Ayats Found (15)
Surah 2 : Ayat 219
۞ يَسْــَٔلُونَكَ عَنِ ٱلْخَمْرِ وَٱلْمَيْسِرِۖ قُلْ فِيهِمَآ إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَـٰفِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَآ أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَاۗ وَيَسْــَٔلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ ٱلْعَفْوَۗ كَذَٲلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ لَكُمُ ٱلْأَيَـٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ
پوچھتے ہیں: شراب اور جوئے کا کیا حکم ہے؟ کہو: ان دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے اگرچہ ان میں لوگوں کے لیے کچھ منافع بھی ہیں، مگر ان کا گناہ اُن کے فائدے سے بہت زیادہ ہے1 پوچھتے ہیں: ہم راہ خدا میں کیا خرچ کریں؟ کہو: جو کچھ تمہاری ضرورت سے زیادہ ہو اس طرح اللہ تمہارے لیے صاف صاف احکام بیان کرتا ہے، شاید کہ تم دنیا اور آخرت دونوں کی فکر کرو
1 | (یہ شراب اور جُوے کے متعلق پہلا حکم ہے، جس میں صرف اظہار ِ ناپسندیدگی کر کے چھوڑ دیا گیا ہے، تاکہ ذہن ان کی حرمت قبول کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ بعد میں شراب پی کر نماز پڑھنے کی ممانعت آئی۔ پھر شراب اور جُوے اور اس نوعیت کی تمام چیزوں کو قطعی حرام کر دیا گیا۔(ملاحظہ ہو سُورہٴ نساء، آیت ۴۳ و سُورہٴ مائدہ، آیت ۹۰) |
Surah 2 : Ayat 242
كَذَٲلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ لَكُمْ ءَايَـٰتِهِۦ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ
اِس طرح اللہ اپنے احکام تمہیں صاف صاف بتاتا ہے امید ہے کہ تم سمجھ بوجھ کر کام کرو گے1
1 | یہاں سے ایک دُوسرا سلسلہ ء تقریر شروع ہوتا ہے، جس میں مسلمانوں کو راہِ خدا میں جہاد اور مالی قربانیاں کرنے پر اُبھارا گیا ہے اور انھیں اُن کمزوریوں سے بچنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے ،جن کی وجہ سے آخر کار بنی اسرائیل زوال و انحطاط سے دوچار ہوئے۔ اس مقام کو سمجھنے کے لیے یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ مسلمان اس وقت مکّے سے نکالے جا چکے تھے، سال ڈیڑھ سال سے مدینے میں پناہ گزیں تھے، اور کفّار کے مظالم سے تنگ آکر خود بار بار مطالبہ کر چکے تھے کہ ہمیں لڑنے کی اجازت دی جائے۔ مگر جب اُنھیں لڑائی کا حکم دے دیا گیا ، تو اب ان میں بعض لوگ کَسمَسا رہے تھے، جیسا کہ چھبّیسویں رکوع کے آخر میں ارشاد ہوا ہے۔ اِس لیے یہاں بنی اسرائیل کی تاریخ کے دو اہم واقعات سے اُنھیں عبرت دلائی گئی ہے |
Surah 24 : Ayat 61
لَّيْسَ عَلَى ٱلْأَعْمَىٰ حَرَجٌ وَلَا عَلَى ٱلْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى ٱلْمَرِيضِ حَرَجٌ وَلَا عَلَىٰٓ أَنفُسِكُمْ أَن تَأْكُلُواْ مِنۢ بُيُوتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ ءَابَآئِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أُمَّهَـٰتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ إِخْوَٲنِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخَوَٲتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَعْمَـٰمِكُمْ أَوْ بُيُوتِ عَمَّـٰتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخْوَٲلِكُمْ أَوْ بُيُوتِ خَـٰلَـٰتِكُمْ أَوْ مَا مَلَكْتُم مَّفَاتِحَهُۥٓ أَوْ صَدِيقِكُمْۚ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَأْكُلُواْ جَمِيعًا أَوْ أَشْتَاتًاۚ فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا فَسَلِّمُواْ عَلَىٰٓ أَنفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِندِ ٱللَّهِ مُبَـٰرَكَةً طَيِّبَةًۚ كَذَٲلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ لَكُمُ ٱلْأَيَـٰتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ
کوئی حرج نہیں اگر کوئی اندھا، یا لنگڑا، یا مریض (کسی کے گھر سے کھا لے) اور نہ تمہارے اوپر اِس میں کوئی مضائقہ ہے کہ اپنے گھروں سے کھاؤ یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے، یا اپنی ماں نانی کے گھروں سے، یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے، یا اپنی بہنوں کے گھروں سے، یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے، یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے، یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے، یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے، یا اُن گھروں سے جن کی کنجیاں تمہاری سپردگی میں ہوں، یا اپنے دوستوں کے گھروں سے1 اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ تم لوگ مل کر کھاؤ یا الگ الگ2 البتہ جب گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے لوگوں کو سلام کیا کرو، دعا ئے خیر، اللہ کی طرف سے مقرر فر مائی ہوئی، بڑی بابرکت اور پاکیزہ اِس طرح اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے آیات بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو گے
2 | قدیم زمانے کے اہل عرب میں بعض قبیلوں کی تہذیب یہ تھی کہ ہر ایک الگ الگ کھانا لے کر بیٹھے اور کھاۓ۔ وہ مل کر ایک ہی جگہ کھانا برا سمجھتے تھے ، جیسا کہ ہندوؤں کے ہاں آج بھی برا سمجھا جاتا ہے۔ اس کے برعکس بعض قبیلے تنہا کھانے کو برا جانتے تھے ، حتیٰ کہ فاقہ کر جاتے تھے اگر کوئی ساتھ کھانے والا نہ ہو۔ یہ آیت اسی طرح کی پابندیوں کو ختم کرنے کے لیے ہے |
1 | اس آیت کو سمجھنے کے لیے تین باتوں کا سمجھ لینا ضروری ہے۔ اول یہ کہ آیت کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ بیمار، لنگڑے ، اندھے اور اسی طرح دوسرے معذور لوگوں کے بارے میں ہے ، اور دوسرا عام لوگوں کے بارے میں۔ دوم یہ کہ قرآن کیاخلاقی تعلیمات سے اہل عرب کی ذہنیت میں جو زبردست انقلاب واقع ہوا تھا س کی وجہ سے حرام و حلال اور جائز و ناجائز کی تمیز کے معاملے میں ان کی حس انتہائی نازک ہو گئی تھی۔ ابن عباس کے بقول، اللہ تعالیٰ نے جب ان کو حکم دیا کہ لَا تَأ کُلُوْآ اَمْوَا لَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ (ایک دوسرے کے مال نا جائز طریقوں سے نہ کھاؤ) تو لوگ ایک دوسرے کے ہاں کھانا کھانے میں بھی سخت احتیاط برتنے لگے تھے ، حتیٰ کہ بالکل قانونی شرطوں کے مطابق صاحب خانہ کی دعوت و اجازت جب تک نہ ہو ، وہ سمجھتے تھے کہ کسی عزیز یا دوست کے ہاں کھانا بھی نا جائز ہے۔ سوم یہ کہ اس میں اپنے گھروں سے کھانے کا جو ذکر ہے وہ اجازت دینے کے لیے نہیں بلکہ یہ ذہن نشین کرنے کے لیے ہے کہ اپنے عزیزوں اور دوستوں کے ہاں کھانا بھی ایسا ہی ہے جیسے اپنے ہاں کھانا، اور نہ ظاہر ہے کہ اپنے گھر سے کھانے کے لیے کسی اجازت کی ضرورت نہ تھی۔ ان تین باتوں کو سمجھ لینے کے بعد آیت کا یہ مطلب واضح ہو جاتا ہے کہ جہاں تک معذور آدمی کا تعلق ہے ، وہ اپنی بھوک رفع کرنے کے لیے ہر گھر اور ہر جگہ سے کھا سکتا ہے ، اس کی معذوری بجاۓ خود سارے معاشرے پر اس کا حق قائم کر دیتی ہے۔ اس لیے جہاں سے بھی اس کو کھانے کے لیے ملے وہ اس کے لیے جائز ہے۔ رہے عام آدمی ، تو ان کے لیے ان کے اپنے گھر اور ان لوگوں کے گھر جن کا ذکر کیا گیا ہے ، یکساں ہیں۔ ان میں سے کسی کے ہاں کھانے کے لیے اس طرح کی شرطوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ صاحب خانہ باقاعدہ اجازت دے تو کھائیں ورنہ خیانت ہو گی۔ آدمی اگر ان میں سے کسی کے ہاں جاۓ اور گھر کا مالک موجود نہ ہو اور اس کے بیوی بچے کھانے کو کچھ پیش کریں تو بے تکلف کھا یا جا سکتا ہے۔ جن رشتہ داروں کے نام یہاں لیے گۓ ہیں ان میں اولاد کا ذکر اس لیے نہیں کیا گیا کہ آدمی کی اولاد کا گھر اس کا اپنا ہی گھر ہے۔ دوستوں کے معاملے میں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ ان سے مراد بے تکلف اور جگری دوست ہیں جن کی غیر موجودگی میں اگر یار لوگ ان کا حلوا اُڑا جائیں تو نا گوار گزرنا تو درکنار انہیں اس پر الٹی خوشی ہو |
Surah 2 : Ayat 266
أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَن تَكُونَ لَهُۥ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَـٰرُ لَهُۥ فِيهَا مِن كُلِّ ٱلثَّمَرَٲتِ وَأَصَابَهُ ٱلْكِبَرُ وَلَهُۥ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَآءُ فَأَصَابَهَآ إِعْصَارٌ فِيهِ نَارٌ فَٱحْتَرَقَتْۗ كَذَٲلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ لَكُمُ ٱلْأَيَـٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ
کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے پاس ایک ہرا بھرا باغ ہو، نہروں سے سیراب، کھجوروں اور انگوروں اور ہرقسم کے پھلوں سے لدا ہوا، اور وہ عین اُس وقت ایک تیز بگولے کی زد میں آ کر جھلس جائے، جبکہ وہ خود بوڑھا ہو اور اس کے کم سن بچے ابھی کسی لائق نہ ہوں1؟ اس طرح اللہ اپنی باتیں تمہارے سامنے بیان کرتا ہے، شاید کہ تم غور و فکر کرو
1 | یعنی اگر تم یہ پسند کرتے کہ تمہاری عمر بھر کی کمائی ایک یسے نازک موقع پر تباہ ہوجائے، جبکہ تم اُس سے فائدہ اُٹھانے کے سب سے زیادہ محتاج ہو اور ازسرِ نو کما ئی کرنے کا موقع بھی باقی نہ رہا ہو، تو یہ بات تم کیسے پسند کر رہے ہو کہ دُنیا میں مدّت العمر کام کرنے کے بعد آخرت کی زندگی میں تم اِس طرح قدم رکھو کہ وہاں پہنچ کر یکایک تمہیں معلوم ہو کہ تمہارا پُورا کارنامہء حیات یہاں کوئی قیمت نہیں رکھتا، جو کچھ تم نے دُنیا کے لیے کماتا تھا، وہ دُنیا ہی میں رہ گیا، آخرت کے لیے کچھ کما کر لائے ہی نہیں کہ یہاں اُس کے پھل کھا سکو۔ وہاں تمہیں اس کا کوئی موقع نہ ملے گا کہ ازسرِ نو اب آخرت کے لیے کمائی کرو۔ آخرت کے لیے کام کرنے کا جو کچھ بھی موقع ہے، اِسی دُنیا میں ہے۔ یہاں اگر تم آخرت کی فکر کیے بغیر ساری عمر دُنیا ہی کی دُھن میں لگے رہے اور اپنی تمام قوتیں اور کوششیں دُنیوی فائدے تلاش کرنے ہی میں کھپاتے رہے ، تو آفتابِ زندگی کے غروب ہونے پر تمہاری حالت بعینہ١اُس بڈھے کی طرح حسرت ناک ہوگی، جس کی عمر بھر کی کمائی اور جس کی زندگی کا سہارا ایک باغ تھا اور وہ باغ عین عالمِ پیری میں اُس وقت جل گیا، جبکہ نہ وہ خود نئے سرے سے باغ لگا سکتا ہے اور نہ اُس کی اولاد ہی اس قابل ہے کہ اس کی مدد کر سکے |
Surah 3 : Ayat 118
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَتَّخِذُواْ بِطَانَةً مِّن دُونِكُمْ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالاً وَدُّواْ مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ ٱلْبَغْضَآءُ مِنْ أَفْوَٲهِهِمْ وَمَا تُخْفِى صُدُورُهُمْ أَكْبَرُۚ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ ٱلْأَيَـٰتِۖ إِن كُنتُمْ تَعْقِلُونَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی جماعت کے لوگوں کے سوا دوسروں کو اپنا راز دار نہ بناؤ وہ تمہاری خرابی کے کسی موقع سے فائدہ اٹھانے میں نہیں چوکتے1 تمہیں جس چیز سے نقصان پہنچے وہی ان کو محبوب ہے ان کے دل کا بغض ان کے منہ سے نکلا پڑتا ہے اور جو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں وہ اس سے شدید تر ہے ہم نے تمہیں صاف صاف ہدایات دے دی ہیں، اگر تم عقل رکھتے ہو (تو ان سے تعلق رکھنے میں احتیاط برتو گے)
1 | سُوْرَةُ اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :92 |
Surah 4 : Ayat 82
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ ٱلْقُرْءَانَۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ ٱللَّهِ لَوَجَدُواْ فِيهِ ٱخْتِلَـٰفًا كَثِيرًا
کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اِس میں بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی1
1 | منافق اور ضعیف الایمان لاگوں کی جس روش پر اُوپر کی آیتوں میں تنبیہہ کی گئی ہے اس کی بڑی اور اصلی وجہ یہ تھی کہ انہیں قرآن کے منجانب اللہ ہونے میں شک تھا۔ انہیں یقین نہ آتا تھا کہ رسُول پر واقعی وحی اُتر تی ہے اور یہ جو کچھ ہدایات آرہی ہیں۔ اسی لیے ان کی منافقانہ روش پر ملامت کرنے کے بعد اب فرمایا جا رہا ہے کہ یہ لوگ قرآن پر غور ہی نہیں کرتے ورنہ یہ کلام تو خود شہادت دے رہا ہے کہ یہ خدا کے سوا کسی دُوسرے کا کلام ہو نہیں سکتا۔ کوئی انسان اس بات پر قادر نہیں ہے کہ سالہا سال تک وہ مختلف حالات میں ، مختلف مواقع پر، مختلف مضامین پر تقریریں کرتا رہے اور اوّل سے آخر تک اس کی ساری تقریریں ایسا ہموار، یک رنگ ، متناسب مجمُوعہ بن جائیں جس کا کوئی جزء دُوسرے جزء سے متصادم نہ ہو ، جس میں تبدیلی رائے کا کہیں نشان تک نہ ملے، جس میں متکلّم کے نفس کی مختلف کیفیات اپنے مختلف رنگ نہ دکھائیں ، اور جس پر کبھی نظر ثانی تک کی ضرورت نہ پیش آئے |
Surah 7 : Ayat 176
وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَـٰهُ بِهَا وَلَـٰكِنَّهُۥٓ أَخْلَدَ إِلَى ٱلْأَرْضِ وَٱتَّبَعَ هَوَٮٰهُۚ فَمَثَلُهُۥ كَمَثَلِ ٱلْكَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَثۚ ذَّٲلِكَ مَثَلُ ٱلْقَوْمِ ٱلَّذِينَ كَذَّبُواْ بِـَٔـايَـٰتِنَاۚ فَٱقْصُصِ ٱلْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ
اگر ہم چاہتے تو اسے اُن آیتوں کے ذریعہ سے بلندی عطا کرتے، مگر وہ تو زمین ہی کی طرف جھک کر رہ گیا اور اپنی خواہش نفس ہی کے پیچھے پڑا رہا، لہٰذا اس کی حالت کتے کی سی ہو گئی کہ تم اس پر حملہ کرو تب بھی زبان لٹکائے رہے اور اسے چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکائے رہے1 یہی مثال ہے اُن لوگوں کی جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں تم یہ حکایات اِن کو سناتے رہو، شاید کہ یہ کچھ غور و فکر کریں
1 | ان دو مختصر سے فقروں میں بڑا اہم مضمون ارشاد ہوا ہے جسے ذرا تفصیل کے ساتھ سمجھ لینا چاہیے۔ وہ شخص جس کی مثال یہاں پیش کی گئی ہے، آیات الہٰی کا علم رکھتا تھا، یعنی حقیقت سے واقف تھا۔ اس علم کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ اس رویہ سے بچتا جس کو وہ غلط جانتا تھا اور وہ طرزِ عمل اختیار کرتا جو اسے معلوم تھا کہ صحیح ہے۔ اسی عمل مطابقِ علم کی بدولت اللہ تعالیٰ اس کو انسانیت کے بلند مراتب پر ترقی عطا کرتا۔ لیکن وہ دنیا کے فائدوں اور لذتوں اور آرائشوں کی طرف جھک پڑا، خواہشاتِ نفس کے تقاضوں کا مقابلہ کرنے کی بجائے اُس نے ان کے آگے سپر ڈال دی، معالیِ امور کی طلب میں دنیا کی حرص و طمع سے بالا تر ہونے کے بجائے وہ اس حرص و طمع سے ایسا مغلوب ہوا کہ اپنے سب اُونچے ارادوں اور اپنی عقلی و اخلاقی ترقی کے سارے امکانات کو طلاق دے بیٹھا اور اُن تمام حدود کو توڑ کر نکل بھا گا جن کی نگہداشت کا تقاضا خود اُس کا علم کر رہا تھا۔ پھر جب وہ محض اپنی اخلاقی کمزوری کی بنا پر جانتے بوجھتے حق سے منہ موڑ کر بھاگا تو شیطان جو قریب ہی اس کی گھات میں لگا ہوا تھا۔، اس کے پیچھے لگ گیا اور برابر اُسے ایک پستی سے دوسری پستی کی طرف لے جاتا رہا یہاں تک کہ ظالم نے اسے اُن لوگوں کے زمرے میں پہنچا کر ہی دم لیا جو اس کے دام میں پھنس کر پوری طرح اپنی متاعِ عقل وہوش گم کر چکے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اس شخص کی حالت کو کُتّے سے تشبیہ دیتا ہے جس کی ہر وقت لٹکی ہوئی زبان اور ٹپکتی ہوئی رال ایک نہ بجھنے والی آتشِ حرص اور کبھی نہ سیر ہونے والی نیت کا پتہ دیتی ہے۔ بنائے تشبیہ وہی ہے جس کی وجہ سے ہم اپنی اُردو زبان میں ایسے شخص کو دنیا کی حرص میں اندھا ہو رہا ہو، دنیا کا کتّا کہتے ہیں کُتّے کی جبلت کیا ہے؟ حرص و آز۔ چلتے پھرتے اس کی ناک زمین سونگھنے ہی میں لگی رہتی ہے کہ شاید کہیں سے بو ئے طعام آجائے۔ اسے پتھر مار یے تب بھی اس کی یہ توقع دور نہیں ہوتی کہ شاید یہ چیز جو پھینکی گئی ہے کوئی ہڈی یا روٹی کا کوئی ٹکڑا ہو۔ پیٹ کا بندہ ایک دفعہ تو لپک کر اس کو بھی دانتوں سے پکڑہی لیتا ہے۔ اس سے بے التفاتی کیجیے تب بھی وہ لالچ کا مارا توقعات کی ایک دنیا دل میں لیے، زبان لٹکائے، ہانپتا کانپتا کھڑا ہی رہے گا۔ ساری دنیا کو وہ بس پیٹ ہی کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔ کہیں کوئی بڑی سی لاش پڑی ہو، جو کئی کتوں کے کھانے کو کافی ہو ، تو ایک کتا اس میں سے صرف اپنا حصہ لیتے پر اکتفا نہ کرے گا بلکہ اسے صرف اپنے ہی لیے مخصوص رکھنا چاہیگا اور کسی دوسرے کتے کو اس کےپاس نہ بھٹکنے دے گا۔اس شہوت شکم کے بعد اگر کوئی چیز اس پر غالب ہے تو وہ ہے شہوتِ فَرج۔ اپنے سارے جسم میں صرف ایک شرمگاہ ہی وہ چیز ہے جس سے وہ دل چسپی رکھتا ہے اور اسی کو سونگھنے اورچاٹنے میں مشغول رہتا ہے۔ پس تشبیہ کا مدعا یہ ہے کہ دنیا پر ست آدمی جب علم اور ایمان کی رسّی تُڑا کر بھاگتا ہے اور نفس کی اندھی خواہشات کے ہاتھ میں اپنی باگیں دے دیتا ہے تو پھر کتے کی حالت کو پہنچے بغیر نہیں رہتا ، ہمہ تن پیٹ اور ہمہ تن شرمگاہ |
Surah 10 : Ayat 24
إِنَّمَا مَثَلُ ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَا كَمَآءٍ أَنزَلْنَـٰهُ مِنَ ٱلسَّمَآءِ فَٱخْتَلَطَ بِهِۦ نَبَاتُ ٱلْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ ٱلنَّاسُ وَٱلْأَنْعَـٰمُ حَتَّىٰٓ إِذَآ أَخَذَتِ ٱلْأَرْضُ زُخْرُفَهَا وَٱزَّيَّنَتْ وَظَنَّ أَهْلُهَآ أَنَّهُمْ قَـٰدِرُونَ عَلَيْهَآ أَتَـٰهَآ أَمْرُنَا لَيْلاً أَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنَـٰهَا حَصِيدًا كَأَن لَّمْ تَغْنَ بِٱلْأَمْسِۚ كَذَٲلِكَ نُفَصِّلُ ٱلْأَيَـٰتِ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
دنیا کی یہ زندگی (جس کے نشے میں مست ہو کر تم ہماری نشانیوں سے غفلت برت رہے ہو) اس کی مثال ایسی ہے جیسے آسمان سے ہم نے پانی برسایا تو زمین کی پیداوار، جسے آدمی اور جانور سب کھاتے ہیں، خوب گھنی ہو گئی، پھر عین اُس وقت جبکہ زمین اپنی بہار پر تھی اور کھیتیاں بنی سنوری کھڑی تھیں اور ان کے مالک یہ سمجھ رہے تھے کہ اب ہم ان سے فائدہ اُٹھانے پر قادر ہیں، یکایک رات کو یا دن کو ہمارا حکم آ گیا اور ہم نے اسے ایسا غارت کر کے رکھ دیا کہ گویا کل وہاں کچھ تھا ہی نہیں اس طرح ہم نشانیاں کھول کھول کر پیش کرتے ہیں اُن لوگوں کے لیے جو سوچنے سمجھنے والے ہیں
Surah 27 : Ayat 44
قِيلَ لَهَا ٱدْخُلِى ٱلصَّرْحَۖ فَلَمَّا رَأَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَكَشَفَتْ عَن سَاقَيْهَاۚ قَالَ إِنَّهُۥ صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ مِّن قَوَارِيرَۗ قَالَتْ رَبِّ إِنِّى ظَلَمْتُ نَفْسِى وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَـٰنَ لِلَّهِ رَبِّ ٱلْعَـٰلَمِينَ
اس سے کہا گیا کہ محل میں داخل ہو اس نے جو دیکھا تو سمجھی کہ پانی کا حوض ہے اور اترنے کے لیے اس نے اپنے پائنچے اٹھا لیے سلیمانؑ نے کہا یہ شیشے کا چکنا فرش ہے1 اس پر وہ پکار اٹھی "اے میرے رب، (آج تک) میں اپنے نفس پر بڑا ظلم کرتی رہی، اور اب میں نے سلیمانؑ کے ساتھ اللہ رب العالمین کی اطاعت قبول کر لی"2
2 | حضرت سلیمانؑ اورملکہ سباکا یہ قصّہ بائیبل کے عہد عتیق وجدید اورروایات یہود، سب میں مختلف طریقوں سے آیا ہے مگر قرآن کا بیان ان سب سے مختلف ہے۔ عہدعتیق میں اس قصّے کاخلاصہ یہ ہے: ’’ اورجب سبا کی ملکہ نے خداوند کے نام کی بابت سلیمان کی شہرت سنی تو وہ آئی تاکہ مشکل سوالوں سے اسے آزمائے۔ اور وہ بہت بڑی جلوکے ساتھ یروشلم میں آئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔جب وہ سلیمان کے پاس پہنچی تو اُس نے ان سب باتوں کے بارہ میں جو اس کے دل میں تھیں اس سے گفتگو کی سلیمان نے ان سب کا جواب دیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اورجب سب کی ملکہ نے سلیمان کی ساری حکمت اوراس کو جواس نے بنایا تھا اوراس کے دستر خوان کی نعمتوں اوراس کےملازموں کی نشست اوراس کے خادموں کوحاضر باشی اوران کی پوشاک اوراس کے ساقیوں اوراس سیڑھی کوجس سے وہ خداوند کے گھر کوجاتا تھا دیکھا تو اس کے ہوش اُڑ گئے اوراس نے بادشاہ سے کہا کہ وہ سچی خبر تھی جو میں نے تیرے کاموں اور تیری حکمت کی بابت اپنے ملک میں سنی تھی۔ تو بھی میں نے وہ باتیں باور نہ کیں جب تک خود آکر اپنی آنکھوں سے دیکھ نہ لیا۔ اورمجھے توآدھا بھی نہیں بتایا گیا تھا کیونکہ تیری حکمت اوراقبال مندی اُس شہرت سے جو میں نے سنی بہت زیادہ ہے۔ خوش نصیب ہیں تیرے لوگ اورخوش نصیب ہیں تیرے ملازم جو برابر تیرے حضور کھڑے رہتے ہیں اورتیری حکمت سنتے ہیں۔ خداوند تیرا خدامبارک ہوجو تجھ سے ایسا خوشنود ہواکہ تجھے اسرئیل کے تخت پربٹھایا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس نے بادشاہ کو ایک سو بیس قنطار سونا اور مسالے کا بہت بڑاانباراور بیش وبہا جواہر دیے اورجیسے مسالے سبا کی ملکہ نے سلیمان بادشاہ کو دیے ویسے پھر کبھی ایس بہتات کے ساتھ نہ آئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اورسلیمان بادشاہ نے سبا کی ملکہ کو سب کچھ جس کی وہ مشتاق ہوئی اورجوکچھ اس نے مانگا دیا۔ پھر وہ اپنے ملازمو ں سمیت اپنی مملکت کو لوٹ گئی‘‘(۱۔سلاطین۱۰۔۱۔۱۳۔اسی سے ملتا جلتا مضمون ۳۔تواریخ ۹۔۱۔۱۲میں بھی ہے)۔ عہد جدید میں حضرت عیسیؑ کی ایک تقریر کا صرف یہ فقرہ ملکہ سبا کے متعلق ہُوا ہے: ’’ دکھن کی ملکہ عدالت کی دن اس زمانہ کے لوگوں کے ساتھ اُٹھ کران مجرم ٹھیرائے گی، کیونکہ وہ دنیا کے کنارے سے سلیمانؑ کی دحکمت سننے کو آئی اوردیکھو یہاں وہ ہے جوسلیمان سے بھی بڑا ہے‘‘ (متی ۱۲۔ ۴۳۔لوقا ۱۱۔۳۱)۔ یہودی ربیّوں کی روایات میں حضرت سلیمانؑ اورملکہ سبا کا قصہ اپنی بیشتر تفصیلات میں قرآن سے ملتا جلتا ہے۔ ھُد ھُد کا غائب ہونا، پھر آکر سبا اوراس کی ملکہ کے حالات بیان کرنا، حضرت سلیمان کا اس کے زریعہ سے خط بھیجنا، ھُدھُد کا عین اُس وقت وہ خط ملکہ کے آگے گرانا جبکہ وہ آفتاب کی پرستش کوجارہی تھی ، ملکہ کا اس خط کودیکھ کراپنے وزراء کی کونسل منعقد کرنا، پھر ملکہ کا ایک قیمتی ہد یہ حضرت سلیمانؑ کے پاس بھیجنا، خود یروشلم پہنچ کران سے ملنا، ان کے محل میں پہنچ کریہ خیال کرنا کہ حضرت سلیمانؑ پانی میں بیٹھے ہیں اوراس میں اترانے کےلیے پائینچے چڑھالینا، یہ سب ان روایات میں اسی طرح مزکور ہے جس طرح قرآن میں بیان ہُواہے۔ مگر ہدیہ وصول ہونے پر حضرت سلیمان کا جواب، ملکہ کے تخت کواُٹھوا منگانا، ہر موقع پران کا خد کے آگے جھکنا اورآخر کا ملکہ کا ان کے ہاتھ پرایمان لانا، یہ سب باتیں، بلکہ خدا پرستی اورتوحید کی ساری باتیں ہی ان روایات میں ناپید ہیں۔ سب سے بڑھ کر غضب یہ ہے کہ ان ظالموں نے حضرت سلیمانؑ پرالزام لگایا ہے کہ انہوں نے ملکہ سبا کے ساتھ معازاللہ زناکا ارتکاب کیا اوراسی حرامی نسل سے بابل کا بادشاہ بخت نصر پیدا ہُوا جس نے بیت المقدس کوتباہ کیا(جیوش انسا ئیکلو پیڈیاج۱۱۔ صفحہ ۳۴۴)۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ یہودی علماء کا ایک گروہ حضرت سلیمان کا سخت مخالف رہا ہے۔ ان لوگوں نے ان پر توراۃ کے احکام کی خلاف ورزی، غرور حکومت، غرورعقل ودانش، زن مریدی،عیش پرستی اورشرک وبت پرستی کے گھناؤ نے الزامات لگائے ہیں(جیوش انسا ئیکلو پیڈیاج ۱۱ص ۴۳۹۔۴۴۱)۔ اور یہ اسی پروپیگنڈے کا اثر ہے کہ بائیبل انہیں نبی کے بجائے محض ایک بادشاہ کی حثیت سے پیش کرتی ہے اور بادشاہ بھی ایسا جومعازاللہ احکام الٰہی کے خلاف مشرک عورتوں کے عشق میں گم ہوگیا، جس کا دل خدا سے پھرگیا اور جوخداکےسوا دوسرے معبودوں کی طرف مائل ہوگیا(۱۔سلاطین ۱۱۔۱۔۱۱)۔ ان چیزوں کودیکھ کراندازہ ہوتا ہے کہ قرآن نے بنی اسرئیل پرکتنا بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے اکابر کا دامن خود ان کی پھینکی ہوئی گندگیوں سے صاف کیا، اور یہ بنی اسرائیل کتنے احسان فراموش ہیں کہ اس پر بھی یہ قرآن اوراس کے لانے والے کواپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ |
1 | یہ آخری چیز تھی جس نے ملکہ کی آنکھیں کھول دیں۔ پہلی چیز حضرت سلیمانؑ کا وہ خط تھا جو عام بادشاہوں کے طریقے سے ہٹ کراللہ رحمان ورحیم کے نام سے شروع کیاگیا تھا۔ دوسری چیز اس کے بیش قیمت ہدیوں کوردکرنا تھا جس سے ملکہ کو اندازہ ہُوا کہ یہ بادشاہ کسی اورطرزکا ہے تیسری چیز ملکہ کی سفارت کابیان تھا جس سے اس کوحضرت سلیمانؑ کی متقیانہ زندگی، ان کی حکمت اوران کی دعوت حق کا علم ہُوا۔ اسی چیز نے اسے آمادہ کیا کہ خود چل کران سے ملاقات کرے اوراسی کی طرف اس نے اپنے اس قول میں ارشاد کیاکہ’’ ہم تو پہلے ہی جان گئے تھے اور ہم مسلم ہوچکے تھے‘‘ چوتھی چیز اس عظیم الشان تخت کاآناََ فاناََ مارب سے بیت المقدس پہنچ جانا تھا جس سے ملکہ کو معلوم ہُوا کہ اس شخص کی پشت پر اللہ تعالیٰ کی طاقت ہے۔ اوراب آخری چیز یہ تھی کہ اس نے دیکھا جو شخص یہ سامان عیش و تنعم رکھتا ہے اورایسے شاندار محل میں رہتا ہے وہ کس قدر غرور نفس سے پاک ہے کتنا خدا ترس اور نیک نفس ہے، کس طرح بات بات پر اس کا سر خدا کے آگے شکر گزاری میں جھکا جاتا ہے، اوراس کی زندگی فریفتگان حیات دنیا کی زندگی سے کتنی مختلف ہے یہی چیز تھی جس نے اس وہ کچھ پکاراُٹھنے پر مجبور کردیا جوآگے اس کی زبان سے نقل کیا گیا ہے۔ |
Surah 23 : Ayat 68
أَفَلَمْ يَدَّبَّرُواْ ٱلْقَوْلَ أَمْ جَآءَهُم مَّا لَمْ يَأْتِ ءَابَآءَهُمُ ٱلْأَوَّلِينَ
تو کیا اِن لوگوں نے کبھی اِس کلام پر غور نہیں کیا؟1 یا وہ کوئی ایسی بات لایا ہے جو کبھی ان کے اسلاف کے پاس نہ آئی تھی؟2
2 | یعنی کیا ان کے انکار کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک نرالی بات پیش کر رہا ہے جس سے انسانی کان کبھی آشنا ہی نہ ہوئے تھے ؟ ظاہر ہے کہ یہ وجہ بھی نہیں ہے۔ خدا کی طرف سے انبیاء کا آنا ، کتابیں لے کر آنا ، توحید کی دعوت دینا، آخرت کی باز پرس سے ڈرانا، اور اخلاق کی معروف بھلائیاں پیش کرنا، ان میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جو تاریخ میں آج پہلی مرتبہ رونما ہوئی ہو، اور اس سے پہلے کبھی اس کا ذکر نہ سنا گیا ہو۔ ان کے گرد و پیش عراق، شام اور مصر میں انبیاء پر انبیاء آئے ہیں جنہوں نے یہی باتیں پیش کی ہیں اور یہ لوگ اس سے ناواقف نہیں ہیں۔ خود ان کی اپنی سر زمین میں ابراہیم اور اسماعیل علیہم السلام آئے ، ہود اور صالح اور شعیب علیہم السلام آئے ، ان کے نام آج تک ان کی زبانوں پر ہیں، ان کو یہ خود فرستادہ الٰہی مانتے ہیں ، اور ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ وہ مشرک نہ تھے بلکہ خدائے واحد کی بندگی سکھاتے تھے۔اس لیے در حقیقت ان کے انکار کی یہ وجہ بھی نہیں ہے کہ ایک بالکل ہی انوکھی بات سن رہے ہیں جو کبھی نہ سنی گئی تھی۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الفرقان ، حاشیہ 84۔ السجدہ، حاشیہ 5۔ سباء ، حاشیہ 35 ) |
1 | یعنی کیا ان کے اس رویے کی وجہ یہ ہے کہ اس کلام کو انہوں نے سمجھا ہی نہیں اس لیے وہ اسے نہیں مانتے ؟ ظاہر ہے کہ یہ وجہ نہیں ہے۔ قرآن کوئی چیستان نہیں ہے ، کسی ناقابل فہم زبان میں نہیں ہے۔ کسی ایسے مضمون اور موضوع کلام پر مشتمل نہیں ہے جو آدمی کی سمجھ سے بالا تر ہو۔ وہ اس کی ایک ایک بات اچھی طرح سمجھتے ہیں اور مخالفت اس لیے کرتے ہیں کہ جو کچھ وہ پیش کر رہا ہے اسے نہیں ماننا چاہتے ، نہ اس لیے کہ انہوں نے سمجھنے کی کوشش کی اور سمجھ میں نہ آیا |