Ayats Found (1)
Surah 31 : Ayat 33
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ ٱتَّقُواْ رَبَّكُمْ وَٱخْشَوْاْ يَوْمًا لَّا يَجْزِى وَالِدٌ عَن وَلَدِهِۦ وَلَا مَوْلُودٌ هُوَ جَازٍ عَن وَالِدِهِۦ شَيْــًٔاۚ إِنَّ وَعْدَ ٱللَّهِ حَقٌّۖ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ ٱلْحَيَوٲةُ ٱلدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُم بِٱللَّهِ ٱلْغَرُورُ
لوگو، بچو اپنے رب کے غضب سے اور ڈرو اُس دن سے جبکہ کوئی باپ اپنے بیٹے کی طرف سے بدلہ نہ دے گا اور نہ کوئی بیٹا ہی اپنے باپ کی طرف سے کچھ بدلہ دینے والا ہوگا1 فی الواقع اللہ کا وعدہ سچا ہے2 پس یہ دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے3 اور نہ دھوکہ باز تم کو اللہ کے معاملے میں دھوکا دینے پائے4
4 | الغرور (دھوکے باز) سے مراد شیطان بھی ہو سکتا ہے، کوئی انسان یا انسانوں کا کوئی گروہ بھی ہو سکتا ہے، انسان کا اپنا نفس بھی ہو سکتا ہے، اور کوئی دوسری چیز بھی ہو سکتی ہے۔ کسی شخصِ خاص یا شئے خاص کا تعیّن کیے بغیراس وسیع المعنی لفظ کو اس کی مطلق صورت میں رکھنے کی وہ یہ ہے کہ مختلف لوگوں کے لیے فریب خوردگی کے بنیادی اسباب مختلف ہوتے ہیں۔ جس شخص نے خاص طور پر جس ذریعہ سے بھی وہ اصل فریب کھایا ہو جس کے اثر سے اس کی زندگی کا رُخ صحیح سمت سے غلط سمت میں مڑ گیا وہی اس کے لیے الغرور ہے۔’’اللہ کے معاملے میں دھوکا دینے‘‘کے الفاظ بھی بہت وسیع ہیں جن میں بے شمار مختلف قسم کے دھوکے آجاتے ہیں۔ کسی کو اس کا ’’دھوکے باز‘‘یہ یقین دلاتا ہے کہ خدا سرے سے ہے ہی نہیں۔ کسی کو یہ سمجھاتا ہے کہ خدا اس دنیا کو بنا کرالگ جا بیٹھا ہے اوراب یہ دُنیا بندوں کے حوالے ہے۔ کسی کواس غلط فہمی میں ڈالتا ہے کہ خدا کے کچھ پیارے ایسے ہیں جن کا تقرب حاصل کرلوتو جو کچھ بھی تم چاہو کرتے رہو، بخشش تمہاری یقینی ہے۔ کسی کو اس دھوکے میں مبتلا کرتا ہے کہ خدا تو غفورالرحیم ہے، تم گناہ کرتے چلے جاؤ، وہ بخشتا چلا جائے گا۔ کسی کو جبر کا عقیدہ سمجھاتا ہے اوراس غلط فہمی میں ڈال دیتا ہے تم تو مجبور ہو، بدی کرتے ہو تو خدا تم سے کراتا ہے اور نیکی سے دور بھاگتے ہو تو خدا ہی تمہیں اس کی توفیق نہیں دیتا۔ اس طرح کے نہ معلوم کتنے دھوکے ہیں جو انسان خدا کے بارے میں کھا رہا ہے، اوراگر تجزیہ کر کے دیکھا جائے تو آخر کار تمام گمراہیوں اور گناہوں اور جرائم کا بنیادی سبب یہی نکلتا ہے کہ انسان نے خدا کے بارے میں کوئی نہ کوئی دھوکا کھایا ہے تب ہی اس سے کسی اعتقادی ضلالت یا اخلاقی بے راہ روی کا صدور ہوا ہے۔ |
3 | دنیا کی زندگی سطح ہیں انسانوں کو مختلف قسم کی غلط فہمیوں میں مبتلا کرتی ہے، کوئی یہ سمجھتا ہے کہ جینا اورمرنا جو کچھ ہے بس اسی دنیا میں ہے، اس بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے، لہٰذا جتنا کچھ بھی تمہیں کرنا ہے بس یہیں کرلو، کوئی اپنی دولت اورطاقت اورخوشحالی کےنشے میں بدمست ہو کراپنی موت کو بھول جاتا ہے اوراس خیالِ خام میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ اُس کا عیش اوراس کا اقتدار لازوال ہے۔ کوئی اخلاقی و روحانی مقاصد کو فراموش کر کے صرف مادّی فوائد اور لذتوں کو مقصُود بالذات سمجھ لیتا ہےاور’’معیار زندگی‘‘ کی بلندی کے سوا کسی دوسرے مقصد کو کوئی اہمیت نہیں دیتا خواہ نتیجے میں اس کا معیار آدمیت کتنا ہی پست ہوتا چلا جائے۔ کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ دنیوی خوشحالی ہی حق و باطل کا اصل معیار ہے، ہر وہ طریقہ حق ہے جس پر چل کر یہ نتیجہ حاصل ہو اوراس کے برعکس جو کچھ بھی ہے باطل ہے۔ کوئی اسی خوشحالی کو مقبول بارگاہ الٰہی ہونے کی علامت سمجھتا ہے اور یہ قاعدۂ کلّیہ بنا کر بیٹھ جاتا ہے کہ جس کی دنیا خوب بن رہی ہے، خواہ کیسے ہی طریقوں سے بنے، وہ خدا کا محبوب ہے، اور جس کی دنیا خراب ہے، چاہے وہ حق پسندی و راست بازی ہی کی بدولت خراب ہو، اس کی عاقبت بھی خراب ہے۔ یہ اورایسی ہی جتنی غلط فہمیاں بھی ہیں، ان سب کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں’’ دُنیوی زندگی کے دھوکے‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ |
2 | اللہ کے وعدے سے مراد یہ وعدہ ہے کہ قیامت آنے والی ہے اورایک روزاللہ کی عدالت قائم ہو کر رہے گی جس میں ہرایک کو اپنےاعمال کی جوابدہی کرنی ہو گی۔ |
1 | یعنی دوست، لیڈر،پیر اوراسی طرح کے دوسرے لوگ تو پھر بھی دور کا تعلق رکھنے والے ہیں، دنیا میں قریب ترین تعلق اگر کوئی ہے تو وہ اولاد اور والدین کا ہے۔ مگر وہاں حالت یہ ہو گی کہ بیٹا پکڑا گیا ہو تو باپ آگے بڑھ کر یہ نہیں کہے گا کہ اسکے گناہ میں مجھے پکڑ لیا جائے، اور باپ کی شامت آ رہی ہو تو بیٹے میں یہ کہنے کی ہمت نہیں ہو گی کہ اس کے بدلے مجھے جہنم میں بھیج دیا جائے۔ اس حالت میں یہ توقع کرنے کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ کوئی دوسرا شخص وہاں کسی کے کچھ کام آئے گا۔ لہٰذا نادان ہے وہ شخص جو دنیا میں دوسروں کی خاطر اپنی عاقبت خراب کرتا ہے، یا کسی کے بھروسے پر گمراہی اور گناہ کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ اس مقام پر آیت نمبر ۱۵ کا مضمون بھی نگاہ میں رہنا چاہیے جس میں اولاد کو تلقین کی گئی تھی کہ دُنیوی زندگی کے معاملات میں والدین کی خدمت کرنا تو بے شک ہے مگر دین و اعتقاد کے معاملے میں والدین کے کہنے پر گمراہی قبول کر لینا ہر گز صحیح نہیں ہے۔ |