Ayats Found (35)
Surah 7 : Ayat 57
وَهُوَ ٱلَّذِى يُرْسِلُ ٱلرِّيَـٰحَ بُشْرَۢا بَيْنَ يَدَىْ رَحْمَتِهِۦۖ حَتَّىٰٓ إِذَآ أَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالاً سُقْنَـٰهُ لِبَلَدٍ مَّيِّتٍ فَأَنزَلْنَا بِهِ ٱلْمَآءَ فَأَخْرَجْنَا بِهِۦ مِن كُلِّ ٱلثَّمَرَٲتِۚ كَذَٲلِكَ نُخْرِجُ ٱلْمَوْتَىٰ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
اور وہ اللہ ہی ہے جو ہواؤں کو اپنی رحمت کے آگے آگے خوشخبری لیے ہوئے بھیجتا ہے، پھر جب وہ پانی سے لدے ہوئے بادل اٹھا لیتی ہیں تو انہیں کسی مردہ سر زمین کی طرف حرکت دیتا ہے، اور وہاں مینہ برسا کر (اُسی مری ہوئی زمین سے) طرح طرح کے پھل نکال لاتا ہے دیکھو، اس طرح ہم مُردوں کو حالت موت سے نکالتے ہیں، شاید کہ تم اس مشاہدے سے سبق لو
Surah 17 : Ayat 99
۞ أَوَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّ ٱللَّهَ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ قَادِرٌ عَلَىٰٓ أَن يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ وَجَعَلَ لَهُمْ أَجَلاً لَّا رَيْبَ فِيهِ فَأَبَى ٱلظَّـٰلِمُونَ إِلَّا كُفُورًا
کیا ان کو یہ نہ سوجھا کہ جس خدا نے زمین اور آسمانو ں کو پیدا کیا ہے وہ اِن جیسوں کو پیدا کرنے کی ضرور قدرت رکھتا ہے؟ اس نے اِن کے حشر کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے جس کا آنا یقینی ہے، مگر ظالموں کو اصرار ہے کہ وہ اس کا انکار ہی کریں گے
Surah 19 : Ayat 66
وَيَقُولُ ٱلْإِنسَـٰنُ أَءِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا
انسان کہتا ہے کیا واقعی جب میں مر چکوں گا تو پھر زندہ کر کے نکال لایا جاؤں گا؟
Surah 19 : Ayat 67
أَوَلَا يَذْكُرُ ٱلْإِنسَـٰنُ أَنَّا خَلَقْنَـٰهُ مِن قَبْلُ وَلَمْ يَكُ شَيْــًٔا
کیا انسان کو یاد نہیں آتا کہ ہم پہلے اس کو پیدا کر چکے ہیں جبکہ وہ کچھ بھی نہ تھا؟
Surah 21 : Ayat 104
يَوْمَ نَطْوِى ٱلسَّمَآءَ كَطَىِّ ٱلسِّجِلِّ لِلْكُتُبِۚ كَمَا بَدَأْنَآ أَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيدُهُۥۚ وَعْدًا عَلَيْنَآۚ إِنَّا كُنَّا فَـٰعِلِينَ
وہ دن جبکہ آسمان کو ہم یوں لپیٹ کر رکھ دیں گے جیسے طومار میں اوراق لپیٹ دیے جاتے ہیں جس طرح پہلے ہم نے تخلیق کی ابتدا کی تھی اُسی طرح ہم پھر اُس کا اعادہ کریں گے یہ ایک وعدہ ہے ہمارے ذمے، اور یہ کام ہمیں بہرحال کرنا ہے
Surah 22 : Ayat 5
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ إِن كُنتُمْ فِى رَيْبٍ مِّنَ ٱلْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَـٰكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِن مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَيِّنَ لَكُمْۚ وَنُقِرُّ فِى ٱلْأَرْحَامِ مَا نَشَآءُ إِلَىٰٓ أَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلاً ثُمَّ لِتَبْلُغُوٓاْ أَشُدَّكُمْۖ وَمِنكُم مَّن يُتَوَفَّىٰ وَمِنكُم مَّن يُرَدُّ إِلَىٰٓ أَرْذَلِ ٱلْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْــًٔاۚ وَتَرَى ٱلْأَرْضَ هَامِدَةً فَإِذَآ أَنزَلْنَا عَلَيْهَا ٱلْمَآءَ ٱهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَأَنۢبَتَتْ مِن كُلِّ زَوْجِۭ بَهِيجٍ
لوگو، اگر تمہیں زندگی بعد موت کے بارے میں کچھ شک ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ہے، پھر نطفے سے1، پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر گوشت کی بوٹی سے جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بے شکل بھی2 (یہ ہم اس لیے بتا رہے ہیں) تاکہ تم پر حقیقت واضح کر دیں ہم جس (نطفے) کو چاہتے ہیں ایک وقت خاص تک رحموں میں ٹھیرائے رکھتے ہیں، پھر تم کو ایک بچّے کی صورت میں نکال لاتے ہیں (پھر تمہیں پرورش کرتے ہیں) تاکہ تم اپنی پُوری جوانی کو پہنچو اور تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بلا لیا جاتا ہے اور کوئی بدترین عمر کی طرف پھیر دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے3 اور تم دیکھتے ہو کہ زمین سوکھی پڑی ہے، پھر جہاں ہم نے اُس پر مینہ برسایا کہ یکایک وہ پھبک اٹھی اور پھول گئی اور اس نے ہر قسم کی خوش منظر نباتات اگلنی شروع کر دی
3 | یعنی بڑھاپے کی وہ حالت جس میں آدمی کو اپنے تن بدن کا ہوش بھی نہیں رہتا۔ وہی شخص جو دوسروں کو عقل بتاتا تھا ، بوڑھا ہو کر اس حالت کو پہنچ جاتا ہے جو بچے کی حالت سے مشابہ ہوتی ہے۔ جس علم و واقفیت اور تجربہ کاری و جہاں دیدگی پر اس کو ناز تھا وہ ایسی بے خبری میں تبدیل ہو جاتی ہے کہ بچے تک اس کی باتوں پرہنسنے لگتے ہیں |
2 | یہ اشارہ ہے ان مختلف اطوار کی طرف جن سے ماں کے پیٹ میں بچہ گزرتا ہے۔ ان کی وہ تفصیلات بیان نہیں کی گئیں جو آج کل صرف طاقت ور خورد بینوں ہی سے نظر آسکتی ہیں ، بلکہ ان بڑے بڑے نمایاں تغیرات کا ذکر کیا گیا ہے جن سے اس زمانے کے عام بدو بھی واقف تھے۔ یعنی نطفہ قرار پانے کے بعد ابتداءً جمے ہوئے خون کا ایک لوتھڑا سا ہوتا ہے ، پھر وہ گوشت کی ایک بوٹی میں تبدیل ہوتا ہے جس میں پہلے شکل صورت کچھ نہیں ہوتی اور آگے چل کر انسانی شکل نمایاں ہوتی چلی جاتی ہے۔ اِسقاط کی مختلف حالتوں میں چونکہ تخلیق انسانی کے یہ سب مراحل لوگوں کے مشاہدے میں آتے تھے ، اس ہے انہی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے علم الجنین کی تفصیلی تحقیقات کی نہ اس وقت ضرورت تھی نہ آج ہے |
1 | اس کا مطلب یا تو یہ ہے کہ ہر انسان ان مادوں سے پیدا کیا جاتا ہے جو سب کے سب زمین سے حاصل ہوتے ہیں اور اس تخلیق کی ابتدا نطفے سے ہوتی ہے۔ یا یہ کہ نوع انسانی کا آغاز آدم علیہ السلام سے کیا گیا جو براہ راست مٹی سے بنائے گۓ تھے ، اور پھر آگے نسل انسانی کی سلسلہ نطفے سے چلا ، جیسا کہ سورہ سجدہ میں فرمایا : وَبَدَءَ خَلْقَ الْاِنْسَا نِ مِنْ طِیْنٍ ہ ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہٗ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ مَّآ ءٍ مَّھِیْنٍ O (آیات 7۔8) ’’ انسان کی تخلیق مٹی سے شروع کی، پھر اس کی نسل ایک سَت سے چلائی جو حقیر پانی کی شکل میں نکلتا ہے |
Surah 22 : Ayat 7
وَأَنَّ ٱلسَّاعَةَ ءَاتِيَةٌ لَّا رَيْبَ فِيهَا وَأَنَّ ٱللَّهَ يَبْعَثُ مَن فِى ٱلْقُبُورِ
اور یہ (اِس بات کی دلیل ہے) کہ قیامت کی گھڑی آ کر رہے گی، اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، اور اللہ ضرور اُن لوگوں کو اٹھائے گا جو قبروں میں جا چکے ہیں1
1 | ان آیات میں انسان کی پیدائش کے مختلف اطوار ، زمین پر بارش کے اثرات ، اور نباتات کی پیداوار کو پانچ حقیقتوں کی نشان دہی کرنے والے دلائل قرار دیا گیا ہے : 1 : یہ کہ اللہ ہی حق ہے ، 2 : یہ کہ وہ مردوں کو زندہ کرتا ہے ، 3 : یہ کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے ، 4 : یہ کہ قیامت کی گھڑی آ کر رہے گی، اور 5: یہ کہ اللہ ضرور ان سب لوگوں کو زندہ کر کے اٹھائے گا جو مر چکے ہیں۔ اب دیکھیے کہ یہ آثار ان پانچوں حقیقتوں کی کس طرح نشان دہی کرتے ہیں۔ پورے نظام کائنات کو چھوڑ کر آدمی صرف اپنی ہی پیدائش پر غور کرے تو معلوم ہو جائے کہ ایک ایک انسان کی ہستی میں اللہ کی حقیقی اور واقعی تدبیر ہر وقت بالفعل کار فرما ہے اور ہر ایک کے وجود اور نشو و نما کا ایک ایک مرحلہ اس کے ارادی فیصلے پر ہی طے ہوتا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ ایک لگے بندھے قانون پر ہو رہا ہے جس کو ایک اندھی بہری بے علم و بے ارادہ فطرت چلا رہی ہے۔ لیکن وہ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو انہیں نظر آئے کہ ایک ایک فرد انسانی جس طرح وجود میں آتا ہے اور پھر جس طرح وہ وجود کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے اس میں ایک حکیم و قادر مطلق ہستی کا ارادی فیصلہ کس شان سے کام کر رہا ہے۔ آدمی جو غذا کھاتا ہے اس میں کہیں انسانی تخم موجود نہیں ہوتا، نہ اس میں کوئی چیز ایسی ہوتی ہے جو نفس انسانی کے خواص پیدا کرتی ہو۔ یہ غذا جسم میں جا کر کہیں بال ، کہیں گوشت اور کہیں ہڈی بنتی ہے ، اور ایک خاص مقام پر پہنچ کر یہی اس نطفے میں تبدیل ہو جاتی ہے جس کے اندر انسان بننے کی استعداد رکھنے والے تخم موجود ہوتے ہیں۔ ان تخموں کی کثرت کا حال یہ ہے کہ ایک وقت میں مرد سے جتنا نطفہ خارج ہوتا ہے اس کے اندر کئی کروڑ تخم پائے جاتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک بیضۂ انثٰی سے مِل کر انسان بن جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مگر یہ کسی حکیم و قدیر اور حاکم مطلق کا فیصلہ ہے جو ان بے شمار امیدواروں میں سے کسی ایک کو کسی خاص وقت پر چھانٹ کر بیضۂ انثٰی سے ملنے کا موقع دیتا ہے اور اس طرح استقرار حمل رونما ہوتا ہے۔ پھر استقرار کے وقت مرد کے تخم اور عورت کے بیضیٰ خلیے (Egg Cell) کے ملنے سے جو چیز ابتداءً بنتی ہے وہ اتنی چھوٹی ہوتی ہے کہ خورد بین کے بغیر نہیں دیکھی جا سکتی۔ یہ حقیر سی چیز 9 مہینے اور چند روز میں رحم کے اندر پرورش پا کر جن نے شمار مرحلوں سے گزرتی ہوئی ایک جیتے جاگتے انسان کی شکل اختیار کرتی ہے ان میں سے ہر مرحلے پر غور کرو تو تمہارا دل گواہی دے گا کہ یہاں ہر آن ایک حکیم فعال کا ارادی فیصلہ کام کرتا رہا ہے۔ وہی فیصلہ کرتا ہے کہ کسے تکمیل کو پہنچانا ہے اور کسے خون کے لوتھڑے ، یا گوشت کی بوٹی، یا ناتمام بچے کی شکل میں ساقط کر دینا ہے۔ وہی فیصلہ کرتا ہے کہ کس کو زندہ نکالنا ہے اور کس کو مردہ۔ کس کو معمولی انسان کی صورت و ہیئت میں نکالنا ہے اور کسے ان گنت غیر معمولی صورتوں میں سے کوئی صورت دے دینی ہے۔ کس کو صحیح و سالم نکالنا ہے اور کسے اندھا ، بہرا، گونگا یا ٹُنڈا اور لُنجا بنا کر پھینک دینا ہے۔ کس کو خوبصورت بنانا ہے اور کسے بد صورت۔ کس کو مرد بنانا ہے اور کس کو عورت۔ کس کو اعلیٰ درجے کی قوتیں اور صلاحیتیں دے کر بھیجنا ہے اور کسے کو دن اور کند ذہن پیدا کرنا ہے۔ یہ تخلیق و تشکیل کا عمل ، جو ہر روز کروڑوں عورتوں کے رحموں میں ہو رہا ہے ، اس کے دوران میں کسی وقت کسی مرحلے پر بھی ایک خدا کے سوا دنیا کی کوئی طاقت ذرہ برابر اثر انداز نہیں ہو سکتی، بلکہ کسی کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کس پیٹ میں کیا چیز بن رہی ہے اور کیا بن کر نکلنے والی ہے۔ حالانکہ انسانی آبادیوں کی قسمت کے کم از کم 90 فی صدی فیصلے ان ہی مراحل میں ہو جاتے ہیں اور یہیں افراد ہی کے نہیں ، قوموں کے ، بلکہ پوری نوع انسانی کی مستقبل کی شکل بنائی اور بگاڑی جاتی ہے۔ اس کے بعد بچے دنیا میں آتے ہیں ، ان میں سے ہر ایک کے بارے میں یہ فیصلہ کون کرتا ہے کہ کسے زندگی کا پہلا سانس لیتے ہی ختم ہو جانا ہے ، کسے بڑھ کر جواب ہونا ہے ، اور کس کو قیامت کے بوریے سمیٹنے ہیں ؟ یہاں بھی ایک غالب ارادہ کار فرما نظر آتا ہے اور غور کیا جاۓ تو محسوس ہو تا ہے کہ اس کی کارفرمائی کسی عالمگیر تدبیر و حکمت پر مبنی ہے جس کے مطابق وہ افراد ہی کی نہیں ، قوموں اور ملکوں کی قسمت کے بھی فیصلے کر رہا ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر بھی اگر کسی کو اس امر میں شک ہے کہ اللہ ’’حق‘‘ ہے اور صرف اللہ ہی ’’حق‘‘ ہے تو بے شک وہ عقل کا اندھا ہے۔ دوسری بت جو پیش کردہ آثار سے ثابت ہوتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ ’’ اللہ مردوں کو زندہ کرتا ہے ‘‘۔ لوگوں کو تو یہ سن کر اچنبھا ہوتا ہے کہ اللہ کسی وقت مردوں کو زندہ کرے گا، مگر وہ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو انہیں نظر آئے کہ وہ تو ہر وقت مردے جلا رہا ہے۔ جن مادوں سے آپ کا جسم بنا ہے اور جن غذاؤں سے وہ پرورش پاتا ہے ان کا تجزیہ کر کے دیکھ لیجیے۔ کوئلہ، لوہا، چونا، کچھ نمکیات ، کچھ ہوائیں ، اور ایسی ہی چند چیزیں اور ہیں۔ ان میں سے کسی چیز میں بھی حیات اور نفس انسانی کے خواص موجود نہیں ہیں۔ مگر ان ہی مردہ ، بے جان مادوں کو جمع کر کے آپ کو جیتا جاگتا وجود بنا دی گیا ہے۔ پھر انہی مادوں کی غذا آپ کے جسم میں جاتی ہے اور وہاں اس سے مردوں میں وہ تخم اور عورتوں میں وہ بیضی خلیے بنتے ہیں جن کے ملنے سے آپ ہی جیسے جیتے جاگتے انسان روز بن بن کر نکل رہے ہیں۔ اس کے بعد ذرا اپنے گرد و پیش کی زمین پر نظر ڈالیے۔ بے شمار مختلف چیزوں کے بیج تھے جن کو ہواؤں اور پرندوں نے جگہ جگہ پھیلا دیا تھا، اور بے شمار مختلف چیزوں کی جڑیں تھیں جو جگہ جگہ پیوند خاک ہو ئی پڑی تھیں۔ ان میں کہیں بھی بناتی زندگی کا کوئی ظہور موجود نہ تھا۔ آپ کے گرد و پیش کی سوکھی زمین ان لاکھوں مردوں کی قبر بنی ہوئی تھی۔ مگر جونہی کہ پانی کا ایک چھینٹا پڑا ، ہر طرف زندگی لہلہانے لگی، ہر مردہ جڑ اپنی قبر سے جی اٹھی ، اور ہر بے جان بیج ایک زندہ پودے کی شکل اختیار کر گیا۔ یہ احیائے اموات کا عمل ہر برسات میں آپ کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے۔ تیسری چیز جو ان مشاہدات سے ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ’’ اللہ ہر چیز پر قادر ہے ‘‘ ساری کائنات کو چھوڑ کر صرف اپنی اسی زمین کو لے لیجیے ، اور زمین کے بھی تمام حقائق و واقعات کو چھوڑ کر صرف انسان اور نباتات ہی کی زندگی پر نظر ڈال کر دیکھ لیجیے۔ یہاں اس کی قدرت کے جو کرشمے آپ کو نظر آتے ہیں کیا انہیں دیکھ کر کوئی صاحب عقل آدمی یہ بات کہہ سکتا ہے کہ خدا بس وہی کچھ کر سکتا ہے جو آج ہم اسے کرتے ہوۓ دیکھ رہے ہیں۔ اور کل اگر وہ کچھ اور کرنا چاہے تو نہیں کر سکتا ؟ خدا تو خیر بہت بلند و برتر ہستی ہے ، انسان کے متعلق پچھلی صدی تک لوگوں کے یہ اندازے تھے کہ یہ صرف زمین ہی پر چلنے والی گاڑیاں بنا سکتا ہے ، ہوا پر اڑنے والی گاڑیاں بنانا اس کی قدرت میں نہیں ہے۔ مگر آج کے ہوائی جہازوں نے بتا دیا کہ انسان کے ’’ امکانات‘‘ کی حدیں تجویز کرنے میں ان کے اندازے کتنے غلط تھے۔ اب اگر کوئی شخص خدا کے لیے اس کے صرف اپنے ہی ذہن کی تنگی کا ثبوت دیتا ہے ، خدا کی قدرت بہر حال اس کی باندھی ہوئی حدوں میں بند نہیں ہو سکتی۔ چوتھی اور پانچویں بات، یعنی یہ کہ ’’ قیامت کی گھڑی آ کر رہے گی ‘‘ اور یہ کہ ’’ اللہ ضرور ان سب لوگوں کو زندہ کر کے اٹھائے گا جو مر چکے ہیں ‘‘ ، ان تین مقدمات کا عقلی نتیجہ ہے جو اوپر بیان ہوئے ہیں۔ اللہ کے کاموں کو اس کی قدرت کے پہلو سے دیکھیے تو دل گواہی دے گا کہ وہ جب چاہے قیامت برپا کر سکتا ہے اور جب چاہے ان سب مرنے والوں کو پھر سے زندہ کر سکتا ہے جن کو پہلے ہو عدم سے وجود میں لایا تھا۔ اور اگر اس کے کاموں کو اس کی حکمت کے پہلو سے دیکھیے تو عقل شہادت دے گی کہ یہ دونوں کام بھی وہ ضرور کر کے رہے گا کیونکہ ان کے بغیر حکمت کے تقاضے پورے نہیں ہوتے اور ایک حکیم سے یہ بعید ہے کہ وہ ان تقاضوں کو پورا نہ کرے۔ جو محدود سی حکمت و دانائی انسان کو حاصل ہے اس کا یہ نتیجہ ہم دیکھتے ہیں کہ آدمی اپنا مال یا جائداد یا کرو بار جس کے سپرد بھی کرتا ہے اس سے کسی نہ کسی وقت حساب ضرور لیتا ہے۔ گویا امانت اور محاسبے کے درمیان ایک لازمی عقلی رابطہ ہے جس کو انسان کی محدود حکمت بھی کسی حال میں نظر انداز نہیں کرتی۔ پھر اسی حکمت کی بنا پر آدمی ارادی اور غیر ارادی افعال کے درمیان فرق کرتا ہے ، ارادی افعال کے ساتھ اخلاقی ذمہ داری کا تصور وابستہ کرتا ہے ، افعال میں نیک اور بد کی تمیز کرتا ہے ‘‘، اچھے افعال کا نتیجہ تحسین اور انعام کی شکل میں دیکھنا چاہتا ہے ، اور برے افعال پر سزا کا تقاضا کرتا ہے ، حتیٰ کہ خود ایک نظام عدالت اس غرض کے لیے وجود میں لاتا ہے۔ یہ حکمت جس خالق نے انسان میں پیدا کی ہے ، کیا باور کیا جا سکتا ہے کہ وہ خود اس حکمت سے عاری ہو گا۔ کیا مانا جا سکتا ہے کہ اپنی اتنی بڑی دنیا اتنے سر و سامان اور اس قدر اختیارات کے ساتھ انسان کے سپرد کر کے وہ بھول گیا ہے ، اس کا حساب وہ کبھی نہ لے گا ؟ کیا کسی صحیح الدماغ آدمی کی عقل یہ گواہی دے سکتی ہے کہ انسان کے جو برے اعمال سزا سے بچ نکلے ہیں ، یا جن برائیوں کی متناسب سزا اسے نہیں مل سکی ہے ان کی باز پرس کے لیے کبھی عدالت قائم نہ ہو گی، اور جو بھلائیاں اپنے منصفانہ انعام سے محروم رہ گئی ہیں وہ ہمیشہ محروم ہی رہیں گی؟ اگر ایسا نہیں ہے تو قیامت اور زندگی بعد موت خدائے حکیم کی حکمت کا ایک لازمی تقاضا ہے جس کا پورا ہونا نہیں بلکہ نہ ہونا سراسر بعید از عقل ہے |
Surah 29 : Ayat 19
أَوَلَمْ يَرَوْاْ كَيْفَ يُبْدِئُ ٱللَّهُ ٱلْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُۥٓۚ إِنَّ ذَٲلِكَ عَلَى ٱللَّهِ يَسِيرٌ
کیا1 اِن لوگوں نے کبھی دیکھا ہی نہیں ہے کہ اللہ کس طرح خلق کی ابتدا کرتا ہے، پھر اُس کا اعادہ کرتا ہے؟ یقیناً یہ (اعادہ تو) اللہ کے لیے آسان تر ہے2
2 | یعنی ایک طرف بے شمار اشیاء عدم سے وجود میں آتی ہیں اور دوسری طرف ہر نوع کے افراد کے منٹے کے ساتھ پھرویسے ہی افراد وجود میں آتے چلے جاتے ہیں۔ مشرکین اس بات کو مانتے تھے کہ یہ سب کچھ اللہ کی صفت خلق وایجا کا نتیجہ ہے۔ انہیں اللہ کے خالق ہونے سے انکار نہ تھا۔ جس طرح آج کے مشرکین کو نہیں ہے۔ اس لیے ان کی اپنی مانی ہوئی بات پر یہ دلیل قائم کی گئی ہے کہ جو خدا تمہارے نزدیک اشیا کو عدم سے وجود میں لاتا ہے، اور پھر ایک یہ دفعہ تخلیق کر کے نہیں رہ جاتا بلکہ تمہاری آنکھوں کے سامنے مٹ جانے واکی اشیاء کی جگہ پھر ویسی ہی اشیاء پے در پے عجود میں لاتا چلا جاتا ہے، اس کے بارے میں آخر تم نے یہ کیوں سمجھ رکھا ہے کہ تمہارے مر جانے کے بعد وہ پھر تمہیں دوبارہ زندہ کرکے اٹھا نہیں کرسکتا (مزید تشریح کے لیے ملاحظۃ ہو سورہ نمل حاشیہ نمبر ۸۰) |
1 | یہاں سے لَھُم عَذَابُ الیِم (ان کے لیے درد ناک سزا ہے) تک ایک جملہ معرتضہ جو حضرت ابراہیمؑ کے قصے کا سلسلہ توڑ کر اللہ تعالی نے کفار مکہ کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا ہے۔ اس اعتراضی تقریر کی بناسبت یہ ہے کہ کفار مکہ جنہیں سبق دینے کے لیے یہ قصہ سنایا جا رہا ہے، دو بنیادی گمراہیوں میں متبلا تھے۔ ایک شرک و بت پرستی۔ دوسرے انکار آخرت۔ ان میں سے پہلی گمراہی کا رد حضرت ابراہیم ؑ کی اس تقریر میں آچکا ہے جو اوپر نقل کی گئی ہے۔ اب دوسری گمراہہی کے رد میں یہ فقرے اللہ تعالی اپنی طرف سے ارشاد فرما رہا ہے تاکہ دونوں کی تردید ایک ہی سلسہ کلام میں ہو جائے |
Surah 29 : Ayat 20
قُلْ سِيرُواْ فِى ٱلْأَرْضِ فَٱنظُرُواْ كَيْفَ بَدَأَ ٱلْخَلْقَۚ ثُمَّ ٱللَّهُ يُنشِئُ ٱلنَّشْأَةَ ٱلْأَخِرَةَۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ
ان سے کہو کہ زمین میں چلو پھرو اور دیکھو کہ اُس نے کس طرح خلق کی ابتدا کی ہے، پھر اللہ بار دیگر بھی زندگی بخشے گا یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے1
1 | یعنی جب خدا کی کاریگری سے بار اول کی تخلیق کا تم خود مشاہدہ کر رہے ہو تو تمہیں سمجھنا چاہیے کہ اسی خدا کی کاریگری سے بارد دیگر بھی تخلیق ہوگی۔ ایسا کرنا اس کی قدرت سے باہر نہیں ہے اور نہ ہو سکتا ہے |
Surah 30 : Ayat 19
يُخْرِجُ ٱلْحَىَّ مِنَ ٱلْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ ٱلْمَيِّتَ مِنَ ٱلْحَىِّ وَيُحْىِ ٱلْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَاۚ وَكَذَٲلِكَ تُخْرَجُونَ
وہ زندہ میں سے مُردے کو نکالتا ہے اور مُردے میں سے زندہ کو نکالتا ہے اور زمین کو اس کی موت کے بعد زندگی بخشتا ہے1 اسی طرح تم لوگ بھی (حالت موت سے) نکال لیے جاؤ گے
1 | یعنی جو خداہرآن تمہاری آنکھوں کے سامنے یہ کام کررہا ہے وہ آخرانسان کومرنے کے بعد دوبارہ زندگی بخشنے سے عاجزکیسے ہوسکتاہے۔وہ ہروقت زندہ انسانوں اورحیوانات میں سےفضلات(Waste Matter)خارج کررہاہے جن کے اندرزندگی کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔وہ ہرلمحہ بے جان مادے(Dead Matter)کے اندرزندگی کی روح پھونک کربےشمارجیتے جاگتےحیوانات،نباتات اورانسان وجود میں لارہاہے،حالاں کہ بجائے خوداُن مادّوں میں،جن سے ان زندہ ہستیوں کے جسم مرکتب ہوتے ہیں،قطعًاکوئی زندگی نہیں ہوتی۔وہ ہرآن یہ منظرتمہیں دکھارہاہےکہ بنجرپڑی ہوئی زمین کو جہاں پانی میسرآیااوریکایک وہ حیوانی اورنباتی زندگی کے خزانے اُگلناشروع کردیتی ہے۔یہ سب کچھ دیکھ کربھی اگرکوئی شخص یہ سمجھتاہے کہ اس کارخانہ ہستی کوچلانے والاخداانسان کے مرجانے کےبعد اسے دوبارہ زندہ کرنے سے عاجز ہےتوحقیقت میں وہ عقل کااندھاہے۔اس کے سرکی آنکھیں جن ظاہری مناظرکودیکھتی ہیں،اس کی عقل کی آنکھیں ان کے اندرنظرآنےوالےروشن حقائق کونہیں دیکھتیں۔ |