Ayats Found (5)
Surah 21 : Ayat 35
كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ ٱلْمَوْتِۗ وَنَبْلُوكُم بِٱلشَّرِّ وَٱلْخَيْرِ فِتْنَةًۖ وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ
ہر جاندار کو مَوت کا مزہ چکھنا ہے1، اور ہم اچھے اور بُرے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمائش کر رہے ہیں2 آخرکار تمہیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے
2 | یعنی راحت اور رنج ، مفلسی اور امیری ، غلبہ اور مغلوبی، قوت اور ضعف، صحت اور بیماری، غرض تمام مختلف حالات میں تم لوگوں کی آزمائش کی جا رہی ہے ، تاکہ دیکھیں تم اچھے حالات میں متکبر ، ظالم ، خدا فراموش ، بندہ نفس تو نہیں بن جاتے ، اور برے حالات میں کم ہمتی کے ساتھ پست اور ذلیل طریقے اور ناجائز راستے تو اختیار نہیں کرنے لگتے ۔ لہٰذا کسی صاحبِ عقل آدمی کو ان مختلف حالات کو سمجھنے میں غلطی نہیں کرنی چاہیے ۔ جو حالت بھی اسے پیش آئے ، اس کے امتحانی اور آزمائشی پہلو کو نگاہ میں رکھنا چاہیے اور اس سے بخیریت گزرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ یہ صرف ایک احمق اور کم طرف آدمی کا کام ہے کہ جب اچھے حالات آئیں تو فرعون بن جاۓ ، اور جب برے حالات پیش آ جائیں تو زمین پر ناک رگڑنے لگے |
1 | مختصر جواب ہے ان ساری دھمکیوں اور بد دعاؤں اور کوسنوں اور قتل کی سازشوں کا جن سے ہر وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تواضع کی جاتی تھی ۔ ایک طرف اکا بر قریش تھے جو آئے دن آپ کو اس تبلیغ کے خوفناک نتائج کی دھمکیاں دیتے رہتے تھے ، اور ان میں سے بعض پر جو ش مخالفین بیٹھ بیٹھ کر یہ تک سوچا کرتے تھے کہ کسی طرح آپ کا کام تمام کر دیں ۔ دوسری طرف ہر وہ گھر جس کا کوئی فرد اسلام قبول کر لیتا تھا، آپ کا دشمن بن جاتا تھا ۔اس کی عورتیں آپ کو کلپ کلپ کر کوسنے اور بد دعائیں دیتی تھیں اور اس کے مرد آپ کو ڈرا وے دیتے پھرتے تھے ۔ خصوصاً ہجرت حبشہ کے بعد تو مکے بھر کے گھروں میں کہرام مچ گیا تھا، کیونکہ مشکل ہی سے کوئی ایسا گھرانا نچا رہ گیا تھا جس کے کسی لڑکے یا لڑکی نے ہجرت نہ کی ہو۔ یہ سب لوگ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے نام کی دوہائیاں دیتے تھے کہ اس شخص نے ہمارے گھر برباد کیے ہیں ۔ ان ہی باتوں کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے ، اور ساتھ ساتھ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی تلقین کی گئی ہے کہ تم ان کی پروا کیے بغیر، بے خود اپنا کام کیے جاؤ |
Surah 23 : Ayat 15
ثُمَّ إِنَّكُم بَعْدَ ذَٲلِكَ لَمَيِّتُونَ
پس بڑا ہی بابرکت ہے1 اللہ، سب کاریگروں سے اچھا کاریگر
1 | اصل میں فَتَبَارَکَ اللہُ کے الفاظ ارشاد ہوئے ہیں جن کی پوری معنویت ترجمے میں ادا کرنا محال ہے۔ لغت اور استعمالات زبان کے لحاظ سے اس میں دو مفہوم شامل ہیں۔ ایک یہ کہ وہ نہایت مقدس اور منزہ ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ اس قدر خیر اور بھلائی اور خوبی کا مالک ہے کہ جتنا تم اس کا اندازہ کرو اس سے زیادہ ہی اس کو پاؤ حتّیٰ کہ اس کی خیرات کا سلسلہ کہیں جا کر ختم نہ ہو۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، الفرقان حواشی 1۔19)۔ ان دونوں معنوں پر غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ تخلیق انسانی کے مراتب بیان کرنے کے بعد فَتَبَا رَکَ اللہُ کا فقرہ محض ایک تعریفی فقرہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ دلیل کے بعد نتیجہ دلیل بھی ہے۔ اس میں گویا یہ کہا جا رہا ہے کہ جو خدا مٹی کے ست کو ترقی دے کر ایک پورے انسان کے مرتبے تک پہنچا دیتا ہے وہ اس سے بدر جہا زیادہ منزّہ ہے کہ خدائی میں کوئی اس کا شریک ہو سکے ، اور اس سے بدرجہا مقدس ہے اسی انسان کو پھر پیدا نہ کر سکے ، اور اس کی خیرات کا یہ بڑا ہی گھٹیا اندازہ ہے کہ بس ایک دفعہ انسان بنا دینے ہی پر اس کے کمالات ختم ہو جائیں ، اس سے آگے وہ کچھ نہ بنا سکے |
Surah 29 : Ayat 57
كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ ٱلْمَوْتِۖ ثُمَّ إِلَيْنَا تُرْجَعُونَ
ہر متنفس کو موت کا مزا چکھنا ہے، پھر تم سب ہماری طرف ہی پلٹا کر لائے جاؤ گے1
1 | یعنی جان کی فکر نہ کرو۔ یہ تو کبھی نہ کبھی جانی ہی ہے۔ ہمیشہ رہنے کے لیے تو کوئی بھی دنیا میں نہیں آیا ہے۔ لہٰزا تمہارے لیے فکر کے لائق مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اس دنیا میں جان کیے بچائی جائے، بلکہ اصل لائق فکر مسئلہ یہ ہے کہ ایمان کیسے بچایا جائے اور خدا پرستی کے تقاضے کس طرح پورے کیے جائیں۔ آخرکار تمہیں پلٹ کر ہماری طرف ہی آنا ہے۔ اگر دنیا میں جان بچانے کے لیے ایمان کھو کر آئے تو اس کا نتیجہ کچھ اور ہو گا، اور ایمان بچانے کے لیے جان کھو آئے تو اس کا انجام کچھ دوسرا ہو گا۔ پس فکر جو کچھ بھی کرنی ہے اس بات کی کرو کہ ہماری طرف جب پلٹو گے تو کیا لے کر پلٹو گے، جان پر قربان کیا ہوا ایمان؟ یا ایمان پر قربان کی ہوئی جان؟ |
Surah 39 : Ayat 30
إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ
(اے نبیؐ) تمہیں بھی مرنا ہے اور اِن لوگوں کو بھی مرنا ہے
Surah 55 : Ayat 26
كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ
ہر چیز1 جو اس زمین پر ہے فنا ہو جانے والی ہے
1 | یہاں سے آیت 30 تک جن و انس کو دو حقیقتوں سے آگاہ کیا گیا ہے : ایک یہ کہ نہ تم خود لافانی ہو اور نہ وہ سر و سامان لازوال ہے جس سے تم اس دنیا میں متمتع ہو رہے ہو۔ لافانی اور لازوال تو صرف اس خداۓ بزرگ و برتر کی ذات ہے جس کی عظمت پر یہ کائنات گواہی دے رہی ہے اور جس کے کرم سے تم کو یہ کچھ نعمتیں نصیب ہوئی ہیں۔ اب اگر تم میں سے کوئی شخص ہم چو من دیگرے نیست کے گھمنڈ میں مبتلا ہوتا ہے تو یہ محض اس کی کم ظرفی ہے۔اپنے ذرا سے دائرہ اختیار میں کوئی بے وقوف کبریائی کے ڈنکے بجا لے، یا چند بندے جو اس کے ہتھے چڑھیں، ان کا خدا بن بیٹھے، تو یہ دھوکے کی ٹٹی کتنی دیر کھڑی رہ سکتی ہے۔ کائنات کی وسعتوں میں جن زمین کی حیثیت ایک مٹر کے دانے برابر بھی نہیں ہے، اس کے ایک کونے میں دس بیس یا پچاس ساٹھ برس جو خدائی اور کبریائی ملے اور پھر قصہ ماضی بن کر رہ جاۓ، وہ آخر کیا خدائی اور کیا کبریائی ہے جس پر کوئی پھولے۔ دوسری اہم حقیقت جس پر ان دونوں مخلوقوں کو متنبہ کیا گیا ہے، یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کے سوا دوسری جن ہستیوں کو بھی تم معبود و مشکل کشا اور حاجت رسا بناتے ہو، خواہ وہ فرشتے ہوں یا انبیاء و اولیاء، یا چاند اور سورج، یا اور کسی قسم کی مخلوق، ان میں سے کوئی تمہاری کسی حاجت کو پورا نہیں کر سکتا۔ وہ بیچارے تو خود اپنی حاجات و ضروریات کے لیے اللہ کے محتاج ہیں۔ اس کے ہاتھ تو خود اس کے آگے پھیلے ہوۓ ہیں۔ وہ خود اپنی مشکل کشائی بھی اپنے بل بوتے پر نہیں کر سکتے تو تمہاری مشکل کشائی کیا کریں گے۔ زمین سے آسمانوں تک اس نا پیدا کنار کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے، تنہا ایک خدا کے حکم سے ہو رہا ہے۔ کار فرمائی میں کسی کا کوئی دخل نہیں ہے کہ وہ کسی معاملہ میں کسی بندے کی قسمت پر اثر انداز ہو سکے |