Ayats Found (3)
Surah 21 : Ayat 95
وَحَرَٲمٌ عَلَىٰ قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَـٰهَآ أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ
اور ممکن نہیں ہے کہ جس بستی کو ہم نے ہلاک کر دیا ہو وہ پھر پلٹ سکے1
1 | اس آیت کے تین مطلب ہیں : ایک یہ کہ جس قوم پر ایک مرتبہ عذاب الہٰی نازل ہو چکا ہو وہ پھر کبھی نہیں اٹھ سکتی ۔ اس کی نشاۃ ثانیہ اور اس کی حیات تو ممکن نہیں ہے ۔ دوسرے یہ کہ ہلاک ہو جانے کے بعد پھر اس دنیا میں اس کا پلٹنا اور اسے دوبارہ امتحان کا موقع ملنا غیر ممکن ہے ۔ پھر تو اللہ کی عدالت ہی میں اس کی پیشی ہو گی ۔ تیسرے یہ کہ جس قوم کی بد کاریاں اور زیادتیاں اور ہدایت حق سے پیہم رد گردانیں اس حد تک پہنچ جاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی ہلاکت کا فیصلہ ہو جاتا ہے ۔ ، اسے پھر رجوع اور توبہ و انابت کا موقع نہیں دیا جاتا ۔ اس کے لیے پھر یہ ممکن نہیں رہتا کہ ضلالت سے ہدایت کی طرف پلٹ سکے |
Surah 23 : Ayat 99
حَتَّىٰٓ إِذَا جَآءَ أَحَدَهُمُ ٱلْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ٱرْجِعُونِ
(یہ لوگ اپنی کرنی سے باز نہ آئیں گے) یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آ جائے گی تو کہنا شروع کرے گا کہ 1"اے میرے رب، مجھے اُسی دنیا میں واپس بھیج دیجیے جسے میں چھوڑ آیا ہوں
1 | اصل میں رَبِّ ارْ جِعُوْنِ کے الفاظ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو خطاب کر کے جمع کے صیغے میں درخواست کرنے کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ یہ تعظیم کے لیے ہو ، جیسا کہ تمام زبانوں میں طریقہ ہے۔ اوور دوسری وجہ بعض لوگوں نے یہ بھی بیان کی ہے کہ یہ لفظ تکرار دعا کا تصور دلانے کے لیے ہے ، یعنی وہ اِرْجِعْنِیْ اِرْجِعْنِیْ (مجھے واپس بھیج دے ، مجھے واپس بھیج دے ) کا مفہوم ادا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بعض مفسرین نے یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ رَبِّ کا خطاب اللہ تعالیٰ سے ہے اور ارْجِعُوْنِ کا خطاب ان فرشتوں سے جو اس مجرم روح کو گرفتار کر کے لیے جا رہے ہوں گے۔ یعنی بات یوں ہے : ’’ہائے میرے رب ، مجھ کو واپس کردو |
Surah 23 : Ayat 100
لَعَلِّىٓ أَعْمَلُ صَـٰلِحًا فِيمَا تَرَكْتُۚ كَلَّآۚ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَآئِلُهَاۖ وَمِن وَرَآئِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ
امید ہے کہ اب میں نیک عمل کروں گا1" ہرگز نہیں2، یہ بس ایک بات ہے جو وہ بک رہا ہے 3اب اِن سب (مرنے والوں) کے پیچھے ایک برزخ حائل ہے دوسری زندگی کے دن تک4
4 | برزخ‘‘ فارسی لفظ ’’ پردہ‘‘ کا معرب ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اب ان کے اور دنیا کے درمیان ایک روک ہے جو انہیں واپس جانے نہیں دے گی، اور قیامت تک یہ دنیا اور آخرت کے درمیان کی اس حد فاصل میں ٹھیرے رہیں گے |
3 | یہ ترجمہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’ یہ تو اب اسے کہنا ہی ہے۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ اس کی یہ بات قابل التفات نہیں ہے۔ شامت آ جانے کے بعد اب وہ یہ نہ کہے گا تو اور کیا کہے گا۔ مگر یہ محض کہنے کی بات ہے۔ پلٹے گا تو پھر وہی کچھ کرے گا جو کر کے آیا ہے۔ لہٰذا اسے بکنے دو۔ واپسی کا دروازہ اس پر نہیں کھولا جا سکتا |
2 | یعنی اس کو واپس نہیں بھیجا جائے گا۔ از سر نو عمل کرنے کے لیے کوئی دوسرا موقع اب اسے نہیں دیا جا سکتا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دنیا میں دوبارہ امتحان کے لیے آدمی کو اگر واپس بھیجا جاۓ تو لا محالہ دو صورتوں میں سے ایک ہی صورت اختیار کرنی ہو گی۔ یا تو اس کے حافظے اور شعور میں وہ سب مشاہدے محفوظ ہوں جو مرنے کے بعد اس نے کیے۔ یا ان سے کو محو کر کے اسے پھر ویسا ہی خالی الذہن پیدا کیا جائے جیسا وہ پہلی زندگی میں تھا۔ اول الذکر سورت میں امتحان کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اس دنیا میں تو آدمی کا امتحان ہے ہی اس بات کا کہ وہ حقیقت کا مشاہدہ کیے بغیر اپنی عقل سے حق کو پہچان کر اسے مانتا ہے یا نہیں ، اور طاعت و معصیت کی آزادی رکھتے ہوئے ان دونوں راہوں میں سے کس راہ کو انتخاب کرتا ہے۔ اب اگر اسے حقیقت کا مشاہدہ بھی کرا دیا جائے اور معصیت کا انجام عملاً دکھا کر معصیت کے انتخاب کی راہ بھی اس پر بند کر دی جائے تو پھر امتحان گاہ میں اسے بھیجنا فضول ہے اس کے بعد کون ایمان نہ لاۓ گا اور کون طاعت سے منہ موڑ سکے گا۔ رہی دوسری صورت ، تو یہ آزمودہ را آزمودن کا ہم معنی ہے جو شخص ایک دفعہ اسی امتحان میں ناکام ہو چکا ہے اسے پھر بعینہٖ ویسا ہی ایک اور امتحان دینے لیے بھیجنا لاحاصل ہے ، کیونکہ وہ پھر وہی کچھ کرے گا جیسا پہلے کر چکا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ یو تفہیم القرآن ، جلد اول ، البقرہ ، حاشیہ 228۔ الانعام، حواشی 6۔ 139۔ 140۔ جلد دوم، یونس ، حاشیہ 26 ) |
1 | یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر آیا ہے کہ مجرمین موت کی سرحد میں داخل ہونے کے وقت سے لے کر آخرت میں واصل بجہنم ہونے تک ، بلکہ اس کے بعد بھی، بار بار یہی درخواستیں کرتے رہیں گے کہ ہمیں بس ایک دفعہ دنیا میں اور بھیج دیا جائے ، اب ہماری توبہ ہے ، اب ہم کبھی نافرمانی نہیں کریں گے ، اب ہم سیدھی راہ چلیں گے (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو الانعام ، آیات 27۔28۔ الاعراف ، 53۔ ابراہیم، 44 ، 45۔ مومنون ، 105 تا 115۔ الشعراء ، 102۔ السجدہ ، 12 تا 14۔ فاطر، 37۔ الزمر، 58۔ 59۔المومن، 10 تا 12۔ الشوریٰ ، 44۔ مع حواشی ) |