Ayats Found (12)
Surah 10 : Ayat 4
إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًاۖ وَعْدَ ٱللَّهِ حَقًّاۚ إِنَّهُۥ يَبْدَؤُاْ ٱلْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُۥ لِيَجْزِىَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ بِٱلْقِسْطِۚ وَٱلَّذِينَ كَفَرُواْ لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمُۢ بِمَا كَانُواْ يَكْفُرُونَ
اسی کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے1، یہ اللہ کا پکا وعدہ ہے بے شک پیدائش کی ابتدا وہی کرتا ہے، پھر وہی دوبارہ پیدا کرے گا2، تاکہ جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے ان کو پورے انصاف کے ساتھ جزا دے، اور جنہوں نے کفر کا طریقہ اختیار کیا وہ کھولتا ہوا پانی پییں اور دردناک سزا بھگتیں اُس انکار حق کی پاداش میں جو وہ کرتے رہے3
3 | یہ وہ ضرورت ہے جس کی بنا پراللہ تعالٰی انسان کو دوبارہ پیدا کرے گا۔ اوپر جو دلیل دی گئی ہے وہ یہ بات ثابت کرنے کے لیے کافی تھی کہ خلق کا اعادہ ممکن ہے اور اسے مُستبعَد سمجھنا درست نہیں ہے۔ اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ اعادۂ خلق، عقل وانصاف کی روسے ضروری ہے اور یہ ضرورت تخلیقِ ثانیہ کے سوا کسی دوسرے طریقے سے پوری نہیں ہو سکتی۔ خدا کو اپنا واحد رب مان کر جو لوگ صحیح بندگی کا رویہ اختیار کریں وہ اس کے مستحق ہیں کہ انہیں اپنے اس بجا طرزِ عمل کی پوری پوری جزا ملے۔ اور جولو گ حقیقت سے انکار کر کے اس کے خلاف زندگی بسر کریں وہ بھی اس کے مستحق ہیں کہ وہ اپنے اس بےجا طرزِعمل کا برا نتیجہ دیکھیں۔ یہ ضرورت اگر موجودہ دنیوی زندگی میں پوری نہیں ہو رہی ہے (اور ہر شخص جوہٹ دھرم نہیں ہے جانتا ہے کہ نہیں ہو رہی ہے) تو اسے پورا کرنے کے لیے یقینًا دوبارہ زندگی ناگزیر ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ اعراف، حاشیہ نمبر ۳۰ و سورۂ ہود، حاشیہ نمبر ۱۰۵) |
2 | یہ فقرہ دعوے اور دلیل دونوں کا مجموعہ ہے۔ دعویٰ یہ ہے کہ خدا دوبارہ انسان کو پیدا کرے گا اور اس پر دلیل یہ دی گئی ہے کہ اسی نے پہلی مرتبہ انسان کو پیدا کیا۔ جو شخص یہ تسلیم کرتا ہو کہ خدا نے خلق کی ابتدا کی ہے (اوراس سے بجز اُن دہریوں کے جو محض پادریوں کے مذہب سے بھاگنے کے لیے خلقِ بے خالق جیسے احمقانہ نظریے کو اوڑھنے پر آمادہ ہو گئے اورکون انکارکرسکتا ہے) وہ اس بات کو ناممکن یا بعد از فہم قرار نہیں دے سکتا کہ وہی خدا اس خلق کا پھر اعادہ کرے گا۔ |
1 | یہ نبی کی تعلیم کا دوسرا بنیادی اصول ہے۔ اصلِ اوّل یہ تمہارا رب صرف اللہ ہے لہٰذا اسی کی عبادت کرو۔ اوراصلِ دوم یہ کہ تمہیں اس دنیا سے واپس جا کر اپنے رب کو حساب دینا ہے۔ |
Surah 14 : Ayat 48
يَوْمَ تُبَدَّلُ ٱلْأَرْضُ غَيْرَ ٱلْأَرْضِ وَٱلسَّمَـٰوَٲتُۖ وَبَرَزُواْ لِلَّهِ ٱلْوَٲحِدِ ٱلْقَهَّارِ
ڈراؤ اِنہیں اُس دن سے جبکہ زمین اور آسمان بدل کر کچھ سے کچھ کر دیے جائیں گے1 اور سب کے سب اللہ واحد قہار کے سامنے بے نقاب حاضر ہو جائیں گے
1 | اس آیت سے اور قرآن کے دوسرے اشارات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت میں زمین و آسمان بالکل نیست و نابود نہیں ہو جائیں گے بلکہ صرف موجودہ نظامِ طبیعی کو درہم برہم کر ڈالا جائے گا۔ اُس کے بعد نفخِ صورِ اول اور نفخِ صور آخر کے درمیان ایک خاص مدت میں، جسے اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، زمین اور آسمانوں کی موجودہ ہیئت بدل دی جائے گی اور ایک دوسرا نظامِ طبیعت ، دوسرے قوانینِ فطرت کے ساتھ بنا دیا جائے گا۔ وہی عالمِ آخرت ہو گا ۔ پھر نفخِ صور آخر کے ساتھ ہی تمام وہ انسان جو تخلیقِ آدم سے لے کر قیامت تک پیدا ہوئے تھے، از سرِ نو زندہ کیے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں گے۔ اسی کا نام قرآن کی زبان میں حشر ہے جس کے لغوی معنی سمیٹنے اور اکٹھا کرنے کے ہیں۔ قرآن کے اشارات اور حدیث کے تصریحات سے یہ بات ثابت ہے کہ حشر اسی زمین پر برپا ہو گا ، یہیں عدالت قائم ہو گی ، یہیں میزان لگائی جائے گی اور قضیہ ٔ زمین برسرِ زمین ہی چکایا جائے گا۔ نیز یہ بھی قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ ہماری وہ دوسری زندگی جس میں یہ معاملات پیش آئیں گے محض روحانی نہیں ہو گی بلکہ ٹھیک اُسی طرح جسم و روح کے ساتھ ہم زندہ کیے جائیں گے جس طرح آج زندہ ہیں، اور ہر شخص ٹھیک اُسی شخصیت کےساتھ وہاں موجود ہو گا جسے لیے ہو ئے وہ دنیا سے رخصت ہو ا تھا |
Surah 14 : Ayat 51
لِيَجْزِىَ ٱللَّهُ كُلَّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْۚ إِنَّ ٱللَّهَ سَرِيعُ ٱلْحِسَابِ
یہ اِس لیے ہوگا کہ اللہ ہر متنفس کو اس کے کیے کا بدلہ دے گا اللہ کوحساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی
Surah 16 : Ayat 38
وَأَقْسَمُواْ بِٱللَّهِ جَهْدَ أَيْمَـٰنِهِمْۙ لَا يَبْعَثُ ٱللَّهُ مَن يَمُوتُۚ بَلَىٰ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
یہ لوگ اللہ کے نام سے کڑی کڑی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ "اللہ کسی مرنے والے کو پھر سے زندہ کر کے نہ اٹھائے گا" اٹھائے گا کیوں نہیں، یہ تو ایک وعدہ ہے جسے پورا کرنا اس نے اپنے اوپر واجب کر لیا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں
Surah 16 : Ayat 39
لِيُبَيِّنَ لَهُمُ ٱلَّذِى يَخْتَلِفُونَ فِيهِ وَلِيَعْلَمَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوٓاْ أَنَّهُمْ كَانُواْ كَـٰذِبِينَ
اور ایسا ہونا اس لیے ضروری ہے کہ اللہ اِن کے سامنے اُس حقیقت کو کھول دے جس کے بارے میں یہ اختلاف کر رہے ہیں اور منکرین حق کو معلوم ہو جائے کہ وہ جھوٹے تھے
Surah 20 : Ayat 15
إِنَّ ٱلسَّاعَةَ ءَاتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيهَا لِتُجْزَىٰ كُلُّ نَفْسِۭ بِمَا تَسْعَىٰ
قیامت کی گھڑی ضرور آنے والی ہے میں اُس کا وقت مخفی رکھنا چاہتا ہوں، تاکہ ہر متنفّس اپنی سعی کے مطابق بدلہ پائے1
1 | توحید کے بعد دوسری حقیقت جو ہر زمانے میں تمام انبیاء علیم السلام پر منکشف کی گئی اور جس کی تعلیم دینے پر وہ مامور کیے گۓ، آخرت ہے۔ یہاں نہ صرف اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے بلکہ اس کے مقصد پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ ساعت منتظرہ اس لیے آۓ گی کہ ہر شخص نے دنیا میں جو سعی کی ہے اس کا بدلہ رکھا گیا ہے کہ آزمائش کا مدعا پورا ہو سکے۔ جسے عاقبت کی کچھ فکر ہو اس کو ہر وقت اس گھڑی کا کھٹکا لگا رہے اور یہ کھٹکا اسے بے راہ روی سے بچاتا رہے۔ اور جو دنیا میں گم رہنا چاہتا ہو وہ اس خیال میں مگن رہے کہ قیامت ابھی کہیں دور دور بھی آتی نظر نہیں آتی۔ |
Surah 30 : Ayat 43
فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ ٱلْقَيِّمِ مِن قَبْلِ أَن يَأْتِىَ يَوْمٌ لَّا مَرَدَّ لَهُۥ مِنَ ٱللَّهِۖ يَوْمَئِذٍ يَصَّدَّعُونَ
پس (اے نبیؐ) اپنا رُخ مضبوطی کے ساتھ جما دو اِس دین راست کی سمت میں قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس کے ٹل جانے کی کوئی صورت اللہ کی طرف سے نہیں ہے1 اُس دن لوگ پھَٹ کر ایک دُوسرے سے الگ ہو جائیں گے
1 | یعنی جس کونہ اللہ تعالٰی خود ٹالے گااورنہ اس نےکسی کےلیے ایسی کسی تدبیرکی کوئی گنجائش چھوڑی ہےکہ وہ اسےٹال سکے۔ |
Surah 30 : Ayat 45
لِيَجْزِىَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ مِن فَضْلِهِۦٓۚ إِنَّهُۥ لَا يُحِبُّ ٱلْكَـٰفِرِينَ
تاکہ اللہ ایمان لانے والوں اور عملِ صالح کرنے والوں کو اپنے فضل سے جزا دے یقیناً وہ کافروں کو پسند نہیں کرتا
Surah 34 : Ayat 3
وَقَالَ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ لَا تَأْتِينَا ٱلسَّاعَةُۖ قُلْ بَلَىٰ وَرَبِّى لَتَأْتِيَنَّكُمْ عَـٰلِمِ ٱلْغَيْبِۖ لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَلَا فِى ٱلْأَرْضِ وَلَآ أَصْغَرُ مِن ذَٲلِكَ وَلَآ أَكْبَرُ إِلَّا فِى كِتَـٰبٍ مُّبِينٍ
منکرین کہتے ہیں کہ کیا بات ہے کہ قیامت ہم پر نہیں آ رہی ہے1! کہو، قسم ہے میرے عالم الغیب پروردگار کی، وہ تم پر آ کر رہے گی2 اُس سے ذرہ برابر کوئی چیز نہ آسمانوں میں چھپی ہوئی ہے نہ زمین میں نہ ذرے سے بڑی اور نہ اُس سے چھوٹی، سب کچھ ایک نمایاں دفتر میں درج ہے3
3 | یہ امکان آخرت کے دلائل میں سے ایک دلیل ہے۔ جیسا کہ آگے آیت نمبر7 میں آ رہا ہے، منکرین آخرت جن وجوہ سے زندگی بعد موت کو بعید از عقل سمجھتے تھے ان میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ جب سارے انسان مر کر مٹی میں رل مل جائیں گے اور ان کا ذرہ ذرہ منتشر ہو جائے تو کس طرح یہ ممکن ہے کہ یہ بے شمار اجزا پھر سے اکٹھے ہوں اور کن کو جوڑ کر ہم دوبارہ اپنے انہی اجسام کے ساتھ پیدا کر دیے جائیں۔ اس سب کو یہ کہہ کر رفع کیا گیا ہے کہ ہر ذرہ جو کہیں گیا ہے، خدا کے دفتر میں اس کا اندراج موجود ہے اور خدا کو معلوم ہے کہ کیا چیز کہاں گئی ہے۔ جب وہ دوبارہ پیدا کرنے کا ارادہ کرے گا تو اسے ایک ایک انسان کے اجزائے جسم کو سمیٹ لانے میں کوئی زحمت پیش نہ آئے گی۔ |
2 | پروردگار کی قسم کھاتے ہوئے اس کی لیے ’’ عالم الغیب‘‘ کی صفت استعمال کرنے سے خود بخود اس امر کی طرف اشارہ ہو گیا کہ قیامت کا آنا تو یقینی ہے مگر اس کے آنے کا وقت خدائے عالم الغیب کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ یہی مضمون قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف طریقوں سے بیان ہو ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ و الا عراف، 187۔ طٰہٰ، 15۔ لقمان 34۔ الاحزاب، 63۔الملک، 25۔26۔ النازعات، 42 یا 44 |
1 | یہ بات وہ طنز اور تمسخر کے طور پر چند را چَندرا کر کہتے تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بہت دنوں سے یہ پیغمبر صاحب قیامت کے آنے کی خبر سنا رہے ہیں، مگر کچھ خبر نہیں کہ وہ آتے آتے کہاں رہ گئی۔ ہم نے اتنا کچھ انہیں جھٹلایا، اتنی گستاخیاں کیں، ان کا مذاق تک اڑایا، مگر وہ قیامت ہے کہ کسی طرح نہیں آ چکتی |
Surah 34 : Ayat 4
لِّيَجْزِىَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِۚ أُوْلَـٰٓئِكَ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ
اور یہ قیامت اس لئے آئے گی کہ جزا دے اللہ اُن لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں اور نیک عمل کرتے رہے ہیں اُن کے لیے مغفرت ہے اور رزق کریم