Ayats Found (15)
Surah 4 : Ayat 32
وَلَا تَتَمَنَّوْاْ مَا فَضَّلَ ٱللَّهُ بِهِۦ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍۚ لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا ٱكْتَسَبُواْۖ وَلِلنِّسَآءِ نَصِيبٌ مِّمَّا ٱكْتَسَبْنَۚ وَسْــَٔلُواْ ٱللَّهَ مِن فَضْلِهِۦٓۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيمًا
اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ دیا ہے اس کی تمنا نہ کرو جو کچھ مَردوں نے کمایا ہے اُس کے مطابق ان کا حصہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق اُن کا حصہ ہاں اللہ سے اس کے فضل کی دعا مانگتے رہو، یقیناً اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے1
1 | اس آیت میں بڑی اہم اخلاقی ہدایت دی گئی ہے جسے اگر ملحوظ رکھا جائے تو اجتماعی زندگی میں انسان کو بڑا امن نصیب ہو جائے ۔ اللہ تعالٰی نے تمام انسانوں کو یکساں نہیں بنایا ہے بلکہ ان کے درمیان بے شمار حیثیتوں سے فرق رکھے ہیں ۔کوئی خوبصُورت ہے اور کوئی بد صُورت۔ کوئی خوش آواز ہے اور کوئی بد آواز۔ کوئی طاقت ور ہے اور کوئی کمزور۔ کوئی سلیم الاعضا ہے اور کوئی پیدائشی طور پر جسمانی نقص لے کر آیا ہے۔ کسی کو جسمانی اور ذہنی قوتوں میں سے کوئی قوت زیادہ دی ہے اور کسی کو کوئی دوسری قوت۔ کسی کو بہتر حالات میں پیدا کیا ہے اور کسی کو بدتر حالات میں۔ کسی کو زیادہ ذرائع دیے ہیں اور کسی کو کم۔ اسی فرق و امتیاز پر انسانی تمدّن کی ساری گونا گونی قائم ہے اوریہ عین مقتضائے حکمت ہے۔ جہاں اس فرق کو اس کے فطری حدود سے بڑھا کر انسان اپنے مضنوعی امتیازات کا اس پر اضافہ کر تا ہے وہاں ایک نوعیّت کا فساد رُونما ہوتاہے ، اور جہاں سرے سے اس فرق ہی کو مٹا دینے کے لیےفطرت سے جنگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے وہاں ایک دُوسری نوعیّت کا فساد برپا ہوتا ہے۔ آدمی کی یہ ذہنیت کہ جسے کسی حیثیت سے اپنے مقابلہ میں بڑھا ہوا دیکھے بے چین ہو جائے، یہی اجتماعی زندگی میں رشک، حسد، رقابت، عداوت، مزاحمت اور کشاکش کی جڑ ہے، اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو فضل اُسے جائز طریقوں سے حاصل نہیں ہوتا اسے پھر وہ ناجائز تدبیروں سے حاصل کرنے پر اُتر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس آیت میں اسی ذہنیت سے بچنے کی ہدایت فرما رہا ہے ۔ اس کے ارشاد کا مدّعا یہ ہے کہ جو فضل اس نے دُوسروں کو دیا ہو اس کی تمنّا نہ کرو، البتہ اللہ سے فضل کی دُعا کرو، وہ جس فضل کو اپنے علم و حکمت سے تمہارے لیے مناسب سمجھے گا عطا فرما دے گا۔ اور یہ جو فرمایا کہ ” مَردوں نے جو کچھ کمایا ہے اس کے مطابق اُن کا حصّہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصّہ“، اس کا مطلب جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں یہ ہے کہ مَردوں اور عورتوں میں سے جس کو جو کچھ اللہ نے دیا ہے اس کو استعمال کر کے جو جتنی اور جیسی بُرائی یا بھلائی کمائے گا اسی کے مطابق، یا بالفاظِ دیگر اسی کی جنس سے اللہ کے ہاں حصّہ پائے گا |
Surah 9 : Ayat 55
فَلَا تُعْجِبْكَ أَمْوَٲلُهُمْ وَلَآ أَوْلَـٰدُهُمْۚ إِنَّمَا يُرِيدُ ٱللَّهُ لِيُعَذِّبَهُم بِهَا فِى ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَا وَتَزْهَقَ أَنفُسُهُمْ وَهُمْ كَـٰفِرُونَ
اِن کے مال و دولت اور ان کی کثرت اولاد کو دیکھ کر دھوکہ نہ کھاؤ، اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ اِنہی چیزوں کے ذریعہ سے ان کو دنیا کی زندگی میں بھی مبتلائے عذاب کرے1 اور یہ جان بھی دیں تو انکار حق ہی کی حالت میں دیں2
2 | یعنی اس ذلت و رسوائی سے بڑھ کر مصیبت ان کے لیے یہ ہوگی کہ جن منافقانہ اوصاف کو یہ اپنے اندر پرورش کر رہے ہیں ان کی بدولت انہیں مرتے دم تک صدقِ ایمانی کی توفیق نصیب نہ ہو گی اور اپنی دنیا خراب کر لینے کے بعد یہ اس حال میں دنیا سے رخصت ہوں گے کہ آخرت بھی خراب بلکہ خراب تر ہو گی |
1 | یعنی اس مال و اولاد کی محبت میں گرفتار ہو کر جو منافقانہ رویہ انہوں نے اختیار کیا ہے، اس کی وجہ سے مسلم سوسائیٹی میں یہ انتہائی ذلیل و خوار ہو کر رہیں گے اور وہ ساری شانِ ریاست اور عزّت و نافوری اور مشخیت و چودھراہٹ، جو اب تک عربی سوسائٹی میں ان کو حاصل رہی ہے، نئے اسلامی نظام اجتماعی میں وہ خاک میں مل جائے گی۔ ادنیٰ ادنیٰ غلام اور غلام زادے اور معمولی کاشتکار اور چرواہے ، جنہوں نے اخلاص ایمانی کا ثبوت دیا ہے، اس نئے نظام میں باعزّت ہوں گے، اور خاندانی چودھری اپنی دنیا پرستی کی بدولت بے عزت ہو کر رہ جائیں گے۔ اس کیفیت کا ایک دلچسپ نمونہ وہ واقعہ ہے جو ایک دفعہ حضرت عمر ؓ کی مجلس میں پیش آیا۔ قریش کے چند بڑے بڑے شیوخ، جن میں سُہَیل بن عَمرو اور حارِث بن ہِشام جیسے لوگ بھی تھے، حضرت عمرؓ اسے اپنے پاس بلا کر بٹھاتے اور اِن شیوخ سے کہتے کہ اس کے لیے جگہ خالی کرو۔ تھوڑی دیر میں نوبت یہ آئی کہ یہ حضرات سرکتے سرکتے پائینِ مجلس میں پہنچ گئے ۔ باہر نکل کر حارث بن ہشام نے ساتھیوں سے کہا کہ تم لوگوں نے دیکھا آج ہمارے ساتھ کیا سلوک ہوا؟ سُہَیل بن عمرو نے کہا اس میں عمر کا کچھ قصور نہیں ، قصور ہمارا ہے کہ جب ہمیں اِس دین کی طرف دعوت دی گئی تو ہم نے منہ موڑا اور یہ لوگ اس کی طرف دوڑ کر آئے۔ پھر یہ دونوں صاحب دوبارہ حضرت عمر ؓ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آج ہم نے آپ کا سلوک دیکھا، اور ہم جانتے ہیں کہ یہ ہماری کوتاہیوں کا نتیجہ ہے ، مگر اب اس کی تلافی کی بھی کوئی صورت ہے؟ حضرت عمر ؓ نے زبان سے کچھ جواب نہ دیا اور صرف سرحدِ روم کی طرف اشارہ کردیا۔ مطلب یہ تھا کہ اب میدانِ جہاد میں جان و مال کھپاؤ تو شاید وہ پوزیشن پھر حاصل ہو جائے جسے کھو چکے ہو |
Surah 20 : Ayat 131
وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِۦٓ أَزْوَٲجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِۚ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ
اور نگاہ اُٹھا کر بھی نہ دیکھو دُنیوی زندگی کی اُس شان و شوکت کو جو ہم نے اِن میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے وہ تو ہم نے انہیں آزمائش میں ڈالنے کے لیے دی ہے، اور تیرے رب کا دیا ہوا رزق حلال1 ہی بہتر اور پائندہ تر ہے
1 | رزق کا ترجمہ ہم نے ’’رزق حلال‘‘ کیا ہے، کیونکہ اللہ تعالٰی نے کہیں بھی حرام مال کو ’’رزق رب‘‘ سے تعبیر نہیں فرمایا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارا اور تمہارے ساتھی اہل ایمان کا یہ کام نہیں ہے کہ یہ فسّاق و فجّار نا جائز طریقوں سے دولت سمیٹ سمیٹ کر اپنی زندگی میں جو ظاہر چمک دمک پیدا کر لیتے ہیں،اس کو رشک کی نگاہ سے دیکھو۔ یہ دولت اور یہ شان و شوکت تمہارے لیے ہرگز قابل رشک نہیں ہے۔ جو پاک رزق تم اپنی محنت سے کماتے ہو وہ خواہ کتنا ہی تھوڑا ہو، راستباز اور ایماندار آدمیوں کے لیے وہی بہتر ہے اور اسی میں وہ بھلائی ہے جو دنیا سے آخرت تک برقرار رہنے والی ہے۔ |
Surah 4 : Ayat 128
وَإِنِ ٱمْرَأَةٌ خَافَتْ مِنۢ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَآ أَن يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًاۚ وَٱلصُّلْحُ خَيْرٌۗ وَأُحْضِرَتِ ٱلْأَنفُسُ ٱلشُّحَّۚ وَإِن تُحْسِنُواْ وَتَتَّقُواْ فَإِنَّ ٱللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا
جب1 کسی عورت کو اپنے شوہر سے بدسلوکی یا بے رخی کا خطر ہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں اگر میاں اور بیوی (کچھ حقوق کی کمی بیشی پر) آپس میں صلح کر لیں صلح بہر حال بہتر ہے2 نفس تنگ دلی کے طرف جلدی مائل ہو جاتے ہیں3، لیکن اگر تم لوگ احسان سے پیش آؤ اور خدا ترسی سے کام لو تو یقین رکھو کہ اللہ تمہارے اس طرز عمل سے بے خبر نہ ہوگا4
4 | یہاں پھر اللہ تعالٰی نے مرد ہی کے جذبۂ فیاضی سے اپیل کی ہے جس طرح بالعموم ایسے معاملات میں اس کا قاعدہ ہے۔ اس نے مرد کو ترغیب دی ہے کہ وہ بے رغبتی کے باوجود اس عورت کے ساتھ احسان سے پیش آئے جو برسوں اس کی رفیقِ زندگی رہے ہے، اور اس خدا سے ڈرے جو اگر کسی انسان کی خامیوں کے سبب سے اپنی نظرِ التفات سے اس پھیر لے اور اس کے نصیب میں کمی کرنے پر اُتر آئے تو پھر اس کا دنیا میں کہیں ٹھکانا نہ رہے |
3 | عورت کی طرف سے تنگ دلی یہ ہے کہ وہ اپنے اندر شوہر کے لیے بے رغبتی کے اسباب کو خود محسوس کر تی ہو اور پھر بھی وہ سلوک چاہے جو ایک مرغوب بیوی کے ساتھ ہی برتا جا سکتا ہے۔ مرد کی طرف سے تنگ دلی یہ ہے کہ جو عورت دل سے اُتر جانے پر بھی اس کے ساتھ ہی رہنا چاہتی ہو اس کو وہ حد سے زیادہ دبانے کی کوشش کرے اور اس کے حقوق ناقابلِ برداشت حد تک گھٹا دینا چاہے |
2 | یعنی طلاق و جدائی سے بہتر ہے کہ اس طرح باہم مصالحت کر کے ایک عورت اُسی شوہر کے ساتھ رہے جس کے ساتھ وہ عمر کا ایک حصہ گزار چکی ہے |
1 | یہاں سے اصل استفتاء کا جواب شروع ہوتا ہے۔ اس جواب کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے سوال کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیا جائے۔ زمانۂ جاہلیت میں ایک شخص غیر محدود تعداد تک بیویاں کر نے کے لیے آزاد تھا اور ان کثیر التعداد بیویوں کے لیے کچھ بھی حقوق مقرر نہ تھے ۔ سُورۂ نساء کی ابتدائی آیات جب نازل ہو ئیں تو اس آزادی پر دو قسم کی پابندیاں عائد ہوگئیں۔ ایک یہ کہ بیویوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ چار تک محدود کر دی گئی۔ دوسرے یہ کہ ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کے لیے عدل ( یعنی مساویانہ برتا ؤ) کو شرط قرار دیا گیا۔ اب یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر کسی شخص کی بیوی بانجھ ہے ، یا دائم المرض ہے، یا تعلقِ زن و شو کے قابل نہیں رہی ہے، اور شوہر دُوسری بیوی بیاہ لاتا ہے تو کیا وہ مجبُور ہے کہ دونوں کے ساتھ یکساں رغبت رکھے؟ یکساں محبت رکھے؟ جسمانی تعلق میں بھی یکسانی برتے؟ اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو کیا عدل کی شرط کا تقاضا یہ ہے کہ وہ دُوسری شادی کرنے کے لیے پہلی بیوی کو چھوڑ دے؟ نیز یہ کہ اگر پہلی بیوی خود جدا نہ ہونا چاہے تو کیا زوجین میں اس قسم کا معاملہ ہو سکتا ہے کہ جو بیوی غیر مرغوب ہو چکی ہے وہ اپنےبعض حقوق سے خود دست بردار ہو کر شوہر کو طلاق سے باز رہنے پر راضی کر لے؟ کیا ایسا کرنا عدل کی شرط کے خلا ف تو نہ ہوگا ؟ یہ سوالات ہیں جن کا جواب اِن آیات میں دیا گیا ہے |
Surah 57 : Ayat 20
ٱعْلَمُوٓاْ أَنَّمَا ٱلْحَيَوٲةُ ٱلدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرُۢ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِى ٱلْأَمْوَٲلِ وَٱلْأَوْلَـٰدِۖ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ ٱلْكُفَّارَ نَبَاتُهُۥ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَٮٰهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَـٰمًاۖ وَفِى ٱلْأَخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِّنَ ٱللَّهِ وَرِضْوَٲنٌۚ وَمَا ٱلْحَيَوٲةُ ٱلدُّنْيَآ إِلَّا مَتَـٰعُ ٱلْغُرُورِ
خوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل اور دل لگی اور ظاہری ٹیپ ٹاپ اور تمہارا آپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بارش ہو گئی تو اس سے پیدا ہونے والی نباتات کو دیکھ کر کاشت کار خوش ہو گئے پھر وہی کھیتی پک جاتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہو گئی پھر وہ بھس بن کر رہ جاتی ہے اِس کے برعکس آخرت وہ جگہ ہے جہاں سخت عذاب ہے اور اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی ہے دنیا کی زندگی ایک دھوکے کی ٹٹی کے سوا کچھ نہی1ں
1 | اس مضمون کو پوری طرح سمجھنے کے لیے قرآن مجید کے حسب ذیل مقامات کو نگاہ میں رکھنا چاہیے ۔ سورہ آل عمران، آیات 14۔15۔ یونس، 24۔25۔ ابراہیم، 18۔ الکہف، 45۔46۔ النور، 39۔ اِن سب مقامات پر جو بات انسان کے ذہن نشین کرانے کی کوشش کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ یہ دنیا کی زندگی دراصل ایک عارضی زندگی ہے ۔ یہاں کی بہار بھی عارضی ہے اور خزاں بھی عارضی۔ دل بہلانے کا سامان یہاں بہت کچھ ہے ، مگر در حقیقت وہ نہایت حقیر اور چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں جنہیں اپنی کم ظرفی کی وجہ سے آدمی بڑی چیز سمجھتا ہے اور اس دھوکے میں پڑ جاتا ہے کہ انہی کو پا لینا گویا کامیابی کے منتہیٰ تک پہنچ جانا ہے ۔ حالانکہ جو بڑے سے بڑے فائدے اور لطف و لذت کے سامان بھی یہاں حاصل ہونے ممکن ہیں وہ بہت حقیر اور صرف چند سال کی حیات مستعار تک محدود ہیں ، اور ان کا حال بھی یہ ہے کہ تقدیر کی ایک ہی گردش خود اسی دنیا میں ان سب پر جھاڑو پھیر دینے کے لیے کافی ہے ۔ اس کے بر عکس آخرت کی زندگی ایک عظیم اور ابدی زندگی ہے ۔ وہاں کے فائدے بھی عظیم اور مستقل ہیں اور نقصان بھی عظیم اور مستقل۔ کسی نے اگر وہاں اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی پالی تو اس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وہ نعمت نصیب ہو گئی جس کے سامنے دنیا بھر کی دولت و حکومت بھی ہیچ ہے ۔ اور جو وہاں خدا کے عذاب میں گرفتار ہو گیا اس نے اگر دنیا میں وہ سب کچھ بھی پا لیا ہو جسے وہ اپنے نزدیک بڑی چیز سمجھتا تھا تو اسے معلوم ہو جاۓ گا کہ وہ بڑے خسارے کا سودا کر کے آیا ہے |
Surah 9 : Ayat 34
۞ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ ٱلْأَحْبَارِ وَٱلرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَٲلَ ٱلنَّاسِ بِٱلْبَـٰطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِۗ وَٱلَّذِينَ يَكْنِزُونَ ٱلذَّهَبَ وَٱلْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ
اے ایمان لانے والو، اِن اہل کتاب کے اکثر علماء اور درویشوں کا حال یہ ہے کہ وہ لوگوں کے مال باطل طریقوں سے کھاتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ سے روکتے ہیں1 دردناک سزا کی خوش خبری دو ان کو جو سونے اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے
1 | یعنی ظالم صرف یہی ستم نہیں کرتے کہ فتوے بیچتے ہیں، رشوتیں کھاتے ہیں، نذرانے لوٹتے ہیں ، ایسے ایسے مذہبی ضابطے اور مراسم ایجاد کرتے ہیں جن سے لوگ اپنی نجات اِن سے خریدیں اور اُن کا مرنا جینا اور شادی و غم کچھ بھی اِن کو کھلائے بغیر نہ ہو سکے اور وہ اپنی قسمتیں بنانے اور بگاڑنے کا ٹھیکہ دار اِن کو سمجھ لیں۔ بلکہ مزید براں اپنی اِنہی اغراض کی خاطر یہ حضرات خلقِ خدا کو گمراہیوں کے چکر میں پھنسا ئے رکھتے ہیں اور جب کبھی کوئی دعوتِ حق اصلا ح کے لیے اُٹھتی ہے تو سب سے پہلے یہی اپنی عالمانہ فریب کاریوں اور مکاریوں کے حربے لے لے کر اس کا راستہ روکنے کھڑے ہو جاتے ہیں |
Surah 9 : Ayat 35
يَوْمَ يُحْمَىٰ عَلَيْهَا فِى نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْۖ هَـٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُواْ مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ
ایک دن آئے گا کہ اسی سونے چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اسی سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا، لو اب اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزہ چکھو
Surah 33 : Ayat 19
أَشِحَّةً عَلَيْكُمْۖ فَإِذَا جَآءَ ٱلْخَوْفُ رَأَيْتَهُمْ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ تَدُورُ أَعْيُنُهُمْ كَٱلَّذِى يُغْشَىٰ عَلَيْهِ مِنَ ٱلْمَوْتِۖ فَإِذَا ذَهَبَ ٱلْخَوْفُ سَلَقُوكُم بِأَلْسِنَةٍ حِدَادٍ أَشِحَّةً عَلَى ٱلْخَيْرِۚ أُوْلَـٰٓئِكَ لَمْ يُؤْمِنُواْ فَأَحْبَطَ ٱللَّهُ أَعْمَـٰلَهُمْۚ وَكَانَ ذَٲلِكَ عَلَى ٱللَّهِ يَسِيرًا
جو تمہارا ساتھ دینے میں سخت بخیل ہیں1 خطرے کا وقت آ جائے تو اس طرح دیدے پھرا پھرا کر تمہاری طرف دیکھتے ہیں جیسے کسی مرنے والے پر غشی طاری ہو رہی ہو، مگر جب خطرہ گزر جاتا ہے تو یہی لوگ فائدوں کے حریص بن کر قینچی کی طرح چلتی ہوئی زبانیں لیے تمہارے استقبال کو آ جاتے ہیں2 یہ لوگ ہرگز ایمان نہیں لائے، اسی لیے اللہ نے ان کے سارے اعمال ضائع کر دیے3 اور ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان ہے4
4 | یعنی اِن کے اعمال کوئی وزن اور قیمت نہیں رکھتے کہ ان کو ضائع کر دینا اللہ کو گراں گزرے۔ اور یہ لوگ کوئی زور بھی نہیں رکھتے کہ ان کے اعمال کو ضائع کرنا اُس کے لیے دُشوار ہو |
3 | یعنی اسلام قبول کرنے کے بعد جو نمازیں انہوں نے پڑھیں، جو روزے رکھے، جو زکوٰتیں دیں، اور بظاہر جو نیک کام بھی کیے ان سب کو اللہ تعالٰی کالعدم قرار دے دیگا اور ان کا کوئی اجرانھیں نہ دے گا۔ کیونکہ اللہ تعالٰی کے ہاں فیصلہ اعمال کی ظاہری شکل پر نہیں ہوتا بلکہ یہ دیکھ کر ہوتا ہے کہ اس ظاہر کی تہ میں ایمان اور خلوص ہے یا نہیں۔ جب یہ چیز سرے سے ان کے اندر موجود ہی نہیں ہے تو یہ دکھاوے کے اعمال سراسر بے معنی ہیں۔ اس مقام پر یہ امر گہری توجہ کا طالب ہے کہ جو لوگ اللہ اور رسولؐ کا اقرار کرتے تھے، نمازیں پڑھتے تھے، روزے رکھتے تھے، زکوٰۃ بھی دیتے تھے، اور مسلمانوں کے ساتھ ان کے دوسرے نیک کاموں میں بھی شریک ہوتے تھے، ان کے بارے میں صاف صاف فیصلہ دے دیا گیا ہے کہ یہ سرے سے ایمان لائے ہی نہیں۔ اور یہ فیصلہ صرف اس بنیاد پر دیا گیا ہے کہ کفر اور اسلام کی کشمکش میں جب کڑے آزمائش کا وقت آیا تو انہوں نے دوغلے پن کا ثبوت دیا، دین کے مفاد یا اپنے مفاد کو ترجیح دی اور اسلام کی حفاظت کے لیے جان، مال اور محنت صَرف کرنے میں دریغ کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ فیصلے کا اصل مدار یہ ظاہری اعمال نہیں ہیں، بلکہ یہ سوال ہے کہ آدمی کی وفاداریاں کس طرف ہیں۔ جہاں خدا اوراس کے دین سے وفاداری نہیں ہے وہاں اقرارایمان اور عبادات اور دوسری نیکیوں کی کوئی قیمت نہیں۔ |
2 | لغت کے اعتبار سے اس آیت کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ لڑائی سے جب تم کامیاب پلٹے ہو تو وہ بڑے تپاک سے تمہارا استقبال کرتے ہیں اور چرب زبانی سے کام لے کر یہ دھونس جمانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم بھی بڑے مومن ہیں اور ہم نے بھی اس کام کو فروغ دینے میں حصہ لیا ہے، لہٰذا ہم بھی مالِ غنیمت کے حق دار ہیں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر فتح نصیب ہوتی ہے تو مالِ غنیمت کی تقسیم کے موقع پر یہ لوگ زبان کی بڑی تیزی دکھاتے ہیں اور بڑھ بڑھ کر مطالبے کرتے ہیں کہ لاؤ ہمارا حصّہ، ہم نے بھی خدمات انجام دی ہیں، سب کچھ تم ہی لوگ نہ لُوٹ لے جاؤ۔ |
1 | یعنی اپنی محنتیں، اپنے اوقات، اپنی فکر، اپنے مال، غرض کوئی چیز بھی وہ اُس راہ میں صرف کرنے کے لیے بخوشی تیار نہیں ہیں جس میں مومنین صادقین اپنا سب کچھ جھونکے دے رہے ہیں۔ جان کھپانا اور خطرے انگیز کرنا تو بڑی چیز ہے، وہ کسی کام میں بھی کھلے دِل سے اہلِ ایمان کا ساتھ نہیں دینا چاہتے۔ |
Surah 89 : Ayat 19
وَتَأْكُلُونَ ٱلتُّرَاثَ أَكْلاً لَّمًّا
اور میراث کا سارا مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو1
1 | عرب میں عورتوں اور بچوں کو تو میراث سے ویسے ہی محروم رکھا جاتا تھا اور لوگوں کا نظریہ اس باب میں یہ تھا کہ میراث کا حق صرف ان مردوں کو پہنچتا ہے جو لڑنے اور کنبے کی حفاظت کرنے کے قابل ہوں۔ اس کے علاوہ مرنے والے کے ورثوں میں جو زیادہ طاقت ور اور با اثر ہوتا تھا وہ بلا تامل ساری میراث سمیٹ لیتا تھا اور اس سب لوگوں کا حصہ مار کھاتا تھا جو اپنا حصہ حاصل کرنے کا بل بوتا نہ ر کھتے ہوں۔ حق اور فرض کی کوئی اہمیت ان کی نگاہ میں نہ تھی کہ ایمانداری کے ساتھ اپنا فرض سمجھ کر حق دار کو اس کا حق دیں خواہ وہ اسے حاصل کرنے کی طاقت رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو |
Surah 89 : Ayat 20
وَتُحِبُّونَ ٱلْمَالَ حُبًّا جَمًّا
اور مال کی محبت میں بری طرح گرفتار ہو1
1 | یعنی جائز و ناجائز اور حلال و حرام کی تمہیں کوئی فکر نہیں۔ جس طریقے سے بھی ما ل حاصل کیا جا سکتا ہو اسے حاصل کرنے میں تمہیں کوئی تامل نہیں ہو تا۔ اور خواہ کتنا ہی مال مل جائے تمہاری حرص و طمع کی آگ کبھی نہیں بجھتی |