Ayats Found (8)
Surah 2 : Ayat 143
وَكَذَٲلِكَ جَعَلْنَـٰكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَآءَ عَلَى ٱلنَّاسِ وَيَكُونَ ٱلرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًاۗ وَمَا جَعَلْنَا ٱلْقِبْلَةَ ٱلَّتِى كُنتَ عَلَيْهَآ إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ ٱلرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِۚ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى ٱلَّذِينَ هَدَى ٱللَّهُۗ وَمَا كَانَ ٱللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَـٰنَكُمْۚ إِنَّ ٱللَّهَ بِٱلنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ
اور اِسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک 1"امت وسط" بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو پہلے جس طرف تم رخ کرتے تھے، اس کو تو ہم نے صرف یہ دیکھنے کے لیے قبلہ مقرر کیا تھا کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹا پھر جاتا ہے2 یہ معاملہ تھا تو بڑا سخت، مگر اُن لوگوں کے لیے کچھ بھی سخت نہ ثابت ہوا، جو اللہ کی ہدایت سے فیض یاب تھے اللہ تمہارے اس ایمان کو ہرگز ضائع نہ کرے گا، یقین جانو کہ وہ لوگوں کے حق میں نہایت شفیق و رحیم ہے
2 | یعنی اس سے مقصُود یہ دیکھنا تھا کہ کون لوگ ہیں جو جاہلیّت کے تعصّبات اور خاک و خون کی غلامی میں مبتلا ہیں، اور کون ہیں جو اِن بندشوں سے آزاد ہو کر حقائق کا صحیح ادراک کرتے ہیں۔ ایک طرف اہلِ عرب اپنے وطنی و نسلی فخر میں مبتلا تھے اور عرب کے کعبے کو چھوڑ کر باہر کے بیت المقدس کو قبلہ بنانا ان کی اِس قوم پرستی کے بُت پر ناقابلِ برداشت ضرب تھا۔ دُوسری طرف بنی اسرائیل اپنی نسل پرستی کے غرور میں پھنسے ہوئے تھے اور اپنے آبائی قبلے کے سوا کسی دُوسرے قبلے کو برداشت کرنا ان کے لیے محال تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ بُت جن لوگوں کے دلوں میں بسے ہوئے ہوں، وہ اُس راستے پر کیسے چل سکتے تھے، جس کی طرف اللہ کا رسُول انہیں بُلا رہا تھا۔ اس لیے اللہ نے ان بُت پرستوں کو سچّے حق پرستوں سے الگ چھانٹ دینے کے لیے پہلے بیت المقدس کو قبلہ مقرر کیا تاکہ جو لوگ عربیّت کے بُت کی پرستش کرتے ہیں، وہ الگ ہو جائیں۔ پھر اس قبلے کو چھوڑ کر کعبے کو قبلہ بنایا تاکہ جو اسرائیلیت کے پرستار ہیں، وہ بھی الگ ہو جاءیں۔ اِس طرح صرف وہ لوگ رسُول کے ساتھ رہ گئے، جو کسی بُت کے پرستار نہ تھے، محض خدا کے پرستار تھے |
1 | یہ اُمّتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کا اعلان ہے۔ ”اسی طرح“ کا اشارہ دونوں طرف ہے: اللہ کی اُس رہنمائی کی طرف بھی، جس سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی قبول کرنے والوں کو سیدھی راہ معلوم ہوئی اور وہ ترقی کرتے کرتے اِس مرتبے پر پہنچے کہ ” اُمّتِ وَسَط“ قرار دیے گئے ، اور تحویلِ قبلہ کی طرف بھی کہ نادان اسے محض ایک سَمْت سے دُوسری سَمْت کی طرف پھرنا سمجھ رہے ہیں، حالانکہ دراصل بیت المقدس سے کعبے کی طرف سَمْت قبلہ کا پھرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ اللہ نے بنی اسرائیل کو دُنیا کی پیشوائی کے منصب سے باضابطہ معزُول کیا اور اُمّتِ محمدیہ کو اس پر فائز کر دیا۔ ”اُمتِ وَسَط“ کا لفظ اس قدر وسیع معنویت اپنے اندر رکھتا ہے کہ کسی دُوسرے لفظ سے اس کے ترجمے کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے مراد ایک ایسا اعلیٰ اور اشرف گروہ ہے، جو عدل و انصاف اور توسّط کی روش پر قائم ہو، جو دنیا کی قوموں کے درمیان صدر کی حیثیت رکھتا ہو، جس کا تعلق سب کے ساتھ یکساں حق اور راستی کا تعلق ہواور ناحق، ناروا تعلق کسی سے نہ ہو۔ پھر یہ جو فرمایا کہ تمہیں”اُمّتِ وَسَط“ اس لیے بنایا گیا ہے کہ”تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسُول تم پر گواہ ہو“ تو اس سے مراد یہ ہے کہ آخرت میں جب پوری نوعِ انسانی کا اکٹھا حساب لیا جائے گا ، اُس وقت رسُول ہمارے ذمّہ دار نمائندے کی حیثیت سے تم پر گواہی دے گا کہ فکرِ صحیح اور عملِ صالح اور نظامِ عدل کی جو تعلیم ہم نے اُسے دی تھی ، وہ اس نے تم کو بے کم و کاست پوری کی پوری پہنچا دی اور عملاً اس کے مطابق کام کر کے دکھا دیا۔ اس کے بعد رسُول کے قائم مقام ہونے کی حیثیت سے تم کو عام انسانوں پر گواہ کی حیثیت سے اُٹھنا ہوگا اور یہ شہادت دینی ہوگی کہ رسُول نے جو کچھ تمہیں پہنچایا تھا، وہ تم نے انہیں پہنچانے میں ، اور جو کچھ رسُول نے تمہیں دکھایا تھا وہ تم نے انہیں دکھانے میں اپنی حد تک کوئی کوتاہی نہیں کی۔ اس طرح کسی شخص یا گروہ کا اس دُنیا میں خدا کی طرف سے گواہی کے منصب پر مامور ہونا ہی درحقیقت اس کا امامت اور پیشوائی کے مقام پر سرفراز کیا جانا ہے۔ اس میں جہاں فضیلت اور سرفرازی ہے وہیں ذمّہ داری کا بہت بڑا بار بھی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح رسُول صلی اللہ علیہ وسلم اس اُمّت کے لیے خدا ترسی ، راست روی، عدالت اور حق پرستی کی زندہ شہادت بنے، اسی طرح اِس اُمّت کو بھی تمام دُنیا کے لیے زندہ شہادت بننا چاہیے، حتّٰی کہ اس کے قول اور عمل اور برتا ؤ ، ہر چیز کو دیکھ کر دُنیا کو معلوم ہو کہ خدا ترسی اس کا نام ہے، راست روی یہ ہے، عدالت اس کو کہتے ہیں اور حق پرستی ایسی ہوتی ہے۔ پھر اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ جس طرح خدا کی ہدایت ہم تک پہنچانے کے لیے رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمّہ داری بڑی سخت تھی، حتّٰی کہ اگر وہ اِس میں ذرا سی کوتاہی بھی کرتے تو خدا کے ہاں ماخوذ ہوتے، اُسی طرح دُنیا کے عام انسانوں تک اس ہدایت کو پہنچانے کی نہایت سخت ذمّہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے۔ اگر ہم خدا کی عدالت میں واقعی اس بات کی شہادت نہ دے سکے کہ ہم نے تیری ہدایت ، جو تیرے رسُول کے ذریعے سے ہمیں پہنچی تھی ، تیرے بندوں تک پہنچا دینے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے، تو ہم بہت بُری طرح پکڑے جائیں گے اور یہی امامت کا فخر ہمیں وہاں لے ڈوبے گا۔ ہماری امامت کے دَور میں ہماری واقعی کوتاہیوں کے سبب سے خیال اور عمل کی جتنی گمراہیاں دُنیا میں پھیلی ہیں اور جتنے فساد اور فتنے خدا کی زمین میں برپا ہوئے ہیں، اُن سب کے لیے ائمہء شر اور شیاطینِ انس و جِنّ کے ساتھ ساتھ ہم بھی ماخوذ ہوں گے۔ ہم سے پوچھا جائے گا کہ جب دُنیا میں معصیت ، ظلم اور گمراہی کا یہ طوفان برپا تھا، تو تم کہاں مر گئے تھے |
Surah 3 : Ayat 171
۞ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ ٱللَّهِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ ٱللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ ٱلْمُؤْمِنِينَ
وہ اللہ کے انعام اور اس کے فضل پر شاداں و فرحاں ہیں اور ان کو معلوم ہو چکا ہے کہ اللہ مومنوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا
Surah 3 : Ayat 195
فَٱسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّى لَآ أُضِيعُ عَمَلَ عَـٰمِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰۖ بَعْضُكُم مِّنۢ بَعْضٍۖ فَٱلَّذِينَ هَاجَرُواْ وَأُخْرِجُواْ مِن دِيَـٰرِهِمْ وَأُوذُواْ فِى سَبِيلِى وَقَـٰتَلُواْ وَقُتِلُواْ لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّـَٔـاتِهِمْ وَلَأُدْخِلَنَّهُمْ جَنَّـٰتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَـٰرُ ثَوَابًا مِّنْ عِندِ ٱللَّهِۗ وَٱللَّهُ عِندَهُۥ حُسْنُ ٱلثَّوَابِ
جواب میں ان کے رب نے فرمایا، 1"میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں خواہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہو لہٰذا جن لوگوں نے میری خاطر اپنے وطن چھوڑے اور جو میر ی راہ میں اپنے گھروں سے نکالے گئے اور ستائے گئے اور میرے لیے لڑے اور مارے گئے اُن کے سب قصور میں معاف کر دوں گا اور انہیں ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی یہ اُن کی جزا ہے اللہ کے ہاں اور بہترین جزا اللہ ہی کے پاس ہے2"
2 | روایت ہےکہ بعض غیر مسلم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ موسیٰ ؑ عصا اور یدِ بیضا ء لائے تھے ۔ عیسیٰ ؑ اندھوں کو بینا اور کوڑھیوں کو اچھا کرتے تھے۔ دُوسرے پیغمبر بھی کچھ نہ کچھ معجزے لائے تھے۔ آپ فرمائیں کہ آپ کیا لائے ہیں ؟ اس پر آپ نے اس رکوع کے آغاز سے یہاں تک کی آیات تلاوت فرمائیں اور ان سے کہا میں تو یہ لایا ہوں |
1 | یعنی تم سب انسان ہو اور میری نگاہ میں یکساں ہو۔ میرے ہاں یہ دستور نہیں ہے کہ عورت اور مرد، آقا اور غلام ، کالے اور گورے، اُونچ اور نیچ کے لیے انصاف کے اُصُول اور فیصلے کے معیار الگ الگ ہوں |
Surah 7 : Ayat 170
وَٱلَّذِينَ يُمَسِّكُونَ بِٱلْكِتَـٰبِ وَأَقَامُواْ ٱلصَّلَوٲةَ إِنَّا لَا نُضِيعُ أَجْرَ ٱلْمُصْلِحِينَ
جو لوگ کتاب کی پابندی کر تے ہیں اور جنہوں نے نماز قائم رکھی ہے، یقیناً ایسے نیک کردار لوگوں کا اجر ہم ضائع نہیں کریں گے
Surah 9 : Ayat 120
مَا كَانَ لِأَهْلِ ٱلْمَدِينَةِ وَمَنْ حَوْلَهُم مِّنَ ٱلْأَعْرَابِ أَن يَتَخَلَّفُواْ عَن رَّسُولِ ٱللَّهِ وَلَا يَرْغَبُواْ بِأَنفُسِهِمْ عَن نَّفْسِهِۦۚ ذَٲلِكَ بِأَنَّهُمْ لَا يُصِيبُهُمْ ظَمَأٌ وَلَا نَصَبٌ وَلَا مَخْمَصَةٌ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ وَلَا يَطَــُٔونَ مَوْطِئًا يَغِيظُ ٱلْكُفَّارَ وَلَا يَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَّيْلاً إِلَّا كُتِبَ لَهُم بِهِۦ عَمَلٌ صَـٰلِحٌۚ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ ٱلْمُحْسِنِينَ
مدینے کے باشندوں اور گرد و نواح کے بدویوں کو یہ ہرگز زبیا نہ تھا کہ اللہ کے رسول کو چھوڑ کر گھر بیٹھ رہتے اور اس کی طرف سے بے پروا ہو کر اپنے اپنے نفس کی فکر میں لگ جاتے اس لیے کہ ایسا کبھی نہ ہوگا کہ اللہ کی راہ میں بھوک پیاس اور جسمانی مشقت کی کوئی تکلیف وہ جھیلیں، اور منکرین حق کو جو راہ ناگوار ہے اُس پر کوئی قدم وہ اٹھائیں، اور کسی دشمن سے (عداوت حق کا) کا کوئی انتقام وہ لیں اور اس کے بدلے ان کے حق میں ایک عمل صالح نہ لکھا جائے یقیناً اللہ کے ہاں محسنوں کا حق الخدمت مارا نہیں جاتا ہے
Surah 11 : Ayat 115
وَٱصْبِرْ فَإِنَّ ٱللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ ٱلْمُحْسِنِينَ
اور صبر کر، اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر کبھی ضائع نہیں کرتا
Surah 12 : Ayat 90
قَالُوٓاْ أَءِنَّكَ لَأَنتَ يُوسُفُۖ قَالَ أَنَا۟ يُوسُفُ وَهَـٰذَآ أَخِىۖ قَدْ مَنَّ ٱللَّهُ عَلَيْنَآۖ إِنَّهُۥ مَن يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ ٱللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ ٱلْمُحْسِنِينَ
وہ چونک کر بولے "کیا تم یوسفؑ ہو؟" اُس نے کہا، "ہاں، میں یوسفؑ ہوں اور یہ میرا بھائی ہے اللہ نے ہم پر احسان فرمایا حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی تقویٰ اور صبر سے کام لے تو اللہ کے ہاں ایسے نیک لوگوں کا اجر مارا نہیں جاتا"
Surah 49 : Ayat 14
۞ قَالَتِ ٱلْأَعْرَابُ ءَامَنَّاۖ قُل لَّمْ تُؤْمِنُواْ وَلَـٰكِن قُولُوٓاْ أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ ٱلْإِيمَـٰنُ فِى قُلُوبِكُمْۖ وَإِن تُطِيعُواْ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ لَا يَلِتْكُم مِّنْ أَعْمَـٰلِكُمْ شَيْــًٔاۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
یہ بدوی کہتے ہیں کہ 1"ہم ایمان لائے" اِن سے کہو، تم ایمان نہیں لائے، بلکہ یوں کہو کہ 2"ہم مطیع ہو گئے" ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری اختیار کر لو تو وہ تمہارے اعمال کے اجر میں کوئی کمی نہ کرے گا، یقیناً اللہ بڑا در گزر کرنے والا اور رحیم ہے
2 | اصل میں قُوْلُوْآ اَسْلَمْنَا کے الفاظ استعمال ہوۓ ہیں جن کو دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’ کہو ہم مسلمان ہو گۓ ہیں‘‘ ان الفاظ سے بعض لوگوں نے یہ نتیجہ نکال لیا ہے کہ قرآن مجید کی زبان میں ’’مومن ‘‘اور ’’مسلم ‘‘دو متقابل اصطلاحیں ہیں، مومن وہ ہے جو سچے دل سے ایمان لایا ہو اور مسلم وہ ہے جس نے ایمان کے بغیر محض ظاہر میں اسلام قبول کر لیا ہو۔ لیکن در حقیقت یہ خیال بالکل غلط ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اس جگہ ایمان کا لفظ قلبی تصدیق کے لیے اور اسلام کا لفظ محض ظاہر اطاعت کے لیے استعمال ہوا ہے۔ مگر یہ سمجھ لینا صحیح نہیں ہے کہ یہ قرآن مجید کی دو مستقل اور باہم متقابل اصطلاحیں ہیں۔ قرآن کی جن آیات میں اسلام اور مسلم کے الفاظ استعمال ہوۓ ہیں ان تتبعُّ کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن کی اصطلاح میں ’’ اسلام‘‘ اس دین حق کا نام ہے جو اللہ نے نوع انسانی کے لیے نازل کیا ہے، اس کے مفہوم میں ایمان اور اطاعت امر دونوں شامل ہیں، اور ’’مسلم‘‘ وہ ہے جو سچے دل سے مانے اور عملاً اطاعت کرے۔ مثال کے طور پر حسب ڈیل آیات ملاحظہ ہوں: اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللہِ الْاَسْلَا مُ (آل عمران 19 ) یقیناً اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔ وَمَنْیَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِ سْلَامِ دِیْناًفَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ۔ (آل عمران۔85) اور جو اسلام کے سوا کوئی اور دین چاہے اس کا وہ دین ہر گز قبول نہ کیا جاۓ گا۔ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْناً (المائدہ۔3) اور میں نے تمہارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کیا ہے۔ فَمَنْ یُّرِدِ اللہُ اَنْ یَّھْدِیَہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ۔ (الانعام۔ 125) اللہ جس کو ہدایت دینا چاہتا ہے اس کا سینا اسلام کے لیے کھول دینات ہے۔ ظاہر ہے کہ ان آیات میں ’’ اسلام‘‘ سے مراد اطاعت بالا ایمان نہیں ہے۔ پھر دیکھیے جگہ جگہ اس مضمون کی آیات آتی ہیں: قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ اَوَّ لِ مَنْ اَسْلَمَ۔ (الانعام۔ 14) اے نبی کہا مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ سب سے پہلے اسلام لانے والا میں ہوں۔ فَاِنْ اَسْلَمُو افَقَدِ اھْتَدَوْا (آل عمران۔20) پھر اگر وہ اسلام لے آئیں تو انہوں نے ہدایت پالی۔ یَحْکُمُ بِھَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا (المائدہ۔ 44) تمام انبیاء جو اسلام لاۓ تھے تو رات کے مطابق فیصلے کرتے تھے۔ کیا یہاں اور اس طرح کے بیسیوں دوسرے مقامات پر اسلام قبول کرنے یا اسلام لانے کا مطلب ایمان کے بغیر اطاعت اختیار کر لینا ہے؟ اسی طرح ’’ مسلم‘‘ کا لفظ بار بار جس معنی میں استعمال ہوا ہے اس کے لیے نمونے کے طور پر حسب ذیل آیات ملاحظہ ہوں۔ یٰٓاَیّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُو اتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقَا تِہٖ وِلَا تَمُوْ تُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمّوْنَ۔ (آل عمرآن۔102) اے لوگو جو ایمان لاۓ ہو، اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تم کو موت نہ آۓ مگر اس حال میں تم مسلم ہو۔ ھُوَسَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ وَ فِیْ ھٰذا (الحج۔ 78 ) اس نے تمہارا نام پہلے بھی مسلم رکھا تھا اور اس کتاب میں بھی۔ مَا کَا نَ اِبْرَا ھِیْمْ عَھُو دِیًّا وَّ لَا نَصْرَا نِیًّا وَّ لٰکِنْ کَانَ حَنِیْفاً مُّسْلِماً۔(آل عمران۔ 67) ابراہیمؑ نہ یہودی تھا نصرانی، بلکہ وہ یک سُو مسلم تھا۔ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّ یَّتِنَا اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ۔ (البقرہ۔ 128) رب، اور ہم دونوں کو اپنا مسلم بنا اور ہماری نسل سے ایک ایسی امت پیدا کر جو تیری مسلم ہو۔ یٰبَنِیَّ اِنَّ اللہَ اصْطَفیٰ لَکُمُ الدِّ یْنَ فَلَا تَمُوْ تُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ (البقرہ۔132) (تعمیر کعبہ کے وقت حضرت ابراہیم و اسماعیل کی دعا) اے ہمارے رب، اور ہم دونوں کو اپنا مسلم بنا اور ہماری نسل سے ایک ایسی امت پیدا کر جو تیری مُسلم ہو۔ ان آیات کو پڑھ کر آخر کون یہ خیال کر سکتا ہے کہ ان میں مسلم سے مراد وہ شخص ہے جو دل سے نہ مانے، بس ظاہر طور پر اسلام قبول کر لے؟ اس لیے یہ دعویٰ کرنا قطعی غلط ہے کہ قرآن کی اصطلاح میں اسلام سے مراد اطاعت بلا ایمان ہے، اور مسلم قرآن کی زبان میں محض بہ ظاہر اسلام قبول کر لینے والے کو کہتے ہیں۔ اسی طرح یہ دعویٰ کرنا بھی غلط ہے کہ ایمان اور مومن کے الفاظ قرآن مجید میں لازماً سچے دل سے ماننے ہی کے معنی میں استعمال ہوۓ ہیں۔ بلا شبہ اکثر مقامات پر یہ الفاظ اسی مفہوم کے لیے آۓ ہیں، لیکن بکثرت مقامات ایسں جہاں یہ الفاظ ظاہریے بھی ہی اقرار ایمان کے لیے بھی استعمال کیے گۓ ہیں، اور یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ا۔ کہہ کر ان سب لوگوں کو خطاب کیا گیا ہے جو زبانی اقرار کر کے مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہوۓ ہوں، قطع نظر اس سے کہ وہ سچے مومن ہوں، یا ضعیف الایمان، یا محض منافق۔ اس کی بہت سی مثالوں میں سے صرف چند کے لیے ملاحظہ ہو آل عمران، آیت 156۔ النساء،126۔ المائدہ، 54۔ الانفال، 20۔27۔التوبہ، 38 الحدید، 28۔ الصّف، 2 |
1 | اس سے مراد تمام بدوی نہیں ہیں بلکہ یہاں ذکر چند خاص بدوی گروہوں کا ہو راہ ہے جو اسلام میں بڑھتی ہوئی طاقت دیکھ کر محض اس خیال سے مسلمان ہو گۓ تھے کہ وہ مسلمانوں کی ضرب سے محفوظ بھی رہیں گے اور اسلامی فتوحات کے قواعد سے متمتع بھی ہوں گے۔ یہ لوگ حقیقت میں سچے دل سے ایمان نہیں لاۓ تھے، محض زبانی اقرار ایمان کر کے انہوں نے مصلحۃً اپنے آپ کو مسلمانوں میں شمار کرا لیا تھا۔ اور ان کی اس باطنی حالت کا راز اس وقت فاش ہو جاتا تھا جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آ کر طرح طرح کے مطالبہ کرتے تھے، اور اپنا حق اس طرح جتاتے تھے کہ گویا انہوں نے اسلام قبول کر کے آپ پر بڑا احسان کیا ہے۔ روایات میں متعدد قبائلی گروہوں کے اس رویے کا ذکر آیا ہے۔ مثلاً مُزینہ، جہینہ، اسلم، اشجع، غِفار وغیرہ۔ خاس طور پر بنی اَسد بن خزیمہ کے متعلق ابن عباس اور سعید بن جُبیر کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ خشک سالی کے زمانہ میں وہ مدینہ آۓ اور مالی مدد کا مطالبہ کرتے ہوۓ بار بار انہوں نے رسول اللہ صلی علیہ و سلم سے کہا کہ ’’ ہم بغیر لڑے بھڑے مسلمان ہوۓ ہیں، ہم نے آپ سے اس طرح جنگ نہیں کی جس طرح فلان اور فلاں قبیلوں نے جنگ کی ہے ‘‘ اس سے ان کا صاف مطلب یہ تھا کہ اللہ کے رسول سے جنگ نہ کرنا اور اسلام قبول کر لینا ان کا ایک احسان ہے جس کا معاوضہ انہیں رسول اور اہل ایمان سے ملنا چاہیے۔ اطراف مدینہ کے بدوی گروہوں کا یہی وہ طرز عمل ہے جس پر ان آیات میں بات زیادہ اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے |