Ayats Found (2)
Surah 30 : Ayat 31
۞ مُنِيبِينَ إِلَيْهِ وَٱتَّقُوهُ وَأَقِيمُواْ ٱلصَّلَوٲةَ وَلَا تَكُونُواْ مِنَ ٱلْمُشْرِكِينَ
(قائم ہو جاؤ اِس بات پر) اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے1، اور ڈرو اُس سے2، اور نماز قائم کرو3، اور نہ ہو جاؤ اُن مشرکین میں سے
3 | اللہ تعالٰی کی طرف رجوع اوراس کے غضب کا خوف،دونوں قلب کے افعال ہیں۔اس قلبی کیفیت کواپنے ظہوراوراپنےاستحکام کے لیے لازمًا کسی ایسے جسمانی فعل کی ضرورت ہےجس سے خارج میں بھی ہرشخص کومعلوم ہوجائے کہ فلاں شخص واقعی اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی کی طرف پلٹ آیا ہے،اورآدمی کےاپنے نفس میں بھی اِس رجوع وتقوٰی کی کیفیت کوایک عملی مُمارست کےذریعہ سے پے درپےنشوونما نصیب ہوتاچلا جائے۔اسی لیے اللہ تعالٰی اُس ذہنی تبدیلی کاحکم دینے کے بعد فوراً ہی اس جسمانی عمل،یعنی اقامتِ صلٰوۃ کاحکم دیتاہے۔آدمی کے ذہن میں جب تک کوئی خیال محض خیال کی تک رہتاہے،اس میں استحکام اورپائیداری نہیں ہوتی۔اُس خیال کے ماندپڑجانے کابھی خطرہ رہتا ہےاوربدل جانے کابھی امکان ہوتاہے۔لیکن جب وہ اُس کےمطابق کام کرنے لگتاہے تووہ خیال اس کےاندرجڑپکڑ لیتاہے،اورجوں جوں وہ اس پرعمل کرتاجاتاہے،اس کااستحکام بڑھتاچلا جاتاہے،یہاں تک کہ اس عقیدہ وفکرکابدل جانایا ماند پڑجانا مشکل سے مشکل ترہوتا جاتاہے۔اس نقطہ نظرسے دیکھاجائے تورجوع اِلی اللہ اورخوفِ خداکومستحکم کرنے کےلیے ہرروز پانچ وقت پابندی کے ساتھ نماز اداکرنے سے بڑھ کرکوئی عمل کارگر نہیں ہے۔کیونکہ دوسراجوعمل بھی ہو،اُس کی نوبت دیردیرمیں آتی ہےیامتفرق صورتوں میں مختلف مواقع پرآتی ہے۔لیکن نماز ایک ایساعمل ہے جو ہرچند گھنٹوں کے بعد ایک ہی متعین صورت میں آدمی کودائماً کرنا ہوتاہے،اور اس میں ایمان واسلام کاوہ پوراسبق،جوقرآن نے اسے پڑھایاہے،آدمی کوباربار دُہرانا ہوتا ہےتاکہ وہ اسے بھولنے نہ پائے۔مزید برآں کفاراوراہلِ ایمان،دونوں پریہ ظاہرہوناضروری ہے کہ انسانی آبادی میں سےکس کس نے بغاوت کی روش چھوڑکراطاعتِ رب کی روش اختیارکرلی ہے۔اہلِ ایمان پراِس کا ظہوراس لیے درکار ہےکہ ان کی ایک جماعت اورسوسائٹی بن سکے اور وہ خداکی راہ میں ایک دوسرے سے تعاون کرسکیں اورایمان و اسلام سے جب بھی ان کے گروہ کے کسی شخص کاتعلق ڈھیلا پڑناشروع ہواسی وقت کوئی کھلی علامت فوراً ہی تمام اہلِ ایمان کواس کی حالت سےباخبرکردے۔کفار پراس کا ظہوراس لیے ضروری ہے کہ ان کےاندرکی سوئی ہوئی فطرت اپنے ہم جنس انسانوں کوخداوندِ حقیقی کی طرف بار بار پلٹتےدیکھ کرجاگ سکے،اورجب تک وہ نہ جاگےان پرخدا کےفرمانبرداروں کی عملی سرگرمی دیکھ دیکھ کردہشت طاری ہوتی رہے۔ان دونوں مقاصد کے لیے بھی اقامتِ صلٰوۃ ہی سب سےزیادہ موزوں ذریعہ ہے۔اس مقام پریہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ اقامتِ صلٰوۃ کا یہ حکم مکہ معظمہ کےاُس دورمیں دیاگیا تھا جبکہ مسلمانوں کی ایک مٹھی بھرجماعت کفارِقریش کے ظلم وستم کی چکی میں پس رہی تھی اوراس کے بعد بھی ۹ برس تک پستی رہی۔اُس وقت دُور دُوربھی کہیں اسلامی حکومت کانام ونشان نہیں تھا۔اگرنمازاسلامی حکومت کےبغیربے معنی ہوتی،جیسا کہ بعض نادان سمجھتے ہیں،یا اقامتِ صلٰوۃ سے مراد نماز قائم کرناسرے سے ہوتا ہی نہیں بلکہ’’نظامِ ربوبیت‘‘چلانا ہوتا،جیساکہ منکرینِ سنت کا دعوٰی ہے،تواس حالت میں قرآن مجید کا یہ حکم دینا آخرکیامعنی رکھتاہے؟اوریہ حکم آنے کے بعد ۹ سال تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورمسلمان اس حکم کی تعمیل آخرکس طرح کرتے رہے؟ |
2 | یعنی تمہارے دل میں اس بات کاخوف ہوناچاہیے کہ اگراللہ کے پیدائشی بندے ہونے کے باوجود تم نے اس کےمقابلے میں خود مختاری کارویہ اختیارکیا،یااس کے بجائے کسی اورکی بندگی کی تواِس غداری ونمک حرامی کی سخت سزا تمہیں بھگتنی ہوگی۔اس لیے تمہیں ایسی ہرروش سے بچناچاہیے جوتم کوخداکےغضب کامستحق بناتی ہو۔ |
1 | اللہ کی طرف رجوع سے مراد یہ ہے کہ جس نے بھی آزادی وخود مختاری کارویّہ اختیارکرکےاپنےمالکِ حقیقی سے انحراف کیاہو،یاجس نے بھی بندگئِ غیرکاطریقہ اختیارکرکےاپنے اصلی و حقیقی رب سے بےوفائی کی ہو،وہ اپنی اس روش سے بازآجائےاوراُسی ایک خدا کی بندگی کی طرف پلٹ آئے جس کا بندہ حقیقت میں وہ پیداہُوا ہے۔ |
Surah 30 : Ayat 32
مِنَ ٱلَّذِينَ فَرَّقُواْ دِينَهُمْ وَكَانُواْ شِيَعًاۖ كُلُّ حِزْبِۭ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ
جنہوں نے اپنا اپنا دین الگ بنا لیا ہے اور گروہوں میں بٹ گئے ہیں، ہر ایک گروہ کے پاس جو کچھ ہے اسی میں وہ مگن ہے1
1 | یہ اشارہ ہےاِس چیزکی طرف کہ نوعِ انسانی کااصل دین دہی دینِ فطرت ہے جس کااوپرذکرکیاگیا ہے۔یہ دین مشرکانہ مذاہب سے بتدریج ارتقاء کرتا ہُواتوحید تک نہیں پہنچاہے،جیساکہ قیاس وگمان سے ایک فلسفہ مذہب گھڑلینے والے حضرات سمجھتےہیں،بلکہ اس کے برعکس یہ جتنے مذاہب دنیا میں پائے جاتے ہیں یہ سب کے سب اُس اصلی دین میں بگاڑآنے سے رونماہوئے ہیں۔اور یہ بگاڑاس لیےآیا ہےکہ مختلف لوگوں نے فطری حقائق پراپنی اپنی نوایجاد باتوں کااضافہ کرکےاپنے الگ دین بناڈالے اورہرایک اصل حقیقت کے بجائے اُس اضافہ شدہ چیز کاگرویدہ ہوگیا جس کی بدولت وہ دوسروں سے جدا ہوکرایک مستقل فرقہ بناتھا۔اب جو شخص بھی ہدایت پاسکتاہے وہ اِسی طرح پاسکتاہے کہ اُس اصل حقیقت کی طرف پلٹ جائے جودینِ حق کی بنیاد تھی،اوربعد کے ان تمام اضافوں سے اوران کے گردیدہ ہونے والے گروہوں سے دامن جھاڑکربالکل الگ ہوجائے۔ان کے ساتھ ربط کاجورشتہ بھی وہ لگائے رکھے گاوہی دین میں خلل کاموجب ہوگا۔ |