Ayats Found (19)
Surah 6 : Ayat 134
إِنَّ مَا تُوعَدُونَ لَأَتٍۖ وَمَآ أَنتُم بِمُعْجِزِينَ
تم سے جس چیز کا وعدہ کیا جا رہا ہے وہ یقیناً آنے والی ہے1 اور تم خدا کو عاجز کر دینے کی طاقت نہیں رکھتے
1 | یعنی قیامت، جس کے بعد تمام اگلے پچھلے انسان ازسرِ نو زندہ کیے جائیں گے اور اپنے ربّ کے سامنے آخری فیصلے کے لیے پیش ہوں گے |
Surah 6 : Ayat 135
قُلْ يَـٰقَوْمِ ٱعْمَلُواْ عَلَىٰ مَكَانَتِكُمْ إِنِّى عَامِلٌۖ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَن تَكُونُ لَهُۥ عَـٰقِبَةُ ٱلدَّارِۗ إِنَّهُۥ لَا يُفْلِحُ ٱلظَّـٰلِمُونَ
اے محمدؐ! کہہ دو کہ لوگو! تم اپنی جگہ عمل کرتے رہو اور میں بھی اپنی جگہ عمل کر رہا ہوں1، عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ انجام کار کس کے حق میں بہتر ہوتا ہے، بہر حال یہ حقیقت ہے کہ ظالم کبھی فلاح نہیں پا سکتے
1 | یعنی اگر میرے سمجھانے سے تم نہیں سمجھے اور اپنی غلط روی سے باز نہیں آتے تو جس راہ پر تم چل رہے ہو چلے جاؤ، اور مجھے اپنی راہ چلنے کے لیے چھوڑ دو، انجام کار جو کچھ ہوگا وہ تمہارے سامنے بھی آجائے گا اور میرے سامنے بھی |
Surah 15 : Ayat 85
وَمَا خَلَقْنَا ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَآ إِلَّا بِٱلْحَقِّۗ وَإِنَّ ٱلسَّاعَةَ لَأَتِيَةٌۖ فَٱصْفَحِ ٱلصَّفْحَ ٱلْجَمِيلَ
ہم نے زمین اور آسمان کو اور ان کی سب موجودات کو حق کے سوا کسی اور بنیاد پر خلق نہیں کیا ہے1، اور فیصلے کی گھڑی یقیناً آنے والی ہے، پس اے محمدؐ، تم (اِن لوگوں کی بیہودگیوں پر) شریفانہ درگزر سے کام لو
1 | یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تسکین و تسلّی کے لیے فرمائی جارہی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اِس وقت بظاہر باطل کا جو غلبہ تم دیکھ رہے ہو اور حق کے راستہ میں جن مشکلات اور مصائب سے تمہیں سابقہ پیش آرہا ہے، اس سے گھبراؤ نہیں ۔ یہ ایک عارضی کیفیت ہے ، مستقل اور دائمی حالت نہیں ہے۔ اِس لیے زمین و آسمان کا یہ پورا نظام حق پر تعمیر ہوا ہے نہ کہ باطل پر ۔ کائنات کی فطرت حق کے ساتھ مناسبت رکھتی ہے نہ کہ باطل کے ساتھ۔ لہٰذا یہاں اگر قیاس و دوام ہے تو حق کے لیے نہ کہ باطل کے لیے ۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ ابراہیم حواشی ۲۵ – ۲۶ – ۳۵ تا ۳۹) |
Surah 29 : Ayat 5
مَن كَانَ يَرْجُواْ لِقَآءَ ٱللَّهِ فَإِنَّ أَجَلَ ٱللَّهِ لَأَتٍۚ وَهُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْعَلِيمُ
جو کوئی اللہ سے ملنے کی توقع رکھتا ہو (اُسے معلوم ہونا چاہیے کہ) اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت آنے ہی والا ہے1، اور اللہ سب کچھ سُنتا اور جانتا ہے2
2 | یعنی اُن کو اس غلط فہمی میں بھی نہ رہنا چاہیے کہ ان کا سابقہ کسی شہ بے خبر سے ہے۔ جس خدا کے سامنے انہیں جواب دہی کے لیے حاضر ہونا ہے وہ نے خبر نہیں بلکہ سمیع و علیم خدا ہے، ان کی بات بھی اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے |
1 | یعنی جو شخص حیات اخروی کا قائل ہی نہ ہو اور یہ سمجھتا ہو کہ کوئی نہیں ہے جس کے سامنے ہمیں اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہو اور کوئی وقت ایسا نہیں آنا ہے جب ہم سے ہمارے کارنامہ زندگی کا محاسبہ کیا جائے، اس کا معاملہ تو دوسرا ہے۔ وہ اپنی غفلت میں پڑا رہے اور بے فکری کے ساتھ جو کچھ چاہے کرتا رہے۔ اپنا تیجہ اپنے اندازوں کے خلاف وہ خود دیکھ لے گا۔ لیکن جو لوگ یہ توقع رکھتے ہیں کہ ایک وقت ہمیں اپنے خدا کے حضور حاضر ہونا ہے اور اپنے اعمال کے مطابق جزا و سزا بھی پانی ہے، انہیں اس غلط فہمی میں نہ رہنا چاہیے کہ موت کا وقت کچھ بہت دور ہے۔ ان کو تو یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ بس قریب ہی آلگا ہے اور عمل کی مہلت ختم ہوا ہی چاہتے ہے۔ اس لیے جو کچھ بھی وہ اپنی عاقبت کی بھلائی کے لیے کر سکتے ہوں کرلیں۔ طول حیات کے بے بنیاد بھرو سے اپنی اصلاح میں دیر نہ لگائیں |
Surah 30 : Ayat 43
فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ ٱلْقَيِّمِ مِن قَبْلِ أَن يَأْتِىَ يَوْمٌ لَّا مَرَدَّ لَهُۥ مِنَ ٱللَّهِۖ يَوْمَئِذٍ يَصَّدَّعُونَ
پس (اے نبیؐ) اپنا رُخ مضبوطی کے ساتھ جما دو اِس دین راست کی سمت میں قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس کے ٹل جانے کی کوئی صورت اللہ کی طرف سے نہیں ہے1 اُس دن لوگ پھَٹ کر ایک دُوسرے سے الگ ہو جائیں گے
1 | یعنی جس کونہ اللہ تعالٰی خود ٹالے گااورنہ اس نےکسی کےلیے ایسی کسی تدبیرکی کوئی گنجائش چھوڑی ہےکہ وہ اسےٹال سکے۔ |
Surah 34 : Ayat 3
وَقَالَ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ لَا تَأْتِينَا ٱلسَّاعَةُۖ قُلْ بَلَىٰ وَرَبِّى لَتَأْتِيَنَّكُمْ عَـٰلِمِ ٱلْغَيْبِۖ لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَلَا فِى ٱلْأَرْضِ وَلَآ أَصْغَرُ مِن ذَٲلِكَ وَلَآ أَكْبَرُ إِلَّا فِى كِتَـٰبٍ مُّبِينٍ
منکرین کہتے ہیں کہ کیا بات ہے کہ قیامت ہم پر نہیں آ رہی ہے1! کہو، قسم ہے میرے عالم الغیب پروردگار کی، وہ تم پر آ کر رہے گی2 اُس سے ذرہ برابر کوئی چیز نہ آسمانوں میں چھپی ہوئی ہے نہ زمین میں نہ ذرے سے بڑی اور نہ اُس سے چھوٹی، سب کچھ ایک نمایاں دفتر میں درج ہے3
3 | یہ امکان آخرت کے دلائل میں سے ایک دلیل ہے۔ جیسا کہ آگے آیت نمبر7 میں آ رہا ہے، منکرین آخرت جن وجوہ سے زندگی بعد موت کو بعید از عقل سمجھتے تھے ان میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ جب سارے انسان مر کر مٹی میں رل مل جائیں گے اور ان کا ذرہ ذرہ منتشر ہو جائے تو کس طرح یہ ممکن ہے کہ یہ بے شمار اجزا پھر سے اکٹھے ہوں اور کن کو جوڑ کر ہم دوبارہ اپنے انہی اجسام کے ساتھ پیدا کر دیے جائیں۔ اس سب کو یہ کہہ کر رفع کیا گیا ہے کہ ہر ذرہ جو کہیں گیا ہے، خدا کے دفتر میں اس کا اندراج موجود ہے اور خدا کو معلوم ہے کہ کیا چیز کہاں گئی ہے۔ جب وہ دوبارہ پیدا کرنے کا ارادہ کرے گا تو اسے ایک ایک انسان کے اجزائے جسم کو سمیٹ لانے میں کوئی زحمت پیش نہ آئے گی۔ |
2 | پروردگار کی قسم کھاتے ہوئے اس کی لیے ’’ عالم الغیب‘‘ کی صفت استعمال کرنے سے خود بخود اس امر کی طرف اشارہ ہو گیا کہ قیامت کا آنا تو یقینی ہے مگر اس کے آنے کا وقت خدائے عالم الغیب کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ یہی مضمون قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف طریقوں سے بیان ہو ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ و الا عراف، 187۔ طٰہٰ، 15۔ لقمان 34۔ الاحزاب، 63۔الملک، 25۔26۔ النازعات، 42 یا 44 |
1 | یہ بات وہ طنز اور تمسخر کے طور پر چند را چَندرا کر کہتے تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بہت دنوں سے یہ پیغمبر صاحب قیامت کے آنے کی خبر سنا رہے ہیں، مگر کچھ خبر نہیں کہ وہ آتے آتے کہاں رہ گئی۔ ہم نے اتنا کچھ انہیں جھٹلایا، اتنی گستاخیاں کیں، ان کا مذاق تک اڑایا، مگر وہ قیامت ہے کہ کسی طرح نہیں آ چکتی |
Surah 37 : Ayat 16
أَءِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَـٰمًا أَءِنَّا لَمَبْعُوثُونَ
بھلا کہیں ایسا ہو سکتا ہے کہ جب ہم مر چکے ہوں اور مٹی بن جائیں اور ہڈیوں کا پنجر رہ جائیں اُس وقت ہم پھر زندہ کر کے اٹھا کھڑے کیے جائیں؟
Surah 37 : Ayat 18
قُلْ نَعَمْ وَأَنتُمْ دَٲخِرُونَ
اِن سے کہو ہاں، اور تم (خدا کے مقابلے میں) بے بس ہو1
1 | یعنی اللہ جو کچھ بھی تمہیں بنانا چاہے بنا سکتا ہے۔جب اس نے چاہا اس کے ایک اشارے پر تم وجود میں آ گئے۔جب وہ چاہے گا اس کے ایک اشارے پر تم مر جاؤ گے۔اور پھر جس وقت بھی وہ چاہے گا اس کا ایک اشارہ تمہیں اٹھا کھڑا کرے گا۔ |
Surah 42 : Ayat 47
ٱسْتَجِيبُواْ لِرَبِّكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِىَ يَوْمٌ لَّا مَرَدَّ لَهُۥ مِنَ ٱللَّهِۚ مَا لَكُم مِّن مَّلْجَإٍ يَوْمَئِذٍ وَمَا لَكُم مِّن نَّكِيرٍ
مان لو اپنے رب کی بات قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس کے ٹلنے کی کوئی صورت اللہ کی طرف سے نہیں ہے1 اُس دن تمہارے لیے کوئی جائے پناہ نہ ہوگی اور نہ کوئی تمہارے حال کو بدلنے کی کوشش کرنے والا ہو گا2
2 | اصل الفاظ ہیں : مَا لَکُمْ مِنْ نَّکِیْرٍ ۔ اس فقرے کے کئی مفہوم اور بھی ہیں۔ ایک یہ کہ تم اپنے کرتوتوں میں سے کسی کا انکار نہ کر سکو گے۔ دوسرے یہ کہ تم بھیس بدل کر کہیں چھپ نہ سکو گے۔ تیسرے یہ کہ تمہارے ساتھ جو کچھ بھی کیا جاۓ گا اس کا تم کوئی احتجاج اور اظہار ناراضی نہ کر سکو گے۔ چوتھے یہ کہ تمہارے جس میں نہ ہو گا کہ جس حالت میں تم مبتلا کیے گئے ہو اسے بدل سکو |
1 | یعنی نہ اللہ خود اسے ٹالے گا اور نہ کسی دوسرے میں یہ طاقت ہے کہ ٹال سکے |
Surah 44 : Ayat 40
إِنَّ يَوْمَ ٱلْفَصْلِ مِيقَـٰتُهُمْ أَجْمَعِينَ
اِن سب کے اٹھائے جانے کے لیے طے شدہ وقت فیصلے کا دن ہے1
1 | یہ ان کے اس مطالبے کا جواب ہے کہ اٹھا لاؤ ہمارے باپ دادا کو اگر تم سچے ہو ۔ مطلب یہ ہے کہ زندگی بعد موت کوئی تماشا تو نہیں ہے کہ جہاں کوئی اس سے انکار کرے، فوراً ایک مردہ قبرستان سے اٹھا کر اس کے سامنے لا کھڑا کیا جاۓ اس کے لیے تو رب العالمین نے ایک وقت مقرر کر دیا ہے جب تمام اولین و آخرین کو وہ دوبارہ زندہ کر کے اپنی عدالت میں جمع کرے گا اور ان کے مقدمات کا فیصلہ صادر فرماۓ گا۔ تم مانو چاہے نہ مانو، یہ کام بہر حال اپنے وقت مقرر پر ہی ہوگا۔ تم مانو گے تو اپنا ہی بھلا کرو گے، کیونکہ اس طرح قبل از وقت خبردار ہو کر اس عدالت سے کامیاب بکنے کی تیاری کر سکو گے۔ نہ مانو گے تو اپنا ہی نقصان کرو گے، کیونکہ اپنی ساری عمر اس غلط فہمی میں کھپا دو گے کہ برائی اور بھلائی جو کچھ بھی ہے بس اسی دنیا کی زندگی تک ہے، مرنے کے بعد پھر کوئی عدالت نہیں ہونی ہے جس میں ہمارے اچھے یا برے اعمال کا کوئی مستقل نتیجہ نکلنا ہو |