Ayats Found (3)
Surah 3 : Ayat 145
وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَن تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ ٱللَّهِ كِتَـٰبًا مُّؤَجَّلاًۗ وَمَن يُرِدْ ثَوَابَ ٱلدُّنْيَا نُؤْتِهِۦ مِنْهَا وَمَن يُرِدْ ثَوَابَ ٱلْأَخِرَةِ نُؤْتِهِۦ مِنْهَاۚ وَسَنَجْزِى ٱلشَّـٰكِرِينَ
کوئی ذی روح اللہ کے اذن کے بغیر نہیں مرسکتا موت کا وقت تو لکھا ہوا ہے1 جو شخص ثواب دنیا کے ارادہ سے کام کرے گا اس کو ہم دنیا ہی میں سے دیں گے، اور جو ثواب آخرت کے ارادہ سے کام کرے گا وہ آخرت کا ثواب پائے گا اور شکر کرنے والوں3 کو ہم اُن کی جزا ضرور عطا کریں گے
3 | شکر کرنے والوں“سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ کی اِس نعمت کے قدر شناس ہوں کہ اُن نے دین کی صحیح تعلیم دے کر انھیں دنیا اور اس کی محدود زندگی سے بہت زیادہ وسیع ، ایک ناپیدا کنار عالَم کی خبر دی، اور انھیں اس حقیقت سے آگاہی بخشی کہ انسانی سعی و عمل کے نتائج صرف اس دنیا کی چند سالہ زندگی تک محدود نہیں ہیں بلکہ اس زندگی کے بعد ایک دُوسرے عالَم تک ان کا سلسلہ دراز ہوتا ہے۔ یہ وسعتِ نظر اور یہ دُوربینی و عاقبت اندیشی حاصل ہوجانے کے بد جوشخص اپنی کوششوں اور محنتوں کو اِس دُنیوی زندگی کے ابتدائی مرحلہ میں بار آور ہوتے نہ دیکھے ، یا ان کا برعکس نتیجہ نکلتا دیکھے ، اور اس کے باوجود اللہ کے بھروسہ پر وہ کام کرتا چلا جائے جس کے متعلق اللہ نے اسے یقین دلایا ہے کہ بہرحال آخرت میں اس کا نتیجہ اچھا ہی نکلے گا، وہ شکر گزار بندہ ہے۔ برعکس اس کے جو لوگ اس کے بعد بھی دنیا پرستی کی تنگ نظری میں مُبتلا رہیں، جن کا حال یہ ہو کہ دنیا میں جن غلط کوششوں کے بظاہر اچھے نتائج نکلتے نظر آئیں ان کی طرف وہ آخرت کے بُرے نتائج کی پروا کیے بغیر جھُک پڑیں، اورجن صحیح کوششوں کے یہاں بار آور ہونے کی اُمید نہ ہو، یا جن سے یہاں نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو، اُن میں آخرت کے نتائج ِ خیر کی اُمید پر اپنا وقت ، اپنے مال اور اپنی قوتیں صرف کرنے کے لیے تیار ہوں، وہ ناشکرے ہیں اور اُس علم کے ناقدر شناس ہیں جو اللہ نے انھیں بخشا ہے |
1 | اس سے یہ بات مسلمانوں کے ذہن نشین کرنا مقصُود ہے کہ موت کے خوف سے تمہارا بھاگنا فضُول ہے۔ کوئی شخص نہ تو اللہ کے مقرر کیے ہوئے وقت سے پہلے مر سکتا ہے اور نہ اس کے بعد جی سکتاہے۔لہٰذا تم کو فکر موت سے بچنے کی نہیں بلکہ اس بات کی ہونی چاہیے کہ زندگی کی جو مُہلت بھی تمہیں حاصل ہے اس میں تمہاری سعی و جہد کا مقصُود کیا ہے، دُنیا یا آخرت |
Surah 17 : Ayat 84
قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَىٰ شَاكِلَتِهِۦ فَرَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ أَهْدَىٰ سَبِيلاً
اے نبیؐ، ان لوگوں سے کہہ دو کہ "ہر ایک اپنے طریقے پر عمل کر رہا ہے، اب یہ تمہارا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ سیدھی راہ پر کون ہے"
Surah 42 : Ayat 20
مَن كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ ٱلْأَخِرَةِ نَزِدْ لَهُۥ فِى حَرْثِهِۦۖ وَمَن كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ ٱلدُّنْيَا نُؤْتِهِۦ مِنْهَا وَمَا لَهُۥ فِى ٱلْأَخِرَةِ مِن نَّصِيبٍ
جو کوئی آخرت کی کھیتی چاہتا ہے اُس کی کھیتی کو ہم بڑھاتے ہیں، اور جو دنیا کی کھیتی چاہتا ہے اُسے دنیا ہی میں سے دیتے ہیں مگر آخرت میں اُس کا کوئی حصہ نہیں ہے1
1 | گزشتہ آیت میں دو حقیقتیں بیان کی گئی تھیں جن کا مشاہدہ ہم ہر وقت ہر طرف کر رہے ہیں۔ ایک یہ کہ تمام بندوں پر اللہ کا لطف عام ہے۔ دوسرے یہ کہ اس کی عطا و بخشش اور رزق رسانی سب کے لیے یکساں نہیں ہے بلکہ اس میں فرق و تفاوُت پایا جاتا ہے۔ اب اس آیت میں بتایا جا رہا ہے کہ اس لطف اور رزق رسانی میں جزوع تفاوُت تو بے شمار ہیں مگر ایک بہت بڑا اصولی تفاوت بھی ہے ، اور وہ یہ ہے کہ آخرت کے طالب کے لیے ایک طرح کا رزق ہے اور دنیا کے طالب کے لیے دوسری طرح کا رزق۔ یہ ایک بڑی اہم حقیقت ہے جسے ان مختصر الفاظ میں بیان فرمایا گیا ہے۔ ضرورت ہے کہ اسے پوری تفصیل کے ساتھ سمجھ لیا جاۓ، کیونکہ یہ ہر انسان کو اپنا رویہ متعین کرنے میں مدد دیتی ہے۔ آخرت اور دنیا، دونوں کے لیے سعی و عمل کرنے والوں کو اس آیت میں کسان سے تشبیہ دی گئی ہے جو زمین تیار کرنے سے لے کر فصل کے تیار ہونے تک مسلسل عرق ریزی اور جاں فشانی کرتا ہے اور یہ ساری محنتیں اس غرض کے لیے کرتا ہے کہ اپنی کھیتی میں جو بیج وہ بو رہا ہے اس کی فصل کاٹے اور اس کے پھل سے متمتع ہو۔ لیکن بیت اور مقصد کے فرق، اور بہت بڑی حد تک طرز عمل کے فرق سے بھی ، آخرت کی کھیتی بونے والے کسان اور دنیا کی کھیتی بونے والے کسان کے درمیان فرق عظیم واقع ہو جاتا ہے ، اس لیے دونوں کی محنتوں کے نتائج و ثمرات بھی اللہ تعالیٰ نے مختلف رکھے ہیں ، حالانکہ دونوں کے کام کرنے کی جگہ یہی زمین ہے۔ آخرت کی کھیتی بونے والے کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ دنیا اسے نہیں ملے گی۔ دنیا تو کم یا زیادہ بہر حال اس کو ملنی ہی ہے ، کیونکہ یہاں اللہ جل شانہٗ کے لطف عام میں اس کا بھی حصہ ہے اور رزق نیک و بد سبھی کو یہاں مل رہا ہے۔ لیکن اللہ نے اسے خوش خبری دنیا ملنے کی نہیں بلکہ اس بات کی سنائی ہے کہ اس کی آخرت کی کھیتی بڑھائی جاۓ گی، کیونکہ اسی کا وہ طالب ہے اور اسی کے انجام کی اسے فکر لاحق ہے۔ اس کھیتی کے بڑھاۓ جانے کی بہت سی صورتیں ہیں۔ مثلاً جس قدر زیادہ نیک نیتی کے ساتھ وہ آخرت کے لیے عمل صالح کرتا جاۓ گا اسے اور زیادہ نیک عمل کی توفیق عطا کی جاۓ گی اور اس کا سینہ نیکیوں کے لیے کھول دیا جاۓ گا۔ پاک مقصد کے لیے پاک ذرائع اختیار کرنے کا جب وہ تہیہ کر لے گا تو اس کے لیے پاک ہی ذرائع میں برکت دی جاۓ گی اور اللہ اس کی نوبت نہ آنے دے گا کہ اس کے لیے خیر کے سارے دروازے بند ہو کر صرف شر ہی کے دروازے کھلے رہ جائیں۔ اور سب سے زیادہ یہ کہ دنیا میں اس کی تھوڑی نیکی بھی آخرت میں کم از کم دس گنی تو بڑھائی ہی جاۓ گی ، اور زیادہ کی کوئی حد نہیں ہے ، ہزاروں لاکھوں گنی بھی اللہ جس کے لیے چاہے گا بڑھا دے گا۔ رہا دنیا کی کھیتی بونے والا، یعنی وہ شخص جو آخرت نہیں چاہتا اور سب کچھ دنیا ہی کے لیے کرتا ہے ، اسے اللہ تعالیٰ نے اس کی محنت کے دو نتائج صاف صاف سنا دیے ہیں۔ ایک یہ کہ خواہ وہ کتنا ہی سر مارے ، جس قدر دنیا وہ حاصل کرنا چاہتا ہے وہ پوری کی پوری اسے نہیں مل جاۓ گی، بلکہ اس کا ایک حصہ ہی ملے گا، جتنا اللہ نے اس کے لیے مقرر کر دیا ہے۔ دوسرے یہ کہ اسے جو کچھ ملنا ہے بس دنیا ہی میں مل جاۓ گا، آخرت کی بھلائیوں میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے |