Ayats Found (11)
Surah 3 : Ayat 103
وَٱعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ ٱللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُواْۚ وَٱذْكُرُواْ نِعْمَتَ ٱللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَآءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِۦٓ إِخْوَٲنًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ ٱلنَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَاۗ كَذَٲلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ لَكُمْ ءَايَـٰتِهِۦ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
سب مل کر اللہ کی رسی1 کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو اللہ کے اُس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اُس نے تمہارے دل جوڑ دیے اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے، اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا2 اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمہارے سامنے روشن کرتا ہے شاید کہ اِن علامتوں سے تمہیں اپنی فلاح کا سیدھا راستہ نظر آ جائے3
3 | یعنی اگر تم آنکھیں رکھتے ہو تو ان علامتوں کو دیکھ کر خُود اندازہ کر سکتے ہو کہ آیا تمہاری فلاح اِس دین کو مضبوط تھامنے میں ہے یا اِسے چھوڑ کر پھر اُسی حالت کی طرف پلٹ جانے میں جس کے اندر تم پہلے مبتلا تھے؟ آیا تمہارا اصلی خیر خواہ اللہ اور اس کا رسُول ہے یا وہ یہودی اور مشرک اور منافق لوگ جو تم کو حالتِ سابقہ کی طرف پلٹا لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں |
2 | یہ اشارہ ہے اُس حالت کی طرف جس میں اسلام سے پہلے اہلِ عرب مبتلا تھے ۔ قبائل کی باہمی عداوتیں بات بات پر ان کی لڑائیاں، اور شب و روز کے کشت و خون، جن کی بدولت قریب تھا کہ پوری عرب قوم نیست و نابود ہو جاتی۔ اس آگ میں جل مرنے سے اگر کسی چیز نے انھیں بچایا تو وہ یہی نعمتِ اسلام تھی۔ یہ آیات جس وقت نازل ہوئی ہیں اس سے تین چار سال پہلے ہی مدینہ کے لوگ مسلمان ہوئے تھے ، اور اسلام کی یہ جیتی جاگتی نعمت سب دیکھ رہے تھے کہ اَوس اور خَزرَج کے وہ قبیلے ، جو سالہا سال سے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ، باہم مل کر شیر و شکر ہو چکے تھے ، اور یہ دونوں قبیلے مکّہ سے آنے والے مہاجرین کے ساتھ ایسے بے نظیر ایثار و محبت کا برتا ؤ کر رہے تھے جو ایک خاندان کے لوگ بھی آپس میں نہیں کرتے |
1 | اللہ کی رسّی سے مراد اس کا دین ہے ، اور اس کو رسّی سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ یہی وہ رشتہ ہے جو ایک طرف اہلِ ایمان کا تعلق اللہ سے قائم کرتا ہے اور دُوسری طرف تمام ایمان لانے والوں کو باہم ملا کر ایک جماعت بناتا ہے۔ اس رسّی کو ”مضبوط پکڑنے“ کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی نگاہ میں اصل اہمیت”دین“ کی ہو، اسی سے ان کو دلچسپی ہو، اسی کی اقامت میں وہ کوشاں رہیں اور اسی کی خدمت کے لیے آپس میں تعاون کرتے رہیں۔ جہاں دین کی اساسی تعلیمات اور اس کی اقامت کے نصب العین سے مسلمان ہٹے اور ان کی توجّہات اور دلچسپیاں جزئیات و فروع کی طرف منعطف ہوئیں، پھر ان میں لازماً وہی تفرقہ و اختلاف رُونما ہو جائے گا جو اس سے پہلے انبیاء علیہم السّلام کی اُمتوں کو ان کے اصل مقصدِ حیات سے منحرف کر کے دنیا اور آخرت کی رسوائیوں میں مبتلا کر چکا ہے |
Surah 3 : Ayat 105
وَلَا تَكُونُواْ كَٱلَّذِينَ تَفَرَّقُواْ وَٱخْتَلَفُواْ مِنۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ ٱلْبَيِّنَـٰتُۚ وَأُوْلَـٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
کہیں تم اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایات پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے1 جنہوں نے یہ روش اختیار کی وہ اُس روزسخت سزا پائیں گے
1 | یہ اشارہ اُن اُمّتوں کی طرف ہے جنہوں نے خدا کے پیغمبروں سے دینِ حق کی صاف اور سیدھی تعلیمات پائیں مگر کچھ مُدّت گزر جانے کے بعد اساسِ دین کو چھوڑ دیا اور غیر متعلق ضِمنی و فروعی مسائل کی بنیاد پر الگ الگ فرقے بنانے شروع کر دیے، پھر فضول و لایعنی باتوں پر جھگڑنے میں ایسے مشغول ہوئے کہ نہ اُنہیں اُس کام کا ہوش رہا جو اللہ نے ان کے سپرد کیا تھا اور نہ عقیدہ و اخلاق کے اُن بنیادی اُصُولوں سے کوئی دلچسپی رہی جن پر در حقیقت انسان کی فلاح و سعادت کا مدار ہے |
Surah 6 : Ayat 159
إِنَّ ٱلَّذِينَ فَرَّقُواْ دِينَهُمْ وَكَانُواْ شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِى شَىْءٍۚ إِنَّمَآ أَمْرُهُمْ إِلَى ٱللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُواْ يَفْعَلُونَ
جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے یقیناً ان سے تمہارا کچھ واسطہ نہیں1، ان کا معاملہ تو اللہ کے سپرد ہے، وہی ان کو بتائے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے
1 | خطاب بنی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، اور آپ کے واسطہ سے دینِ حق کے تمام پیرو اس کے مخاطب ہیں ۔ ارشاد کا مدعا یہ ہے کہ اصل دین ہمیشہ سے یہی رہا ہے اور اب بھی یہی ہے کہ ایک خداکو الٰہ اور ربّ مانا جائے۔ اللہ کی ذات، صفات ، اختیارات اور حقوق میں کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ اللہ کے سامنے اپنے آپ کو جواب دہ سمجھتے ہوئے آخرت پر ایمان لایا جائے ، اور اُن وسیع اُصُول و کُلّیات کے مطابق زندگی بسر کی جائے جن کی تعلیم اللہ نے اپنے رسولوں اور کتابوں کے ذریعہ سے دی ہے۔ یہی دین تمام انسانوں کو اوّل یومِ پیدائش سے دیا گیا تھا۔ بعد میں جتنے مختلف مذاہب بنے وہ سب کے سب اس طرح بنے کہ مختلف زمانوں کے لیے لوگوں نے اپنے ذہن کی غلط اُپَچ سے ، یا خواہشاتِ نفس کے غلبہ سے، یا عقیدت کے غلو سے اس دین کو بدلا اور اس میں نئی نئی باتیں ملائیں ۔ اس کے عقائد میں اپنے اوہام و قیاسات اور فلسفوں سے کمی و بیشی اور ترمیم و تحریف کی۔ اس کے احکام میں بدعات کے اضافے کیے۔ خود ساختہ قوانین بنائے۔ جُزئیات میں موشگافیاں کیں۔ فروعی اختلافات میں مبالغہ کیا۔ اہم کو غیر اہم اور غیر اہم کو اہم بنایا۔ اس کے لانے والے انبیاء اور اس کے علمبردار بزرگوں میں سے کسی کی عقیدت میں غلو کیا اور کسی کو بغض و مخالفت کا نشانہ بنایا۔ اس طرح بے شمار مذاہب اور فرقے بنتے چلے گئے اور ہر مذہب و فرقہ کی پیدائش نوعِ انسانی کو متخاصم گروہوں میں تقسیم کرتی چلی گئی۔ اب جو شخص بھی اصل دین ِ حق کا پیرو ہو اس کے لیے ناگیر ہے کہ ان ساری گروہ بندیوں سے الگ ہو جائے اور ان سب سے اپنا راستہ جدا کر لے |
Surah 8 : Ayat 46
وَأَطِيعُواْ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَلَا تَنَـٰزَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْۖ وَٱصْبِرُوٓاْۚ إِنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلصَّـٰبِرِينَ
اور اللہ اور اس کے رسُول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی صبر سے کام لو1، یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
1 | یعنی اپنے جذبات و خواہشات کو قابو میں رکھو۔ جلد بازی ، گھبراہٹ، ہِراس،طمع اور نا مناسب جوش سے بچو۔ ٹھنڈے دلی اور جچی تلی قوت فیصلہ کےساتھ کام کرو۔ خطرات اور مشکلات سامنے ہوں تو تمہارے قدموں میں لغزش نہ آئے۔ اشتعال انگیز مواقع پیش آئیں تو غیظ و غضب کا ہیجان تم سے کوئی بے محل حرکت سرزد نہ کرنے پائے۔ مصائب کا حملہ ہواور حالات بگڑتے نظر آرہے ہوں تو اضطراب میں تمہارے حواس پر اگندہ نہ ہو جائیں۔ حصول مقصد کے شوق سے بے قرار ہو کر یا کسی نیم پختہ تدبیر کو سر سری نظر میں کارگر دیکھ کر تمہارے ارادے شتاب کاری سے مغلوب نہ ہوں۔ اور اگر کبھی دنیوی فوائد و منافع اور لذاتِ نفس کی تر غیبات تمہیں اپنی طرف لبھا رہی ہوں تو ان کے مقابلہ میں بھی تمہاری نفس اس درجہ کمزور نہ ہو کہ بے اختیار ان کیطرف کھینچ جاؤ۔ یہ تمام مفہومات صرف ایک لفظ”صبر“میں پوشیدہ ہیں، اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ ان تمام حیثیات سے صابر ہوں ، میری تائید انہی کو حاصل ہے |
Surah 21 : Ayat 92
إِنَّ هَـٰذِهِۦٓ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَٲحِدَةً وَأَنَا۟ رَبُّكُمْ فَٱعْبُدُونِ
یہ تمہاری امّت حقیقت میں ایک ہی امّت ہے اور میں تمہارا رب ہوں، پس تم میری عبادت کرو
Surah 21 : Ayat 93
وَتَقَطَّعُوٓاْ أَمْرَهُم بَيْنَهُمْۖ كُلٌّ إِلَيْنَا رَٲجِعُونَ
مگر (یہ لوگوں کی کارستانی ہے کہ) انہوں نے آپس میں دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا1 سب کو ہماری طرف پلٹنا ہے
1 | تم‘‘ کا خطاب تمام انسانوں کی طرف ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اے انسانو، تم سب حقیقت میں ایک ہی امت اور ایک ہی ملت تھے ، دنیا میں جتنے نبی بھی آئے وہ سب ایک ہی دین لے کر آئے تھے ، اور وہ اصل دین یہ تھا کہ صرف ایک اللہ ہی انسان کا رب ہے اور اکیلے اللہ ہی کی بندگی و پرستش کی جانی چاہیے ۔ بعد میں جتنے مذاہب پیدا ہوئے اور اسی دین کو بگاڑ کر بنا لیے گئے ۔ اس کی کوئی چیز کسی نے لی، اور کوئی دوسری چیز کسی اور نے ، اور پھر ہر ایک نے ایک جز اس کاٹ کر بہت سی چیزیں اپنی طرف سے اس کے ساتھ ملا ڈالیں ۔ اس طرح یہ بے شمار ملتیں وجود میں آئیں ۔ اب یہ خیال کرنا کہ فلاں نبی فلاں مذہب کا بانی تھا اور فلاں نبی نے فلاں مذہب کی بنیاد ڈالی ، اور انسانیت میں یہ ملتوں اور مذہبوں کا تفرقہ انبیاء کا ڈالا ہوا ہے، محض ایک غلط خیال ہے ۔ محض یہ بات کہ یہ مختلف ملَّتیں اپنے آپ کو مختلف زمانوں اور مختلف ملکوں کے انبیاء کی طرف منسوب کر رہی ہیں ، اس بت کی دلیل نہیں ہے کہ ملّتوں اور مذہبوں کا یہ اختلاف انبیاء کا ڈالا ہوا ہے ۔ خدا کے بھیجے ہوۓ انبیاء دس مختلف مذہب نہیں بنا سکتے تھے اور نہ ایک خدا کے سوا کسی اور کی بندگی سکھا سکتے تھے |
Surah 23 : Ayat 52
وَإِنَّ هَـٰذِهِۦٓ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَٲحِدَةً وَأَنَا۟ رَبُّكُمْ فَٱتَّقُونِ
اور یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں، پس مجھی سے تم ڈرو1
1 | تمہاری امت ایک ہی امت ہے ‘‘ یعنی تم ایک ہی گروہ کے لوگ ہو۔‘‘ امت‘‘ کا لفظ اس مجموعہ افراد پر بولا جاتا ہے جو کسی اصل مشترک پر جمع ہو۔ انبیاء چونکہ اختلاف زمانہ وہ مقام کے باوجود ایک عقیدے ، ایک دین اور ایک دعوت پر جمع تھے ، اس لیے فرمایا گیا کہ ان سب کی ایک ہی امت ہے۔ بعد کا فقرہ خود بتا رہا ہے ہ وہ اصل مشترک کیا تھی جس پر سب انبیاء جمع تھے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو البقرہ، آیات 130 تا 133۔ 213۔ آل عمران، 19۔20۔23۔34۔ 64۔ 79 تا 85۔ النساء ، 1550 تا 152۔ الاعراف 59۔ 65۔ 73۔ 85۔ یوسف 37 تا 40۔ مریم ، 49 تا 59۔ الانبیاء 71 تا 93 |
Surah 23 : Ayat 53
فَتَقَطَّعُوٓاْ أَمْرَهُم بَيْنَهُمْ زُبُرًاۖ كُلُّ حِزْبِۭ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ
مگر بعد میں لوگوں نے اپنے دین کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر لیا ہر گروہ کے پاس جو کچھ ہے اُسی میں وہ مگن ہے1
1 | یہ محض بیان واقعہ ہی نہیں ہے بلکہ اس استدلال کی ایک کڑی بھی ہے جو آغاز سورہ سے چلا آ رہا ہے۔ دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ جب نوح علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ تک تمام انبیاء یہی توحید اور عقیدہ آخرت کی تعلیم دیتے رہے ہیں ،تو لا محالہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نوع انسانی کا اصل دین یہی اسلام ہے ، اور دوسرے تمام مذاہب جو آج پائے جاتے ہیں وہ اسی کی بگڑی ہوئی صورتیں ہیں جو اس کی بعض صداقتوں کو مسخ کر کے اور اس کے اندر بعض من گھڑت باتوں کا اضافہ کر کے بنا لی گئی ہیں۔ اب اگر غلطی پر ہیں تو وہ لوگ ہیں جو ان مذاہب کے گرویدہ ہو رہے ہیں ، نہ کہ وہ جو ان کو چھوڑ کر اصل دین کی طرف بلا رہا ہے |
Surah 42 : Ayat 13
۞ شَرَعَ لَكُم مِّنَ ٱلدِّينِ مَا وَصَّىٰ بِهِۦ نُوحًا وَٱلَّذِىٓ أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِۦٓ إِبْرَٲهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَىٰٓۖ أَنْ أَقِيمُواْ ٱلدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُواْ فِيهِۚ كَبُرَ عَلَى ٱلْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِۚ ٱللَّهُ يَجْتَبِىٓ إِلَيْهِ مَن يَشَآءُ وَيَهْدِىٓ إِلَيْهِ مَن يُنِيبُ
اُس نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اُس نے نوحؑ کو دیا تھا، اور جسے (اے محمدؐ) اب تمہاری طرف ہم نے وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے، اور جس کی ہدایت ہم ابراہیمؑ اور موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کو دے چکے ہیں، اِس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اِس دین کو اور اُس میں متفرق نہ ہو جاؤ1 یہی بات اِن مشرکین کو سخت ناگوار ہوئی ہے جس کی طرف اے محمدؐ تم انہیں دعوت دے رہے ہو اللہ جسے چاہتا ہے اپنا کر لیتا ہے، اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اُسی کو دکھاتا ہے جو اُس کی طرف رجوع کرے2
2 | یہاں پھر وہی بات دہرائی گئی ہے جو اس سے پہلے آیت 8۔9 میں ارشاد ہو چکی ہے اور جس کی تشریح ہم حاشیہ نمبر 11 میں کر چکے ہیں۔ اس جگہ یہ بات ارشاد فرمانے کا مدعا یہ ہے کہ تم ان لوگوں کے سامنے دین کی صاف شاہراہ پیش کر رہے ہو اور یہ نادان اس نعمت کی قدر کرنے کے بجاۓ الٹے اس پر بگڑ رہے ہیں۔ مگر انہی کے درمیان انہی کی قوم میں وہ لوگ موجود ہیں جو اللہ کی طرف رجوع کر رہے ہیں اور اللہ بھی انہیں کھینچ کھچینچ کر اپنی طرف لا رہا ہے۔ اب یہ اپنی اپنی قسمت ہے کہ کوئی اس نعمت کو پاۓ اور کوئی اس پر خار کھاۓ۔ مگر اللہ کی بانٹ اندھی بانٹ نہیں ہے۔ وہ اسی کو اپنی طرف کھینچتا ہے جو اس کی طرف بڑھے۔ دور بھاگنے والوں کے پیچھے دوڑنا اللہ کا کام نہیں ہے |
1 | یہاں اسی بات کو پھر زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جو پہلی آیت میں ارشاد ہوئی تھی۔ اس میں صاف صاف بتایا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کسی نۓ مذہب کے بانی نہیں ہیں ، نہ انبیاء میں سے کوئی اپنے کسی الگ مذہب کا بانی گزرا ہے ، بلکہ اللہ کی طرف سے ایک ہی دین ہے جسے شروع سے تمام انبیاء پیش کرتے چلے آ رہے ہیں ، اور اسی کو محمد صلی اللہ علیہ و سلم بھی پیش کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے حضرت نوحؑ کا نام لیا گیا ہے جو طوفان کے بعد موجودہ نسل انسانی کے اولین پیغمبر تھی ، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر کیا گیا ہے جو آخری نبی ہیں ، پھر حضرت ابراہیمؑ کا نام لیا گیا ہے جنہیں اہل عرب اپنا پیشوا مانتے تھے ، اور آخر میں حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کا ذکر کیا گیا ہے جن کی طرف یہودی اور عیسائی اپنے مذہب کو منسوب کرتے ہیں۔ اس سے مقصود یہ نہیں ہے کہ انہی پانچ انبیاء کو اس دین کی ہدایت کی گئی تھی۔ بلکہ اصل مقصد یہ بتانا ہے کہ دنیا میں جتنے انبیاء بھی آۓ ہیں ، سب ایک ہی دین لے کر آۓ ہیں ، اور نمونے کے طور پر ان پانچ جلیل القدر انبیاء کا نام لے دیا گیا ہے جن سے دنیا کو معروف ترین آسمانی شریعتیں ملی ہیں۔ یہ آیت چونکہ دین اور اس کے مقصود پر بڑی اہم روشنی ڈالتی ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ اس پر پوری طرح غور کر کے اسے سمجھا جاۓ: فرمایا کہ شَرَعَلَکُمْ، ’’ مقرر کیا تمہارے لیے ‘‘ شرع کے لغوی معنی راستہ بنانے کے ہیں ، اور اصطلاحاً اس سے مراد طریقہ اور ضابطہ اور قاعدہ مقرر کرتا ہے۔ عربی زبان میں اسی اصلاحی معنی کے لحاظ تشریع کا لفظ قانون سازی (Lagislation) کا ، شرع اور شریعت کا لفظ قانون (Law) کا شارع کا لفظ واضح قانون (Law giver) کا ہم معنی سمجھا جاتا ہے۔ یہ تشریع خداوندی دراصل فطری اور منطقی نتیجہ ان اصولی حقائق کا جو قرآن میں جگہ جگہ بیان ہوۓ ہیں کہ اللہ ہی کائنات کی ہر چیز کا مالک ہے ، اور وہی انسان کا حقیقی ولی ہے ، اور انسانوں کے درمیان جس امر میں بھی اختلاف ہو اس کا فیصلہ کرنا اسی کا کام ہے۔ اب چونکہ اصولاً اللہ ہی مالک اور ولی اور حاکم ہے ، اس لیے لامحالہ وحی اس کا حق رکھتا ہے کہ انسان کے لیے قانون و ضابطہ بناۓ اور اسی کی یہ ذمہ داری ہے کہ انسانوں کو یہ قانون و ضابطہ دے۔ چنانچہ اپنی اس ذمہ داری کو اس نے یوں ادا کر دیا ہے۔ پھر فرمایا مِنَ الدِّیْنِ ، ’’اس قسم دین‘‘۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے اس کا ترجمہ ’’ از آئین ‘‘ کیا ہے۔یعنی اللہ تعالیٰ نے جو تشریع فرمائی ہے اس کی نوعیت آئین کی ہے لفظ ’’ دین ‘‘ کی جو تشریح ہم اس سے پلے سورہ زُمُر ، حاشیہ3 نمبر میں کر چکے ہیں وہ اگر نگاہ میں رہے تو یہ سمجھنے میں کوئی الجھن پیش نہیں آسکتی کہ دین کے معنی ہی کسی کی سیادت و حاکمیت تسلیم کر کے اس کے احکام کی اطاعت کرنے کے ہیں۔ اور جب یہ لفظ طریقے کے معنی میں بولا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ طریقہ ہوتا ہے جسے آدمی واجب الاتباع اور جس کے مقرر کرنے والے کو مطاع مانے۔ اس بنا پر اللہ کے مقرر کیے ہوۓ اس طریقے کو دین کی نوعیت رکھنے والی تشریع کہنے کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس کی حیثیت محض سفارش (Recommendation) اور وعظ نصیحت کی نہیں ہے ، بلکہ یہ بندوں کے لیے ان کے مالک کا واجب الاطاعت قانون ہے جس کی پیروی نہ کرنے کے معنی بغاوت کے ہیں اور جو شخص اس کی پیروی نہیں کرتا وہ در اصل اللہ کی سیادت و حاکمیت اور اپنی بندگی کا انکار کرتا ہے۔ اس کے بعد ارشاد ہوا کہ دین کی نوعیت رکھنے والی یہ تشریع وہی ہے جس کی ہدایت نوح اور ابراہیم اور موسیٰ علیہم السلام کو دی گئی تھی اور اسی کی ہدایت اب محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو دی گئی ہے۔ اس ارشاد سے کئی باتیں نکلتی ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اس تشریع کو براہ راست ہر انسان کے پاس نہیں بھیجا ہے بلکہ وقتاً فوقتاً جب اس نے مناسب سمجھا ہے ایک شخص کو اپنا رسول مقرر کر کے یہ تشریع اس کے حوالے کی ہے۔ دوسرے یہ کہ یہ تشریع ابتدا سے یکساں رہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی زمانے میں کسی اور قوم کے لیے کوئی دین مقرر کیا گیا ہو اور کسی دوسرے زمانے میں کسی اور قوم کے لیے اس سے مختلف اور متضاد دین بھیج دیا گیا ہو۔ خدا کی طرف سے بہت سے دین نہیں آۓ ہیں ، بلکہ جب بھی آیا ہے یہی ایک دین آیا ہے۔ تیسرے یہ کہ اللہ کی سیادت و حاکمیت ماننے کے ساتھ ان لوگوں کی رسالت کا ماننا جن کے ذریعہ سے یہ تشریع بھیجی گئی ہے ، اور اس وحی کو تسلیم کرنا جس میں یہ تشریع بیان کی گئی ہے ، اس دین کا لازمی جز ہے ، اور عقل و منطق کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس کو لازمی جز ہونا چاہیے ، کیونکہ آدمی اس تشریع کی اطاعت کر ہی نہیں سکتا جب تک وہ اس کے خدا کی طرف سے مستند (Authentic) ہونے پر مطمئن نہ ہو۔ اس کے بعد فرمایا کہ ان سب انبیاء کو دین کی نوعیت رکھنے والی یہ تشریع اس ہدایت اور تاکید کے ساتھ دی گئی تھی کہ اَقِیْمُو ا الدِّیْنَ۔ اس فقرے کا ترجمہ شاہ ولی اللہ صاحب نے ’’ قائم کنید دین را‘‘ کیا ہے ، اور شاہ رفیع الدین صاحب اور شاہ عبدالقادر صاحب نے ’’ قائم رکھو دین کو ‘‘۔ یہ دونوں ترجمے درست ہیں۔ اقامت کے معنی قائم کرنے کے بھی ہیں اور قائم رکھنے کے بھی، اور انبیاء علیہم السلام ان دونوں ہی کاموں پر مامور تھے۔ ان کا پہلا فرض یہ تھا کہ جہاں یہ دین قائم نہیں ہے وہاں اسے قائم کریں۔ اور دوسرا فرض یہ تھا کہ جہاں یہ قائم ہو جاۓ یا پہلے سے قائم ہو وہاں اسے قائم رکھیں۔ ظاہر بات ہے کہ قائم رکھنے کی نوبت آتی ہی اس وقت ہے جب ایک چیز قائم ہو چکی ہو۔ ورنہ پہلے اسے قائم کرنا ہوگا، پھر یہ کوشش مسلسل جاری رکھنی پڑے گی کہ وہ قائم رہے۔ اب ہمارے سامنے دو سوالات آتے ہیں۔ ایک یہ کہ دین کو قائم کرنے سے مراد کیا ہے؟ دوسرے یہ کہ خود دین سے کیا مراد ہے جسے قائم کرنے اور پھر قائم رکھنے کا حکم دیا گیا ہے؟ ان دونوں باتوں کو بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ قائم کرنے کا لفظ جب کسی مادی یا جسمانی چیز کے لیے استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد بیٹھے کو اٹھا نا ہوتا ہے ، مثلاً کسی انسان یا جانور کو اٹھانا۔ یا پڑی ہوئی چیز کو کھڑا کرنا ہوتا ہے ، جیسے بانس یا ستون کو قائم کرنا۔ یا کسی چیز کے بکھرے ہوۓ اجزاء کو جمع کر کے بلند کرنا ہوتا ہے ، جیسے کسی خالی زمین میں عمارت قائم کرنا لیکن جو چیزیں مادی نہیں بلکہ معنوی ہوتی ہیں ان کے لیے جب قائم کرنے کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے مراد اس چیز کی محض تبلیغ کرنا نہیں بلکہ اس پر کما حقہ ، عمل در آمد کرنا ، اسے رواج دینا اور اسے عملاً نافذ کرنا ہوتا ہے۔ مثلاً جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص نے اپنی حکومت قائم کی تو اس کے معنی یہ نہیں ہوتے کہ اس نے اپنی حکومت کی طرف دعوت دی، بلکہ یہ ہوتے ہیں کہ اس نے ملک کے لوگوں کو اپنا مطیع کر لیا اور حکومت کے تمام شعبوں کی ایسی تنظیم کر دی کہ ملک کا سارا انتظام اس دے احکام کے مطابق چلنے لگا۔ اسی طرح جب ہم کہتے ہیں کہ ملک میں عدالتیں قائم ہیں تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ انصاف کرنے کے لیے منصف مقرر ہیں اور وہ مقدمات کی سماعت کر رہے ہیں اور فیصلے دے رہے ہیں ، نہ یہ کہ عدل و انصاف کی خوبیاں خوب خوب بیان کی جا رہی ہیں اور لوگ ان کے قائل ہو رہے ہیں۔ اسی طرح جب قرآن مجید میں حکم دیا جاتا ہے کہ نماز قائم کرو تو اس سے مراد نماز کی دعوت و تبلیغ نہیں ہوتی بلکہ یہ ہوتی ہے کہ نماز کو اس کی تمام شرائط کے ساتھ نہ صرف خود ادا کرو بلکہ ایسا انتظام کرو کہ وہ اہل ایمان میں باقاعدگی کے ساتھ رائج ہو جاۓ۔ مسجدیں ہوں۔ جمعہ و جماعت کا اہتمام ہو۔ وقت کی پابندی کے ساتھ اذانیں دی جائیں۔ امام اور خطیب مقرر ہوں۔ اور لوگوں کو وقت پر مسجدوں میں آنے اور نماز ادا کرنے کی عادت پڑ جاۓ۔ اس تشریح کے بعد یہ بات سمجھنے میں کوئی دقت پیش آسکتی کہ انبیاء علیہم السلام کو جب اس دین کے قائم کرنے اور قائم رکھنے کا حکم دیا گیا تو اس سے مراد صرف اتنی بات نہ تھی کہ وہ خود اس دین پر عمل کریں ، اور اتنی بات بھی نہ تھی کہ وہ دوسروں میں اس کی تبلیغ کریں تاکہ لوگ اس کا برحق ہونا تسلیم کر لیں تو اس سے آگے قدم بڑھا کر پورا کا پورا دین ان میں عملاً رائج اور نافذ کیا جاۓ تاکہ اس کے مطابق عمل در آمد ہونے لگے اور ہوتا رہے۔ اس میں شک نہیں کہ دعوت و تبلیغ اس کا م کا لازمی ابتدائی مرحلہ ہے جس کے بغیر دوسرا مرحلہ پیش نہیں آ سکتا۔ لیکن ہر صاحب عقل آدمی خود دیکھ سکتا ہے کہ اس حکم میں دعوت و تبلیغ کو مقصود کی حیثیت نہیں دی گئی ہے ، بلکہ دین قائم کرنے اور قائم رکھنے کو مقصود قرار دیا گیا ہے۔ دعوت و تبلیغ اس مقصد کے حصول کا ذریعہ ضرور ہے ، مگر بجاۓ خود مقصد نہیں ہے ، کجا کہ کوئی شخص اسے انبیاء کے مشن کا مقصد توحید قرار دے بیٹھے۔ اب دوسرے سوال کو لیجیے۔بعض لوگوں نے دیکھا کہ جس دین کو قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ تمام انبیا ء علیہم السلام کے درمیان مشترک ہے ، اور شریعتیں ان سب کی مختلف رہی ہیں ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے : لِکُلِّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْ عَۃً وَّ مِجْھَا جاً ، اس لیے انہوں نے یہ راۓ قائم کر لی کہ لا محالہ اس دین سے مراد شرعی احکام و ضوابط نہیں ہیں بلکہ صرف توحید و آخرت اور کتاب و نبوت کا ماننا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت بجا لانا ہے ، یا حد سے حد اس میں وہ موٹے موٹے اخلاقی اصول شامل میں جو سب شریعتوں میں مشترک رہے ہیں۔لیکن یہ ایک بڑی سطحی راۓ ہے جو محض سرسری نگاہ سے دین کی وحدت اور شرائع کے اختلاف کو دیکھ کر قائم کر لی گئی ہے ، اور یہ ایسی خطرناک راۓ ہے کہ اگر اس کی اصلاح نہ کر دی جاۓ تو آگے بڑھ کر بات دین و شریعت کی اس تفریق تک جا پہنچے گی جس میں مبتلا ہو کر سینٹ پال نے دین بلا شریعت کا نظریہ پیش کیا اور سیّدنا مسیح علیہ السلام کی امت کو خراب کر دیا۔ اس لیے کہ جب شریعت دین سے الگ ایک چیز ہے ،اور حکم صرف دین کو قائم کرنے کا ہے نہ کہ شریعت کو لا محالہ مسلمان بھی عیسائیوں کی طرح شریعت کو غیر اہم اور اس کی اقامت کو غیر مقصود بالذات سمجھ کر نظر انداز کر دیں گے اور صرف ایمانیات اور موٹے موٹے اخلاقی اصولوں کے لے کر بیٹھ جائیں گے۔ اس طرح کے قیاسات سے دین کا مفہوم متعین کرنے کے بجاۓ آخر کیوں نہ ہم خود اللہ کی کتاب سے پوچھ لیں کہ جس دین کو قائم کرنے کا حکم یہاں دیا گیا ہے ، آیا اس سے مراد صرف ایمانیات اور بڑے بڑے اخلاقی اصول ہی ہیں ، یا شرعی احکام بھی۔قرآن مجید کا جب ہم تتبع کرتے ہیں تو اس میں جن چیزوں کو دین میں شمار کیا گیا ہے ان میں حسب ذیل چیزیں بھی ہمیں ملتی ہیں : 1)وَمَآ اُمِرُ ؤٓ ا اِلَّا لِیَعْبُدُو ا اللہَ مُخْلِصِینَ لَہُ الدِّ یْنَ حُنَفَآءَ وَیُقِیْمو االصَّلوٰۃَ وَ یُؤْ تُو االزَّ کوٰۃَ وَ ذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃ (البیّنہ، آیت 5)۔ ’’ اور ان کو حکم نہیں دیا گیا مگر اس بات کا کہ یکسو ہو کر اپنے دین کو الہہ کے لیے خالص کرتے ہوۓ اس کی عبادت کریں اور زکوٰۃ دین ، اور یہی راست رَو ملت کا دین ہے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ نماز اور زکوٰۃ اس دین میں شامل ہیں ، حالانکہ ان دونوں کے احکام مختلف شریعتوں میں مختلف رہے ہیں۔ کوئی شخص بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ تمام پچھلی شریعتوں میں نماز کی یہی شکل و ہئیت ، یہی اس کے اجزاء، یہی اس کی رکعتیں ، یہی اس کا قبلہ، یہی اس کے اوقات، اور یہی اس کے دوسرے احکام رہے ہیں۔ اسی طرح زکوٰۃ کے متعلق بھی کوئی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ تمام شریعتوں میں یہی اس کا نصاب، یہی اس کی شرحیں ، اور یہی اس کی تحصیل اور تقسیم کے احکام رہے ہیں۔ لیکن اختلاف شرائع کے باوجود اللہ تعالیٰ ان دونوں چیزوں کو دین میں شمار کر رہا ہے۔ 2)حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَہُ وَالدَّ مُ وَ لَحْمُ الخِنْزِیْرِ وَمَآاھُلَّ لِغَیْرِ اللہِ بِہٖ ........ الْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ ........ (المائدہ۔ 3)۔ تمہارے لیے حرام کیا گیا مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جو اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، اور وہ جو گلا گھٹ کر، یا چوٹ کھا کر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکر کھا کر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو، سواۓ اس کے جسے تم نے زندہ پا کر ذبح کرلیا ، اور وہ جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو، نیز یہ بھی تمہارے لیے حرام کیا گیا کہ تم پانسوں کے ذریعہ سے اپنی قسمت معلوم کرو۔ یہ سب کام فسق ہیں۔ آج کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے مایوسی ہو چکی ہے لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے تمہارے دین تمہارے لیے مکمل کر دیا .................‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ یہ سب حکام شریعت بھی دین ہی ہیں۔ 3) اَتِلُو االَّذِیْنَ لَا یُؤْ مِنُوْنَ بِا للہِ وَلْیَوْمِ الْاٰ خِرِ وَلَا یُحَرِّ مُوْنَ مَا حَرَّ مَ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ (التوبہ۔ 29)۔ جنگ کرو ان لوگوں سے جو اللہ اور یوم آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے ‘‘۔ معلوم ہوا کہ اللہ اور آخرت پر ایمان لانے کے ساتھ حلال و حرام کے ان احکام کو ماننا اور ان کی پابندی کرنا بھی دین ہے جو اللہ اور اس کے رسول نے دیے ہیں۔ 4) اَلزَّانِیَۃُوَ الزَّ انِیْ فَا جْلِدُوْ اکُلَّوَحِدٍمِّنْھُمَا مِا ئَۃَ جَلْدَۃٍ وَّ لَا تَأ خُذْ کُمْ بھِمَا رَأ فَۃٌ فِیْ دِ یْنِ اللہِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِا للہِ وَالْیَوْ مِ الْاٰخِرِ (النّور 20) زانیہ عورت اور مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملہ میں تم کو دامنگیر نہ ہو اگر تم اللہ اور راز آخر پر ایمان رکھتے ہو‘‘ مَا کَا نَ لِیَأ خُذَ اَخَا ہُ فَیْ دِیْنِ الْمَلِکِ (یوسف۔ 76) یوسفؑ اپنے بھائی کو بادشاہ کے دین میں پکڑ لینے کا مجاز نہ تھا‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ فوجداری قانون بھی دین ہے۔ اگر آدمی خدا کے فوجداری قانون پر چلے تو وہ خدا کے دین کا پیرو ہے اور اگر بادشاہ کے قانون پر چلے تو وہ بادشاہ کے دین کا پیرو۔ یہ چار تو وہ نمونے ہیں جن میں شریعت کے احکام کو بالفاظ صریح دین سے تعبیر کیا گیا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ اگر غور سے دیکھا جاۓ تو معلوم ہوتا ہے کہ جن گناہوں پر اللہ تعالیٰ نے جہنم کی دھمکی دی ہے (مثلاً زنا، سود خواری ، قتل مومن ، یتیم کا مال کھانا ، باطل طریقوں سے لوگوں کے مال لینا ، وغیرہ)، اور جن جرائم کو خدا کے عذاب کا موجب قرار دیا ہے (مثلاً عمل قوم لوط ، اور لین دین میں قوم شعیبؑ کا رویہ) ان کا سد باب لازماً دین ہی میں شمار ہونا چاہیے ، اس لیے کہ دین اگر جہنم اور عذاب الہٰی سے بچانے کے لیے نہیں آیا ہے تو اور کس چیز کے لیے آیا ہے؟ اسی طرح وہ احکام شریعت بھی دین ہی کا حصہ ہونے چاہییں جن کی خلاف ورزی کو خلود جی النار کا موجب قرار دیا گیا ہے ، مثلاً میراث کے احکام، جن کو بیان کرنے کے بعد آخر میں ارشاد ہوا ہے کہ وَمَنْ یَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْ لَہٗ وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ یُدْ خِلْہُنَا راً اخَا لِداً ا فِیْھَا وَلَہٗ عَذَابٌ مّھُیْنٌ (النساء۔14) ’’ جو اللہ اور اسے کے رسول کی نافرمانی اور اللہ کے حدود سے تجاوز کرے گا، اللہ اس کو دوزخ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن عذاب ہے ‘‘۔ اسی جن چیزوں کی حرمت اللہ تعالیٰ نے پوری شدت اور قطعیت کے ساتھ بیان کی ہے ، مثلاً ماں بہن اور بیٹی کی حرمت، شراب کی حرمت ، شراب کی حرمت ، چوری کی حرمت، جوۓ کی حرمت ، جھوٹی شہادت کی حرمت، ان کی تحریم کو اگر اقامت دین میں شامل نہ کیا جاۓ تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ غیر ضروری احکام بھی دے دیے ہیں جن کا اجراء مقصود نہیں ہے۔ علیٰ ہٰذا القیاس جن کاموں کو اللہ تعالیٰ نے فرض قرار دیا ہے ، مثلاً روزہ اور حج ، ان کی اقامت کو بھی محض اس بہانے اقامت دین سے خارج نہیں کیا جا سکتا کہ رمضان کے 30 روزے تو پچھلی شریعتوں میں نہ تھے ، اور کعبے کا حج تو صرف اس شریعت میں تھا جو اولاد ابراہیمؑ کی اسماعیلی شاخ کو ملی تھی۔ دراصل ساری غلط فہمی صرف اس وجہ سے پیدا ہوئی ہے کہ آیت : لَکُلِّ جَعَلْنَا مِنْکُمُ شِرْ عَۃً وَّ مِنْھَا جاً (ہم نے تم میں سے ہر امت کے لی ایک شریعت اور ایک راہ مقرر کر دی) کا الٹا مطلب لے کر اسے یہ معنی پہنا دیے گۓ ہیں کہ شریعت چونکہ ہر امت کے لیے الگ تھی، اور حکم صرف اس دین کے قائم کرنے کا دیا گیا ہے جو تمام انبیاء کے درمیان مشترک تھا، اس لیے اقامت دین کے حکم میں اقامت شریعت شامل نہیں ہے۔ حالانکہ در حقیقت اس آیت کا مطلب اس دے بالکل بر عکس ہے۔ سورہ مائدہ میں جس مقام پر یہ آیت آئی ہے اس کے پورے سیاق و سباق کو آیت 41 سے آیت 50 تک اگر کوئی شخص بغور پڑھے تو معلوم ہو گا کہ اس آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ جس نبی کی امت کو جو شریعت بھی اللہ تعالیٰ نے دی تھی وہ اس امت کے لیے دین تھی اور اس کے دور نبوت میں اسی اقامت مطلوب تھی۔ اور اب چونکہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا دور نبوت ہے۔ اس لیے امت محمدیہ کو جو شریعت دی گئی ہے وہ اس دور کے لیے دین ہے اور اس کا قائم کرنا ہی دین کا قائم کرنا ہے۔ رہا ان شریعتوں کا اختلاف ، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا کی بھیجی ہوئی شریعتیں باہم متضاد تھیں ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے جزئیات میں حالات کے لحاظ سے کچھ فرق رہا ہے۔ مثال کے طور پر نماز اور روزے کو دیکھیے۔ نماز تمام شریعتوں میں فرض رہی ہے ، مگر قبلہ ساری شریعتوں کا ایک نہ تھا، اور اس کے اوقات اور رکعات اور اجزاء میں بھی فرق تھا۔ اسی طرح روزہ ہر شریعت میں فرض تھا مگر رمضان کے 30 روزے دوسری شریعتوں میں نہ تھے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے کہ مطلقاً نماز اور روزہ تو اقامت دین میں شامل ہے ، مگر ایک خاص طریقت سے نماز پڑھنا اور خاص زمانے میں روزہ رکھنا اقامت دین سے خارج ہے۔ بلکہ اس سے صحیح طور پر جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ ہر نبی کی امت کے لیے اس وقت کی شریعت میں نماز اور روزے کے لیے جو قاعدے مقرر کیے گئے تھے انہی کے مطابق اس زمانے میں نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا دین قائم کرنا تھا، اور اب اقامت دین یہ ہے کہ ان عبادتوں کے لیے شریعت محمدیہ میں جو طریقہ رکھا گیا ہے ان کے مطابق انہیں ادا کیا جاۓ۔انہی دو مثالوں پر دوسرے تمام احکام شریعت کو بھی قیاس کر لیجیے۔ قرآن مجید کو جو شخص بھی آنکھیں کھول کر پڑھے گا اسے یہ بات صاف نظر آۓ گی کہ یہ کتاب اپنے ماننے والوں کو کفر اور کفار کی رعیت فرض کر کے مغلوبانہ حیثیت میں مذہبی زندگی بسر کرنے کا پروگرام نہیں دے رہی ہے ، بلکہ یہ علانیہ اپنی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے ، اپنے پیروؤں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ دین حق کو فکری، اخلاقی ، تہذیبی اور قانونی و سیاسی حیثیت سے غالب کرنے کے لیے جان لڑا دین، اور ان کو انسانی زندگی کی اصلاح کا وہ پروگرام دیتی ہے جس کے بہت بڑے حصے پر صرف اسی صورت میں عمل کیا جا سکتا ہے جب حکومت کا اقتدار اہل ایمان کے ہاتھ میں ہو۔ یہ کتاب اپنے نازل کیے جانے کا مقصد یہ بیان کرتی ہے کہ اِنَّآ اَنْزَلْنا اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِا لْحقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّا سِ بِمَآ اَرٰ کَ اللہُ (النساء۔ 105)۔اے نبی، ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تم پر نازل کی ہے تاکہ تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو اس روشنی میں جو اللہ نے تمہیں دکھائی ہے ‘‘۔ اس کتاب میں زکوٰۃ کی تحصیل و تقسیم کے جو احکام دیے گیے ہیں وہ صریحاً اپنے پیچھے ایک ایسی حکومت کا تصور رکھتے ہیں جو ایک مقرر قاعدے کے مطابق زکوٰۃ وصول کر کے مستحقین تک پہنچانے کا ذمہ لے (التوبہ۔ 60۔103) اس کتاب میں سود کو بند کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے اور سود خواری جاری رکھنے والوں کے خلاف جو اعلان جنگ کیا گیا ہے (البقرہ 275۔ 279) وہ اسی صورت میں رو بہ عمل آ سکتا ہے جب ملک کا سیاسی اور معاشی نظام پوری طرح اہل ایمان کے ہاتھ ہیں ہو۔ اس کتاب میں قاتل سے قصاص لینے کا حکم (البقرہ۔ 178) چوری پر ہاتھ کاٹنے کا حکم (المائدہ۔ 38) زنا اور قذف پر حد جاری کرنے کا حکم (النور۔2۔4) اس مفروضے پر نہیں دیا گیا ہے کہ ان احکام کے ماننے والے لوگوں کو کفار کی پولیس اور عدالتوں کے ماتحت رہنا ہو گا۔ اس کتاب میں کفار سے قتال کا حکم (لبقرہ۔ 190۔216) یہ سمجھتے ہوۓ نہیں دیا گیا کہ اس دین کے پیرو کفر کی حکومت میں چوج بھرتی کر کے اس حکم کی تعمیل کریں گے۔ اس کتاب میں اہل کتاب سے جزیہ لینے کا حم (التوبہ 29) اور مفروضے پر نہیں دیا گیا ہے کہ مسلمان کافروں کی رعایا ہوتے ہوۓ ان سے جزیہ وصول کریں گے اور ان کی حفاظت کا ذمہ لیں گے۔ اور یہ معاملہ صرف مدنی سورتوں ہی تک محدود نہیں ہے۔ مکی صورتوں میں بھی دیدہ بینا کو علانیہ یہ نظر آ سکتا ہے کہ ابتدا ہی سے جو نقشہ پیش نظر تھا وہ دین کے غلبہ و اقتدار کا تھا نہ کہ کفر کی حکومت کے تحت دین اور اہل دین کے ذمی بن کر رہنے کا۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ص 633۔ 637۔638۔ جلد سوم ، ص 665 تا 667۔ 730 تا 732۔ جلد چہارم ، الصافّات ، آیات 171 تا 179 (حواشی 93۔94) صٓ ، دیباچہ اور آیت 11 مع حاشیہ 12۔ سب سے بڑھ کر جس چیز سے تعبیر کی یہ غلطی متصادم ہوتی ہے وہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا وہ عظیم الشان کام ہے جو حضورؐ 23 سال کے زمانہ رسالت میں انجام دیا۔ آخر کون نہیں جانتا کہ آپ نے تبلیغ اور تلوار دونوں سے پورے عرب کو مسخر کیا اور اس میں ایک مکمل حکومت کا نظام ایک مفصل شریعت کے ساتھ قائم کر دیا جو اعتقادات اور عبادات سے لے کر شخصی کردار، اجتماعی اخلاق، تہذیب و تمدن، معیشت و معاشرت، سیاست و عدالت اور صلح و جنگ تک زندگی کے تمام گوشوں پر حاوی تھی۔ اگر حضورؐ کے اس پورے کام کو ’’اقامت دین ‘‘ کے اس حکم کی تفسیر نہ مانا جاۓ جو اس آیت کے مطابق تمام انبیاء سمیت آپ کو دیا گیا تھا، تو پھر اس کے دو ہی معنی ہو سکتے ہیں۔ یا تو معاذاللہ حضورؐ پر یہ الزام عائد کیا جاۓ کہ آپ مامور تو صرف ایمانیات اور اخلاق کے موٹے موٹے اصولوں کی محض تبلیغ و دعوت پر ہوۓ تھے ، مگر آپؐ نے اس سے تجاوز کر کے بطور خود ایک حکومت قائم کر دی اور ایک مفصل قانون بنا ڈالا جو شرائع انبیاء کی قدر مشترک سے مختلف بھی تھا اور زائد بھی۔ یا پھر اللہ تعالیٰ پر یہ الزام رکھا جاۓ کہ وہ سورہ شوریٰ میں مذکورہ بالا اعلان کر چکنے کے بعد خود اپنی بات سے منحرف ہو گیا اور اس نے اپنے آخری نبی سے نہ صرف وہ کام لیا جو اس سورۃ کی اعلان کردہ ’’ اقامت دین ‘‘ سے بہت کچھ زائد اور مختلف تھا ، بلکہ اس کام کی تکمیل پر اپنے پہلے اعلان کے خلاف یہ دوسرا اعلان بھی کر دیا کہ اَلْیَوْمَ اَکَمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ (آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا )، اعاذنااللہ من ذالک۔ ان دو صورتوں کے سوا اگر کوئی تیسری صورت ایسی نکلتی ہو جس سے ’’ اقامت دین ‘‘ کی یہ تعبیر بھی قائم رہے اور اللہ یا اس کے رسول پر کوئی الزام بھی عائد نہ ہوتا ہو تو ہم ضرور اسے معلوم کرنا چاہیں گے۔ اقامت دین کا حکم دینے کے بعد، آخری بات جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ارشاد فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ : لَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ۔ ’’ دین میں تفرقہ نہ برپا کرو ‘‘ ، یا ’’ اس کے اندر متفرق نہ ہو جاؤ ‘‘۔ دین میں تفرقہ سے مراد یہ ہے کہ آدمی دین کے اندر اپنی طرف سے کوئی نرالی بات ایسی نکالے جس کے کوئی معقول گنجائش اس میں نہ ہو اور اصرار کرے کہ اس کی نکالی ہوئی بات کے ماننے ہی پر کفر و ایمان مدار ہے ، پھر جو ماننے والے ہوں انہیں لے کر نہ ماننے والوں سے جدا ہو جاۓ۔ یہ نرالی بات کئی طرح کی ہو سکتی ہے۔ وہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دین میں جو چیز نہ تھی وہ اس میں لا کر شامل کر دی جاۓ۔ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دین میں جو بات شامل تھی اسے نکال باہر کیا جاۓ۔ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دین کی نصوص میں تحریف کی حد تک پہنچی ہوئی تاویلات کر کے نرالے عقائد اور انوکھے اعمال ایجاد کیے جائیں۔ اور یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دین کی باتوں میں رد و بدل ک کے اس کا حلیہ بگاڑا جاۓ ، مثلاً جو چیز اہم تھی اسے غیر اہم بنا دیا جاۓ اور جو چیز حد سے حد مباح کے درجے میں تھی اسے فرض و واجب بلکہ اس سے بھی بڑھا کر اسلام کا رکن رکین بنا ڈالا جاۓ۔اسی طرح کی حرکتوں سے انبیاء علیہم السلام کی امتوں میں پہلے تفرقہ برپا ہوا، پھر رفتہ رفتہ ان فرقوں کے مذاہب بالکل الگ مستقل ادیان بن گۓ جن کے ماننے والوں میں اب یہ تصور تک باقی نہیں رہا ہے کہ کبھی ان سب کی اصل ایک تھی۔ اس تفرقے کا اس جائز اور معقول اختلاف راۓ سے کوئی تعلق نہیں ہے جو دین کے احکام کو سمجھنے اور نصوص پر غور کر کے ان سے مسائل مستنبط کرنے میں فطری طور پر اہل علم کے درمیان واقع ہوتا ہے اور جس کے لیے خود کتاب اللہ کے الفاظ میں لغت اور محاورے اور قواعد زبان کے لحاظ سے گنجائش ہوتی ہے۔ ( اس موضوع پر مزید تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، البقرہ حاشیہ ۲۲۰ آل عمران حواشی ۱۷۔۱۶ النساء۲۱۱ تا ۲۱۲ المائدہ۱۔۱ الانعام ۱۴۱ جلد دوم النحل حواشی ۱۱۷ تا ۱۲۱ جلد سوم الانبیا حواشی ۸۹ تا ۹۱ الحج حواشی ۱۱۴ تا ۱۱۷ مومنون ۴۵ تا ۴۷ القصص۷۲ تا ۷۴ الروم ۵۰۔ ۵۱ |
Surah 42 : Ayat 14
وَمَا تَفَرَّقُوٓاْ إِلَّا مِنۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ ٱلْعِلْمُ بَغْيَۢا بَيْنَهُمْۚ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ إِلَىٰٓ أَجَلٍ مُّسَمًّى لَّقُضِىَ بَيْنَهُمْۚ وَإِنَّ ٱلَّذِينَ أُورِثُواْ ٱلْكِتَـٰبَ مِنۢ بَعْدِهِمْ لَفِى شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيبٍ
لوگوں میں جو تفرقہ رو نما ہوا وہ اِس کے بعد ہوا کہ اُن کے پاس علم آ چکا تھا1، اور اس بنا پر ہوا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنا چاہتے تھے2 اگر تیرا رب پہلے ہی یہ نہ فرما چکا ہوتا کہ ایک وقت مقرر تک فیصلہ ملتوی رکھا جائے گا تو ان کا قضیہ چکا دیا گیا ہوتا3 اور حقیقت یہ ہے کہ اگلوں کے بعد جو لوگ کتاب کے وارث بنائے گئے وہ اُس کی طرف سے بڑے اضطراب انگیز شک میں پڑے ہوئے ہیں4
4 | مطلب یہ ہے کہ ہر نبی اور اس کے قریبی تابعین کا دور گزر جانے کے بعد جب پچھلی نسلوں تک کتاب اللہ پہنچی تو انہوں نے اسے یقین و اعتماد کے ساتھ نہیں لیا بلکہ وہ اس کے متعلق سخت شکوک اور ذہنی الجھنوں میں مبتلا ہو گئیں۔ اس حالت میں ان کے مبتلا ہو جانے کے بہت سے وجوہ تھے جنہیں ہم اس صورت حال کا مطالعہ کر کے بآسانی سمجھ سکتے ہیں جو تورات و انجیل کے معاملہ میں پیش آئی ہے۔ ان دونوں کتابوں کو اگلی نسلوں نے ان کی اصلی حالت پر ان کی اصل عبارت اور زبان میں محفوظ رکھ کر پچھلی نسلوں تک نہیں پہنچایا۔ ان میں خدا کے کلام کے ساتھ تفسیر و تاریخ اور سماعی روایات اور فقہاء کے نکالے ہوۓ جزئیات کی صورت میں انسانی کلام گڈ مڈ کر دیا۔ ان کے ترجموں کو اتنا رواج دیا کہ اصل غائب ہو گئی اور صرف ترجمے باقی رہ گۓ۔ ان کی تاریخی سند بھی اس طرح ضائع کر دی کہ اب کوئی شخص بھی پورے یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ جو کتاب اس کے ہاتھ ہیں ہے وہ وہی ہے جو حضرت موسیٰ یا حضرت عیسیٰ کے ذریعہ سے دنیا والوں کو ملی تھی۔ پھر ان کے اکابر نے وقتاً فوقتاً مذہب، الہٰیات، فلسفہ، قانون ، طبعیات ، نفسیات اور اجتماعیات کی ایسی بحثیں چھیڑیں اور ایسے نظام فکر بنا ڈالے جن کی بھول بھلیوں میں پھنس کر لوگوں کے لیے یہ طے کرنا محال ہو گیا کہ ان پیچیدہ راستوں کے درمیان حق کی سیدھی شاہراہ کونسی ہے۔ اور چونکہ کتاب اللہ اپنی اصل حالت اور قابل اعتماد صورت میں موجود نہ تھی، اس لیے لوگ کسی ایسی سند کی طرف رجوع بھی نہ کر سکتے تھے جو حق کو باطل سے تمیز کرنے میں مدد کرتی |
3 | یعنی دنیا ہی میں عذاب دے کر ان سب لوگوں کا خاتمہ کر دیا جاتا جو گمراہیاں نکالنے اور جان بوجھ کر ان کی پیروی کرنے کے مجرم تھے ، اور صرف راہ راست پر چلنے والے باقی رکھے جاتے ، جس سے یہ بات واضح ہو جاتی کہ خدا کے نزدیک حق پر کون ہیں اور باطل پر کون۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ دو ٹوک فیصلہ قیامت تک کے لیے ملتوی کر رکھا ہے ، کیونکہ دنیا میں یہ فیصلہ کر دینے کے بعد بنی نوع انسان کی آزمائش بے معنی ہو جاتی ہے |
2 | یعنی اس تفرقہ پروازی کا محرک کوئی نیک جذبہ نہیں تھا، بلکہ یہ اپنی نرالی اپج دکھانے کی خواہش، اپنا الگ جھنڈا بلند کرنے کی فکر، آپس کی ضدم ضدا، ایک دوسرے کو زک دینے کی کوشش، اور مال و جاہ کی طلب کا نتیجہ تھی۔ ہوشیار اور حوصلہ مند لوگوں نے دیکھا کہ بندگان خدا اگر سیدھے سیدھے خدا کے دین پر چلتے رہیں تو بس ایک خدا ہو گا جس کے آگے لوگ جھکیں گے۔ ایک رسول ہو گا جس کو لوگ پیشوا اور رہنما مانیں گے ، ایک کتاب ہو گی جس کی طرف لوگ رجوع کریں گے ، اور ایک صاف عقیدہ اور بے لاگ ضابطہ ہو گا جس کی پیروی وہ کرتے رہیں گے۔ اس نظام میں ان کی اپنی ذات کے لیے کوئی مقام امتیاز نہیں ہو سکتا جس کی وجہ سے ان کی مشیخت چلے ، اور لوگ ان کے گرد جمع ہوں ، اور ان کے آگے اور بھی جھکائیں اور جیبیں بھی خالی کریں۔ یہی وہ اصل سبب تھا جو نئے نئے عقائد اور فلسفے ، نئے نئے طرز عبادت اور مذہبی مراسم اور نئے نئے نظام حیات ایجاد کرنے کا محرک بنا اور اسی نے خلق خدا کے ایک بڑے حصے کو دین کی صاف شاہ راہ سے ہٹا کر مختلف راہوں میں پراگندہ کر دیا۔ پھر یہ پراگندگی ان گروہوں کی باہمی بحث و جدال اور مذہبی و معاشی اور سیاسی کشمکش کی بدولت شدید تلخیوں میں تبدیل ہوتی چلی گئی ، یہاں تک کہ نوبت ان خونریزیوں تک پہنچی جن کے چھینٹوں سے تاریخ سرخ ہو رہی ہے |
1 | یعنی تفرقے کا سبب یہ نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء نہیں بھیجے تھے اور کتابیں نازل نہیں کی تھیں اس وجہ سے لوگ راہ راست نہ جاننے کے باعث اپنے اپنے الگ مذاہب اور مدارس فکر اور نظام زندگی خود ایجاد کر بیٹھے ، بلکہ یہ تفرہ ان میں اللی کی طرف سے علم آ جانے کے بعد رونما ہوا۔ اس لیے اللہ اس کے ذمہ دار نہیں ہے بلکہ وہ لوگ خود اس کے ذمہ دار ہیں جنہوں نے دین کے صاف صاف اصول اور شریعت کے واضح احکام سے ہٹ کر نئے نئے مذاہب و مسالک بناۓ |