Ayats Found (71)
Surah 2 : Ayat 28
كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِٱللَّهِ وَكُنتُمْ أَمْوَٲتًا فَأَحْيَـٰكُمْۖ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
تم اللہ کے ساتھ کفر کا رویہ کیسے اختیار کرتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے، اس نے تم کو زندگی عطا کی، پھر وہی تمھاری جان سلب کرے گا، پھر وہی تمہیں دوبارہ زندگی عطا کرے گا، پھر اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے
Surah 2 : Ayat 148
وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَاۖ فَٱسْتَبِقُواْ ٱلْخَيْرَٲتِۚ أَيْنَ مَا تَكُونُواْ يَأْتِ بِكُمُ ٱللَّهُ جَمِيعًاۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ
ہر ایک کے لیے ایک رُخ ہے، جس کی طرف وہ مڑتا ہے پس بھلا ئیوں کی طرف سبقت کرو1 جہاں بھی تم ہو گے، اللہ تمہیں پا لے گا اُس کی قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں
1 | پہلے فقرے اور دُوسرے فقرے کے درمیان ایک لطیف خلا ہے، جسے سامع خود تھوڑے سے غور و فکر سے بھر سکتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نماز جسے پڑھنی ہوگی، اسے بہرحال کسی نہ کسی سمت کی طرف رُخ کرنا ہی ہوگا۔ مگر اصل چیز وہ رُخ نہیں ہے، جس طرف تم مُڑتے ہو، بلکہ اصل چیز وہ بھلائیاں ہیں جنہیں حاصل کرنے کے لیے تم نماز پڑھتے ہو۔ لہٰذا سَمْت اور مقام کی بحث میں پڑنے کے بجائے تمہیں فکر بھلائیوں کے حصُول ہی کی ہونی چاہیے |
Surah 2 : Ayat 203
۞ وَٱذْكُرُواْ ٱللَّهَ فِىٓ أَيَّامٍ مَّعْدُودَٲتٍۚ فَمَن تَعَجَّلَ فِى يَوْمَيْنِ فَلَآ إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَن تَأَخَّرَ فَلَآ إِثْمَ عَلَيْهِۚ لِمَنِ ٱتَّقَىٰۗ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ وَٱعْلَمُوٓاْ أَنَّكُمْ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ
یہ گنتی کے چند روز ہیں، جو تمہیں اللہ کی یاد میں بسر کرنے چاہییں پھر جو کوئی جلدی کر کے دو ہی دن میں واپس ہو گیا تو کوئی حرج نہیں1، اور جو کچھ دیر زیادہ ٹھیر کر پلٹا تو بھی کوئی حرج نہیں بشر طیکہ یہ دن اس نے تقویٰ کے ساتھ بسر کیے ہو اللہ کی نافرمانی سے بچو اور خوب جان رکھو کہ ایک روز اس کے حضور میں تمہاری پیشی ہونے والی ہے
1 | یعنی ایّامِ تشریق میں منٰی سے مکّے کی طرف واپسی خواہ ۱۲ ذی الحجہ کو ہو یا تیرھویں تاریخ کو، دونوں صُورتوں میں کوئی حرج نہیں ۔ اصل اہمیّت اس کی نہیں کہ تم ٹھیرے کتنے دن، بلکہ اس کی ہے کہ جتنے دن بھی ٹھیرے ان میں خدا کے ساتھ تمہارے تعلق کا کیا حال رہا۔ خدا کا ذکر کرتے رہے یا میلوں ٹھیلوں میں لگے رہے |
Surah 2 : Ayat 245
مَّن ذَا ٱلَّذِى يُقْرِضُ ٱللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَـٰعِفَهُۥ لَهُۥٓ أَضْعَافًا كَثِيرَةًۚ وَٱللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْصُۜطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
تم میں کون ہے جو اللہ کو قرض حسن دے1 تاکہ اللہ اُسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس کرے؟ گھٹانا بھی اللہ کے اختیار میں ہے اور بڑھانا بھی، اور اُسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے
1 | ”قرضِ حسن“ کا لفظی ترجمہ”اچھا قرض“ ہے اور اس سے مراد ایسا قرض ہے، جو خالص نیکی کے جذبے سے بے غرضانہ کسی کو دیا جائے۔ اس طرح جو مال راہِ خدا میں خرچ کیا جائے، اُسے اللہ تعالٰی اپنے ذمّے قرض قرار دیتا ہے اور وعدہ کرتا ہے کہ میں نہ صرف اصل ادا کر دوں گا ، بلکہ اس سے کئی گُنا زیادہ دُوں گا۔ البتہ شرط یہ ہے کہ وہ ہو قرضِ حَسَن ، یعنی اپنی کسی نفسانی غرض کے لیے نہ دیا جائے، بلکہ محض اللہ کی خاطر اُن کا موں میں صرف کیا جائے ، جن کو وہ پسند کر تا ہے |
Surah 36 : Ayat 22
وَمَا لِىَ لَآ أَعْبُدُ ٱلَّذِى فَطَرَنِى وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
آخر کیوں نہ میں اُس ہستی کی بندگی کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور جس کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے1؟
1 | اس فقرے کے دو حصّے ہیں۔ پہلا حصّہ استدلال کا شاہکار ہے، اور دوسرے حصے میں حکمتِ تبلیغ کا کمال دکھایا گیا ہے۔پہلے حصے میں وہ کہتا کہ خالق کی بندگی کرنا تو سراسر عقل و فطرت کا تقاضا ہے۔نا معقول بات اگر کوئی ہے تو وہ یہ کہ آدمی ان کی بندگی کرے جنہوں نے اسے پیدا نہیں کیا ہے، نہ یہ کہ وہ اس کا بندہ بن کر رہے جس نے اسے پیداکیا ہے۔دوسرے حصّے میں وہ اپنی قوم کے لوگوں کو یہ احساس دلاتا ہے کہ مرنا آخر تم کو بھی ہے،اور اسی خدا کی طرف جانا ہے جس کی بندگی اختیار کرنے پر تمھیں اعتراض ہے۔اب تم خود سوچ لو کہ اس سے منہ موڑ کر تم کس بھلائی کی توقع کر سکتے ہو۔ |
Surah 36 : Ayat 83
فَسُبْحَـٰنَ ٱلَّذِى بِيَدِهِۦ مَلَكُوتُ كُلِّ شَىْءٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
پاک ہے وہ جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا مکمل اقتدار ہے، اور اسی کی طرف تم پلٹائے جانے والے
Surah 43 : Ayat 85
وَتَبَارَكَ ٱلَّذِى لَهُۥ مُلْكُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَعِندَهُۥ عِلْمُ ٱلسَّاعَةِ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
بہت بالا و برتر ہے وہ جس کے قبضے میں زمین اور آسمانوں اور ہر اُس چیز کی بادشاہی ہے جو زمین و آسمان کے درمیان پائی جاتی ہے1 اور وہی قیامت کی گھڑی کا علم رکھتا ہے، اور اسی کی طرف تم سب پلٹائے جانے والے ہو2
2 | یعنی دنیا میں تم خواہ کسی کو اپنی حامی و سرپرست بناتے پھرو، مگر مرنے کے بعد تمہارا سابقہ اسی ایک خدا سے پڑنا ہے اور اسی کی عدالت میں تم کو اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے |
1 | یعنی اس کی ہستی اس سے بدر جہا بلند و بر تر ہے کہ کوئی خدائی میں اس کا شریک ہو اور اس عظیم کائنات کی فرماں روائی میں کچھ بھی دخل رکھتا ہو ۔ زمین و آسمان میں جو بھی ہیں ، خواہ وہ انبیاء ہو یا اولیا ، فرشتے ہوں یا جن یا ارواح، ستارے ہوں یا سیارے ، سب اس کے بندے اور غلام اور تابع فرمان ہیں۔ ان کا کسی خدائی صفت سے متصف یا خدائی اختیار کا حامل ہونا قطعی نا ممکن ہے |
Surah 5 : Ayat 96
أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ ٱلْبَحْرِ وَطَعَامُهُۥ مَتَـٰعًا لَّكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِۖ وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ ٱلْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًاۗ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ ٱلَّذِىٓ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ
تمہارے لیے سمندر کا شکار اور اس کا کھانا حلال کر دیا گیا1، جہاں تم ٹھیرو وہاں بھی اُسے کھا سکتے ہو اور قافلے کے لیے زاد راہ بھی بناسکتے ہو البتہ خشکی کا شکار جب تک احرام کی حالت میں ہو، تم پر حرام کیا گیا ہے پس بچو اُس خدا کی نافرمانی سے جس کی پیشی میں تم سب کو گھیر کر حاضر کیا جائے گا
1 | چونکہ سمندر کے سفر میں بسا اوقات زادِ راہ ختم ہو جا تا ہے اور غذا کی فراہمی کے لیے بجُز اس کے کہ آبی جانوروں کا شکار کیا جائے اور کوئی تدبیر ممکن نہیں ہوتی اس لیے بحری شکار حلال کر دیا گیا |
Surah 3 : Ayat 158
وَلَئِن مُّتُّمْ أَوْ قُتِلْتُمْ لَإِلَى ٱللَّهِ تُحْشَرُونَ
اور خواہ تم مرو یا مارے جاؤ بہر حال تم سب کو سمٹ کر جانا اللہ ہی کی طرف ہے
Surah 4 : Ayat 87
ٱللَّهُ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَۚ لَيَجْمَعَنَّكُمْ إِلَىٰ يَوْمِ ٱلْقِيَـٰمَةِ لَا رَيْبَ فِيهِۗ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ ٱللَّهِ حَدِيثًا
اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، وہ تم سب کو اُس قیامت کے دن جمع کرے گا جس کے آنے میں کوئی شبہہ نہیں، اور اللہ کی بات سے بڑھ کر سچی بات اور کس کی ہوسکتی ہے1
1 | یعنی کافر اور مشرک اور ملحد اور دہریے جو کچھ کر رہے ہیں اس سے خدا کی خدائی کا کچھ نہیں بگڑتا۔ اُس کا خدائے واحد اور خدائے مطلق ہونا ایک ایسی حقیقت ہے جو کسی کے بدلے بدل نہیں سکتی۔ پھر ایک دن وہ سب انسانوں کو جمع کر کے ہر ایک کو اس کے عمل کا نتیجہ دکھا دے گا۔ اس کی قدرت کے احاطہ سے بچ کر کوئی بھاگ بھی نہیں سکتا۔ لہٰذا خدا ہر گز اس بات کا حاجت مند نہیں ہے کہ اس کی طرف سے کوئی اس کے باغیوں پر جلے دل کا بخار نکالتا پھرے اور کج خُلقی و ترش کلامی کوزخمِ دل کا مرہم بنائے۔ یہ تو اس آیت کا تعلق اوپر کی آیت سے ہے ۔ لیکن یہی آیت اس پورے سلسلۂ کلام کا خاتمہ بھی ہے جو پچھلے دو تین رکوعوں سے چلا آرہا ہے۔ اس حیثیت سے آیت کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی زندگی میں جو شخص جس طریقے پر چاہے چلتا رہے اور جس راہ میں اپنی کوشش اور محنتیں صرف کرنا چاہتا ہے کیے جائے ، آخرکار سب کو ایک دن اس خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، پھر ہر ایک اپنی سعی و عمل کے نتائج دیکھ لے گا |