیں ہے جنہوں نے ان پانچوں چیزوں سے مراد فرشتے لیے ہیں، کیونکہ وہ بھی اسی طرح غیر محسوس ہیں جس طرح قیامت کا وقوع غیر محسوس ہے۔ اب غور کیجئے کہ قیامت کے و قوع پر ہواؤں کی یہ کیفیات کس طرح دلالت کرتی ہیں۔ زمین پر جن اسباب سے حیوانی اور نباتی زندگی ممکن ہوئی ہے ان میں سے ایک نہایت اہم سبب ہوا ہے۔ ہر نوع کی زندگی سے اس کی صفات کا جو تعلق ہے وہ بجائے خود اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ کوئی قادر مطلق اور صانع حکیم ہے جس نے اس کرہ خاکی پر زندگی کو وجود لانے کا ادارہ کیا اور اس غرض کے لیے یہاں ایک ایسی چیز پیدا کی جس کی صفات زندہ مخلوقات کے وجود کی ضروریات کے ساتھ ٹھیک ٹھیک مطابقت رکھتی ہیں۔ پھر اس نے صرف اتنا ہی ن ہیں ک یا ہے کہ زمین کو ہوا کا ایک لبادہ اڑھا کر چھوڑ دیا ہو، بلکہ اپنی قد رت اور حکمت سے اس ہوا میں اس نے بے شمار مختلف کیفیات پیدا کی ہیں جن کا انتظام لاکھوں کروڑوں برس سے اس طرح ہو رہا ہے کہ انہی کی بدولت موسم پیدا ہوتے ہیں، کبھی حبس ہوتا ہے اور کبھی بادِ نسیم چلتی ہے، کبھی گرمی آتی ہے اور کبھی سردی، کبھی بادل آتے ہیں اور کبھی آتے ہوئے اڑ جاتے ہیں ، کبھی نہایت خوشگوار جھونکے چلتے ہ یں اور کبھی انتہائی تباہ کن طوفان آ جاتے ہیں، کبھی نہایت نفع بخش بارش ہوتی ہے اور کبھی کال پڑ جاتا ہے۔غرض ایک ہوا نہیں بلکہ طرح طرح کی ہوائیں ہیں جو اپنے اپنے وقت پر چلتی ہیں اور ہر ہوا کسی نہ کسی مقصد کو پورا کرتی ہے۔ یہ انتظام ایک غالب قدرت کا ثبوت ہے جس کے لیے نہ زندگی کو وجود میں لانا خارج از امکان ہو سکتا ہے، نہ اسے مٹا دینا، اور نہ مٹا کر دوبارہ وجود میں لےآنا۔ اسی طرح یہ انتظام کمال درجہ حکمت و دانائی کا ثبوت بھی ہے، جس سے صرف ایک نادان آدمی ہی یہ توقع رکھ سکتا ہے کہ یہ سارا کاروبار محض کھیل کے طور پر کیا جا رہا ہو اوراس کا کوئی عظیم ترمقصد نہ ہو۔ اس حیرت انگیز انتظام کے مقابلے میں انسان اتنا بے بس ہے کہ کبھی وہ نہ اپنے لیے مفید طلب ہوا چلا سکتا ہے نہ اپنے اوپر ہلاکت خیز ہوا کا طوفان آنے کو روک سکتا ہے۔ وہ خواہ کتنی ہی ڈھٹائی اور بے شعوری اور ضد اور ہٹ دھرمی سے کام لے، کبھی نہ کبھی یہی ہوا اس کو یاد دلا دیتی ہے کہ اوپر کوئی زبردست اقتدار کار فرما ہے جو زندگی کے اس سب سے بڑے ذریعہ کو جب چاہے اس کے لیے رحمت اور جب چاہے ہلاکت کا سبب بنا سکتا ہے، اور انسان اس کے کسی فیصلے کو بھی روک دینے کی طاقت نہیں رکھتا۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم ، المجاثیہ، حاشیہ 7۔ جلد پنجم، الذاریات، حواشی 1 تا 4) |
1 | دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’جس چیز کا تمہیں خوف دلایا جا رہا ہے‘‘۔ مراد قیامت اور آخرت ہے |
Surah 3 : Ayat 25
فَكَيْفَ إِذَا جَمَعْنَـٰهُمْ لِيَوْمٍ لَّا رَيْبَ فِيهِ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
مگر کیا بنے گی اُن پر جب ہم انہیں اُس روز جمع کریں گے جس کا آنا یقینی ہے؟ اس روز ہر شخص کو اس کی کمائی کا بدلہ پورا پورا دے دیا جائیگا اور کسی پر ظلم نہ ہوگا