Ayats Found (1)
Surah 35 : Ayat 18
وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰۚ وَإِن تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلَىٰ حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَىْءٌ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰٓۗ إِنَّمَا تُنذِرُ ٱلَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُم بِٱلْغَيْبِ وَأَقَامُواْ ٱلصَّلَوٲةَۚ وَمَن تَزَكَّىٰ فَإِنَّمَا يَتَزَكَّىٰ لِنَفْسِهِۚۦ وَإِلَى ٱللَّهِ ٱلْمَصِيرُ
کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا1 اور اگر کوئی لدا ہوا نفس اپنا بوجھ اٹھانے کے لیے پکارے گا تو اس کے بار کا ایک ادنیٰ حصہ بھی بٹانے کے لیے کوئی نہ آئے گا چاہے وہ قریب ترین رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو2 (اے نبیؐ) تم صرف انہی لوگوں کو متنبہ کر سکتے ہو جو بے دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں3 جو شخص بھی پاکیزگی اختیار کرتا ہے اپنی ہی بھلائی کے لیے کرتا ہے اور پلٹنا سب کو اللہ ہی کی طرف ہے
3 | بالفاظ دیگر ہٹ دھرم اور ہیکڑ لوگوں پر تمہاری تنبیہات کار گر نہیں ہو سکتیں۔ تمہارے سمجھانے سے تو وہی لوگ راہ راست پر آ سکتے ہیں جن کے دل میں خدا کا خوف ہے اور جو اپنے ما لک حقیقی کے آگے جھکنے کے لیے تیار ہیں |
2 | اوپر کے فقرے میں اللہ کے قانون عدل کا بیان ہے کہ وہ ایک کے گناہ میں دوسرے کو نہ پکڑے گا، بلکہ ہر ایک کو اس کے اپنے ہی گناہ کا ذمہ دار ٹھیرائے گا۔ اور اس فقرے میں یہ بتایا گیا ہے کہ جو لوگ آج یہ بات کہہ رہے ہیں کہ تم ہماری ذمہ داری پر کفر و معصیت ارتکاب کرو، قیامت کے روز ہم تمہارا بار گناہ اپنے اوپر لے لیں گے، وہ دراصل محض ایک جھوٹا بھروسا دلا رہے ہیں۔ جب قیامت آئے گی اور لوگ دیکھ لیں گے کہ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے وہ کس انجام سے دوچار ہونے والے ہیں تو ہر ایک کو اپنی پڑ جائے گی۔ بھائی بھائی سے اور باپ بیٹے سے منہ موڑ لے گا اور کوئی کسی کا ذرہ برابر بوجھ بھی اپنے اوپر لینے کے لیے تیار نہ ہوگا۔ |
1 | ’’بوجھ‘‘ سے مراد اعمال کی ذمہ داریوں کا بوجھ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے ہاں ہر شخص اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے، اور ہر ایک پر صرف اس کے اپنے ہی عمل کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اس امر کا کوئی امکان نہیں ہے کہ ایک شخص کی ذمہ داری کا بار اللہ تعالٰی کی طرف سے کسی دوسرے پر ڈال دیا جائے۔ اور نہ یہی ممکن کہ کوئی شخص کسی دوسرے کی ذمہ داری کا بار خود اپنے اوپر لے لے اور اسے بچانے کے لیے اپنے آپ کو اس کے جرم میں پکڑوا دے۔ یہ بات یہاں اس بنا پر فرمائی جا رہی ہے کہ مکہ معظمہ میں جو لوگ اسلام قبول کر رہے تھے ان سے ان کے مشرک رشتہ دار اور برادری کے لوگ کہتے تھے کہ تم ہمارے کہنے سے اس نئے دین کو چھوڑ دو اور دین آبائی پر قائم رہو، عذاب ثواب ہماری گردن پر۔ |